Thursday 26 January 2012

عید میلاد النّبی کس دن منائيں؟

عید میلاد النّبی کس دن منائيں؟

السلام علیکم!
جیسا کہ اہل سنت کے ایک مخصوص فرقہ کے نزدیک عید میلاد النّبی منانا جائز ہے اور وہ اس 
پر لاتعداد بے وجہ کے دلائل دینے کی کوشش کرتے ہیں۔

عید میلاد النّبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عید ثالث کا نام بھی دیا جاتا ہے- لیکن عام آدمی بھی جانتا ہے کہ عید کےدن میں اختلاف نہیں ہوتا- مثلا عید الفطر یکم شوال کو ہوتی ہے، کبھی کسی نے نہیں کہا کہ اس مرتبہ عید 5 شوال کو ہوگی یا 28 رمضان کو ہوگی، ایسے ہی عید الاضحی 10 ذوالحج کو ہوتی ہے، کبھی کسی نے نہیں کہا کہ اس مرتبہ عیدالاضحی 4 یا 5 ذوالحج کو منائيں گے- اس لیے کہ ان عیدوں کا اسلام نے ایک دن متعین فرمایا ہے- شروع اسلام سے لےکر آج تک ان دونوں میں اختلاف نہیں ہوا، اختلاف اس میں ہوتا ہے جسے بعد میں لوگ اپنی طرف سے شروع کردیں- جب ہر گروہ اپنا علحیدہ دن مقرر کرے اس لیے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہ دن مقرر نہیں کیا ہوتا یہی حال اس من گھڑت عید میلادالنّبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے کہ انسان شش و پنج میں پڑجاتا ہے کہ وہ اگر اسے عید سمجھ لے تو کس دن منائے! اب غور فرمائیے ہر گروہ کا علحیدہ دن ہے- اگر سارے عیدیں منانا شروع کردیں تو ربیع الاول کا مہینہ عیدوں میں ہی گذر جائے-
اس اختلاف کو ہم مختصرا آپ کے سامنے ذکر کرتے ہیں-

5 ربیع الاول

امیر الدین نے "سیرت طیبہ" میں لکھا ہے:
" قول مختار یہ ہے کہ 5 ربیع الاول کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے-"
(امیر الدین، سیرت طیبہ، ص:76، مدرسہ تعلیم القرآن نواں شھر ملتان)

8 ربیع الاول

حافظ ابن قیم متوفی 751ھ نے لکھا ہے کہ:
" جمھور قول یہ ہے کہ 8 ربیع الاول کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی-"
(زادلمعاد ج، ص:68 مترجم رئيس احمد جعفری)

9 ربیع الاول

برصغیر میں اکثر سیرت نگاروں نے 9 ربیع الاول کویوم ولادت قرار دیا ہے- چند ایک حوالہ جات پیش خدمت ہیں:
٭ ہمارے نبی موسم بہار، دو شنبہ کے دن 9 ربیع الاول کو پیدا ہوئے-
(رحمۃ للعالی،ن قاضی سلیمان منصور پوری ج ص:72)

٭ 9 ربیع اول 571ھ بروز سوموار از صبح صادق اور قبل طلوع آفتاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے-
( تاریخ اسلام، اکبر نجیب آبادی حصہ اول ص:72)

٭ عبداللہ کی وفات کے چند مہینوں بعد عین موسم بہار اپریل 571ھ، 9 ربیع الاول کو عبداللہ کے گھر فرزند تولد ہوا- بوڑھے اور زخم خوردہ عبدالمطلب پوتے کی پیدائش کی خبر سن کر گھر آئے اور نومولود کو خانہ کعبہ لیجا کر اس کے لیے دعا مانگی-
( تاریخ اسلام، معین الدین ندوی ج ص: 25)

٭ 20 اپریل 571ھ مطابق 9 ربیع الاول دوشنبہ کی مبارک صبح قدسی آسمان پر جگہ جگہ سرگوشیوں میں مصروف تھے کہ آج دعائے خلیل اور نویدمسیحا مجسم بن کر دنیا میں ظاہر ہوگی-
(محبوب خدا، چودھری افضل حق، ص:20)

٭ اسی طرح ابوالکلام آزاد نے "رسول حرمت" اور ڈاکٹر اسرار احمد نے "رسول کامل" صفحہ 23 اور حفظ الرحمن سوہاری نے قصص القرآن جلد 4 میں 9 ربیع الاول کو پیدائش کا دن ٹھرایا-

10 ربیع الاول

ماہ ربیع الاول کی 10 راتیں گذریں تھیں کہ دوشنبہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے-
(الطبقات الکبرای لابن سعد، 100 مطبوعۃ بیروت-)

12 ربیع الاول

٭ واقعہ فیل کے پچپن روز کے بعد 12 ربیع الاول مطابق 20 اپریل 571ھ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی-
(محمود احمد رضوی – دین مصطفی، ص:84)

٭ 12 ربیع الاول کو حضور صلی اللہ علیہ مسلم رونق افروز گیتی ہوئے-
(ضیاء القرآن، پیر کرم شاہ الازہری، ج 5، ص:665)

٭ 12 ربیع الاول کی صبح صادق کے وقت مکہ مکرمہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی-
(تبرکات صدر الافضل، ص:199، مرتبہ حسین الدین سواد اعظم لاہور-)

17 ربیع الاول

شیعہ کے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا دن 17 ربیع الاول ہے- چنانچہ سید انجم الحسن کراروی نے اپنی کتاب "چودہ ستارے" کے صفحے 28، 29 پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا دن17 ربیع الاول ذکر کیا ہے-

اسی طرح مسعود رضا خاکی نے مصمون "چودہ معصومین" میں لکھا ہے کہ فقہ جعفریہ کے علماء کے نزدیک طے شدہ ولادت 17 ربیع الاول ہے-
(البشر، ماہنامہ لاہور ھادی انسانیت نمبر فروری 1980ہ، ص:50)

نوٹ: اب میلادی بھائی سب سے پہلے آپس میں متفق ہوجائيں پھر ہم سے بات کریں کہ میلاد النّبی منانا جائز ہے کہ نہیں-
والسلام علیکم

حوالہ : اسلامی مہینے اور بدعات مروجہ از تفضیل احمد صیغم ایم اے

عید میلاد النبی منانے والوں کے دلچسپ تضادات

عید میلاد النبی منانے والوں کے دلچسپ تضادات

عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے والے عیدمیلاد کے دلائل پر بات کرتے ہیں تو متضاد باتیں‌سننے کوملتی ہیں :
مثلا:
1:(سنت ثابتہ یا بدعت حسنہ)
میلادی ایک طرف کہتے ہیں کہ عید میلاد منانے کاثبوت قران وحدیث دونوں میں ہے 
دوسری طرف جب ان سے یہ پوچھا جائے کہ خیرالقرون میں تواس کارواج نہ تھا توکہتے ہیں گرچہ یہ بعد کی ایجاد ہے یعنی بدعت ہے لیکن ’’بدعت حسنہ ‘‘ہے

