Sunday 4 December 2011

افغان جنگ کے دس سال بعد۔۔آئی ایس آئی پر غصہ کیوں؟

افغان جنگ کے دس سال بعد۔۔آئی ایس آئی پر غصہ کیوں؟

افغانستان میں امریکی و اتحادی افواج حملے کے دس سال بعد ایک ایسی بند گلی میں آکھڑی ہیں جہاں انہیں واپسی کی راہ دکھائی نہیں دے رہی ۔اس جنگ میں امریکہ ،افغانستان اور بھارت نے مختلف جہتوں میں تعاون کی پالیسی جاری رکھی لیکن دس سال بعد تینوں حکومتیں اپنی ناکامی کا ذمہ دار پاکستان اور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کو قرار دیتی ہیں جبکہ دوسری طرف افغانستان کے عوام با لخصوص نوجوان طبقے کی طرف سے امریکی افواج کے انخلاءکے لیے احتجاجی مظاہرے کیے گئے جو ان ممالک کو پیغام دے رہے تھے کہ جہاں طالبان سے جنگی میدان میں وہ شکست کھا رہے ہیں وہاں عوام بھی ان سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ بھارت افغانستان میں مختلف مفادات کے پیش نظر اپنا تعاون بڑھا رہے ہیں اور امریکہ بھارت کو جنوبی ایشیاءمیں ایک ”بدمعاش“ریاست کے روپ میں دیکھنا چا ہتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس نے ہمیشہ افغان بھارت تعاون کی حوصلہ افزائی کی ہے،لیکن دوسری طرف یہ بات بھی عیاں ہے کہ جنوبی ایشیاءمیں بھارت کی غنڈہ گردی کی راہ میں پاکستان رکاوٹ ہے اور اپنے ملک کے سلامتی کے حوالے سے اس کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کا کرداران سے پوشیدہ نہیں ہے ،افغانستان میں بھارت امریکی قیام کی وجہ سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکا ہے اور اب امریکی انخلاءکے بعداسے اپنی سرمایہ کاری ڈوبتی نظر آرہی ہے جسے بچانے کے لیے وہ ہاتھ پاﺅں مار رہا ہے ۔

نائن الیون کی دسویں برسی کو گزرے ابھی چند دن ہی ہوئے ہیں کہ افغانستان کے صدرحامد کرزئی نے بھارت یاترا کے بعداس کے ساتھ اسٹریٹجک معاہدے پر دستخط کر دئیے ہیں اس معاہدے کی دلچسپ بات بھارت کی طرف سے افغان سیکورٹی فورسز کو تربیت اور جنگی آلات مہیا کرنا ہے۔افغانستان کے ساتھ اس معاہدے پر بھارت کے اندرونی حلقے بھی شدید اعتراض کر رہے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں حامد کرزئی کی حکومت اپنا اثر و رسوخ کھو رہی ہے اور طالبان کی واپسی کے چانس بہت ذیادہ ہیں۔دلی کے انسٹی ٹیوٹ فار ڈیفنس سٹڈیز اینڈ انیلیسس کے تجزیہ کار اروند گپتا کہتے ہیں کہ ”بھارت کے پاس زیادہ آپشن نہیں ہیں “
بھارت کے بعض مبصرین یہ محسوس کرتے ہیں کہ بھارت کو افغانستان کے دیگر تمام فریقوں سے بات شروع کرنے کے ساتھ ساتھ طالبان سے بھی مذاکرات کرنے چاہیں۔ قومی سلامتی کے سابق نائب مشیر ستیش چندر کہتے ہیں کہ’ ’ہمیں افغانستان میں مغربی مداخلت سے دوری پیدا کرنی چاہیے اور ساتھ ہی طالبان پر غیر ضروری نکتہ چینیوں سے احتراز کرنا چاہیے اس سے طالبان سے بات چیت شروع کرنے کے لیے راہ ہمورار ہو سکے گی“۔
بھارت یاترا سے پہلے افغان صدر حامد کرزئی نے اعتراف کرچکے ہیں کہ ان کی حکومت اور نیٹو افواج ملک میں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے دس برس بعد بھی افغانوں کو سیکیورٹی فراہم نہیں کرسکے ہیں۔حامد کرزئی اپنی ہی نہیں بلکہ امریکہ کی قیادت میں لڑنے والی نیٹو فورسز کی ناکامیوں کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیتے ہیں،برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘اگر طالبان اور افغانستان کے لیے پاکستان کی مجموعی پالیسی کو دیکھا جائے تو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ طالبان پاکستانی مدد کے بغیر انگلی بھی ہلاسکیں۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستانی صدر اور وزیراعظم افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں لیکن ایسا پاکستانی حکومت کے افغان انتظامیہ کے ساتھ طالبان کے محفوظ پناہ گاہوں کے معاملے پر تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے۔دوسری طرف وہ اس بات کا عندیہ بھی دے چکے ہیں کہ وہ آئندہ مذاکرات طالبان سے نہیں بلکہ پاکستان سے کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ شدت پسندوں (طالبان)کے خلاف جنگ میں دوہرا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔صدر حامد کرزئی نے کہا ہے کہ ان کی حکومت طالبان سے براہ راست مذاکرات کی پالیسی کو ترک کر کے مستقبل میں ان ملکوں(ان کا اشارہ پاکستان کی طرف تھا) سے مذاکرات کرے گی جو طالبان کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔انھوں نے مزید کہا ’حقیقت میں ہمیں حکومتوں کا سامنا ہے اور ان قوتوں کا نہیں جن کا دارومدار ان حکومتوں پر ہے۔انھوں کہا ’اس لیے ہمیں مرکزی قوتوں سے بات کرنی چاہیے جن کے پاس اختیار ہے۔صدر حامد کرزئی نے کہا ہے کہ ان کی حکومت طالبان سے براہ راست مذاکرات کی پالیسی کو ترک کر کے مستقبل میں ان ملکوں سے مذاکرات کرے گی جو طالبان کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔
افغانستان ،بھارت کے ساتھ ساتھ امریکہ بھی پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی پر ہرزہ سرائی کر نے میں کسی سے پیچھے نہیں اور افغانستان میں ہر لگنے والے زخم کا ذمہ دار اسے گردانتا ہے۔
امریکہ فوج کے اعلیٰ ترین کمانڈر ایڈمرل مائیک مولن نے الزام لگایا ہے کہ کابل میں امریکی سفارتخانے پر حملوں میں ملوث شدت پسند گروہ حقانی نیٹ ورک پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کا آلہ کار ہے اور مزید کہا کہ وہ پہلے بھی لشکر طیبہ کے افغانستا ن میں کاروئیوں کہ جس نے انکے ناک میں دم کر رکھا ہے ،نشاندہی کر چکے ہیں۔
امریکی کمانڈر نے سینیٹ کے ارکان کو ایک بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ کابل میں نیٹو اور امریکی فوج کے اڈوں پر حملہ حقانی گروپ نے آئی ایس کی مشاورت اور معاونت سے تیار کیا تھا۔
یڈرمرل مولن نے پاکستان پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ پاکستان تشدد برآمد کر رہا ہے جس سے دہشت گردی کے خلاف پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعاون خطرے میں پڑ گیا ہے بلکہ اس سے دہشت گردی کے خلاف دس سالہ جنگ کا نتیجہ بھی ناکامی میں نکل سکتا ہے۔امریکی کانگریس کے سامنے اپنی ریٹائرمنٹ سے ایک ہفتے قبل اپنے آخر بیان میں انہوں نے کہا افغانستان میں کامیابی حقانی نیٹ ورک اور القاعدہ سے منسلک دیگر گروپوں کو پاکستان کے تعاون خطرے میں پڑ گئی ہے۔مولن نے کہا کہ پاکستان کی حکومت نے تشدد کو ایک پالیسی کے تحت اختیار کیا ہے، پاکستان تشدد برآمد کر کے اپنی داخلی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہا ہے اور خطے میں اپنی ساکھ کو بھی مجروح کر رہا ہے۔
امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا بھی کانگرس کے سامنے اس سماعت میں موجود تھے۔لیون پنیٹا نے کہا کہ پاکستان کے فوجی حکام کو واشگاف الفاظ میں بتایا دیا گیا ہے کہ سرحد پار ایسے حملے برداشت نہیں کیے جائیں گے۔
پنیٹا نے کہا کہ سی آئی اے کے ڈائریکٹر ڈیویڈ پیٹریئس نے پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹینٹ جنرل شجاع پاشا سے اپنی حالیہ ملاقات میں یہ پیغام پہنچا دیا ہے۔
پنیٹا نے کہا پاکستان کو حقانی نیٹ ورک کی محفوظ پناہ گاہوں کے خلاف اقدامات کرنے ہوں گے۔ انہوں نے کہا ’ہم اس بات کی اجازت نہیں
دے سکتے کہ اس طرح کے شدت پسندوں کو سرحد پار کر کے ہماری فوجوں پر حملہ کرکے واپس پاکستان اپنی محفوظ پناہ گاہوں میں چلے جائیں۔‘
امریکہ بھارت اور افغانستان کے آئی ایس آئی اور پاکستان کے خلاف اس ناپاک مہم سے یہ بات تو سامنے آرہی ہے کہ جنوبی ایشیا ءمیں بھارت کی حکمرانی کی راہ میں رکاوٹ سے انہیں کس قدر پریشانی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکہ اپنی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈال کرمحفوظ راستہ تلاش کر سکتا ہے ؟؟؟جہاں تک آئی ایس آئی کا تعلق ہے تو حالات ثابت کر ہے ہیں کہ اس خطے میں سی آئی اے جس طرح بھارتی ایجنسی ”را“کو اس خطے کے سیاہ سفید بنانا چاہتی ہے اسے اس میں بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق 
ایسی حرکتیں کر رہا ہے۔

