Monday 19 July 2010

اللہ لفظ کہنے سے ذہنی امراض دور ہوجاتے ہیں

ہالینڈ کے اسکالر ، پروفیسر ، فان دیر ہوون نے کہا ہے کہ:
 قرآن مجید کی تلاوت خصوصاً لفظ "اللہ" کہنے سے ذہنی امراض دور ہوجاتے ہیں اور انسانی اعصاب سکون محسوس کرنے لگتے ہیں ۔
انہوں نے المدینہ اخبار کو بتایا کہ لفظ "اللہ" میں موجود پانچوں حروف کی حیرت انگیز تاثیر ریکارڈ کی گئی ہے ۔ یہ انسانی فکر کے دسترس سے باہر ہے ۔ عربی زبان میں حرف "الف" کا تلفظ سینے کے اوپر والے حصے سے ہوتا ہے ۔ ادائیگی کی شروعات ہوتے ہی تنفس موزوں ہونے لگتا ہے ۔
ہالینڈ کی زبان میں عربی کے حرف الف کی جگہ "اے" (A) آتا ہے ۔ عربی کے حرف "ل" کا معمولی سا حصہ غیر ملکی زبانوں میں بھی پایا جاتا ہے ۔ اس کی ادائگی پر زبان کی نوک پر جبڑے کا بالائی حصہ حرکت میں آتا ہے اور دو سیکنڈ سے کم عرصے کیلئے توقیف کا عمل ہوتا ہے ، اس کے تیزی کے ساتھ تکرار سے انسان زیادہ طاقتور اور زیادہ شفاف حرف "ہ" کی ادائگی کے لیے تیار ہوجاتا ہے ۔ عربی کے "ہ" کے بالمقابل ہالینڈ کی زبان میں حرف "ایچ" (H) آتا ہے ۔ یہ حرف پھیپڑوں کو دل سے جوڑ کر دل کی حرکت منظّم کردیتا ہے ۔ دس سے ایک ہزار بار "اللہ" کہنے سے ذہنی یا اعصابی مرض میں مبتالا افراد راحت محسوس کرتے ہیں۔


(بشکریہ اردو نیوز و المدینہ اخبارات ، جدہ ، سعودی عرب)

Thursday 15 July 2010

اقوال صحابہ کی حجیت

اقوال صحابہ کی حجیت


نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کے صحابہ میں سے بغض علم، فقہ اور فتوای وغیرہ میں بہت مشھور ہوئے- ان کے کئے ہوئے فیصلے اور کس فتوے بذریعہ روایت ہم تک پہنچے ہیں- اگر کسی مجتہد کو کتاب و سنت اور اجماع سے کسی مسئلے سے کسی مسئلے کے لیے دلیل نہ ملے تو کیا وہ صحابہ کے ان اقوال، فتاوی جات اور فیصلوں سے حجت لے سکتا ہے یا نہیں؟ تو اس پر کچھ تفصیل نیچے ہے-

٭ صحابی کی وہ بات جو اجتہاد اور رائے کے ذریعے نہیں کی جاسکتی علماء کے نزدیک حجت ہے کیونکہ اس میں یہ احتمال ہے کہ یقینا یہ بات صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی سنی ہوگی۔

٭ صحابی کے جس قول پر اجماع ہوچکا ہو علماء اسے شرعی حجت قرار دیتے ہیں-

٭ صحابی کا ایسا قول جو رائے اور اجتہاد پر مبنی ہو کیا وہ حجت ہے؟

اس میں علماء نے اختلاف کیا ہے:

1/ بعض علماء اسے شرعی حجت قرار دیتے ہیں- ان کا کہنا ہے کہ جب کوئی مسئلہ عتاب و سنت اور اجماع سے نہ مل سکے تو صحابی کے قول پر عمل کرنا چاہیے کیونکہ اگرچہ وہ بات رائے پر مبنی ہے لیکن ان کی رائے ہماری رائے سے بہرحال بہتر ہے وہ اس لیے کہ وہ نزول وحی کے زمانے میں موجود تھے، تشریح احکام کی حکمت اور اسباب نزول سے واقف تھے، اور ایک لمبا عرصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں بھی رہے تھے- ان تمام وجوہات کی بنا پر ان کی آراء کو دوسروں کی آراء پر بڑی فضیلت حاصل ہے-

2/ اوربعض علماء اسے شرعی حجت نہیں گردانتے- ان کا کہنا ہے کہ ہم صرف کتاب و سنت کے دلائل پر عمل کے پابند ہیں اور صحابی کا قول ان میں شامل نہیں-

ہمارے علم کے مطابق راجح بات یہ ہے کہ اگرچہ صحابی کے ایسے قول پر جو اجتہاد و رائے پر مبنی ہو عمل واجب نہیں لیکن اپنی رائے پر ان کی رائے کو ترجیح دینا افضل ہے جیسا کہ اس کی وجوہات پہلے قول کےضمن میں بیان کی جا چکی ہیں-

اب ہم فقہ کے اماموں کی اس بارے میں رائے ملاحظہ کریں گے:

(ابو حنیفہ رحمہ اللہ):
اگر اللہ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں مجھے کوئی چیز نہیں ملتی تو میں صحابہ کے اقوال اختیار کرلیتا ہوں-
[ ابو حنیفہ للشیخ ابی زھرۃ (ص/309)]

(مالک رحمہ اللہ):
 انہوں نے اپنی کتاب موطا میں بہت سے صحابہ کے فتاوی جات نقل کیے ہیں اور اکثر مسائل میں انہی پر اعتماد کیا ہے۔
[ مالک للشیخ ابی زھرۃ (ص/259)]

(شافعی رحمہ اللہ):
 اگر مجھے کتاب و سنت یا اجماع یا اس کے ہم معنی کسی دوسری چيز میں جو حکم لگانے والی ہو یا اس کے ساتھ قیاس ہو، کوئی چیز نہیں ملتی تو میرا مسلک یہی ہے کہ صحابہ میں سے کسی کے قول کو اختیار کرلیا جائے-
[ الرسالۃ للشافعی (ص/598)]

(احمد بن جنبل رحمہ اللہ):
 میں نے ہر مسئلے میں یا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے جواب دیا یا صحابہ یا تابعین کے کسی قول سے-
[ اصول الفقہ لابی زھرۃ (ص/215) ، اصول الفقہ و ابن التیمیہ (ص/356)]