عرض ہے کہ یہ دونوں‌ باتیں ایک دوسرے کے خلاف ہیں، اگرکتاب وسنت سے یہ عید ثابت ہے تو پھراسے بدعت حسنہ نہیں بلکہ سنت ثابتہ کہا جائے گا، اوراگریہ‌’’ بدعت حسنہ ‘‘ یعنی بعد کی ایجاد ہے تو پھر کتاب وسنت سے اس کا ثبوت ممکن ہی نہیں ہے۔

2:(کبھی صراحت کی شرط اورکبھی اس سے نظرپوشی)
جب ہم میلادیوں کے سامنے کتاب وسنت سے ردبدعت کے نصوص پیش کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ عید میلاد بھی بدعت ہے لہذا کتاب وسنت کے ان نصوص کی روشنی میں مردودہے تو یہ میلادی کہتے ہیں کہ کتاب وسنت میں عید میلاد کے الفاظ کے ساتھ اس کا رد پیش کرو۔
لیکن جب یہ عید میلاد کے جواز پر قرانی آیات واحادیث‌ پیش کرتے ہیں تویہ شرط بھول جاتے ہیں !

کیا کوئی ایک آیت یا کوئی ایک حدیث‌ ایسی پیش کی جاسکتی ہے جس میں عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کے ساتھ اس کے جواز کی بات کہی گئی ہو؟

3:(کبھی مقلد اورکبھی غیر مقلد )
میلادی حضرات کہتے ہیں کہ ہم مقلد ہیں اورہمارے اصل دلائل ہمارے امام کے اقوال ہیں ۔
لیکن جب عید میلاد کی بات آتی ہے تواس موقع پر یہ غیر مقلد بن جاتے ہیں ! 
کیا کوئی شخص ائمہ اربعہ رحمہم اللہ میں سے کسی ایک سے بھی عید میلاد کے جواز کا قول پیش کرسکتا ہے؟

4:(کبھی جاہل مطلق اور کبھی مجتھد اعظم )
میلادی ایک طرف کہتے ہیں کہ ہم کتاب وسنت سے براہ راست مسائل اخذ نہیں کرسکتے ،اس لئے امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کرتے ہیں ۔
دوسری طرف جب عید میلاد کی بات آتی ہے تو براہ راست قران وحدیث‌ لیکر اجتہاد کرنے اورفتوی دینے بیٹھ جاتے ہیں ، اورقران وحدیث‌سے ایسے مسائل ڈھونڈ نکالتے ہیں جن تک ان کے امام کی بھی رسائی نہیں ہوسکی !

کیا ہم پوچھ سکتے ہیں کہ ایک جاہل مقلد کوفتوی دینے کا اختیار کس نے دیا؟

5:(نور یا بشر)
میلادی کبھی ایسی باتیں کرتے ہیں جن سے لازم آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی تاریخ‌ پیدائش ہے ہی نہیں ، چنانچہ یہ حضرات ایک خودساختہ حدیث‌ پر ایمان رکھتے ہیں کہ ’’ اول ما خلق اللہ نوری‘‘ یعنی اللہ نے سب سے پہلے میرے نور کوپیدا کیا۔
جب تمام مخلوقات میں سب سے پہلے نور نبی (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو پیدا کیا گیا تواس وقت سورج وچاند بھی پیدا نہ ہوئے تھے اورتاریخیں سورج اورچاند ہی سے بنتی ہیں ، لہذا اس عقیدہ کی بنیاد پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی تاریخ پیدائش ہوہی نہیں‌سکتی ! 
لہذا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی تاریخ پیدائش ہی نہیں ہے توپھر تاریخ پیدائش منانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

اوراگریہ کہا جائے کہ دنیا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم والدین کے ذریعہ جس تاریخ کوآئے وہی تاریخ پیدائش ہے ۔
توعرض ہے کہ والدین کے ذریعہ دنیا میں پیدا ہونا یہ تو بشر کی خوبی ہے اوراہل بدعت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوبشرمانتے ہی نہیں بلکہ نور مانتے ہیں ، لہٰذا اگر نور، والدین کے مراحل سے گذرے تواسے ایک دوسری شکل اپنا نا کہہ سکتے ہیں پیداہونا تو نہیں کہہ سکتے ، کیونکہ نور کی شکل میں پیدائش تو سب سے پہلے ہوچکی ہے۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ میلادی حضرات عید میلادکے جوازوغیرہ سے متعلق متضادقسم کی باتیں کرتے ہیں لہذا ان کی ساری کی ساری باتیں ایک دوسرے سے ٹکراکر ساقط ہوگئیں ۔

واضح رہے کہ ان کے نزدیک قرآن کی بعض آیات دوسری آیات سے ٹکرانے کے سبب دونوں قسم کی آیات ساقط ہوگئیں (خلاصۃ الافکار شرح مختصر المنار:ص:197،198)
عرض ہے کہ جب ان کے بقول (نعوذباللہ ) قران کی آیات دوسری آیات سے ٹکراجائیں تودونوں قسم کی آیات ساقط ہوجاتیں ہیں ،توپھران کے اپنے اقوال اگرانہیں کے دوسرے اقوال سے ٹکراجائیں توان کا کیا حشرہونا چاہئے، اس کا اندازہ خود لگالیں۔
ہم اگرعرض کریں گے توشکایت ہوگی۔

Saturday 7 January 2012

سرسید احمد خان قومی رہنما یا انگریز کا زر خرید ایجنٹ


سرسید احمد خان قومی رہنما یا انگریز کا زر خرید ایجنٹ

سرسید احمد خان  ہمارے ملک کے بہت سے لوگوں کے لیےانتہائی محترم ہیں جبکہ کچھ کے نزدیک وہ دنیا کی ایک مخصوص "برادری" کے متحرک فرد تھے،  خود  ہمارے سامنے سکولوں کالجوں میں سرسید احمدخان کو ایک عظیم قائدکے طور پر پیش کیا گیا، آج بھی  انکی تصویر ہر سکول کالج میں لٹکی نظر آتی ہے،   جسے ہماری قوم کا ہر بچہ آتے جاتے دیکھتا ہے اور صبح شام ان کی عظمت کا قائل ہوتا جاتا ہے ۔کئی دفعہ ان کی معتبر شخصیت اور تاریخی کارناموں  پر لکھنے کا ارادہ کیا  لیکن  توفیق نہ ہوسکی ۔ چند دن پہلے  خان صاحب کی ایک کتاب پڑھنے کو ملی جس میں خود خان صاحب نے اپنا نظریہ، اپنے خیالات و افکار نہایت خوبی سے بیان فرمائے ہیں۔ اس کتاب کی مدد سے ان پر کچھ لکھنے کا ارادہ  اس لیے پختہ ہوتا گیا کہ ایک متنازع شخصیت کے متعلق فیصلہ کرنا  عام طور پر کافی مشکل ہوتا ہے لیکن یہاں  انکی اپنی تحریر جو بدست خود بقلم خود تھی ’ ہاتھ آگئی تھی۔ آئیے دیکھتے ہیں خود وہ اپنی تحریروں کے بین السطور میں اپنا تعارف کس انداز میں کرواتے ہیں۔ جناب کی تحریر کردہ کتاب " مقالات سرسید" کے مندرجات اس مخمصے سے نکلنے میں یقینا ہماری مدد کریں گے۔