قرآن و حدیث میں جوڑا جہیز سے کہاں منع کیا گیا ہے ؟

قرآن و حدیث میں جوڑا جہیز سے کہاں منع کیا گیا ہے ؟

لوگ اکثر یہ سوال کرتے ہیں کہ قرآن یا حدیث میں جوڑا جہیز وغیرہ کے بارے میں صراحتاً کہاں بیان ہواہے؟
جواب یہ ہیکہ نہ صرف قرآن و حدیث بلکہ سیرت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)، سیرت صحابہ اور سیرتِ اسلاف کا اگر مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتاہیکہ نہ صرف جہیز بلکہ وہ تمام اخراجات جن کا بوجھ لڑکی کے والدین کو اُٹھانا پڑتا ہے وہ ان کے نزدیک حرام تھیں۔ اس سے پہلے کہ ہم ان تفصیلات میں جائیں پہلے اس بات کی تحقیق کرلیں کہ لوگوں کے ذہن میں اس کے حرام یا ناجائز ہونے کے بارے میں شک کی نفسیات کیا ہے ؟ گویا خون 
اور سور کے گوشت کی طرح اگر ’ جوڑا جہیز ‘ کے بارے میں بھی واضح الفاظ میں قرآن میں حکم ہوتا تو وہ فوری مان لیتے اور ہرگز بحث نہ کرتے ۔

خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق


جوڑا جہیز کو حلال کرنے والوں کی نفسیات سمجھنے کے لیے ہمیں یہود و نصریٰ اور مشرکین کے اس مزاج کا مطالعہ کرنا ہوگا جس کا قرآن نے تذکرہ کیا 
ہے ۔

یہود و مشرکین کی تاویلیں

یہودیوں کے جرائم Crimes کا قرآن میں جگہ جگہ تذکرہ کیا گیا ہے ۔ ان جرائم میں سے ایک جرم یہ بھی تھا کہ جب کوئی حکم ان کی مرضی کے خلاف ہوتا تو اس سے فرار حاصل کرنے وہ اُلٹے سوالات کرنا شروع کردیتے تاکہ کوئی تاویل نکل آئے ۔جیسے:
» اللہ تعالیٰ نظر کیوں نہیں آتا ؟

وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَى لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً // البقرة:55

 اللہ کو چاہئے تھا کہ بادلوں کی شکل میں نمودار ہوتا تاکہ سب اُس پر بلا چوں و چرا ایمان لالیتے ۔

هَلْ يَنظُرُونَ إِلاَّ أَن يَأْتِيَهُمُ اللّهُ فِي ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ // البقرة:210

 اللہ کو چاہئے تھا کہ قوم کے جو اعلیٰ سردار یا اہم افراد ہیں ان میں سے کسی کو نبی یا بادشاہ بناکر بھیجتا یہ معمولی آدمیوں کو نبی ہم کیسے تسلیم کریں ۔ہر قوم نے یہ اعتراض کیا۔ مثال کے طور پر ایک واقعہ پر غور کیجیئے

أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلإِ مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ ........... // البقرة:246-247

 اگر ہم غلط ہوتے ، شرک یا حرام کے مرتکب ہوتے تو اللہ ہم کو مٹانہ دیتا ؟ اللہ اور اسکے رسول کا صدقہ ہے کہ ہمارا عمل صحیح ہے ورنہ ہم سوسائٹی میں اتنے باعزت نہ ہوتے اور نہ ہمارے کاروبار میں اتنی برکت ہوتی۔ وغیرہ وغیرہ۔

سَيَقُولُ الَّذِينَ أَشْرَكُواْ لَوْ شَاء اللّهُ مَا أَشْرَكْنَا وَلاَ آبَاؤُنَا وَلاَ حَرَّمْنَا مِن شَيْءٍ // الأنعام:148

 کیا ہمارے باپ دادا بے علم تھے جو تم ہم کو علم سکھانے آئے ہو۔

قَالُواْ أَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءنَا وَتَكُونَ لَكُمَا الْكِبْرِيَاء فِي الأَرْضِ وَمَا نَحْنُ لَكُمَا بِمُؤْمِنِين // يونس:78

 جب ان سے کہا جاتا کہ ایمان لاو اُس پر جو اللہ نے نازل کی ہے تو کہتے ہم تو اُسی طریقے کی اتباع کرینگے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے

وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللّهُ قَالُواْ بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لاَ يَعْقِلُونَ شَيْئاً وَلاَ يَهْتَدُون // البقرة:170

 اور جب کھلے الفاظ میں بصراحت کوئی حکم آجاتا توپھرحیلے تراشنے لگتے اور ایسے ایسے سوالات کرتے جنکا مقصد یہ ہوتا کہ بچنے کا کوئی جواز نکل آئے ۔ مثال کے طور پر جب اللہ تعالیٰ نے انہیں اسی زرد رنگ کی گائے کو ذبج کرنے کا حکم دیا جس کی انہوں نے پرستش شروع کردی تھی تو موسیٰ (علیہ السلام) سے سوالات کرنے لگے کہااللہ سے پوچھو کہ اسکا رنگ کیسا ہو، حالت کیسی ہو ۔ اسکی مزید تفصیلات کیا ہیں۔

وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُواْ بَقَرَةً قَالُواْ أَتَتَّخِذُنَا هُزُواً قَالَ أَعُوذُ بِاللّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِين ......... (البقرة:67-70)

 اسی طرح جب انہیں سنیچر کے روز مچھلیاں پکڑنے سے منع کردیاگیا تو انہوں نے نئی نئی ترکیبیں ڈھونڈیں تاکہ اللہ کا حکم بھی پور ا ہو جائے اور مچھلیاں بھی زیادہ سے زیادہ ہاتھ آئیں۔

واَسْأَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي ......... // الأعراف:163
یہ وہی چال تھی جو آج جوڑا جہیز لینے والے اور دینے والے دونوں انتہائی معصوم بن کر چلتے ہیں۔

 اور جب موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے کہا کہ اللہ تم کو حکم دیتا ہیکہ وادی کے دوسری طرف جو قوم آباد ہے اس سے آگے بڑھ کر جہاد کرو تو کہنے لگے کہ وہ تو بہت طاقتور قوم ہے ہماری اور ان کی طاقت کا مقابلہ نہیں ہو سکتا۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اصرار کیا تو کہنے لگے تم اور تمہارا خدا جاو اور مِل کر لڑو ہم تو یہیں رہیں گے۔

وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ اذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنبِيَاء وَجَعَلَكُم مُّلُوكًا ...........
(المائدة:20-24)


 جب مدینے میں دین کی دعوت پھیلنی شروع ہوئی تو یہودی جنکو اہلِ علم کے طور پر عزت کی نظروں سے دیکھا جاتا تھا انکی وقعت کم ہونے لگی تو انہوں نے اسیطرح کے سوالات معصوم مسلمانوں کو سکھا کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس بھیجنے لگے جیسے روح کیاہے، تقدیر کیاہے، اصحابِ کہف اور ذولقرنین کون تھے وغیرہ۔ ان سوالات کا مقصد یہ ہوتا کہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے جواب نہ دیا تو لوگوں کو یہ تاثر دیا جاسکے کہ محمّد (صلی اللہ علیہ وسلم) ایک اچھے نیک دل اور عبادت گزار انسان ہیں لیکن مذہب ، تاریخ، فلسفہ وغیرہ کے علم سے ناواقف ہیں۔ ورنہ روح، تقدیر وغیرہ جیسے سوالات کے جوابات صریحتاً بیان کردیتے۔

آج بھی لوگوں نے یہودیوں کی طرح اس تاویل سے اپنے آپ کو مطمئن کر رکھا ہے کہ اگر جوڑا جہیز اور دوسری رسمیں واقعی غلط ہوتیں تو اللہ تعالیٰ قرآن میں یا اللہ کے رسول حدیثوں میں صاف الفاظ میں نام لے کر بیان کردیتے ۔ایسے لوگوں سے اگر یہ سوال کیاجائے کہ مہر کے بارے میں تو صراحتاًقرآن اور حدیث میں بیان کردیاگیاہے پھر کتنے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے نقد مہر ادا کردیاہے تو پتہ چلے گا کہ مشکل سے دس فیصد ایسے لوگ ہیں جنہوں نے نقد مہر ادا کیاہے۔ کئی تو ایسے ہیں جن پر اس حدیث کا اطلاق ہوتا ہے کہ فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کہ جس نے مہر ادا کرنے کا (ٹھوس) ارادہ نہ کیا وہ زانی کی موت مرا۔ ۔

آج کے خوشحال لوگوں کی تاویلیں

غریب اور متوسط طبقے کے افراد بات تو پھر بھی مان لیتے ہیں لیکن صاحبِ ثروت افراد کا رویہ وہی منافقانہ ہوتا ہے جس کا ذکر قرآن میں یوں آ تا ہے کہ

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لاَ تُفْسِدُواْ فِي الأَرْضِ قَالُواْ إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُون
أَلا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَـكِن لاَّ يَشْعُرُون
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُواْ كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُواْ أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاء أَلا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاء وَلَـكِن لاَّ يَعْلَمُون
( البقرة:11-13 )
ترجمہ : جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد مت پھیلاو تو کہتے ہیں ہم تو اصلاح کرنے والے لوگ ہیں اور جب ان سے کہا جاتا ہیکہ ایمان لاؤ جیسے دوسرے لوگوں نے ایمان لایا ہے تو کہتے ہیں کیا ہم بھی بے وقوفوں کیطرح ایمان لے آئیں؟