اقتباس: فقہ الحدیث

تالیف: حافظ عمران ایوب لاھوری حفظ اللہ

اجماع

اجماع


قرآن و سنت کے بعد فقہ کے ذیلی ماخذ میں سے پہلا ماخذ اجماع ہے اور جمہور علماء کے نزدیک یہ ماخذ دیگر ماخذ سے قوت اور حجیت سے زیادہ قوی ہے۔

اجماع کی تعریف:

لغوی اعتبار سے تو اجماع "عزم، پختہ ارادہ اور کسی بات پر متفق ہونے" کو کہتے ہیں جیسا کہ حدیث میں ہے۔

لاَ صِيَامَ لِمَنْ لَمْ يُجْمِعْ قَبْلَ الْفَجْرِ
"اس شخص کا روزہ نہیں ہوگا جو فجر سے پہلے ہی روزہ رکھنے کی نیت نہ کرے"
(صحیح: النسائی، کتاب الصیام: باب ذِكْرِ اخْتِلاَفِ النَّاقِلِينَ لِخَبَرِ حَفْصَةَ فِي ذَلِك:2348 ، 2349)

اور قرآن میں ہے کہ:

[فَأَجْمِعُواْ أَمْرَكُمْ وَشُرَكَاءكم]
"تم اپنا معاملہ اپنے شرکاء سے مل کر پختہ طور پر طے کرو"
(سورہ یونس:71)

اصطلاحی اعتبار سے اجماع کی تعریف یہ کی جاتی ہے:

(ھو اتفاق المجتہدین فی عصر من الغصور علی حکم شری بعد وفاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم بدلیل)
"اجماع سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی خاص دور میں (امت اسلامیہ کے) تمام مجتہدین کا کسی دلیل کے ساتھ کسی شرعی حکم پر متفق ہوجانا ہے-"
[ الارشاد المفحول (1/285)، المستصفی الغزالی (1/183)]

:اجماع کی شرائط

٭ مطلوبہ مسئلے پر متفق ہونے والے افراد مجتہد ہوں ورنہ اجماع معتبر نہ ہوگا۔

٭ مجتہدین کے اتفاق سے مراد تمام مجتہدین کا اتفاق ہے ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ صرف ایک شہر والے یا ایک بستی کے علماء ہی کسی مسئلے پر جمع ہوں کیونکہ ایک کی مخالفت بھی اجماع کے منعقد ہونے مین رکاوٹ ہے-

٭ تمام مجتہد مسلمان ہوں۔

٭ جب کسی مسئلے پر تمام مجتہد متفق ہوجائيں تو پھر ضروری ہے کہ اتفاقی فیصلہ عمل میں آجائے- علاوہ ازیں یہ شرط نہیں ہے کہ تمام مجتہدین کی موت بھی اس اتفاق پر ہی ہو-

٭ اجماع کے لیے ضروری ہے کہ کسی شرعی حکم پر اتفاق ہو نہ کہ طب، ریاضی یا لغت سے متعلقہ کسی مسئلے پر ہو۔

٭ صرف وہی اجماع قابل قبول ہوگا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفات کے بعد ہوا ہو-

٭ اجماع کے لیے کسی شرعی دلیل کا ہونا ضروری ہے جس پر سب متفق ہوئے ہوں محض اپنی خواھش پر کیا جانے والا اجماع معتبر نہیں ہوگا۔

اجماع کی مثالیں:

٭ مسلمان عورت کا کسی غیر مسلم مرد سے نکاح نہیں ہوسکتا

٭ پھوپھی او ر بھتیجی، خالہ اور بھانجی کو بیک وقت نکاح میں نہیں رکھا جاسکتا

٭ مفتوحہ اراضی کو فاتحین کے درمیان دیگر اموال غنیمت کی طرح نہیں بانٹا جائے گا

٭ اگر سگے بھائی، بہن نہ ہوں تو باپ کی طرف سے بننے والے بھائی بہن کو ان کا حصہ دیا جائے گا۔

اجماع کی حجیت:

جمہور علماء کے نزدیک اجماع حجیت ہے اور وہ حجیت اجماع کے جو دلائل پیش کرتے ہیں ان میں سے چند حسب ذیل ہیں:

٭ ارشاد باری تعالی ہے کہ:

{وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءتْ مَصِيرًا}
"اور جس نے ہدایت واضح ہوجانے کے بعد رسول کی نافرمانی کی اور مومنین کے راستے کے علاوہ کسی دوسرے راستے کی پیروی کی تو اسے ہم اسی کی طرف لے جائيں گے جدھر وہ خود گیا اور اسے جہنم میں داخل کردیں گے جو بہت بری جائے قرار ہے-"
(النساء:115)

٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

{ إن أمتي لا تجتمع على ضلالة }
" بلاشبہ میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہوگی-"
(صحیح: ابن ماجہ، کتاب الفتن: باب السواد الاعظم3950)

٭ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

{ لا نزال طائفۃ من امتی ظاھرین علی الحق}
" میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر غالب رہے گا-"
(صحیح بخاری: کتاب التوحید: باب قول اللہ تعالی [ انما قولنا لشیئی اذا اردناہ}، 7459)

اجماع کی اقسام:

٭ اجماع صریح: اس سے مراد یہ ہے کہ تمام مجتہدعلماء کسی مسئلے پر اس طرح متفق ہوں کہ وہ اس کے متعلق صراحت سے اظہار کریں حواہ قول سے کریں یا افتاء سے کریں یا قضاء سے کریں- یہ اجماع بالاتفاق حجت ہے-

٭ اجماع سکوتی: اس سے مراد یہ ہے کہ جب کوئی مسئلہ پیش کیا جائے تو چند اہل اجتہاد علماء تو اس پر متفق ہوجائيں لیکن دیگر مجتہدین اس پر خاموشی اختیار کریں اور کوئی اعتراض نہ کریں- یا اجماع احناف کے نزدیک حجت ہے جبکہ امام مالک رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ اسے اجماع تسلیم نہیں کرتے۔