۔1857 کی جنگ آزادی مسلمانان برصغیر کی طرف سے فرنگی سامراج کے خلاف جہاد کی شاندار تاریخ ہے۔ مسلمانان برصغیر اس پر جتنا فخر کریں کم ہے کہ انہوں نے بے سروسامانی کے عالم میں دنیا کے سب سے مضبوط ترین اور ظالم ترین استعمار سے ٹکر لی اور اسے ہلا کررکھ دیا۔ ایسی  قربانیوں کے تسلسل سے ہی ہم نے آزادی کا سورج طلوع ہوتے دیکھا، لیکن سرسید صاحب اس جدوجہد پر خاصے ناراض اور برہم ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ فرماتے ہیں

" جن مسلمانوں نے ہماری سرکار کی نمک حرامی اور بدخواہی کی، میں ان کا طرف دار نہیں۔ میں ان سے بہت ذیادہ ناراض ہوں اور حد سے ذیادہ برا جانتا ہوں، کیونکہ یہ ہنگامہ ایسا تھا کہ مسلمانوں کو اپنے مذہب کے بموجب عیسائیوں کے ساتھ رہنا تھا، جو اہل کتاب اور ہمارے مذہبی بھائی بند ہیں، نبیوں پر ایمان لائے ہوں ہیں ، خدا کے دیے ہوئے احکام اور خدا کی دی ہوئی کتاب اپنے  پاس رکھتے ہیں، جس کا تصدیق کرنا اور جس پر ایمان لانا ہمارا عین ایمان ہے۔ پھر اس ہنگامے میں جہاں عیسائیوں کا خون گرتا، وہیں  مسلمانوں کا خون گرنا چاہیے تھا۔ پھر جس نے ایسا نہیں کیا، اس نے علاوہ نمک حرامی اور گورنمنٹ کی ناشکری جو کہ ہر ایک رعیت پر واجب ہے ’کی ، اپنے مذہب کے بھی خلاف کیا۔ پھر بلاشبہ وہ اس لائق ہیں کہ ذیادہ تر ان سے ناراض ہواجائے:

انگریز سرکار کے متعلق  سرسید صاحب کے  دلی خیالات خود انکی زبانی سنتے ہیں :۔

" میرا ارادہ تھا کہ میں اپنا حال اس کتاب میں کچھ نہ لکھوں کیونکہ میں اپنی ناچیز اور مسکین خدمتوں کو اس لائق نہیں جانتا کہ ان کو گورنامنٹ  (فرنگی)کی خیر خواہی میں پیش کروں۔ علاوہ اس کے جو گورنامنٹ نے میرے ساتھ سلوک کیا وہ درحقیقت میری مسکین خدمت کے مقابل میں بہت ذیادہ ہے اور جب میں اپنی گورنمنٹ کے انعام و اکرام کو دیکھتا ہوں اور پھر اپنی ناچیز خدمتوں پر خیال کرتا ہوں تو نہایت شرمندہ ہوتا ہوں اور کہتا ہوں کہ ہماری گورنمنٹ نے مجھ پر اسے سے ذیاہ احسان کیا ہے جس لائق میں تھا، مگر  مجبوری ہے کہ اس کتاب کے مصنف کو ضرور ہے کہ اپنا حال اور اپنے خیالات کو لوگون پر ظاہر کرے ، تاکہ سب لوگ جانیں کہ اس کتاب کے مصنف کا کیا حال ہے ؟ اور اس نےاس ہنگامے میں کس طرح اپنی دلی محبت گورنمنٹ کی خیر خواہی میں صرف کی ہے ؟" ۔

اس کے عوض میں جناب کو کیا ملا، پڑھیے





مسکین خدمت کے مقابلے میں حد سے ذیادہ انعام و اکرام کے اقرار کی روداد تو آپ نے " بقلم خود" سن لی۔ انگلش گورنمنٹ سے محبت و یگانگت اور رفاقت و خیر خواہی کا سلسلہ قائم کروانے کے لیے خاں صاحب عمر بھر کوشاں رہے۔ 1857 کا یادگار واقعہ رونما ہوا  جس میں مسلم اور غیر مسلم کی تفریق کیے بغیر  تمام   محب وطن ہندوستانیوں نے ملی فریضہ سمجھ کر جوش وخروش سے حصہ لیا۔ اس موقع پر خاں صاحب کا رویہ لائق مطالعہ ہے۔ ادھر مجاہدین  مسلط  سامراج کے خلاف زندگی موت کی جنگ لڑ رہے تھے اور ہندوستان کی آزادی کے لیے سردھڑ کی بازی لگائے تھے، ادھر ہمارے مصلح قوم اس کو " غدر" قرار دیتے ہوئے کیا کارگزاری سنا تے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:

" جب غدر ہوا، میں بجنور میں صدر امین تھا کہ دفعتا سرکشی میرٹھ  کی خبر  بخنور میں پہنچی۔ اول تو ہم نے جھوٹ جانا، مگر یقین ہو اتو اسی وقت سے میں نے گورنمنٹ کی خیر خواہی اور سرکار کی وفاداری پر چست کمر باندھی ۔ ہر حال اور ہر امر میں مسٹر الیگزینڈر شیکسپیئر کلکٹر و مجسٹریٹ بجنور کے شریک رہا۔ یہاں تک کہ ہم نے اپنے مکان پر رہنا موقوف کردیا"۔

سبحان اللہ ! یہ تو تھا جذبہ جاں سپاری۔  اس سے بھی آگے بڑھ کر حال یہ تھا کہ خاں صاحب اپنی جان کو اتنا ہلکا اور  گوری چمڑی والے گماشتے فرنگیوں کو اتنا قیمتی سمجھتے تھے کہ خود کو ان پر بے دریغ نچھاور کرنے کے لیے تیار تھے۔ ارشاد فرماتے ہیں :