بالکل اسی طرح یہ حضرات کی سوچ یہ ہوتی ہیکہ زکوٰة خیرات بھرادا کرتے رہو۔ نہ علماء کو ناراض کرو نہ جماعتوں کو، ان کی بھی مالی امداد کرتے رہو لیکن جہاں بات بڑی سوسائٹی میں اپنے نام کو باقی رکھنے کی ہووہاں اللہ یا رسول کی باتیں مناسب نہیں ہوتیں اس لئے وہی عمل کرو جو بڑی سوسائٹی کو پسند ہے۔نہ یہ جہیز کے محتاج ہوتے ہیں نہ دعوت کے۔ پھر بھی جب ان سے اللہ اور اس کے رسول کے طریقے پر چلنے کیلئے کہا جائے تو ان کا رویہ وہی منافقانہ ہوتا ہے جیسے کہہ رہے ہوں میاں کیا ہم معمولی درجے کو لوگ ہیں جو اپنی بیٹی یا بیٹے کی شادی بغیر کسی دھوم دھام کے کردیں ہم تو صاحبِ عزت لوگ ہیں۔ہم کو سوسائٹی کے تقاضوں کا پتہ ہے۔ آپ چونکہ سوسائٹی سے واقف نہیں اسلئے ایسی بیوقوفی کی باتیں کرتے ہیں۔بخدا یہ ایسے لوگ ہوتے ہیں کہ جن پاس خود رسول بھی چل کر آئیں تو یہ ان کی پوری پوری خاطر و مدارت کرینگے اور کچھ اعانت دے کر رخصت کرنے کی کوشش کرینگے لیکن اپنے شادی بیاہ میں ان کے طریقے پر ہرگز نہیں چلیں گے کوئی نہ کوئی جواز پیدا کر ہی لیں گے۔
دلچسپ بات یہ ہیکہ ایسے لوگوں کو ایسے مولوی اور ملّا مل بھی جاتے ہیں جو ان کے ہر عمل کو جائز کرنے والی دلیلیں فراہم بھی کردیتے ہیں۔


وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللّهَ أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالإِثْمِ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ وَلَبِئْسَ الْمِهَاد // البقرة:206
ترجمہ : اور جب اس سے کہا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈرو توغرور اسکو گناہ میں پھنسا دیتا ہے سو ایسے کو جہنم سزاوار ہے جو بہت ہی برا ٹھکانہ ہے۔
یہ آیت ایسے ہی لوگوں کے رویّہ کی نشاندھی کرتی ہے۔

ایسا نہیں ہیکہ یہ نماز نہیں پڑھتے یا روزوں کا انکار کرتے ہیں۔ ہر وہ عبادت جسمیں انہیں مزا آئے جو ان کے موڈ اور سہولت کے مطابق ہو وہ برابر کرتے ہیں۔ ہر سال نفل عمرے ادا کرتے ہیں۔ لیکن جہاں شادی بیاہ کو موقعوں پر ہندو رسموں اور اسراف جیسے حرام سے بچنے کا سوال آئے یہ تاویلیں پیش کرتے ہیں اور اپنے ضمیر کی تسلی کے لیے کچھ خیر خرات میں اضافہ کرجاتے ہیں۔


قیامت آئے گی تو دیکھا جائے گا

جس کے پاس پیسہ ہوتا ہے اسکی سوچ بدل جاتی ہے۔ پیسہ جتنا زیادہ ہوتاجاتاہے آخرت کے بارے میں وہ اتنا ہی جواز تلاش کرنے والا ہوتا جاتاہے۔ جسطرح شہر کے بڑے لوگوں کی سوسائٹی میں اسکی آو بھگت ہوتی جاتی ہے اسکا رویّہ ایسے ہوجاتا ہے جیسے پہلے تو قیامت آئیگی نہیں۔ اور اگر ہوگی بھی تو اللہ اسکو اس سے بھی بڑی عزت سے نوازے گا۔ اس سوچ کا سورہ کہف میں یوں نقشہ کھینچا گیا ہے۔

وَاضْرِبْ لَهُم مَّثَلاً رَّجُلَيْنِ جَعَلْنَا لأَحَدِهِمَا جَنَّتَيْنِ مِنْ أَعْنَابٍ وَحَفَفْنَاهُمَا بِنَخْلٍ وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمَا زَرْعًا
كِلْتَا الْجَنَّتَيْنِ آتَتْ أُكُلَهَا وَلَمْ تَظْلِمْ مِنْهُ شَيْئًا وَفَجَّرْنَا خِلاَلَهُمَا نَهَرًا
وَكَانَ لَهُ ثَمَرٌ فَقَالَ لِصَاحِبِهِ وَهُوَ يُحَاوِرُهُ أَنَا أَكْثَرُ مِنكَ مَالاً وَأَعَزُّ نَفَرًا
وَدَخَلَ جَنَّتَهُ وَهُوَ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ قَالَ مَا أَظُنُّ أَن تَبِيدَ هَذِهِ أَبَدًا
وَمَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَلَئِن رُّدِدتُّ إِلَى رَبِّي لأَجِدَنَّ خَيْرًا مِّنْهَا مُنقَلَبًا
( الكهف:32-36 )
ترجمہ : اور ان سے دو شخصوں کا حال بیان کروجنمیں سے ایک کے لیے ہم انگور کے باغ کئے تھے۔ اور ان کے اطراف کھجور کے درخت لگائے تھے۔ اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی۔ دونوں باغ (کثرت سے) پھل لاتے۔ اور اس میں کسی طرح کی کمی نہ ہوتی۔ اور دونوں میں ہم نے ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی۔ اور اسکو فائدہ ملتا رہتا۔ ایک دن جب وہ اپنے دوست سے باتیں کررہاتھا کہنے لگا کہ میں تم سے مال و دولت میں زیادہ ہوں اور جتھے (سوسائٹی) کے لحاظ سے بھی زیادہ عزت والا ہوں۔ اور اپنے آپ پر (ان شیخیوں کے ذریعے) ظلم کرتا ہوا اپنے باغ میں داخل ہوا۔ کہنے لگا کہ میں نہیں سمجھتا کہ یہ باغ کبھی تباہ ہونگے۔ اور نہ یہ سمجھتا ہوں کہ قیامت برپا ہوگی۔ اور اگر میں رب کی طرف لوٹایا بھی جاوں تو (وہاں) ضرور اس سے اچھی جگہ پاوں گا۔


یہ تھا فرار کا پہلا فلسفہ کہ لوگ ثبوت میں قرآن اور حدیث میں جوڑا جہیز کے راست الفاظ سننا چاہتے ہیں۔۔

جہیز- محض ایک سماجی برائی یا حلال و حرام کا مسئلہ؟

جہیز- محض ایک سماجی برائی یا حلال و حرام کا مسئلہ؟

اگر دوسری قومیں جہیز کے لین دین کو ایک سماجی برائی Social evil کہتی ہیں توٹھیک ہے لیکن ایک مسلمان کیلئے یہ محض ایک سماجی برائی نہیں بلکہ اس سے آگے بہت کچھ ہے۔یہ ایک حلال و حرام کا سنگین مسئلہ ہے ۔ اسے سگریٹ یا سینما بینی کے برابر کی ایک برائی قرار دینا ایک نادانی ہے۔ یہ نادانی نادانستہ نہیں بلکہ دانستہ ہے ۔ چونکہ پورا نظام عورتوں کے ہاتھوں چل رہاہے جس پر مرد کنٹرول نہیں رکھتا جس کی وجہ سے یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ حلال و حرام کا مسئلہ ہے مرد مجبوریوں، مصلحتوں اور مفادات کا شکار رہتے ہیں۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ گھر کے باہر مسجدوں میں غیر اہم فروعی مسائل پر بھی ایک دوسرے کی تکفیر ہی نہیں بلکہ قتال تک کے لئے آمادہ ہوجانے والی قوم کے افراد گھر کے اندر حلال و حرام کے اتنے بڑے مسئلے پر جانتے بوجھتے خاموشی برتتے ہیں؟
اور جہاں عورتیں قصوروار نہیں وہاں مردوں کی انانیت، حرص، سوسائٹی میں جو دوسرے کر رہے ہیں ویسا یا اس سے زیادہ کرنے کی خواہش، تفاخر اور سب سے بڑھ کر یہ کہ شریعت کے احکام کو جانتے بوجھتے اپنی طرف سے کوئی نہ کوئی جواز پیدا کرکے مطمئن ہوجانے کی خود فریبی یہ تمام اسباب اس بڑھتی ہوئی لعنت کے ذمہ دار ہیں۔

کوئی تو ملے جو کہے ہاں میں خود دار نہیں


آج تک بے شمار لوگوں سے اس موضوع پر گفتگو ہوئی ۔ کوئی ایسا نہ ملا جس نے یہ کہا ہو کہ
”ہاں ہم نے جہیز کا مطالبہ یا فرمائش کی تھی“ ۔
جتنے ملے سب شرفاء ملے ۔ ہر ایک نے یہی کہا بلکہ فرمایا کہ
”الحمدلله ہم نے ایک پیسہ بھی نہیں لیا ، ہمارے ہاں اس چیز کو سخت معیوب سمجھاجاتا ہے “ ۔
جب دور دور تک کوئی ایسا شخص نہیں جس نے جہیز مانگا ہو تو پھر کیا وجہ ہے کہ معاشرہ کا ہر باپ اور ہر بھائی اپنی بیٹی یا بہن کی شادی کے لیے پریشان ہے ؟