اقتباس: فقہ الحدیث

تالیف: حافظ عمران ایوب لاھوری حفظ اللہ

Monday 12 July 2010

تقلید کا مفہوم ، تاریخ ، حکم اور نقصانات

تقلید کا مفہوم ، تاریخ ، حکم اور نقصانات

تقلید کی لغوی تعریف

دیوبندیوں کی لغت کی مستند کتاب ”القاموس الوحید“ میں لکھا ہے:
1:-
 قلّد۔۔فلاناً: تقلید کرنا،بنادلیل پیروی کرنا،آنکھ بن کر کے کسی کے پیچھے چلنا
 (القاموس الوحیدص:۶۴۳۱)

2:-
التقلید:بے سوچے سمجھے یا بنادلیل پیروی،نقل،سپردگی
 (القاموس الوحیدص:۶۴۳۱)
3:-
امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"اما التقلید فاصلہ فی الغة ماخوزمن القلادہ التی یقلد غیربہاومنہ تقلیدالہدی فکان المقلد جعل زلک الحکم الذی قلد فیہ المجتھد کالقلادة فی عنق من قلدہ۔

"یعنی تقلیدلغت میں گلے میں ڈالے جانے والے پٹے سے ماخوز ہے اور وقف شدہ حیوانات کے گلے میں طوق ڈالنا بھی اسی میں سے ہے، تقلید کو تقلید اس لئے کہتے ہیں کہ اسمیں مقلد جس حکم میں مجتہد کی تقلید کرتا ہے، وہ حکم اپنے گلے میں طوق کی طرح ڈالتا ہے۔"
(ارشاد الفحول ص:۱۴۴)
4:-
اسی طرح غیاث الغات میں تقلید کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے:
”گردن بنددرگردن انداختن وکار بعھد کسی ساختن وبر گردن خود کار بگرفتن و مجاز بمعنی پیروی کسی بے در یافت حقیقت آن“

یعنی تقلید گلے میں رسی ڈالنے یا کسی کے زمےکوئی کام لگانے کا نام ہے۔اسی طرح اپنے زمہ کوئی کام لینابھی تقلید کہلاتا ہے ، اس کے مجازی معنیٰ یہ ہیں کی حقیقت معلوم کیے بغیرکسی کی تا بعداری کی جائے۔
 (غیاث الغات ص:۳۰۱)

تقلید کی اصطلاحی تعریف

1:-
حنفیوں کی معتبر کتاب ”مسلم الثبوت“میں لکھا ہے:
”التقلید: العمل بقول الغیرمن غیر حجةکا خذ العامی والمجتھد من مثلہ، فا لرجوع الی النبی علیہ الصلاٰة والسلام او الی ا الجماع لیس منہ و کذا العامی الی المفتی والقاضی الی العدول لا یجاب النص ذلک علیھما لکن العرف علی ان العامی مقلد للمجتھد، قال الامام: وعلیہ معضم الاصولین“ الخ
تقلید کسی دوسرے کے قول پر بغیر (قرآن و حدیث کی) دلیل کے عمل کو کہتے ہیں۔جیسے عامی (کم علم شخص) اپنے جیسے عامی اور مجتھدکسی دوسرے مجتھد کا قول لے لے۔پس نبی علیہ الصلاة اولسلام اور اجماع کی طرف رجوع کرنا اس (تقلید) میں سے نہیں۔ اور اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا(تقلید نہیں) کیونکہ اسے نص (دلیل) نے واجب کیا ہے لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے۔امام (امام الحرمین الشافعی) نے کہا کہ” اور اسی تعریف پر علمِ اصول کے عام علماء(متفق)ہیں“۔ الخ
(مسلم الثبوت ص۹۸۲طبع ۶۱۳۱ھ وفواتح الر حموت ج۲ ص۰۰۴)
2:-
امام ابن ہمام حنفی (متوفی۱۶۸ھ) نے لکھا ہے:

”مسالة:التقلید العمل بقول من لیس قولہ احدی الحجج بلا حجة منھا فلیس الرجوع النبی علیہ الصلاة والسلام واالاجماع منہ“
مسئلہ:تقلید اس شخص کے قول پر بغیر دلیل عمل کو کہتے ہیں جس کا قول (چار) دلائل میں سے نہیں ہے۔پس نبی علیہ الصلاةوالسلام اوراجماع کی طرف رجوع تقلید میں سے نہیں ہے۔
 (تحریر ابنِ ہمام فی علم الاصول ج ۳ص۳۵۴)
نوٹ : بلکل یہی تعریف ابنِ امیر الحجاج الحنفی نے کتاب التقریروالتحبیرفی علم الاصول ج ۳ص ۳۵۴،۴۵۴ اور قاضی محمد اعلیٰ تھانوی حنفی نے کشاف الاصطلاحات الفنون ج ۲ص۸۷۱۱ میں بیان کی ہے کہ نبی علیہ الصلاةوالسلام اور اجما ع کی طرف رجو ع کرنا تقلید نہیں (کیونکہ اسے دلیل نے واجب کیا ہے)

3:-
تقلید کی ایک اور مشہور اصطلاحی تعریف یہ کی گئی ہے:

”ھو عمل بقول الغیر من غیر حجة“
کسی دوسرے کی بات پر بغیر (قرآن وحدیث کی) دلیل کے عمل کرنا تقلید ہے۔
 (ارشاد الفحول ص۱۴۴، شرح القصیدة الامالیة لملا علی القاری حنفی و تفسیر القرطبی ۲۱۱۲)
4:-
قاری چن محمد دیوبندی نے لکھا ہے:

”اور تسلیم القول بلا دلیل یہی تقلید ہے یعنی کسی قول کو بنا دلیل تسلیم کرنا، مان لینا یہی تقلید ہے“
 (غیر مقلدین سے چند معروضات ص۱ عرض نمبر ۱)
5:-
مفتی سعید احمد پالن پوری دیوبندی نے لکھا ہے:

کیونکہ تقلید کسی کا قول اس کی دلیل جانے بغیر لینے کا نام ہے۔
 (آپ فتویٰ کیسے دیں گے؟ ص۶۷)
6:-
اشرف علی تھانوی کے ملفوضات میں لکھا ہے:

ایک صاحب نے عرض کیا تقلید کی حقیقت کیا ہے؟ اور تقلید کسے کہتے ہیں؟ فرمایا : تقلید کہتے ہیں: ”اُمتی کا قول بنا دلیل ماننا“ عرض کیا کہ کیا اللہ اور رسول علیہ الصلاةوالسلام کی بات ماننا بھی تقلید ہے؟ فرمایا اللہ اور رسول علیہ الصلاةوالسلام کی بات ماننا تقلید نہیں بلکہ اتباع ہے۔
(الافاضات الیومیہ من الافادات القومیہ ملفوضات حکیم الامت ج۳ص۹۵۱ ملفوض:۸۲۲)
7:-
مفتی احمد یار نعیمی حنفی بریلوی لکھتے ہیں:

مسلم الثبوت میں ہے ، ”التقلید العمل بقول الغیر من غیر حجة“ اس تعریف سے معلوم ہوا کہ حضورعلیہ الصلاةوالسلام کی اطاعت کو تقلید نہیں کہہ سکتے کیونکہ انکا ہر قول دلیل ِ شرعی ہے (جبکہ) تقلید میں ہوتا ہے دلیل ِ شرعی کو نہ دیکھنا لہذا ہم نبی علیہ الصلاةوالسلام کے اُمتی کہلائیں گے نہ کے مقلد۔اسی طرح صحابہ کرام اور ائمہ دین حضورعلیہ الصلاةوالسلام کے اُمتی ہیں نہ کہ مقلداسی طرح عالم کی اطاعت جو عام مسلمان کرتے ہیں اس کو بھی تقلید نہ کہا جائے گاکیونکہ کوئی بھی ان علماءکی بات یا ان کے کام کواپنے لئے حجت نہیں بناتا، بلکہ یہ سمجھ کر ان کی بات مانتا ہے کہ مولوی آدمی ہیں کتاب سے دیکھ کر کہہ رہے ہوں گے۔۔۔
( جاءالحق ج۱ ص۶۱ طبع قدیم)
8:-
غلام رسول سعیدی نے لکھا ہے:

تقلید کے معنی ہیں(قرآن و حدیث کے) دلائل سے قطع نظر کر کے کسی امام کے قول پر عمل کرنا اور اتباع سے مراد یہ ہے کہ کسی امام کہ قول کوکتاب و سنت کہ موافق پا کراور دلائل ِ شرعیہ سے ثابت جان کراس قول کو اختیار کر لینا
(شرح صحیح مسلم ج۵ص۳۶)
9:-
سرفرازخان صفدر دیوبندی لکھتے ہیں:

.اور یہ طے شدہ بات ہے کہا کہ اقتداءو اتباع اور چیز ہے اور تقلید اور چیز ہے
 (المنہاج الواضح یعنی راہ سنت ص۵۳)
10:-
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

قبول قول لا یدری ما قال من این قال و زلک لا یکون علماً دلیلہ قولہ تعالیٰ: فا علم انہ لا الہ الا اللہ، فامر با لمعرفة لا بظن والتقلید۔
تقلید ایسی بات کے ماننے کو کہتے ہیں جس کی حیثیت اور ماخذ معلوم نہ ہو۔ ایسی بات کے ماننے کو علم نہیں کہتے کیونکہ اللہ کا فرمان ہے ”جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں“ اس (آیت) میں اللہ نے جاننے کا حکم دیا ہے نہ کہ گمان اور تقلید کا ۔
(فقہ اکبر للشافعی رحمہ اللہ ص۰۱)

نوٹ:

بریلویوں،دیوبندیوں اور علمِ اصول کے علماءکی ان تعریفوں سے درج باتیں ثابت ہوتی ہیں:

1:-کسی دوسرے شخص کی بات پر (قرآن و حدیث کی) دلیل کے بغیر عمل کرنا ”تقلید “ ہے۔
2:-احادیث پر عمل کرنا تقلید نہیں۔
3:-اجما ع پر عمل کرنا تقلید نہیں۔
4:-علماءکی بات پر( دلیل جان کر) عمل کرنا تقلید نہیں بلکہ یہ اتباع کہلاتا ہے۔
5:-اسی طرح قاضی کا گواہوں کی طرف اور عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا بھی تقلید نہیں۔

6:-صرف اس گمان اور قیاس پر امام کی اندھا دھند تقلید کرنا کہ اُس کی بات کتاب و سنت کے مطابق ہو گی باطل ہے کیونک اللہ نے جاننے کا حکم دیا ہے نہ کے گمانوں اور قیاس آرائیوں کا (دیکھئے امام شافعی کی آخری تعریف)۔

مقلدین ہر جگہ یہ شورمچاتے نظر آتے ہیں کہ فلاں غیر مقلد نے اپنے فلاں عالم کی کتاب سے استفادہ کر لیا یا فلاں عالم سے مسئلہ پوچھ لیا اس لئیے وہ اُس عالم کا مقلد بن گیا ہے۔۔۔۔۔

جبکہ آلِ تقلید کے اپنے اکابرین نے تقلید کی جو تعریف کی ہے اُس کے مطابق دلیل کے ساتھ کسی عالم کی بات بیان کرنے یا اس پر عمل کرنے کو تقلید کہتے ہی نہیں۔

ہم مقلدین سے پوچھتے ہیں کہ اگر ایک حنفی شخص تقی عثمانی سے کوئی مسئلہ پوچھتا ہے اور مولانا کے بتا ئے ہوئے مسئلے پر عمل بھی کرتا ہے تو وہ کس کا مقلد کہلائے گا، تقی عثمانی کا یا امام ابو حنیفہ کا؟؟؟ ظاہری بات ہے کہ وہ امام ابوحنیفہ کا ہی مقلد کہلائے گا یعنی کسی عالم سے مسئلہ پوچھنا تقلید نہیں، اگر یہ تقلید ہے تو پھر اسوقت دنیا میں کوئی ایک بھی حنفی موجود نہیں بلکہ سب اپنے اپنے علماء کے مقلد ہیں۔۔۔۔فما کان جوابکم فھوجوابنا۔ ۔ ۔ ۔ ۔  

Thursday 8 July 2010

وضع حدیث اور موقف صحابہ رضی اللہ عنہ

وضع حدیث اور موقف صحابہ رضی اللہ عنہ



امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مسلمان سخت ابتلا اور آزمائش میں گرفتار ہوگئے ملت واحدہ فرقوں میں تقسیم ہوگئی دشمنان اسلام بھی یہی کچھ چاہتے تھے چنانچہ انہیں اپنی کوششیں ثمر آور نظر آنے لگيں۔ مسلمانوں کے باہمی مناقشات نے ان کے پست حوصلوں کو بلند کیا جس سے یہ لوگ برسر عام اسلام کے بنیادی اصولوں کی تضحیک و تذلیل پر اتر آئے-