" جب دفعتا 29 نمبر کی کمپنی سہارن پور سے بجنور میں آگئی ۔ میں اس وقت ممدوح کے پاس نہ تھا۔ دفعتا  میں نے سنا کہ باغی فوج آگئی اور صاحب کے بنگلہ پر چڑھ گئی۔ میں نے یقین جان لیا کہ سب صاحبوں کا کام تمام ہوگیا۔ مگر میں نے نہایت بری بات سمجھی کہ میں اس حادثہ سے الگ رہوں۔ میں ہتھیار سنبھال کر روانہ ہوا اور میرے ساتھ جو لڑکا صغیر سن تھا ، میں نے اپنے آدمی کو وصیت کی : " میں  تو مرنے جاتا ہوں۔، مگر جب تو میرے مرنے کی خبر سن لے تب اس لڑکے کو کسی امن کی جگہ پہنچا دینا"۔ مگر ہماری خوش نصیبی اور نیک نیتی کا یہ پھل ہوا کہ اس آفت سے ہم بھی اور ہمارے حکام بھی سب محفوظ رہے ، مگر مجھ کو ان کے ساتھ اپنی جان دینے میں کچھ دریغ نہ تھا" ۔

انگریز حکام کی طرف سے خاں صاحب  پر یہ کرم نوازیاں محض وقتی نہ تھیں، انہیں باقاعدہ پنشن کا مستحق سمجھا گیا اور یوں وہ ریٹائرڈ ہونے کے بعد بھی خدمت اور خیر خواہی کا صلہ دشمنان  ملت سے پاتے رہے۔ ثبوت حاضر ہیں:

" دفعہ پنجم رپورٹ میں ہم لکھ چکے ہیں کہ ایام غدر میں کارگذاری سید احمد خان صاحب صدر امین کی بہت عمدہ ہوئی، لہذا ہم نے ان کے واسطے دوسو روپیہ ماہواری کی پنشن کی تجویز کی ہے۔ اگرچہ یہ رقم ان کی نصف تنخواہ سے ذیادہ ہے، مگر ہمارے نزدیک اس قدر روپیہ ان کے استحقاق سے ذیادہ نہیں ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ آپ بھی ہماری تجویز کو مسلم رکھیں۔ اس واسطے کہ یہ افسر بہت لائق اور قابل نظر عنایت ہے۔ دستخط شیکسپیئر صاحب، مجسٹریٹ کلکٹر" 
۔(مقالات سرسید، صفحہ 54

ہماری روشن خیال" برادری" کے ہم خیال افراد  کی ایک بڑی علامت جہاد کا انکار ہے۔ کیونکہ جہاد یا اس سے متعلق کوئی چیز انگریز سرکار کو کسی قیمت گوارہ نہیں ۔ خان صاحب اسی مشن پر  اس فریضہ عادلہ کی تردید میں اپنے ہم عصر کذاب اکبر مرزا قادیانی کو بھی پیچھے چھوڑ گئے۔ فرماتے ہیں :۔

" ایک بڑا الزام جو ان لوگوں نے مسلمانوں کی طرف نہایت بے جا لگایا، وہ مسئلہ جہاد کا ہے حالانکہ کجا جہاد اور کجا بغاوت۔ میں نہیں دیکھتا کہ اس تمام ہنگامہ میں کوئی خدا پرست آدمی یا کوئی سچ مچ کا مولوی شریک ہوا ہو۔ بجز ایک شخص کے۔ اور میں نہیں جانتا کہ اس پر کیا آفت پڑی ؟  شاید اس کی سمجھ میں غلطی پڑی کیونکہ خطا ہونا انسان سے کچھ بعید نہیں۔ جہاد کا مسئلہ مسلمانوں میں دغا اور بے ایمانی اور غدر اور بے رحمی نہیں ہے۔ جیسے کہ اس ہنگامہ میں ہوا۔ کوئی شخص بھی اس ہنگامہ مفسدی اور بے ایمانی اور بے رحمی اور خدا کے رسول کے احکام کی نافرمانی کو جہاد نہیں کہہ سکتا"۔
(مقالات سرسید، صفحہ 93، 94)

جہاد اور مجاہدین کے خلاف دل کی بھڑاس نکالنے، جہاد آزادی میں علمائے کرام اور مجاہدعوام کی قربانیوں کی نفی کرنے اور جہاد کے فلسفے کو داغدار کرنے کے بعد وہ مسلمانان ہند کو انگریز کی وفاداری کا دم بھرنے کی تلقین کرتے   ہیں۔ فرماتے ہیں :۔

" ہماری گورنمنٹ انگلشیہ نے تمام ہندوستان پر دو طرح حکومت پائی ۔ یا یہ سبب غلبہ اور فتح یابموجب عہدوپیمان تمام مسلمان ہندوستان کے ان کی رعیت ہوئے۔ ہماری گورنمنٹ نے انکو امن دیا اور تمام مسلمان ہماری گورنمنٹ کے امن میں آئے۔ تمام مسلمان ہماری گورنمنٹ سے اور ہماری گورنمنٹ بھی تمام مسلمانوں سے مطمئن ہوئی کہ وہ ہماری رعیت اور تابعدار ہوکر رہتے ہیں۔ پھر کس طرح مذہب کے بموجب ہندوستان مسلمان گورنمنٹ انگلشیہ کے ساتھ غدر اور بغاوت کرسکتے تھے کیونکہ شرائط جہاد میں سے پہلی ہی شرط ہے کہ جن لوگوں پر جہاد کیا جائے ان میں اور جہاد کرنے والوں میں امن اور کوئی عہد نہ ہو "   (مقالات سرسید، صفحہ 94

آہستہ آہستہ وہ اپنی رو میں بہتے ہوئے اتنے آگے چلے جاتے ہیں کہ مفتی اور مصلح کا منصب سنبھال لیتے ہیں۔ تمام علما اور مجاہدین، تمام محب وطن ہندوستانی انگریز کے خلاف سردھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھے، جان مال لٹا رہے تھے اور خان صاحب انہیں مبلغ اعظم اور مصلح وقت بن کر سمجھا رہے تھے:۔


یعنی انگریز کی بدعہدی کے باوجود اس سے بغاوت جائز   نہیں۔ مسلمان   انگریز کی وفاداری واطاعت کریں ورنہ اپنا ملک چھوڑ دیں، اپنے حق کے لیے انگریز سے لڑنا حرام ہے۔ اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ جو تعلیمی تحریک انہوں نے برپا کی وہ انگریز ی حکومت کے لیے بابو پیدا کرنے کی کوشش تھی یا مسلمان قوم کو دنیا کی دیگر اقوام کے مقابلے میں کھڑا کرنے کی " عظیم خدمت" تھی؟؟؟