قاضی صاحب اور پنڈت جی میں فرق کیا ہے؟


اب آپ ذرا تحقیق کریں کہ جب سوسائٹی میں ہر شخص جہیز اور بے جا رسومات کا مخالف ہے تو ایک مسلمان کی شادی اور ایک غیر مسلم کی شادی میں فرق کیوں کر ختم ہوگیا ہے ؟ سوائے اس کے کہ اُن کے ہاں پنڈت آکر کسی کی سمجھ میں نہ آنے والے کچھ اشلوک پڑھتا ہے اور یہاں قاضی صاحب کسی کی سمجھ میں نہ آنے والی کچھ عربی آیتیں پڑھ جاتے ہیں۔ وہاں آگ کے پھیرے ہوتے ہیں اور یہاں کچھ دیر کے لیے سروں پر ٹوپیاں یا دستیاں ڈال کر کچھ افراد دلہا دلہن سے ایجاب و قبول کی رسم پوری کروا کر بغیر وضو کے دعاء و فاتحہ پڑھ کر مصری بادام کے لوٹنے لٹانے کی چھینا جھپٹی پر ”النکاح من سنتی“ والے ڈرامے کا The End کرتے ہیں ۔
پنڈت جی وہاں اپنی دکھشنا لے کر ہاتھ جوڑتے نمسکار کرتے ہوئے رخصت ہوجاتے ہیں اور اِدھر قاضی صاحب اپنی فیس اور Tip وصول کر کے خوشی خوشی آداب بجا لاتے ہوئے نکل جاتے ہیں ۔ باقی سب کچھ تو وہی ہوتا ہے یعنے جہیز ، رسمیں ، لڑکی کے سرپرست کے خرچے پر اپنے سارے مہمان باراتیوں کی ضیافت وغیرہ ۔ نوٹوں کی گڈیاں تو دونوں طرف شادی سے پہلے ہی وصول کرلی جاتی ہیں ۔ جو لوگ ذرا غیرت مند اور خود دار ہوتے ہیں وہ بجائے نقد وصول کرنے کے کچھ اور معاملہ deal طئے کرلیتے ہیں ۔
یہ کافری تو نہیں کافری سے کم بھی نہیں
کہ مردِ حق ہو گرفتارِ حاضر و موجود
آئیے ! پھر اسی سوال کی طرف کہ جب نوشہ اور اُن کا سارا گھرانہ ان تمام ہندوانہ رسموں کو نا پسند کرتا ہے تو پھر یہ سب کیونکر ہوا ؟ پوچھئے تو انتہائی شرافت اور فخر سے فرماتے ہیں :
”ہم نے تو صاف صاف کہہ دیا تھا کہ ہمیں سوائے لڑکی کے اور کچھ نہیں چاہئے ۔ جو بھی دینا ہے وہ اپنی بیٹی کو دے دیجئے ۔۔۔وہ بھی خوشی سے“۔
دراصل یہی وہ اصل کھیل ہے جسے لوگ شرافت و خوداری کا لبادہ اوڑھ کر تہذیب ، رواج یا سسٹم کے نام پر کھیلتے ہیں ۔
میاں بیوی کا رشتہ صرف دو افراد کا میل نہیں بلکہ ایک خاندان اور پورے معاشرے کی بنیاد ہے ۔ اگر بنیاد میں غلطی رہ جائے ، چاہے دانستہ ہو یا نا دانستہ، نہ کوئی دیوار سلامت رہتی ہے نہ چھت ، نہ کھڑکی نہ دروازہ ۔ تو پھر ایسی عمارت کے انجام کا آپ خود اندازہ کرسکتے ہیں۔ اسی طرح اگر میاں بیوی کا رشتہ غلط بنیادوں پر کھڑا ہو تو خاندان ہی نہیں بلکہ آنے والی نسلوں تک اس کے غلط اثرات پڑتے ہیں ۔ جس بنیاد کو ڈالنے کے لیے لڑکی کے سرپرست کو خوشی سے یا مجبوری و مصلحت کی وجہ سے لڑکے پر خرچ کرنا پڑا ہو۔ اس کے لیے لڑکی کے باپ اور بھائی کو ہوسکتا ہے گھر بیچنا پڑا ہو ، چندہ ، خیرات یا زکوٰة مانگنی پڑی ہو۔ ہوسکتا ہے جھوٹ ، رشوت ، چوری اور بے ایمانی کرنی پڑی ہو۔ اب آپ ہی اندازہ لگائیے کہ ایسی غلط کاریوں کے ساتھ قائم ہونے والی بنیاد کیا معاشرے میں ایک پاک خاندان کی مضبوط عمارت کھڑی کرپائے گی ؟ جس طرح جام کے پیڑ سے آم نہیں اُگتے اسی طرح اسلام کو پامال کرنے والے طریقے کی بنیاد پر شروع ہونے والے رشتے نیک اور دیندار نسلیں نہیں پیدا کرسکتے ۔ یہ منطق Logic کے خلاف ہے ۔

عورت بغاوت پر کیوں اتر آئی ہے؟


کسی بھی دین یا مذہب کے حق ہونے یا نہ ہونے کی دو کسوٹیاں Criteria ہیں ایک تو یہ کہ عقائد ، عبادات یا رسومات کے علاوہ وہ دین انسان کو زندگی گزارنے کا طریقہ System of Life کیا دیتا ہے ؟
دوسرے یہ کہ اس کے ماننے والے اُسے کس طرح پیش کرتے ہیں ؟
یہاں ہماری ناکامی کی اصل وجہ کا پتہ چلتاہے ۔ اگرچہ کہ ہر شخص یہ اعتراف کرتا ہے حتٰی کہ مخالفینِ اسلام خود تسلیم کرتے ہیں کہ سوائے اسلام کے کوئی اور مذہب ایسا نہیں ہے جو اتنا مکمل اور شاندار نظام حیات System of Life دیتا ہو ۔ لیکن اسکے پیش کرنے والوں نے اِسے دنیا کی نظروں میں نہ صرف مشکوک کردیا بلکہ دور کردیا۔اسلام کی صحیح تعلیمات جن پر عمل پیرا ہونے سے یہ زمین بھی جنّت نما بن جاتی ہے وہ تعلیمات خود مسلمانوں کی زندگی میں دور دور تک نظر نہیں آتیں ۔ہر شخص نماز ، روزے ، داڑھی ، ٹوپی وغیرہ کے بارے میں پوچھئے تو وہ ہر ضروری اور غیر ضروری تفصیل کے ساتھ خوب بحث کر سکتا ہے لیکن اسلام کے معاشی ، سیاسی ، سماجی ، عدل ، یا تعلیمی نظام اور بنکنگ، انشورنس یا ٹریڈنگ کے بارے میں پوچھئے تووہ سوائے چند مبہم فتوؤں کے کچھ نہیں بتا پائے گا ۔
اسی طرح عورتوں کے حقوق کے بارے میں پوچھئے ، سوائے اسکے کہ طلاق کس طرح دی جائے ، کب دی جائے ، عورت کی کون سی غلطی پراُسے کیا سزا دی جائے ؟ اس کے علاوہ اسے کچھ نہیں معلوم۔ دوسرے الفاظ میں اگر عورت غلطی کرے تو اسلام مرد کو کیا اختیار دیتا ہے وہ یہ تو بہت اچھی طرح جانتا ہے لیکن اگر مرد کمینہ پن کرے تو اسلام عورت کو کیا حق دیتا ہے وہ اس بارے میں کچھ نہیں بتاتا ۔
یہی وجہ ہے کہ آج مسلمان عورتیں بغاوت کررہی ہیں۔ ابھی حال ہی میں ٹامل ناڈو میں عورتوں نے اپنی مسجد علٰہدہ بنانے کا اعلان کردیا اسکے علاوہ بھی کئی مقامات سے خبریں پڑھنے میں آئیں کہ عورتوں نے خود نماز کی امامت، جمعہ کا خطبہ اور قاضی کے فرائض ادا کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ کئی عورتیں غیر مسلموں سے شادیاں بھی کررہی ہیں۔ اسکی مزید تفصیل آگے باب ”نقصانات “میں ملاحظہ ہو۔
اور اسی طرح کی بغاوت اور سرکشی کی کئی خبریں دنیا کے دوسرے ممالک سے بھی ملتی رہتی ہیں۔ اسکے اسباب تو کئی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہیکہ عورتیں اس نظام کے خلاف اب کھڑی ہوچکی ہیں جو نظام قاضیوں، دارالقضاة، مفتیوں اور علماء نے قائم کیا جسمیں مرد کی جانب سے طلاق دئیے جانے پر تو فوری سرٹیفکٹ دے دیا جاتا ہے لیکن اگر عورت خلع حاصل کرنا چاہے تو اسے مہینوں اور برسوں لٹکا کر رکھا جاتا ہے۔
عہد نبوی میں حضرت ثابت بن قیس (رضی اللہ عنہ) کی دو بیویوں حبیبہ بنت سہیل (رضی اللہ عنہا) اور جمیلہ (رضی اللہ عنہا) نے جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے خلع کی درخواست کی اور وجوہات بتائیں تو آپ نے انہیں فوری طلاق حاصل کرلینے کی اجازت دے دی ۔
لیکن ہمارے عہد میں بے چاریاں دفترقضاء ت یا پھر کورٹ کے چکر لگاتی رہتی ہیں ۔مرد نہ مہر ادا کرنے راضی ہوتا ہے اور نہ لیا ہوا جہیز اور جوڑے کی رقم وغیرہ واپس کرنے تیار ہوتاہے۔ برسوں نہیں صدیوں عورت نے مرد کے ہاتھوں یہ ظلم سہا ہے شائد یہ انہی کی بددعا کا نتیجہ ہیکہ ہندوستان میں Anti Dowry Act Section 498A نافذ ہوا ۔ اس قانون کا جائز استعمال کم اور ناجائز زیادہ ہوا اور نتیجہ یہ نکلا کہ ہر مرد عورت کے آگے ڈرنے لگا۔
اُدھر پاکستان میں بھی ایک اسلامی مملکت ہونے کے باوجود مرد سے دوسری شادی کی آزادی چھین لی گئی۔مرد شریعت کی آڑ لینا بھول گیا۔ ایسا ہونا بھی چاہئیے تھا کیونکہ انصاف کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ جو فریق منگنی، نکاح کے دن کی دعوت ، جہیز وغیرہ پر خرچ کرے اُسی کی مرضی اور اسی کا فیصلہ چلنا بھی چاہئے۔