عبداللہ ابن سبا جو دراصل یہودی تھا اس نے اسلام کو نقصان پہنچانے کی خاطر اسلام کا ظاہری لبادہ اوڑھا تھا- مسلمانوں کے درمیاں اختلاف پیدا کرنے میں اس کی پارٹی کا ہاتھ تھا- اب وہ پارٹی بھی مستحکم ہوچکی تھی اور اہل بیت کی محبت کے پردہ میں وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر سرعام تنقید کرتے تھے کہ خلافت کے اصل حق دار آل رسول تھے جسے صحابہ کرام رض نے زبردستی عصب کرلیا- ظاہر ہے اس قسم کے الزامات کے لئے مواد کی ضرورت تھی مگر ان کے پاس مواد کہاں سے آتا لہذا انہوں نے دین میں جھوٹ کو داخل کیا اور پوری گرم جوشی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف من گھڑت روایات منسوب کیں-
سبائیوں نے اس منحوس امر کے آغاز کے لئے حالات کو سازگار پایا اس لئے کہ اکثر صحابہ کرام دنیا سے رخصت ہوچکے تھے اور جو باقی زندہ تھے ان میں اکثر مدینہ منورہ میں مقیم مسند علمی بچھوائے ہوئے تھے اور اسلام کی حفاظت میں انہیں نقوش پر گامزن تھے جن پر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علکہ وسلم اور اکابر کو پایا تھا لہذا ان کے لئے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ سبائیوں کے اس ہلاکت خيز فتنے پر خاموش تماشائی بنے رہتے چنانچہ انہوں نے ان حالات میں اسلام کی حفاطت کا فریضہ اس طرح انجام دیا کہ کذب پردازوں کی کوششیں ان کی موجودگی میں ناکام ثابت ہوئيں۔

 
تحقیق حدیث کا اہتمام
وہ ایسے کہ اہل علم صحابہ کرام نے روایت کو قبول کرنے کے لئے تحقیق کو لازم قرار دیا اور حدیث کے قبول کرنے کا ایک معیار مقرر کیا تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف من گھڑت بات منسوب نہ ہوجائے- جس کی توضیح عبداللہ ابن
عباس رضی اللہ عنہ کے مقرر کردہ اس اصول سے ہوتی ہے کہ فرماتے ہیں:
" ہم جب کسی آدمی سے سنتے کہ وہ قال رسول اللہ کہتا تو ہماری نظریں فورا اس کی طرف اٹھ جاتیں اور ہم کانوں کو اس کی طرف جھکادیتے مگر جب لوگوں نے ہر طرح کی حدیٹیں روایت کرنا شروع کریں تو ہم انہیں حظرات سے حدیث قبول کرتے جن کو ہم جانتے تھے-"
(مسلم:ص 10)

 
صحابہ کرام کے اس موقوف کی ترجمانی اور توضیح مشہور تابعی امام محمد بن سیرین نے کی ہے فرماتے ہیں:

" لوگ سند طلب نہیں کرتے تھے مگر جب (عثمان رض کی شہادت کا) فتنہ رونما ہوا (تو حدیث کے بارے میں سختی کی گئی اور سند کا مطالبہ شروع ہوگیا) وہ کہتے ہیں ہمیں بتاؤ یہ حدیث کس نے روایت کی ہے پھر دیکھا جاتا اگر اس حدیث کے راوی کا تعلق اہل سنت سے ہے تو تو اس کی حدیث قبول کرلی جاتی اہل بدیت کو دیکھا جاتا اگر حدیث کا راوی اہل بدعت سے ہوتا تو اس کی حدیث رد کی جاتی-"
( مسلم، ج 1، ص 11)

یہ اصول صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظم نے وصع کئے تھے بعد والوں نے علم حدیث کو انہیں اصولوں پر مرتب کیا-
جھوٹ سے نفرت

 
یہ اصول اسکی غمازی کرتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم روایت حدیث کے بارے میں بڑے محتاظ تھے اور قطعا پسند نہیں کرتے تھے کہ جھوٹ کا دین میں کجھ دخل ہو وہ ہر حال میں دین کو انہیں خطوط پر برقرار رکھتے تھے جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پایا تھا- یہی وجہ ہے کہ صحیح دین کے خلاف کسی امر کو پاتے تو فورا اس کا تدارک چاہتے اور ایسے کرنے والون کو رد کردیتے (جس کی متعدد مثالیں کتب حدیث میں موجود ہیں) اس لئے کہ انہوں نے دین براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اخذ کیا تھا اور ان کی تربیت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں ہوئی تھی اس لئے ان کی جھوٹ سے نفرت بجا آور قرین قیاس تھی-

پھر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اصل دین سمجھتے تھے اور دین کے لئے انہوں نے بے پناہ قربانیاں دی تھیں بھلا وہ جھوٹ بول کرصحیح دین کو باطل سے مکدر کیے کرسکتے تھے بلکہ وہ حدیث پورے حزم و احتیاط سے روایت کرتے جس میں جھوٹ کا شائبہ تا نہ ہوتا تھا-
مشہور تابعی حمید فرماتے ہیں کہ ہمیں انس رضی اللہ عنہ نے بتایا:
"ہم آپ سے جو حدیثیں روایت کرتے ہیں وہ تمام ہم نے براہ راست رسول اللہ صلی اللہ سے نہیں سنی ہوتیں لیکن ہم ایک دوسرے سے جھوٹ نہیں بولتے-"

حضرت براء فرماتے ہیں:
" ہمارے تمام حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث نہیں سنتے تھے کیونکہ ہمارا کاروبار تھا جس میں ہم مشغول رہتے تھے لیکن بات یہ ہے کہ لوگ اس وقت جھوٹ نہیں بولتے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوتا وہ اس تک حدیث پہنچا دیتا جو غا‏ئب ہوتا-"
(المستدرک، ج 1، ص 123)
مشہور تابعی حضرت قتادہ رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
" ایک شحص نے حدیث بیان کی تو کسی نے اس سے پوچھا کیا یہ حدیث آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی"
وہ فرمانے لگے:
" جی ہاں میں نے رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے یا پھر مجھ سے اس شخص نے بیال کی ہے جو جھوٹ نہیں بولتا، اللہ کی قسم نہ ہم جھوٹ بولتے ہیں اور نہ ہی ہم جھوٹ سے واقف ہیں-"
( مفتاح الجنہ ص 37)
ان آثار سے واضح ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا دامن کذب سے پاک تھا بلاشبہ کسی صحابی سے بصحت سند معلوم نہیں کہ اس نے عمدا کسی جھوٹی بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا ہو یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عدالت پر تمام اہل سنت کا اجماع ہے اور اس عدالت سے کوئی ایک بھی مستثنی نہیں ہے-