اس کے بعد جنگ آزادی کے مجاہدین اور علمائے کرام پر  نام نہاد وفا اور خودساختہ عہد کی پاسداری  نہ کرنے کاغصہ نکالتے ہوئے فرماتے ہیں:۔

" اس ہنگامہ میں برابر بدعہدی ہوتی رہی۔ سپا نمک حرام عہد کر کر پھر گئی۔ بدمعاشوں نے عہد کرکر دغا سے توڑ ڈالا اور پھر ہمارے مہربان متکلمین اور مصنفین کتب بغاوت  فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کے مذہب میں یوں ہی تھا۔
 مقالات سرسید، صفحہ 99)۔)

 خان صاحب نے اس یادواشت نما کتابچے میں اور بہت کچھ لکھا ہے کہاں تک پیش کیا جائے۔ اس ڈر سے کہ مضمون کی طوالت عموما قارئین میں بددلی پیدا کرتی ہے،آخری پیرگراف پیش کرتے ہیں، ملاحظہ فرمائیں سرسید مسلمانوں کو تہذیب سکھلا رہے ہیں:۔

" اور ایک بات سنو کہ یہ تمام بغاوت جو ہوئی وجہ اسکی کارتوس تھا۔ کارتوس میں کاٹنے سے  مسلمانوں کے مذہب کا کیا نقصان تھا ؟ہمارے مذہب میں اہل کتاب کاکھانا درست ہے، انکا ذبیحہ ہم پر حلال ہیں (چاہیں سور کھلادیں: راقم) ہم فرض کرتے ہیں کہ اس میں سور کی چری ہوگی۔ تو پھر بھی ہمارا کیا نقصان تھا۔ ہمارے ہاں شرع میں ثابت ہوچکا ہے کہ جس چیز کی حرمت اور ناپاکی معلوم نہ ہو، وہ چیز حلال اور پاک کا حکم رکھتی ہے( کارتوس میں تو معلوم تھی جناب: راقم) اگر یہ بھی فرض کرلیں کہ اس میں یقینا سور کی چربی تھی تو اس کے کاٹنے سے بھی مسلمانوں کا دین نہیں جاتا۔ صرف اتنی بات تھی کہ گناہ ہوتا، سو وہ گناہ شرعا بہت درجہ کم تھا، ان گناہوں سے جو اس غدر میں بدذات مفسدوں نے کیے"۔

گویا سور جیسی ناپاک چیز کا استعمال اتنا ذیادہ گناہ نہیں جتنا انگریز جیسے غمخوار حاکم کے خلاف آواز اٹھانا ہے۔ اس قسم کی تحریروں سے خان صاحب کی تعلیمی تحریکوں کا ہدف اور اصلاحی تحریروں کا اصل مشن سامنے آجاتا ہے اور اس میں شک وشبہ نہیں رہتا کہ مسلمانان برصغیر کے دلوں سے جذبہ جہاد ختم کرنے کا ہدف اور انہیں جدید تعلیم کے نام پر انگریز کی لامذہب تہذیب میں رنگنے کا مشن انہوں نے کس لگن سے انجام دیا۔ انکی " تحریک علی گڑھ" میں سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ کے نام پر یورپ کے فرسودہ اور ناکارہ نظریات ہندوستان کے آزادی پسندوں کو پڑھائے جاتے رہے۔یہی وجہ ہے کہ ہندوستان ہو یا پاکستان دونوں ممالک کے باشندے آج تک تعلیمی ترقی کے نام پر یورپ کا تعاقب کرتے کرتے نڈھال ہوچکے ہیں، لیکن ترقی ابھی تک سراب ہی ہے۔ یہ تو برصغیر کے باشندوں کی ذاتی ذہانت و قابلیت ہے کہ ان میں سے کچھ لوگوں نے غیر معمولی کامیابیاں حاصل کرلیں ورنہ   جدید تعلیم یافتہ حضرات تو  محض بابو گیری سیکھ کر یورپ کی نقالی تک محدود رہے۔اس جدید ترقی سے ہمیں بس اتنا حصہ ملا ہے کہ ہمارے ذہین دماغ اور قابل نوجوان امریکا و یورپ کی جامعات اور تحقیقی اداروں سے پڑھ کر مغربی زندگی کی چکا چوند کے سحر میں ایسے آئے کہ وہیں کے ہوکے رہ گئے۔

سرسید کی تعلیمی تحریک کے سیل رواں میں خس و خاشاک کی طرح مشرق کے باسیوں کے بہنے کے باوجود  انکے حصے میں وہی پرانا مٹکا آیا، بلوریں جام تو ان کی پہنچ سے دور ہی رہے۔ مغربی محققین کے لیے جو تعلیم وتحقیق فرسودہ ہوجاتی ہے تو وہ ڈسٹ بن میں پھینکنے سے بچانے کے لیے ہمارے ہاں بھجوادیتے ہیں اور اصل ٹیکنالوجی اور اس کے حصول کے ذرائع کی ہوا نہیں لگنے دیتے، لہذا ہمارے ہاں سائنس نے کبھی رواج پایا  نہ ہی ہمارے تعلیمی اداروں میں تحقیق کا مزاج بنا۔ البتہ ہماری نسل کی نسل  "ہمٹی ڈمٹی" ٹائپ کے نیم مشرقی نیم مغربی ہندوستانیوں میں تبدیل ہوگئی اور بابوؤں کی کھیپ کی کھیپ پیدا ہوکر شکل وصورت کے ہندوستانی اور فکرو طرز زندگی کے لحاظ سے انگلستانی بنتے گئے۔ اس  سارے کارنامہ کا کریڈٹ  خاں صاحب کو جاتا ہے جن کی دلی خواہش پوری ہوئی ان کے تعلیمی اداروں نے  انگریز کی حکومت کے لیے وفادار کلرک اور بابو  تیار کر کر کے فراہم کیے ، یہ وفادار ملازم انگریز کی غلامانہ اطاعت تو کرسکتے تھے، اس سے ٹکرانے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔

تحریکات سیاسی ہوں یا تعلیمی۔۔۔۔ ان کو ان شخصیات کے نظریات کے تناظر میں پرکھا جاتا ہے جنہوں نے انہیں برپا کیا اور کسی شخصیت کے نظریات کی  ترجمانی اس کی اپنی تحریرات سے ذیادہ بہتر کوئی نہیں کرسکتا۔ اسی اصول کو سامنے رکھ کر ہم نے خاں صاحب کی برپا کردہ تحریک کو اس مضمون میں جانچنے اور پرکھنے کی کوشش کی  ، شاید کہ ہماری قوم حقیقت اور سراب کا فرق سمجھ لے، جدید تعلیم کو جدید تہذیب سے الگ 
کرکے دیکھنا شروع کردے اور ترقی کی خواہش میں مغرب کی ایسی نقالی نہ کرے کہ اپنی چال بھول جائے۔