پہلا ذمہ دار طبقہ … دین و شریعت کے علمبردار


اس پورے فساد میں اصل قصور دینی امور کے ذمہ داروں اور شریعت کے نام نہاد علمبرداروں کا ہے ۔ ہمارے واعظ اور مقرر جس شدت کے ساتھ عقائد ، ایمانیات ، بدعات و شرکیات پر اپنا پورا زورِ بیان صرف کرتے ہیں اس شدت کے ساتھ کبھی جوڑے جہیز کے بارے میں بیان نہیں کرتے ۔ مسلکی اختلافات پر فریقین جسطرح ایک دوسرے کے خلاف دندناتے ہوئے جلوسوں اور جلسوں میں مظاہرے کرتے ہیں ، گرجدار شعلہ بیان تقریروں کے ذریعے ایک دوسرے پر کفر ، شرک اور نہ جانے کیا کیا فتوے لگاتے ہیں وہی جوہرِ شعلہ بیانی کبھی جہیز کی لعنتوں کے خلاف نہیں صرف کرتے۔ جن فروعی مسائل پر یہ لوگ زور دیتے ہیں ان موضوعات کا تعلق نہ ایک غریب گھر کی روٹی سے ہے نہ اس کے معاشی مسائل سے، نہ ان موضوعات میں کوئی دعوت، تقویٰ و تزکیہ کا پہلو ہے اورنہ غیر مسلموں کے لیے ان میں کوئی کشش ۔ جب کہ جوڑا جہیز کا موضوع ایک ایسا سماجی موضوع ہے جس کا تعلق نہ صرف ہر مسلمان کے معاش ، اخلاق و کردار سے ہے بلکہ کروڑوں غیر مسلمین کے لیے اس میں اسلام کی دعوت پوشیدہ ہے۔جسمیں مسلمان اور غیر مسلمین دونوں کی معاشی راحت کا سامان ہے ہمارے مقرر اور واعظ اس موضوع کو چھوتے بھی نہیں۔ اگر کچھ کہتے بھی ہیں تو نہ وہ گرج ہوتی ہے نہ مخالفین پر فائرنگ کا انداز ہوتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے جیسے ابا جان شریر بچے کو چمکار تے ہوئے کہہ رہے ہوں :
” بیٹا بُری بات ہے اچھے بچے اس طرح شرارت نہیں کرتے “۔
اور نہ قاضی صاحبان خطبے میں ان چیزوں کی ممانعت کرتے ہیں ۔
ہوس بالائے ممبر ہے تجھے رنگیں بیانی کی
نصیحت بھی تری صورت ہے اک افسانہ خوانی کی
اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ خود بھی اور ان کے اہل خاندان اور ان کے ساتھ ساتھ وہ تمام لوگ بھی جن کے چندوں سے مدرسے اور مسجدوں کی انتظامی کمیٹیاں چلتی ہیں اس جرم میں کسی نہ کسی حد تک شریک ہیں ۔ ظاہر ہے جب کہنے والے کے ہاتھ خود خون میں رنگے ہوں وہ دوسروں پر انگلی کیسے اٹھا سکتا ہے ۔
اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جوڑا جہیز ہی دراصل آج مسلمانوں کی ذلت و رسوائی کا اصل سبب ہے ۔اسکی ذمہ داری سب سے پہلے دین کی نمائندگی کرنے والے طبقے پر ہے، اسکے بعد تعلیم یافتہ خوشحال مسلمانوں پر۔

Friday 11 November 2011

شیطان کا ڈاکیا

شیطان کا ڈاکیا


عربی زبان میں ایک نہایت زہریلے سانپ کو عاضۃ کہتے ہیں جس کا ڈسا ہوا فورًا مر جاتا ہے۔ اسی سے "العضۃ" کا لفظ ہے جس کا معنی چغل خور ہے کیونکہ وہ بھی فریقین کے درمیان فتنہ و فساد کی آگ بڑھکا دیتا ہے اور بات فورًا دشمنی اور قتل و غارت تک پہنچ جاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ایک دفعہ اپنے صحابہ سے مخاطب ہو کر فرمایا:
أَتَدْرُونَ مَا الْعَضْهُ؟
"جانتے ہو "العضہ" کیا ہے؟؟
صحابہ نے عرض کیا "اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتا ہے"
فرمایا: 
نَقْلُ الْحَدِيثِ مِنْ بَعْضِ النَّاسِ إِلَى بَعْضٍ، لِيُفْسِدُوا بَيْنَهُمْ
"بعض کی باتیں بعض کی طرف بیان کرنا تا کہ ان کے درمیان فساد ڈالا جائے" 
(سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ حدیث نمبر 846)

مسلمان کبھی شیطان کا ڈاکیا نہیں بنتا۔ اگر کسی موقع پر کسی کے خلاف کوئی بات سن لے تو اس کو وہاں پر ہی دفن کر دے تا کہ فریقین کےدرمیان نفرت و کدورت کے جراثیم مزید پیدا نہ ہوں۔

ایک دفعہ کسی آدمی نے اللہ کے ایک نیک بندے کو آ کر بتلایا کہ فلاں شخص آپ کے خلاف فلاں فلاں باتیں کرتا ہے، وہ سن کر فرمانے لگے "شیطان کو تیرے علاوہ کوئی ڈاکیا نہیں ملا"؟ ایک اور شخص نے اللہ کے ایک بندے سے کہا "فلاں شخص نے آپ کو یہ یہ گالی دی ہے" وہ کہنے لگے "اے ظالم! اس نے نہیں دیں گالیاں تو تو نے دی ہیں۔ اس نے تو پتھر پھینکا تھا مگر مجھے نہیں لگا مگر تو اس قدر ظالم نکلا کہ وہ اٹھا کر مجھے مار ہی دیا"۔ 
اللہ تعالیٰ ہمیں چغل خوری کی لعنت سے محفوظ فرمائے۔

Wednesday 9 November 2011

صلاۃ غوثیہ کی حقیقت

صلاۃ غوثیہ کی حقیقت


یہاں اس غلط فہمی کو دور کرنا بھی ضروری ہے جو بعض عقیدت مندوں نے پیدا کر رکھی ہے کہ "خود شیخ جیلانی نے یہ تعلیم دی تھی کہ مشکلات کے وقت مجھے پکارا کرو میں زندگی میں بھی اور بعد از حیات بھی تا قیامت تمہاری سنتا اور مدد کرتا رہوں گا"-
اس سلسلہ میں آپ کی طرف جو جھوٹی باتیں منسوب کی جاتی ہیں، ان میں سے بطور نمونہ ایک جھوٹ ملاحضہ فرمائيں:
"شیخ نے فرمایا کہ جو کوئی مصیبت میں مجھ سے مدد چاہے یا مجھ کو پکارے تو میں اس کی مصیبت کو دور کروں کا اور جو کوئی میرے توسل سے خدائے تعالی سے اپنی حاجت روائی چاہے گا تو خدا تعالی اس کی حاجت کو پورا کرے گا- جو کوئی دو رکعت نماز پرھے اور ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد گارہ مرتبہ سورۃ اخلاص یعنی "قل ھو اللہ احد" پڑھے اور سلام پھرینے کے بعد گیارہ مرتبہ درود شریف پڑھے اور مجھ پر بھی سلام بھیجے اور اس وقت اپنی حاجت کا نام بھی لے تو ان شاءاللہ تعالی اس کی حاجت پوری ہوگی- بعض نے بیان کیا ہے کہ دس پانچ قدم جانب میرے مزار کی طرف جل کر میرا نام لے اور اپنی حاجت کو بیان کرے اور بغض کہتے ہیں مندرجہ ذیل دو شعروں کو بھی پڑھے:
(ترجمہ اشعار: کیا مجھ کو کچھ تنگدستی پہنچ سکتی ہے جبکہ آپ میرا ذخیرہ ہیں اور کیا دنیا میں مجھ پر ظلم ہوسکتا ہے جبکہ آپ میرے مددگار ہیں- بھیڑ کے محافظ پر خصوصا جبکہ وہ میرا گار ہو، ننگ و ناموس کی بات ہے کہ بیابان میں میرے اونٹ کی رسی گم ہوجائے"-
(قلائد الجواہر، مترجم: ص 192)

"پھر عراق (بغداد) کی سمت میرا نام لیتا ہوا گیارہ قدم چلے"
(بھجۃ الاسرار۔ ص:102)

نقد و تبصرہ:

٭ اول تو یہ واقعہ ان کتابوں سے ماخوذ ہے جن کی استنادی حیثیت کے حوالہ سے ہم یہ ثابت کر چکے ہیں کہ وہ قابل اعتماد نہیں ہیں-
٭ اگر بالفرص شیخ نے یہ بات خود فرمائی بھی ہو تو تب بھی اس پر عمل اس لئے نہیں کیا جاسکتا کہ یہ قرآن و سنت کے صریح خلاف ہے- 
٭ فی الحقیقت یہ بات خود شیخ کی موحدانہ تعلیمات کے منافی ہے کیونکہ شیخ تو یہ فرماتے ہیں کہ:
"اخلاص پیدا کرو اور شرک نہ کرو، حق تعالی کی توحید کا پرچار کرو اور اس کے درواوے سے منہ نہ موڑو- اسی اللہ سے سوال کرو، کسی اور سے سوال نہ کرو، اسی سے مدد مانگو، کسی اور سے مدد نہ مانگو، اسی پر توکل و اعتماد کرو اور کسی پر توکل نہ کرو"-
(الفتح الربانی: مجلس 48، ص 151)

اقتباس: شیخ عبدالقادر جیلانی اور موجودہ مسلمان
تالیف: مبشر حسین لاھوری

خبر بیان کرنے کا مسئلہ

خبر بیان کرنے کا مسئلہ


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"کفی بالمرء کذبا ان یحدث بکل ما سمع"
آدمی کے لیے جھوٹا ہونے میں (یہ بات) کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو (بغیر تحقیق کے) بیان کرے"-
(رواہ مسلم)