 
اقتباس: ضعیف اور موضوع روایات


تالیف: محمد یحی گوندلوی حفظ اللہ

علم مصطلح سے متعلق مشہور ترین تصانیف

علم مصطلح سے متعلق مشہور ترین تصانیف



٭ المحدث الفاصل بین الراوی والواعی

اسے قاضی ابم محد حسن بن عبدالرحمن بن خلاد رامہرمزی متوفی 360ھ نے تصنیف کیا، لیکن انہوں نے مصطلح الحدیث کی تمام بحثون کا احاطہ نہیں کیا- غالبا جو شحص بھی کسی فن یا علم میں پہلی کتاب لکھتا ہے اس کا یہی حال ہوتا ہے-



٭ معرفت علوم الحدیث

اسے ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ الحاکم نیشاپوری متوفی 405ھ نے لکھا مگر انہوں نے بحثوں کو مہذب و مرتب نہ بنایا اور نہ ہی مناسب فنی ترتیب دے سکے-



٭ المستخرج علی معرفۃ علوم الحدیث
یہ ابو نعیم احمد بن عبداللہ اصبہانی متوفی 430ھ کی تصنیف ہے- اس میں انہوں نے امام حاکم پر اسبدراک کیا ہے (ان کی شرط کے مطابق وہ چيزیں درج کی ہیں) ان بحثوں پر جو امام حاکم سے ان کی کتاب معرفۃ علوم الحدیث میں رہ گئي تھیں یعنی فن کے قواعد وغیرہ- لیکن انہوں نے بھی ایسی بہت سی اشیاء کو چھوڑا ہے جن کا استدراک پیچھے انے والے بھی کرسکتے ہیں-



٭ الکفایت فی علم الراویۃ

اسے ابو بکر احمد بن علی بن ثابت المعروف بہ خطیب بغدادی متوفی 363ھ نے تصنیف کیا- یہ کتاب اس فن (مصطلح الحدیث) کے مسائل سے بھرپور اور روایت کے قواعد کے بیان سے سیراب ہے- اس علم کے یہ عمدہ مصادر میں شمار ہوتی ہے-



٭ الجامع الاخلاق الراوی و آداب السامع
یہ بھی خطیب بغدادی کی تصنیف ہے- اس کتاب میں روایت کے آداب سے متعلق بحث کی گئی ہے جیسا کہ اس کے نام سے واضح ہوتا ہے- یہ اپنے میدان میں یکتا و منفرد کتاب ہے اور اپنی بحثوں اور موضوعات و مشتملات میں پحتہ ہے-خطیب بغدادی نے حدیث کے علوم میں سے ہر فن میں ایک الگ اور مستقل کتاب لکھی ہے سوائے چند فنون کے- خطیب کی حیثیت و مقام یہ ہے جیسا ابوبکر بن نقطہ نے فرمایا ہے:

"جس نے بھی انصاف کیا اس نے یہی جانا (اور کہا) کہ خطیب کے بعد آنے والے تمام محدثین ان کی کتب کے محتاج ہیں-



٭ الالماع الی معرفۃ اصول الراویۃ و تقیید السماع

اسے قاضی عیاض بن موسی یحصبی متوفی 544ھ نے تصنیف کیا- اس کتاب میں مصطلح کی مکمل اور تمام بحثیں شامل نہیں بلکہ یہ تحمل و ادا کی کیفیت اور اس کی فروعات سے متعلقات پر مقصود و محصور ہے- لیکن اس کے باوجود نظم و نسق اور ترتیب کےاعتبار سے اپنے فن کی بہت عمدہ کتاب ہے-



٭ مالا یسع المحدث جھلہ

اس کے مصنف ابو حفص عمر بن عبدالمجید میانجی متوفی 5810ھ ہیں یہ ایک چھوٹا اور مختصر جز ہے جس مین کوئی بڑا فائدہ پنہاں نہیں ہے-



٭ علوم الحدیث
اسے ابو معرو عثمان بن عبدالرحمان شہزوری المعروف بہ ابن الاصلاح متوفی 643ھ نے تصنیف کیا ہے- ا نکی یہ کتاب لوگوں کےہاں مقدمہ ابن الصلاح رحمہ اللہ کے نام سے مشھور ہے- فن اصول حدیث میں سب سے عمدہ کتاب ہے- اس کے مؤلف نے اس میں خطیب بغدادی اور دوسرے متقدمین وغیرہ کی کتابوں سے متفرق و منتشر مواد جمع کردیا ہے، گویا یہ فوائد سے بھرپور کتاب ہے، لیکن مؤلف اسے مناسب ترتیب اور وضع پر مرتب نہ کرسکے کیونکہ انہوں نے اس کتاب کو تھوڑا تھوڑا کرکے املا کرایا تھا (شاگردوں کو حسب ضرورت بحثیں لکھوایا کرتے تھے) اس کے باوجود یہ بعد میں آنے والے علماء کے لیے ایک ستون ثابت ہوئی- اس کے بہت سے اختصار کئے گئے ہیں- کہیں اسے نظم کیا گیا تو کہیں اس کا معارضہ پیش کیا گیا تو کسی نے اس کی تائید میں لکھا-



٭ التقریب والتیسیر لمعرفۃ سنن البشیر و النذیر

اسے تصنیف کرنے والے محی الدین یحی بن شرف النووی متوفی 676ھ ہیں- یہ کتاب ابن الصلاح رحمہ اللہ کی کتاب علوم الحدیث کا اختصار ہے- یہ ایک عمدہ کتاب ہے لیکن بعض مقامات پر عبارت کچھ مغلق ہے-