سرسید احمد خان کے غیر دینی کارنامے


سرسید احمد خان کے غیر دینی کارنامے

صحابہ کے عہد اور خیر القرون کے بابرکت زمانے تک سیدھا سادہ مطابق فطرت دین تھا۔ واضح  عقائد اور خلوص اور بے ریائی کی عبادت تھی، اصول و اعتقادی مسائل میں کبھی کوئی شخص عقلی شک و شبہ ظاہر کرتا  بھی تو قرآن و حدیث کے احکام و نصوص بتا کر خاموش کردیا جاتا، نہ کسی کا عقیدہ بدلتا  اور نہ کسی کے زہد و تقوی میں فرق آتا۔ مگر تعلیمات نبوت کا اثر جس قدر کمزور ہوتاگیا۔ اسی قدر وسوسہ ہائے شیطانی نے قیل و قال اور چون و چراکے شبہے پیدا  کرنا شروع کر دیے۔ چنانچہ  واصل بن عطا ، ، عمرو بن عبید جیسے عقل پرست لوگ سامنے آئے۔ یہ لوگ معتزلہ کے نام سے مشہور ہوئے۔جب ہارون و مامون کے عہد میں فلسفہ یونان کی کتابیں بہ کثرت ترجمہ  ہوئیں تو معتزلہ کو اپنے خیالات و شبہات کے لیے فلسفی دلیلیں مل گئیں اور انہوں نے ایک نیا عقلی اسلامی فن ایجاد کیا جس کا نام علم " کلام" قرار دیا۔۔  ان لوگوں نے دینی عقائد واحکام میں عقل کو معیار بنایا اور مبہا  ت اور مخفی علوم میں اپنی عقل لڑا کر تشریحات اور تاویلیں کرنی شروع کردیں۔معتزلہ کی اس  عقلیت پسندی سے قرآنی ہدایت کے نتیجہ خیز ہونے کااعتمادزائل ہونے لگا، جن مسائل کا حل صرف وحی سے میسر آسکتا تھاان کا حل انسانی شعور اور عقل  سے  تلاش کرنے سے وہ وحی کی ہدایت سے  محروم ہوگئے۔یوں  وحی کے ساتھ نبوت کی احتیاج بھی ختم ہوتی ہوئی نظر آئی ،تاویل کا فن حیلہ طرازیوں میں تبدیل ہونے لگا،ذات باری سے متعلق مجرد تصور توحید نے جنم لیا،ظاہر شریعت اورمسلک سلف کی علمی بے توقیری اور ان پر بے اعتمادی پیدا ہونے لگی،قرآن مجید کی تفسیراورعقائداسلام،ان فلسفی نمامناظرین کے لیے بازیچہٴ اطفال بنے جارہے تھے،مسلمانوں میں ایک خام عقلیت اورسطحی فلسفیت مقبول ہورہی تھی، یہ صورت حال دینی وقاراورسنت کے اقتدار کے لیے سخت خطرناک تھی ۔شروع میں علما نے وہی طریقہ تعلیم رکھا کہ علوم وحی سمجھ آئیں یا نہ آئیں ہم نے ان پر غیبی ایمان اور اعتقاد رکناا ہے۔ لیکن جب فسا د ذیادہ بڑھنے لگا اور  معتزلہ کی   عقلی دلیلوں اور وساوس  نے عوام کے ساتھ حکمران طبقہ کو بھی متاثر کر لیا اور مامون رشید، معتصم بااللہ، متوکل علی اللہ، واثق بااللہ  جیسے حکمران بھی معتزلہ کے مسلک کو اختیار کرگئے تو علما نے مجبورا ان معتزلہ کے  ساتھ عقلی مباحثے اور مناظرے شروع کیے۔ چنانچہ امام احمد بن حنبل، امام ابوالحسن اشعری،  ابو منصور ماتریدی رحمہ اللہ  جیسے لوگ سامنے آئے اور معتزلہ کی ہر دلیل کا جواب دیا ، امام احمد بن حنبل کے  فتنہ  خلق قرآن کے مناظرے مشہور ہیں جن میں معتزلہ کو بری طرح شکست ہوئی  ۔ 
بعد میں معتزلہ مختلف فرقوں اور ناموں سے مشہور ہوئے مثلاواصلیہ، ہذیلیہ ، نظامیہ وغیرہ ۔انگریز برصغیر میں آئے تو  مختلف  خوشنما   اصطلاحیں  اور نام متعارف کروائے گئے، اعتزال نےبھی  ایک نئے خوبصورت  نام سے دنیا کو اپنی صورت دکھائی ،چنانچہ بے دینی، الحاد اور   عقل پرستی کو روشن خیالی کا نام دیا گیا اور اسکے  نام پر تاریک ضمیری‘ ضمیر فروشی اور جمہور علماء کی راہ سے انحراف کیا جانے لگا ۔ آج بھی روشن خیال سارا زور اس پر خرچ کررہے ہیں  کہ دینی عقائد واعمال کو  یا عقل کے ترازو میں پیش کردیں‘ ورنہ کوئی توجیہ اپنی طرف سے کرکے اصل حکم کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیں۔

برصغیر میں انگریزوں کے دو منتخب احمد  :۔
انگریزوں کو  برصغیر میں اپنا قبضہ جمانے کے دوران  سب ذیادہ علما اور دیندار طبقے کی طرف سےمزاحمت کا سامنا  کرنا پڑا، اس لیے انہوں نے  عوام میں دین  اسلام کے بارے میں کنفیوزین پیدا کرنے والے لوگوں کی بھرپور سپورٹ کی  ۔ اور چند لوگوں کو خصوصی طور پر منتخب کیا گیا۔ ایک  مرزا احمد کو کچہری سے اٹھایا منصب نبوت پر بٹھا دیا، ایک اور سید احمد کو کلرکی کے درجے سے ترقی دی  اور سرسید احمدخان بنا دیا۔ مرزا غلام قادیانی نے جھوٹی نبوت کا سہارا لے کر جہاد کا انکار کیا اور سر سید احمد خان  نے نا صرف  احادیث،  معجزات‘ جنت‘ دوزخ اور فرشتوں کے انکار پر گمراہ کن تفسیر اور کتابیں  لکھیں بلکہ برصغیر کے مسلمانوں کو دینی تعلیم کے مقابلے میں فرنگی نظام تعلیم سے متعارف کروایا۔ دونوں انگریزوں سے خوب دادِ شجاعت لے کر دنیاوی مفاد حاصل کئے اور اپنی آخرت کو تباہ وبرباد کرگئے  ۔
مرز ا قادیانی  کی " مذہبی"خدمات اور سرسید کی تعلیمی  اور سیاسی خدمات  کا تذکرہ تو ہم چند پچھلی تحریروں میں کرچکے ۔ہمارا آج کا موضوع سرسید احمد خان کی روشن خیال فرنگی اسلام کے لیے دی گئی خدمات ہیں۔موضوع تفصیل مانگتا ہے لیکن ہم کوشش کریں گہ کہ ضرورت کی ہی بات کی جائے۔
سرسید کے مذہب پر ایک نظر