تشریح: مطلب یہ ہے یہ اگر کوئی شخص یہ عادت رکھتا ہو کہ جو کچھ سنے بغیر تحقیق کےروایت بیان کرے تو اس کے جھوٹ بولنے میں اسی قدر کافی ہے- کیونکہ جو کچھ وہ سنتا ہے، سب سچ نہیں ہوسکتا بلکہ سنی سنائی باتیں اکثر جھوٹ ہوتی ہیں- اس لیے جب تک کسی بات یا خبر کا سچ ہونا متحقق نہ ہو اسے ہرگز آگے بیان نہیں کرنا چاہیے- معلوم ہوا کہ خبروں کا بیان کرنا ایک ذمہ داری کی چيز ہے اور مسائل دین میں سے ہے- 
خبردار! کسی سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق و تفتیش کے کبھی آگے نہ پہنچاؤ- 

برصغیر میں محدثین کی آمد

برصغیر میں محدثین کی آمد

جناب محمد زکریا شاہد اعوان

یہ بات مسلمہ ہے کہ جانباز صحابہ کرام ] کا ہر قول و فعل حدیث رسول e سے ہم آہنگ تھا۔ وہ جہاں بھی رخت سفر باندھتے، تجارت کی غرض سے جاتے غرضیکہ زندگی کے تمام نشیب و فراز میں فرامین رسول عربی سے ہی رہنمائی لیتے۔ جب محدثین کی برصغیر آمد ہوئی تو احادیث مبارکہ کا ایک روح پرور ذخیرہ بھی ان کے ساتھ آیا۔ رسول اکرم e کے دنیا سے رحلت فرمانے کے بعد ۵۱ھ میں اس خطہ میں رسول اکرم e کی احادیث مبارکہ پہنچنا شروع ہو گئی تھیں۔ صحابہ کرامؓ کی منزلیں آپ کے فرامین و ارشادات کی روشنی میں ہوتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے طرز معاشرت کا ہر گوشہ اور اسلوب زندگی کا ہر پہلو نبی کریم e کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا وہ گھر میں ہوں یا باہر سفر میں ہوں یا حضر میں، حالت امن میں ہوں یا جنگ میں، الغرض زندگی کے تمام نشیب و فراز میں فرامین رسول کا گلستان پر بہار ان کے سامنے لہلہاتا رہتا تھا اور اسی کے سائے انہیں روحانی اور جسمانی سکون حاصل ہوتا تھا۔ یہی ان کا مقصد حیات اور سرمایہ زندگی تھا۔ وہ جس ملک میں گئے حدیث رسول اپنے ساتھ لے کر گئے۔ برصغیر میں آئے تو یہ انمول خزانہ بھی ساتھ لے کر آئے۔ 
کاروان اہلحدیث:

برصغیر میں اسلام کے یہ اولین نقوش ۵۱ھ میں اس خطہ ارضی پر ابھرے اور پھر تاریخ کے ایک خاص تسلسل کے ساتھ پوری تیزی سے لمحہ بہ لمحہ ابھرتے اور نمایاں ہوتے چلے گئے۔ یہ اولین نقوش و آثار اس پر عظمت کارواں کے ہیں جنہیں اصحاب حدیث اور ”اہلحدیث“ کے عظیم الشان لقب سے پکارا جاتا ہے۔ یہی وہ پہلا کارواں تھا جو نبی اکرم eکے اس دنیا سے تشریف لے جانے کے صرف چار سال بعد برصغیر میں وارد ہوا۔ دوسرا کارواں حدیث تابعین کا، تیسرا محمد بن قاسم اور ان کے رفقائے عالی قدر کا اور چوتھا کارواں تبع تابعین کا تھا۔ 
یہ پاکباز لوگ جہاں قدم رکھتے گئے حدیث رسول ان کے ہمرکاب رہی یہی ان کی زندگی کا حاصل یہی ان کا اوڑھنا بچھونا اسی کے احکام ان کے شب و روز کا معمول تھا اور یہی ان کا مقصد زیست اور یہی ان کا طرہ امتیاز تھا۔ یہ چار جلیل القدر کارواں جنہوں نے اپنے دور میں برصغیر کے مختلف علاقوں میں مساعی جمیلہ سر انجام دیں۔ یہی وہ ذی مرتبت حضرات ہیں جنہوں نے یہاں پہلے قال اللہ وقال الرسول مسرت انگیز اور بہجت افزا صدائیں بلند کیں۔ 

ایک اشکال اور اس کا جواب:

بعض حضرات کہتے ہیں کہ برصغیر میں سب سے پہلے حنفی مسلک آیا، اہلحدیث کی عمر اس ملک میں صرف ڈیڑھ دو سو سال ہے۔ یہ بالکل بے وزن اور حقیقت کے خلاف بات ہے اور ان لوگوں کی ذہنی اختراع ہے جو برصغیر کی اسلامی تاریخ کے ابتدائی دور سے واقفیت نہیں رکھتے یا اس کا اظہار نہیں کرنا چاہتے بلکہ انہوں نے اپنی اس خواہش کا نام تاریخ رکھ لیا ہے۔ 
تاریخی واقعات بیان کرنے کیلئے تاریخ کو سمجھنے اور اس کے مختلف گوشوں کو فہم کی گرفت میں لانے کی ضرورت ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ پچیس جانباز صحابہ کرامؓ جو یہاں آئے تھے وہ حنفی تھے؟ کیا وہ کسی ذی الحرام امام فقہ کے مقلد تھے؟ کیا ان کے بعد ان کے زمانے میں برصغیر تشریف لانے والے ۲۴ بیالیس تابعین کسی لائق صد احترام شخصیت کے حلقہ تقلید سے وابستہ تھے؟ ہر گز نہیں! وہ براہ راست نبی اکرمe کی احادیث مبارکہ پر عمل پیرا تھے اور آپ کے فرامین اقدس پر عامل اور ان کے اولین مبلغ تھے اور اسی متاع گراں بہا کی رفاقت میں انہوں نے اس نواح کا رخ فرمایا۔ ان کا مرکز عمل اور نقطہ نظر صرف قرآن و حدیث تھے۔ اس کے علاوہ کوئی بات کبھی بھی ان کے حاشیہ خیال میں نہیں آئی۔ 
یہ وہ دور ہے جب فقہی مسالک کا کہیں نام و نشان نہ تھا اور نہ ہی کسی قابل تکریم امام فقہ کا کوئی وجود تھا۔ صحابہ کرامؓ کا پہلا کارواں برصغیر میں ۵۱ھ میں آیا حضرت امام ابوحنیفہؒ اس سے ۵۶ سال بعد ۰۸ ھ میں پیدا ہوئے۔ ۰۵۱ھ میں انہوں نے رخت سفر باندھا۔ امام مالکؒ ۳۹ھ میں پیدا ہوئے اور ۹۷۱ھ میں داعی اجل کو لبیک کہا۔ امام شافعیؒ ۰۵۱ میں اس جہاں ہست و بود میں نمودار ہوئے۔ اور ۴۰۲ھ میں یہ آفتاب غروب ہو گیا۔ امام احمد بن حنبلؒ کی ولادت ۴۶۱ھ ہے اور ۱۶۲ھ میں مالک حقیقی سے جا ملے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ صحابہ کرامؓ کے زمانہ اقدس میں نہ کوئی حنفی تھا نہ کوئی شافعی تھا نہ مالکی نہ ہی حنبلی تھا۔ خالص فرامین پیغمبر اور حدیث رسول کا سکہ چلتا تھا۔ کسی امام فقہ کی تقلید کا ہر گز کوئی تصور نہ تھا جب آئمہ فقہ کی پاکباز ہستیاں دنیا میں موجود ہی نہ تھیں تو تقلید کیسی؟ اور کس کی؟ 
تقلید کے سلسلے ان کے کئی سو سال بعد پیدا ہوئے پہلے صرف قرآن و حدیث اور فقط کتاب و سنت کی بنیاد پر عمل کی دیواریں استوار کی جاتی تھیں اور اسی پر اسلام کا قصہ رفیع الشان قائم تھا اور اسی کا نام اہلحدیث ہے اور اسی کو ماننے اور حرز جان بنانے والے لوگ سب سے پہلے وارد برصغیر ہوئے، جنہیں رسول اللہ e کے صحابہؓ کے پراعزاز لقب سے پکارا جاتا ہے۔ اور جن کے بارے میں قرآن ناطق ہے: ”رضی اللہ عنہم ورضواعنہ“ اللہ تعالیٰ کی خوشنودیاں ان کے حصہ میں آئیں اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ 
کیا اہلحدیث نیا مذہب ہے؟

جو حضرات گرامی قدر اہلحدیث کو برصغیر میں نیا مذہب قرار دیتے ہیں۔ ہم نہایت ادب و احترام سے ان کی خدمت میں عرض کریں گے کہ اگر اس خطہ ارضی میں رسول اکرمe کی حدیت نئی ہے تو یہ مذہب بھی نیا ہے اگر آپ کی حدیث پاک کا وجود ۴۱ سو سال پہلے سے ہے تو اہلحدیث کا وجود بھی چودہ سو سال سے ہے۔ اور اسی کا نام قدامت اہلحدیث ہے۔ تاریخی حقائق ہمیں بتاتے ہیں اور واقعات اس کی شہادت دیتے ہیں کہ مسلک اہلحدیث اصل دین اور اسلام کی صحیح ترین تعبیر ہے۔ جو صحابہ کرامؓ کی محنت و کاوش سے برصغیر میں آیا اور یہاں کے لوگ اس سے آشنا ہوئے۔ اس کے علاوہ باقی سب فقہی مذاہب یا مسالک ہیں جو بہت بعد میں عالم وجود میں آئے۔ اس وقت حنفیت، مالکیت، شافعیت اور حنبلیت کا تصور تک نہ تھا۔ 
امام ابن تیمیہ کی شہادت:

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ رقم فرماتے ہیں کہ اہل حدیث کوئی نیا مذہب نہیں بلکہ آئمہ اربعہ سے پہلے کا ہے اور صحابہ کرامؓ اسی کے مطابق عمل کرتے تھے۔ امام موصوف اس ضمن میں رقم طراز ہیں: ”اہل سنت کا یہ معروف مذہب ہے جو امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کی ولادت باسعادت سے بہت پہلے کا ہے۔ اور یہی مذہب صحابہ کرامؓ کا ہے جس کی تعلیم انہوں نے نبی اکرمe سے حاصل کی جو لوگ اس کے خلاف دوسری راہ اپنائیں گے ان کا شمار اہل بدعت میں ہو گا۔“ (منہاج السنة) 
اہل حدیث کے اوصاف بیان کرتے ہوئے امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں: یہ لوگ ہر رسول اور اللہ کی طرف سے نازل کردہ تمام کتب پر ایمان رکھتے ہیں یہ اللہ کے پیغمبروں میں سے کسی کے درمیان فرق کرتے ہیں اور نہ یہ ان لوگوں میں سے ہیں جو دین میں تفرقہ ڈالتے ہیں۔ (نقض المنطق) 
امام صاحب اپنی اسی تصنیف میں اہل حدیث کے بارے میں امام اسماعیل بن عبدالرحمن صابونیؒ کا یہ قول نقل کرتے ہیں: ”اہل حدیث کا شیوہ یہ ہے کہ وہ کتاب و سنت سے تمسک کرتے ہیں۔ اللہ کی وہی صفات بیان کرتے ہیں جو اس نے خود اپنی کتاب قرآن مجید میں بیان فرمائی ہیں۔ اور جن کا ذکر اس کے رسول نے کیا ہے جو احادیث عادل و ثقہ راویوں سے مروی ہیں وہ اس کی صفات کو اس کی مخلوقات کی صفات سے تشبیہ نہیں دیتے نہ ان کی کیفیات بیان کرتے ہیں اور نہ ہی وہ معتزلہ وجہمیہ کی طرح کلام میں تحریف کرتے ہیں۔ 
اہل حدیث کا منہج:

مسلک اہلحدیث کے اصول و ضوابط اور فروع و اصول قرآن و سنت کے قصر رفیع پر استوار ہیں۔ یہی ان کے حاملین کی روح کی غذا اور یہی ان کے قلب و ضمیر کی صدا ہے۔ زمانہ ہزاروں لاکھوں کروٹیں لے چکا ہے اور ہر صبح نئے سے نئے انقلاب کو اپنے دامن پرُ رونق میں لپیٹ کر لباس شب زیب تن کرتی ہے لیکن قرآن و سنت کے احکام و اوامر اور قوائد و قوانین اپنی جگہ اٹل ہیں۔ ان کے رنگ و روغن میں وہی سج دھج ہے جو آج سے چودہ سو سال پہلے اس کا طرہ امتیاز تھی۔ اس کے حسن و جمال میں وہی نکھار ہے وہی رعنائی وہ زیبائی وہی دلآویزی ہے جو دور نزول میں اس کے ساتھ مختص تھی۔ زمانہ جس نہج پر چل رہا ہے اور یہ عالم رنگ و بو ترقی کی جن منازل پر گامزن ہےں۔ اس کی روشنی میں غور کیا جائے تو وہ وقت دور نہیں جب پوری دنیا صرف قرآن و سنت کو ہی مرکز اطاعت قرار دینے لگے گی اور نبض عالم کی دھڑکنیں اس میں مرکوز ہو کر رہ جائیں گی۔ (ان شاءاللہ) 
اہل حدیث کی وسعت قلبی:

یہاں ہم یہ حقیقت بھی واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ اہل حدیث کے قلب و ذہن کا کوئی گوشہ فقہ اور آئمہ فقہ کے متعلق قطعاً غبار آلود نہیں۔ وہ آئمہ کرام کی وسعت پذیر مساعی اور گرانقدر خدمات کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو انہوں نے مختلف حالات و ظروف کی روشنی میں اپنے انداز میں سر انجام دی ہیں۔ وہ حضرت امام ابوحنیفہ a کی فراست فقہی، فطانت علمی اور اجتہادی صلاحیتوں کا دل کی اتھاہ گہرائیوں سے اعتراف کرتے ہیں۔ لیکن جو حضرات امام ابوحنیفہؒ کی وراثت کے مدعی بنے بیٹھے ہیں وہ ان کے علم و فضل کو ایک ہی گوشے اور ایک ہی مسلک میں محدود کر رہے ہیں یہ امام ابوحنیفہؒ کی توقیر نہیں بلکہ ان کے فیض رسانیوں کی حد بندی ہے۔ ہم امام شافعیؒ کی ان فقید المثال علمی و فقہی خدمات کو بھی کھلے دل سے خراج تحسین پیش کرتے ہیں جن کی بدولت پہلی بار استناد حدیث کے متعدد گوشے نکھر کر سامنے آئے۔ اور فکر و نظر کی طراوت کا باعث بنے۔ 
اس طرح اہلحدیث کے نزدیک امام مالکؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کی خدمات جلیلہ اور مساعی جمیلہ بھی از حد لائق تعریف ہیں کہ انہوں نے حفاظت اور صیانت سنت رسول کی ذمہ داریوں کو بھی بطریق احسن پورا کیا۔ اور تعلیم و تدریس کی مسانید کو بھی زینت بخشی یہ تمام حضرات صرف کتاب و سنت پر عمل پیرا تھے اور ان کا فرمان ہے کہ اگر ہماری کوئی بات قرآن و حدیث کے ساتھ مطابقت نہ رکھتی ہو تو اسے بالکل نہ مانو۔ 
یہی اہل حدیث کا عقیدہ بھی ہے یعنی دور صحابہؓ سے لے کر اب تک اہلحدیث کا یہی طرز عمل اور یہی طریق ہے کہ براہ راست قرآن و حدیث کو مانو کیونکہ یہی اسلام کا اصل ماخذ ہے اور وہ اس کیلئے ہر آن کوشاں ہیں۔ گزشتہ دنوں امام کعبہ سماحة الشیخ ڈاکٹر عبدالرحمن السدیس (حفظہ اللہ) پاکستان کے دورے پر تشریف لائے مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کی طرف سے فقید المثال علماءکنونشن کا انعقاد کیا گیا۔ علماءکنونشن سے خطاب کرتے ہوئے امام کعبہ نے کہا کہ تمام تر فرقے اور مسالک کو اگر کوئی چیز متحد کر سکتی ہے تو وہ صرف اور صرف کتاب و سنت ہے۔ مسلمان قرآن و سنت کا اور سلف صالحین کا منہج اختیار کر کے ہر قسم کے چیلنج سے نمٹ سکتے ہیں۔ انہوں نے دلائل کی روشنی میں اہل حدیث کو فرقہ ناجیہ (کامیاب جماعت) قرار دیا۔ 
راقم السطور کہتا ہے کہ بشری کمزوریوں کی بناءپر ان میں بہت سی خامیاں دیکھی جا سکتی ہیں لیکن جہاں تک ان کے مسلک اور ان کی دعوت کا تعلق ہے اس کے ڈانڈے صحابہؓ کی جماعت سے ملتے ہیں۔ 
احب الصالحین ولست منھم
لعل اللہ یرزقنی صلاحا
وصلی اللہ تعالیٰ علی نبینا محمد وعلیٰ اٰلہ وصحبہ اجمعین۔

نماز میں صفیں درست کرنے کا بیان

 

نماز میں صفیں درست کرنے کا بیان
صفیں درست کرنا فرض ہے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اپنی صفیں درست کرو، بلاشبہ صفیں درست کرنا نماز کا حصہ ہے"
(بخاری، کتاب الاذان، باب اقامت الصف من تمام الصلاۃ: 723، مسلم: 433)

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"صفیں سیدھی کرو، ایک دوسرے  کے ساتھ کندھے برابر کرو، خلا کو پر کرو، (صفیں درست کروانے والو9 اپنے بھائیوں کے لیے نرم ہوجاؤ اور شیطان کے لیے (بیچ میں) خالی جگہ مت چھوڑو۔"
(ابوداؤد، کتاب الصلاۃ، باب تسویۃالصفوف: 666- صحیح)

صفیں درست کرنے کی فضیلت:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"صفیں ملانے (یعنی خلا کو پر کرنے) والوں کو اللہ (اپنے ساتھ) ملالیتا ہے اور صفیں کاٹنے والوں کو اللہ (اپنے سے) کاٹ دیتا ہے-"
(ابو داؤد، کتاب الصلاۃ، باب تسویۃ الصفوف:666، نسائی:820- صحیح)

 صفیں درست نہ کرنے کی سزا:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" تم ضرور بضرور اپنی صفیں درست کرلو، ورنا اللہ تعالی تمہارے درمیان اختلاف پیدا کردے گا۔"
(بخاری، کتاب الاذان، باب تسویۃ الصفوف عند الاقامۃ و بعدھا: 717- مسلم:436)

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" اپنی صفوں میں خوب مل کر کھڑے ہوا کرو، انھیں قریب قریب بناؤ اور گردنوں کو بھی برابر رکھو، اس ذات کی قسم، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! بلاشبہ میں شیطان کو دیکھتا ہوں کہ وہ بکری کے بچے کی طرح صفوں کی خالی جگہوں میں گھس جاتا ہے (اور نماز خراب کرتا ہے)۔"
(ابوداؤد، کتاب الصلاۃ، باب تسویۃ الصفوف: 667، نسائی:816- صحیح)

صفیں درست کرنے کا طریقہ:

سیدنا انس رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں:
"جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں صفیں درست کرنے کا حکم دیتے  تو ہم اس طرح کھڑے ہوتے تھے کہ ہم نمازی اپنا پاؤں اور کندھے ساتھ والے کے ساتھ پاؤں اور کندھے کے ساتھ چپکا دیتا تھا۔"
(صحیح بخاری، کتاب الاذان، باب الزاق المنکب بالمنکب۔۔۔۔۔۔الخ:725)

سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"پاؤں کو سیدھا کرنا اور ہاتھ کو ہاتھ پر رکھنا سنت میں سے ہے-"
(ابوداؤد، کتاب الصلواۃ، باب مضع الیمنی علی الیسری فی الصلواۃ: 754- حسن)
تقبل قنا و منکم

