Friday 11 June 2010

قاتلِ حسین (رضی اللہ عنہ) کا انجام

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

لا رَیب ۔۔۔ حضرت حسین (رضی اللہ عنہ) کی شہادت ، اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معصیت اور نافرمانی ہے ۔
اس سے وہ تمام لوگ آلودہ ہیں ، جنہوں نے آپ (رضی اللہ عنہ) کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا یا قتل میں مدد کی یا قتل کو پسند کیا !!
سیدنا حضرت حسین (رضی اللہ عنہ) کی شہادت عظیم ترین گناہوں میں سے ایک گناہ تھا ۔
جنہوں نے یہ فعل کیا ، جنہوں نے اس میں مدد کی ، جو اس سے خوش ہوئے ۔۔۔ وہ سب کے سب اُس عتابِ الٰہی کے سزاوار ہیں جو ایسے لوگوں کے لئے شریعت میں وارد ہے !

حضرت حسین رضی اللہ عنہ ، آپ کے بیٹوں ، بھتیجوں اور ساتھیوں کی شہادت کا المیہ ۔۔۔

عراق کے گورنر عبیداللہ بن زیاد کے براہ راست حکم سے وقع پذیر ہوا تھا۔ خانوادۂ نبوت پر روا رکھے گئے اس ظلم عظیم کی جو سزا اللہ تعالیٰ نے اسے دی ، اس نے عبیداللہ بن زیاد کو دنیا کے لیے نشانِ عبرت بنا دیا۔

جامع ترمذی میں مشہور تابعی حضرت عمارہ بن عمیر تیمی رحمة اللہ علیہ سے روایت ہے :

عن عمارة بن عمير، قال لما جيء برأس عبيد الله بن زياد وأصحابه نضدت في المسجد في الرحبة فانتهيت إليهم وهم يقولون قد جاءت قد جاءت ‏.‏ فإذا حية قد جاءت تخلل الرءوس حتى دخلت في منخرى عبيد الله بن زياد فمكثت هنيهة ثم خرجت فذهبت حتى تغيبت ثم قالوا قد جاءت قد جاءت ‏.‏ ففعلت ذلك مرتين أو ثلاثا ‏.‏

جب عبیداللہ بن زیاد اور اس کے سپاہیوں کو قتل کرنے کے بعد ان کے سر کوفہ لائے گئے تو کوفہ کے "رحبہ" نامی محلے کی ایک مسجد میں ایک دوسرے پر رکھ دئے گئے۔
عمارہ کہتے ہیں :
میں وہاں گیا تو لوگ کہہ رہے تھے : وہ آیا ، وہ آیا
اتنے میں وہاں ایک سانپ نمودار ہوا اور ان سروں کے درمیان گھس گیا۔ پھر وہ عبیداللہ بن زیاد کے نتھنے سے اس کے سر میں گھس گیا اور تھوڑی دیر تک سر میں رہنے کے بعد باہر آ گیا اور نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
اس کے بعد پھر لوگوں نے کہا : وہ آیا ، وہ آیا
اور جس طرح وہ سانپ پہلے اس کے نتھنوں کے راستے اس کے سر میں گھسا تھا اسی طرح دو یا تین بار کیا۔


امام ترمذی نے اس حدیث کو " حسن صحیح " قرار دیا ہے۔

0 تبصرہ جات:

تبصرہ کیجئے