تاریخی واقعات شاہد ہیں کہ انگریزوں نے مرزا غلام احمد قادیانی اور سرسید احمد خان سے وہ کام لئے جو وہ اپنے ملکوں کی ساری دولت خرچ کر کے بھی نہیں کر سکتے تھے۔  سرسید کا عقیدہ کیا تھا ؟   مرزاقادیانی لکھتا ہے کہ سرسید احمد  تین باتوں میں مجھ سے متفق ہے۔
  ایک یہ کہ عیسیٰ علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا نہیں ہوئے‘ بلکہ معمول کے مطابق ان کا باپ تھا۔ (واضح رہے کہ عیسائیوں کے ایک فرقے کا بھی یہ عقیدہ ہے کہ مریم علیہا السلام کے یوسف نامی ایک شخص سے تعلقات تھے جس کے نتیجہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام شادی سے قبل پیدا ہوئے۔ (نعوذ باللہ من ذلک) 
 دوسرے یہ کہ عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر نہیں اٹھایا گیا بلکہ اس سے ان کے درجات بلند کرنا مراد ہے۔ 
 تیسرے یہ کہ نبی آخر الزمان حضرت محمد کو روح مع الجسد معراج نہیں ہوئی‘ بلکہ صرف ان کی روح کو معراج ہوئی ہے۔

                                   سرسید کو موجودہ دور کا روشن خیال طبقہ نئے دور کا مجدّد اور مسلمانوں کی ترقی کا راہنما سمجھتے ہیں، ذیل میں سرسید کے افکار پر  کچھ تفصیل پیش خدمت ہے۔ یہ پڑھنے کے بعد آپ کےلیے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہوگا کہ سرسید بھی حقیقت میں  معتزلہ کے اسی سلسلہ کا فرد تھا اوراور اس کے روحانی شاگرد’ روشن خیال مذہب کے موجودہ داعی ڈاکٹر، فلاسفر، دانشور، پروفیسر ٹائپ لوگ  بھی معتزلہ کے اسی مقصد  یعنی دین میں شکوک وشبہات پیدا کرنے اور لوگوں کا ایمان چوسنے کا مشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اور ہمارے معاشرہ کا تھوڑا پڑھا لکھا اور آزاد خیال طبقہ ان کو اسلام کا اصل داعی سمجھ کر انہی کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزار رہا ہے۔

1 - سرسید کی چند تصنیفات :۔
۔سرسید نے اسلام کے نام پر بہت سارے مضامین‘ مقالات اور کتب تحریر کیں۔ ایک خلق الانسان( انسانی پیدائش سے متعلق لکھی ‘ جس میں ڈارون کے اس نظریہ کی تصدیق وتوثیق کی گئی ہے کہ انسان پہلے بندر تھا پھر بتدریج انسان بنا‘ یوں قرآن وسنت کی نصوص کا منکر ہوا)،  اسباب بغاوت ہند (۱۸۵۷ء میں مسلمانوں کے انگریزوں کے خلاف جہاد کو بغاوت کا نام دیا‘ اور انگریز سامراج کے مخالف علما اور مجاہدین پر کھلی تنقید کی)، تفسیر القرآن (پندرہ پاروں کی تفسیر لکھی ہے جو درحقیقت تحریف القرآن ہے۔  سرسید لکھتے ہیں
”میں نے بقدر اپنی طاقت کے خود قرآن کریم پر غور کیا اور چاہا کہ قرآن کو خود ہی سمجھنا چاہئے“۔ (تفسیر القرآن: ۱۹ ص:۲) 
چنانچہ سرسید نے اسلام کے متوارث ذوق اور نہج سے اتر کر خود قرآن پر غور کیا اور اسلام کے نام پر اپنے ملحدانہ نظریات سے فرنگیانہ اسلام کی عمارت تیار کرنا شروع کی‘ جس میں نہ ملائکہ کے وجود کی گنجائش ہے‘ نہ ہی جنت ودوزخ کا کہیں نشان ہے اور نہ جنات اور ابلیس کے وجود کا اعتراف ہے اور معجزات وکرامات تو ان کے نزدیک مجنونہ باتیں ہیں۔
خود سرسید کے پیرو کار ومعتقد مولانا الطاف حسین حالی‘ مؤلف مسدس (وفات دسمبر ۱۹۱۴ء) تحریر فرماتے ہیں کہ:
” سرسید نے اس تفسیر میں جابجا ٹھوکریں کھائی ہیں اور ان سے رکیک لغزشیں سرزد ہوئی ہیں“۔
 (حیات جاوید مطبوعہ آگرہ ص:۱۸۴)
2 - سرسید کی عربی شناسی:۔
غزوہٴ احد میں نبی اکرم ا کے سامنے کا ایک دانت مبارک شہید ہوا تھا‘ چنانچہ علامہ ابن کثیررحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:۔
”وان الرباعیة التی کسرت لہ علیہ السلام ہی الیمنیٰ السفلیٰ“ (السیرة النبویة ج:۳‘ ص:۵۷)
ترجمہ:․․․”نبی علیہ السلام کے سامنے کا داہنا نچلا دانت مبارک شہید ہوا تھا“۔
فن تجوید وقرأت کے لحاظ سے سامنے کے چار دانتوں میں سے ایک کو رباعی کہتے ہیں‘ جیسے لغت کے امام ابن منظور افریقی لکھتے ہیں:
رباعی کا لفظ ثمانی کی طرح ہے یعنی سامنے کے چار دانتوں میں سے ایک۔(لسان العرب ج:۸‘ ص:۱۰۸)