Saturday 5 November 2011

***** نفلی روزوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حُکم اور ہفتہ کا روزہ *****

***** نفلی روزوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حُکم اور ہفتہ کا روزہ *****


نفلی روزوں کے معاملے میں ایک بہت ہی اہم بات جو ہمیں اچھی طرح سمجھنا چاہیئے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حُکم ہے لاتصوموا یومَ السبت اِلَّا فیمَا افتُرض َ علیکُم فاِن لم یَجِدَ احدکُم اِلَّا عُودَ عِنَبٍ او لَحَاءَ شجرۃٍ فَلیَمُصّہُ )( ہفتے کے دِن کا روزہ مت رکھو ، سوائے فرض روزے کے ، اگر تُم سے کِسی کو انگور کی چھال یا درخت کی جڑ کے عِلاوہ اور کُچھ نہ ملے تو اسی کو چُوس لو ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِن الفاظ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہفتے کے دِن کے روزے کی ممانعت کِس قدر شدید ہے کہ اگر درخت کی چھال یا جڑ چُوس کر ہی افطار کرنا پڑے تو بھی حالتِ افطار میں رہنا چاہئیے ، روزہ نہیں رکھنا چاہیئے ، سوائے فرض یعنی رمضان کے روزں کے ۔ 

یہ حدیث عبداللہ بن بُسر ، الصَّمَّاءُ بنت بُسر ، بُسر بن ابی بُسر المازنی ، اور ابی اُمامہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے مُندرجہ ذیل کتابوں میں روایت کی گئی ہے ، 
صحیح ابن خزیمہ/ حدیث /٢١٦٤ ، مُستدرک الحاکم/١٥٩٢ ، اِمام الحاکم نے کہا کہ یہ حدیث بُخاری کی شرط کے مُطابق صحیح ہے ، سُنن ابو داؤد/حدیث /٢٤١٨ ، سُنن ابن ماجہ/حدیث /١٧٦٦ ، سُنن الترمذی/حدیث /٧٤٤ ، مُسند احمد ٦/ ٣٦٨ ، سُنن الدارمی/حدیث/١٧٤٩ ، سُنن البیہقی/٤/ ٣٠٢ ، مُسند عبد بن حمید/حدیث/٥٠٧ ، اِمام ابو نعیم نے '' الحُلیۃ الاولیاء '' میں ، اِمام خطیب بُغدادی نے '' تاریخ '' میں اِمام الضَّیاء المقدسی نے '' الاحادیث المُختارۃ '' میں ، اِمام الدَّولابی نے '' الکُنی '' میں ، اِمام ابنِ عساکر نے اپنی '' تاریخ '' میں اِمام ابو زرعۃ الدمشقی نے اپنی '' تاریخ '' میں ، اِمام ابن الاثیر نے '' اُسد الغابہ '' میں ، اِمام البغوی نے '' شرح السُنّۃ '' میں روایت کیا ، اور اِس کے عِلاوہ بھی یہ حدیث بہت سی دیگر کتابوں میں مُختلف اسناد کے ساتھ موجود ہے شیخ علی بن حسن نے اپنی کتاب '' زَہر الرَّوض فی حُکم صِیام یَوم السَّبت فی غیر الفَرض '' میں اِس کی مُکمل تحقیق اور تخریج کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس حُکم کو ٹالنے یا بدلنے یا خاص اور عام کرنے کی کوئی دلیل نہیں .

***** بھائیوں ، بہنوں ، مندرجہ بالا صحیح حدیث کی روشنی میں کوئی بھی نفلی روزہ ہفتے کے دِن رکھنا جائز نہیں ، آپ صاحبان شوال کے روزے رکھتے ہوئے اور کوئی بھی نفلی روزہ رکھتے ہوئے اِس بات کو کبھی نہ بھولئیے گا اور اپنے ساتھ ساتھ اپنے دوسرے مُسلمان بھائی بہنوں کو بھی بتائیے تا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حُکم کی نافرمانی کا شکار نہ ہوں ۔ 

::: یوم عرفات ، نو ذی الحج کا روزہ :::

::: یوم عرفات ، نو ذی الحج کا روزہ ::: 
ماہ ذی الحج کے پہلے دس دِن بہت ہی فضیلت والے ہیں ، اِس کا بیان ''' ماہ حج اور ہم::: ماہ حج کے پہلے دس دِن ::: فضیلت اور احکام ''' میں کر چکا ہوں ، 
اِن ہی دس بلند رتبہ دِنوں کا نواں دِن وہ ہے جِس دِن حاجی میدانِ عرفات میں قیام کرتے ہیں ، اِس دِن اور قیام کی فضیلت بھی ابھی اُوپر ذِکر کیے گئے مضمون میں مختصراً بیان کر چکاہوں۔
اِس با برکت دِن میں عرفات میں قیام کرنے والوں کو اللہ کی طرف سے مغفرت کی خوشخبری دی گئی ، اور جو وہاں نہیں ہوتے لیکن اُس دِن اللہ کی رضا حاصل کرنے کی نیّت سے روزہ رکھیں تو اُنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زُبانِ مُبارک سے یہ خوشخبری سُنائی گئی:
((((( صِیَامُ یَومِ عَرَفَۃَ اَحتَسِبُ علی اللَّہِ اَن یُکَفِّرَ السَّنَۃَ التی قَبلَہُ وَالسَّنَۃَ التی بَعدَہُ ::: مجھے اللہ سے یقین ہے کہ (اللہ) عرفات کے دِن کے روزے کے ذریعے ایک پچھلے سال اور ایک اگلے سال کے گُناہ معاف کر دے گا ))))) 

اور دوسری روایت کے الفاظ ہیں (((((یُکَفِّرُ السَّنَۃَ المَاضِیَۃَ وَالبَاقِیَۃَ::: پچھلے ایک سال اور اگلے ایک سال کے گُناہ معاف کرواتا ہے ))))) دونوں روایات صحیح مُسلم /حدیث ١١٦٢ /کتاب کتاب الصیام /باب ٣٦،

::::: ایک بہت ہی اہم بات :::::
دو سال کے صغیرہ (چھوٹے) گُناہ معاف ہونا ، عرفات کے دِن کے روزے کے نتیجے میں ہے ، یعنی وہ دِن جِس دِن حاجی میدانِ عرفات میں قیام کرتے ہیں ، نہ کہ اپنے اپنے مُلکوں ، عِلاقوں میں اپنے اپنے مذاہب و مسالک کی پابند تاریخوں کے مُطابق آنے والے نو ذی الحج کے دِن کے روزے کے نتیجے میں، پس اِس بات کا خیال رکھا جانا چاہیئے کہ روزہ عرفات والے دِن کا رکھنا ہے ۔

::::: ذرا غور تو فرمائیے ::::: اگر اِس چھوٹے سے مضمون کو نشر کریں اور آپ کو سبب بنا کر اللہ تعالیٰ کچھ مُسلمانوں کو یوم عرفات کا روزہ رکھنے کو توفیق عطاء فرما دے ، تو اُن سب کے روزے کے ثواب کے برابر آپ کو بھی ثواب ملے گا ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے (مَن دَلَّ عَلَی خَیرٍ فَلَہُ مِثلُ اَجرِ فَاعِلِہِ ) ( جِس نے خیر کی طرف راہنمائی کی اُس کو اُس خیر پر عمل کرنے والے کے ثواب کے برابر ثواب ملے گا ) صحیح مُسلم /حدیث ١٨٩٣ /کتاب الامارۃ /باب٣٨، 

فورمز کی انتظامیہ سے بھی گذارش ہے کہ اِس مراسلے کی تشہیر کریں ، اللہ تعالیٰ اِس کو سبب بنا کر زیادہ سے زیادہ مُسلمانوں کو یوم عرفات کا روزہ رکھنے کی توفیق عطاء فرمائے اور اُن کے روزے قُبُول فرمائے اور ہمیں اُن کے برابر ثواب عطاء فرمائے۔
:::::: ایک اور اہم بات ::::::
اس دفعہ یعنی ذی الحج 1432 ہجری میں بھی عرفات کا دِن ہفتے کو آ رہا ہے ، اس لیے سب ہی قارٕئین کی خصوصی توجہ اس طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ اس دفعہ یومءعرفات کا روزہ نہ رکھا جإئے ، کیونکہ ہفتے کے دِن نفلی روزہ رکھنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے بہت سختی سے منع فرمایا ہے ، 
ارشاد فرمایا ہے کہ ((((( لاتصوموا یومَ السبت اِلَّا فیمَا افتُرض َ علیکُم ، فاِن لم یَجِدَ أحدکُم اِلَّا عُودَ عِنَبٍ أو لَحَائَ شجرۃٍ ، فَلیَمُصّہُ ::: ہفتے کے دِن کا روزہ مت رکھو ، سوائے فرض روزے کے اگر تُم سے کِسی کو انگور کی لکڑی یا درخت کی جڑ کے عِلاوہ اور کُچھ نہ ملے تو اِسی کو چُوس لو ))))) 
نہ ہی اس حکم سے کسی استثناء کی گنجإئش ہے کہ ہفتے کے ساتھ کسی اور دِن کا روزہ ملا لیا جإئے تو پھر ہفتے کا نفلی روزہ رکھا جا سکتا ہے ، 
اس موضوع پر جنوری 2004 میں‌ میں نے ایک تحقیقی کتاب لکھی تھی ، ان شاء اللہ جلد ہی اسے ری فارمیٹ کر کے قارٕئین کے لیے پیش کروں گا ، ان شاء اللہ اُس کا مطالعہ تمام اشکال رفع کرنے کا سبب ہو گا ، فی الحال یہ سمجھ لیجیے کہ ہفتے کا نفلی روزہ نہیں رکھا جانا چاہیے خواہ اس 
کی کتنی ہی فضیلت بیان ہوٕئی ہو ، والسلام علیکم۔