٭ تدریب الراوی فی شرح تقریب النووی

اس کے مصنف جلال الدین عبدالرحمن بن ابی بکر السیوطی متوفی 911ھ ہیں- یہ امام نووی رحمہ اللہ کی کتاب التقریب کی شرح ہے جیسا کہ نام سے بھی واصح ہے- اس میں مؤلف نے بہت سے فوائد جمع کردیے ہیں-



٭ نظم الدرر فی علم الاثر

اسے زین الدین عبدالرحیم بن الحسین عراقی متوفی 806ھ نے تصنیف کیا ہے- یہ الفیہ العراقی کے نام سے مشہور ہے جس میں انہوں نے ابن الصلاح رحمہ اللہ کی علوم الحدیث کو اشعار میں لکھا ہے اور کچھ اضافہ بھی کیا ہے- یا عمدہ اور شاندار فوائد پر مشتمل ہے اور اس کی کئی شروح ہیں- ان میں سے دو شرحیں مصنف نے خود لکھی ہیں-



٭ فتح المغیث فی شرح الفیۃ الحدیث

اس کے مصنف محمد بن عبدالرحمن السخاوی متوفی 902ھ ہیں- یہ الفیہ عراقی کی شرح ہے اور یہ الفیہ کی شروع میں سب سے مفصل ہے اور بہت عمدہ شرح ہے-



٭ نخبۃ الفکر فی المصطلح اھل الاثر
اسے حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی 852ھ نے تصنیف کیا ہے- یا ایک بہت ہی مختصر سا جزہے لیکن ترتیب کے اعتبار سے مختصرات میں سب سے نفع مند اور عمدہ ترین جز ہے- اس میں ترتیب و تقسیم کے طریقے کے اعتبار سے مصنف وہ سبقت لے گیا ہے جس کی طرف پہلے کسی نے بھی سبقت نہیں کی اور مصنف نے خود اس کی شرح بھی لکھی جس کا نام انہوں نے "نزھۃ النظر" رکھا جیسا کہ دوسروں نے بھی اس کی شروح لکھی ہیں-



٭ المنظومۃ البیقونیۃ

اس کو تصنیف کرنے والے عمر بن محمد البیقونی متوفی 1080ھ ہیں- یہ مختصر منظومات میں سے ہے- یہ 34 اشعار سے متجاوز نہیں ہے- اس کا شمار مفید اور مشہور مختصرات میں ہوتا ہے اور اس کی بھی کئی شروح لکھی گئي ہیں-



٭ قواعد التحدیث

یہ محمد جمال الدین قاسمی متوفی 1332ھ کی تصنیف ہے اور بہت مفید کتاب ہے-

اس موضوع پر اور بھی بہت سے تصانیف موجود ہیں، جن کے ذکر سے بحث طویل ہوجائے گی، میں نے ان مین سے مشہور تصانیف کے ذکر کرنے پر اکتفاء کیا ہے-

اللہ تعالی ہماری اور تمام مسلمانوں کی طرف سے ان تمام مصنفین کو جزائے خیر عطا فرمائے- آمین





اقتباس: تیسیر مصطلح الحدیث

تالیف: ڈاکٹر محمود الطحان

اپنے طریقہ کار کو اچھا جانتے ہوئے اس پر اڑنا نہیں چاہیے

اپنے طریقہ کار کو اچھا جانتے ہوئے اس پر اڑنا نہیں چاہیے



مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ
(32) سورة الروم
"(اے ایمان والو!) ان لوگوں میں سے نہ ہو کہ جنہوں نے اپنے دین میں پھوٹ ڈالی اور بہت سے فرقے بن گئے (اس طرح) ہر فرقہ جو کچھ (غلط عقائدوغیرہ) اپنائے (اور اختیار کئے) ہوئے ہے وہ اسی پر خوش ہورہا ہے۔"



یعنی جو کام شریعت میں یا عقل کے نزدیک صریح بد ہے اس کو ار کوئی بد (برا) جانتا ہے اور جو برا کام کہ آدمی اپنی عقل سے یا اور کسی سے سیکھ کر نیا ایجاد کرتا ہے تو اس کی برائی صحیح قرآن و حدیث میں نہیں پاتا سو اس کام کو نیک جانتا ہے اور اس پر خوش ہوتا ہے اور بہت سے لوگ جو ایسی نئی باتیں نکالتے ہیں جس پرخوش ہوکر یا اس کو تسند کرکے، اختیرا کرتے ہیں اور ہر فرقے کی (طرف سے) جدا جدا نئی نئی بدعتیں علحیدہ علحیدہ وضع کی ہوتی ہیں تو گروہ ہوجاتے ہیں اور دین میں ایکا (اتحاد اور اتفاق) نہیں رہتا ہور پھوٹ پرجاتی ہے- مثلا ایک فرقہ علی رضی اللہ عنہ کو باقی صحابہ رضی اللہ عنہھم سے افضل اور بہتر جانا اور اپنا لقب "تفضیلہ" رکھا اور ایک فرقہ ان سے بڑہ کر علی رضی اللہ عنہ کو افصل جبکہ باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو برا جانا اور محرم کی محفلیں، تعزیہ داری اور مرثیہ خوانی اور سیہ پوشی اور حق حق پی اور بھس اڑانے کی (بدعات) ایجاد کیں اور ایک نے عید غدیر اور عید بابا شجاع ٹھرائی اور نو روز کیا اور روزے، نماز، اذان، وضو میں کمی بیشی کرلی اور اپنا لقب شیعہ اور محّب اہل بیت رکھا- اور ایک فرقہ نے ان کے مقابلے میں علی رضی اللہ عنہ کو برا کہا اور اپنا لقب خارجی پسند کیا-

ایک فرقے نے علی رضی اللہ عنہ کی اولاد کی دشمنی اور عداوت اختیار کی اور ناصبی خطاب اپنے واسطے گوارا کیا- اور ایک فرقے نے دیدار الہی کا انکار کیا اور گناہ کبیرہ کو اسلام سے خروج کا باعث جانا اور معتزلی کہلوائے- اور ایک فرقے نے گوشہ نشینی اور ترک امر بالمعروف و نہی عن المنکر اختیار کرکے شغل برزخ اور نماز معکوس اور ختم اور توشے اور طرح طرح کے نئے نئے ورد اور وضیفے اور فال نامے اور گنڈے، تعویذ اور اتارے اور حاضرتیں اور عرس اور قبروں پر مرقبہ اور باجا، راگ سننا اور حال لانا ایجاد کیا اور مشائخ اور پیر کہلائے-

پھر کسی نے ان کو چشتی مقرر کیا، کسی نے قادری، کسی نے نقشبندی، کسی نے سہروردی، کسی نے رفاعی ٹھرالیا اور کوئی سر پر بڑے بڑے بال رکھ کر یا چار ابرو کا صفایا کرکے اور بڑی بڑی ٹوپیاں اور تاج دھر کر اور کفنی اور سہیلیاں گلے میں ڈال کر ماریہ اور جلالیہ مشہور ہوا- اور کسی نے دو چار زئلیں (بحثیں) منطق اور ریاضی اور ہندسے کی یاد کرلیں اور اپنے آپ کو مّلا اور مولوی اور عالم مشہور کرنا چاہا-
سو اس کے سوا سینکڑوں بلکہ ہزاروں طرح کی راہیں نکالیں اور ہر ایک فرقہ خوش ہوا کہ ہم ہی خوب ہیں اور ہماری ہی راہ اچھی ہے- سو اللہ تعالی نے فرمایا کہ تم ایسا نہ کرو بلکہ ایک ملت اور دین اختیار کرو جو اللہ تعالی نے فرمادیا- سابق میں بھی یہود و نصاری نے اپنے دین میں تفرقہ ڈالا اور کئی گروہ ہوگئے- سو تم ویسے نہ بنو۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ اور اپنے دین میں پھوٹ اور تفرقہ نا ڈالو- ایک قرآن اور حدیث پر عمل کرو اور اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے تابع رہو تاکہ دین میں پھوٹ نہ پڑے-
اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ آدمی کو چاہیے کہ اپنے ہی مذہب اور روّیہ، طریقے، رسوم، عادات کو اچھا جان کر اس پر خاطر جمع نہ کرے، بے فکر ہو کر نہ رہے بلکہ جق بات کی تلاش مین رہے اور اپنے مذہب اور روّیہ اور طریقے، رسوم کا قرآن و حدیث سے مقابلہ کرے جو اس کے موافق ہو، وہ اختیار کرے اور جو اس کے مخالف وہ ترک کرے- بنا گمراہی کی یہی ہے کہ آدمی اپنے رویّہ، طریقہ پر اڑارہے اور بے فکر ہوکر بیٹھ رہے – بہت سی خلقت اسی گمراہی میں پڑی ہوئی ہے کہ اللہ اور رسول کا حکم دریافت اور تحقیق نہیں کرتے- اپنے بزرگوں کی راہ پر خاطر جمع سے مطمعن ہوکر بیٹھے رہتے ہیں اور جانتے ہیں کہ یہی حق ہے-


اقتباس: بدعات سے دامن بچائیے مع احکام زیارت القبور

تالیف: شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ علیہ

Thursday 1 July 2010

دعوت دین کی اہمیت


اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو دین عطا کیا ہے، یہ محض رسوم عبادت یا چند اخلاقی نصائح کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ یہ زندگی کے تمام پہلوؤں میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اس دین کو ماننے والوں کے لئے صرف یہی ضروری نہیں کہ وہ اس دین کو نظریاتی طور پر مان لیں بلکہ ا س کا عملی زندگی میں اطلاق بھی ان کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ العصر میں مسلمانوں کی بنیادی ذمہ داریاں اس طرح بیان کرتا ہے:

وَالْعَصْرِ. إِنَّ الإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ. إِلاَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ. (سورۃ العصر)

 
’’زمانہ گواہ ہے کہ انسان ضرور ضرور خسارے میں ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے ، نیک عمل کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔ ‘‘

 
دین کا عملی زندگی میں اطلاق صرف یہی تقاضانہیں کرتا کہ اس پر خود عمل کیا جائے بلکہ یہ بات بھی دین کے تقاضے میں شامل ہے کہ اس دین کو دوسروں تک پہنچایا بھی جائے اور ایک دوسرے کی اصلاح کی جائے۔ جہاں کہیں بھی کوئی شرعی یا اخلاقی خرابی نظر آئے، ا س کی اصلاح کرنے کی کوشش کی جائے۔
امت مسلمہ کے اس عمومی رویے کے علاوہ اس میں ایک گروہ ایسا ضرور ہونا چاہئے جو دعوت دین ہی کو اپنا فل ٹائم مشغلہ بنائیں ، دین میں پوری طرح تفقہ حاصل کریں اور پھر عوام الناس کو اللہ کے دین کی دعوت دیتے ہوئے آخرت کی زندگی کے بارے میں خبردار کریں جیسا کہ قرآن مجید میں ارشا د ہے۔

وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ۔ (التوبہ 9:122) ’’
اور سب مسلمانوں کے لئے تو یہ ممکن نہ تھاکہ وہ اس کام کے لئے نکل کھڑے ہوتے، لیکن ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کے ہر گروہ میں سے کچھ لوگ نکل کر آتے تاکہ دین میں بصیرت حاصل کرتے اورجب (علم حاصل کرلینے کے بعد) اپنی قوم کی طرف لوٹتے تو ان لوگوں کو انذار کرتے، تاکہ وہ (گناہوں سے ) بچتے۔ ‘‘

 
دنیا کا کوئی بھی کام احسن انداز میں کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کام میں پہلے اچھی طرح مہارت حاصل کی جائے اور پھر اس کی مناسب منصوبہ بندی کرکے اس پر عمل درآمد کیا جائے۔ جو لوگ اللہ کے دین کی دعوت کا کام سوچ سمجھ کر کرنا چاہتے ہوں ، ان کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ وہ خود میں وہ صلاحیتیں پیدا کریں جو دعوت دین کے لئے ضروری ہیں اور پھر اس کام کو مناسب حکمت عملی اور منصوبہ بندی سے انجام دیں۔ اس تحریر میں ہم داعین کی خصوصیات بیان کریں گے اور تفصیل سے یہ عرض کرنے کی کوشش کریں کہ دعوتی عمل حکمت عملی سے کو کس طرح سرانجام دیا جائے۔اس ضمن میں درج ذیل پہلو زیر بحث آئیں گے۔

 
· داعی اسلام اور اس کی صفات

· دعوت دین کی منصوبہ بندی

· دعوتی پیغام کی اقسام اور تیاری