سرسید نے رباعی کا لفظ دیکھ کر اسے اربع (چار) سمجھ لیا ہے اور حکم لگا دیا کہ آپ کے چار دانت شہید ہوئے تھے“۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں: 
”آنحضرت کے چار دانت پتھر کے صدمہ سے ٹوٹ گئے“۔ (تفسیر القرآن ج:۴‘ص:۶۴) 
قارئین ملاحظہ فرمائیں کہ جو شخص رباعی اور اربعہ میں فرق نہیں کرسکا اس نے  قرآن کی تفسیر لکھنے میں کیا گل کھلائے ہوں گے۔
3 - قرآن کی من مانی تشریحات :۔
سرسید نے معتزلی سوچ کے مطابق  دین اسلام کو عقل کی ترازو میں تول کر مسلماتِ دین کا انکار کیا اور قرآن کریم میں جہاں معجزات یا مظاہر قدرت خداوندی کا ذکر ہے‘ اس کی تاویل فاسدہ کرکے من مانی تشریح کی ہے۔
پہلے پارے میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایاہے کہ:” یہود سے جب عہد وپیماں لیا جارہا تھا تو اس وقت کوہِ طور کو ان کے سروں پر اٹھا کر لاکھڑا کردیا تھا“۔ جسے سارے مفسرین نے بیان کیا ہے‘ سرسید اس واقعہ کا انکار کرتاہے اور لکھتاہے:
”پہاڑ کو اٹھاکر بنی اسرائیل کے سروں پر نہیں رکھا تھا‘ آتش فشانی سے پہاڑ ہل رہا تھا اور وہ اس کے نیچے کھڑے رہے تھے کہ وہ ان کے سروں پر گر پڑے گا“۔ 

سرسید نہ صرف آیت کی غلط تاویل کرتا ہے بلکہ نہایت ڈھٹائی کے ساتھ مفسرین کا مذاق بھی اڑاتاہے۔ وہ لکھتاہے:
”مفسرین نے اپنی تفسیروں میں اس واقعہ کو عجیب وغریب واقعہ بنادیا ہے اور ہمارے مسلمان مفسر عجائباتِ دور ازکار کا ہونا مذہب کا فخر اور اس کی عمدگی سمجھتے تھے‘ اس لئے انہوں نے تفسیروں میں لغو اور بیہودہ عجائبات (یعنی معجزات) بھر دی ہیں‘ بعضوں نے لکھا ہے کہ کوہِ سینا کو خدا ان کے سروں پر اٹھا لایا تھا کہ مجھ سے اقرار کرو نہیں تو اسی پہاڑ کے تلے کچل دیتاہوں‘ یہ تمام خرافات اور لغو اور بیہودہ باتیں ہیں“۔ (تفسیر القرآن ج:۱‘ص۹۷تا۹۹)

کوئی سر سید سے یہ پوچھے کہ آتش فشانی اور پہاڑ کے لرزنے کا بیان اس نے کس آیت اور کس حدیث کی بناء پر کیا ہے۔  اس کے پاس کوئی نقلی ثبوت نہیں ہے یہ اس کی اپنی عقلی اختراع ہے ہم اس کے جمہور مفسرین کے مقابلے میں ایسی عقل پر دس حرف بھیجتے ہیں۔
 بریں عقل ودانش بباید گریست
4 -  جنت ودوزخ کا انکار :۔
تمام مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے کہ جنت ودوزخ حق ہیں اور دونوں پیدا کی جاچکی ہیں۔ خود قرآن پاک سے یہ ثابت ہے ارشاد خداوندی ہے:
”وسارعوا الی مغفرة من ربکم وجنة عرضہا السموات والارض اعدت للمتقین“ (آل عمران:۱۳۳)
ترجمہ:․․․”اور اپنے رب کی بخشش کی طرف دوڑو اور جنت کی طرف جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین جتنی ہے اور پرہیزگاروں کے لئے تیار کی جاچکی ہے“ ۔
 دوزخ کے پیدا کئے جانے بارے میں ارشاد خداوندی ہے:
”فاتقوا النار التی وقود ہا الناس والحجارة اعدت للکافرین“ (البقرہ:۲۴)
ترجمہ:․․․”پس ڈرو اس آگ سے جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے جو کافروں کے لئے تیار کی جاچکی ہے“۔ 

سرسید جنت ودوزخ دونوں کے وجود کا انکار کرتا ہے وہ لکھتا ہے:
 ”پس یہ مسئلہ کہ بہشت اور دوزخ دونوں بالفعل مخلوق وموجود ہیں‘ قرآن سے ثابت نہیں ۔ (تفسیر القرآن ج:۱‘ص:۳۰) 
وہ مزید لکھتاہے:
”یہ سمجھنا کہ جنت مثل باغ کے پیدا کی ہوئی ہے‘ اس میں سنگ مرمر کے اور موتی کے جڑاؤ محل ہیں۔ باغ میں سرسبز وشاداب درخت ہیں‘ دودھ وشراب وشہد کی نالیاں بہہ رہی ہیں‘ ہرقسم کا میوہ کھانے کو موجود ہے․․․ایسا بیہودہ پن ہے جس پر تعجب ہوتا ہے‘ اگر بہشت یہی ہو تو بے مبالغہ ہمارے خرابات (شراب خانے) اس سے ہزار درجہ بہتر ہیں“۔ (نعوذ باللہ) ایضاً ج:۱‘ص:۲۳)
قرآن میں جنت کی نعمتوں کا تذکرہ کسی قرآن پڑھنے والے سے مخفی نہیں، مگر سرسید نے  نا صرف ان کا  صاف  انکار کیا  بلکہ مذاق بھی اڑایا اور شراب خانوں کو جنت سے ہزار درجے بہتر قرار دیا۔

5 - بیت اللہ شریف کے متعلق موقف :۔
بیت اللہ شریف بارے کی عظمت کے بارے میں قرآن وحدیث میں کافی تذکرہ موجود ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 
یعنی سب سے پہلا گھرجو لوگوں کے لئے وضع کیا گیا ہے یہ وہ ہے جو مکہ میں ہے۔ بابرکت ہے اور جہاں والوں کے لئے راہنما ہے۔  (آل عمران:۹۶)
ترجمہ:․․․” اللہ تعالیٰ نے کعبہ کو جو کہ گھر ہے بزرگی اور تعظیم والا‘ لوگوں کے لئے قیام کا باعث بنایاہے“ ۔ (المائدہ:۹۷)
علامہ اقبال نے اسی کی تشریح میں فرمایا ہے:
دنیا کے بتکدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا
ہم اس کے پاسباں ہیں وہ پاسباں ہمارا

اب ذرا کلیجہ تھام کر سرسید کی ہرزہ سرائی کعبۃ اللہ کے بارے میں ملاحظہ فرمائیں۔ نقل کفر کفر نباشد ۔ اپنی تحریف القرآن میں لکھتاہے:
”جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس پتھر کے بنے ہوئے چوکھونٹے گھر میں ایسی متعدی برکت ہے کہ جہاں سات دفعہ اس کے گرد پھرے اور بہشت میں چلے گئے یہ ان کی خام خیالی ہے․․․ اس چوکھونٹے گھر کے گرد پھر نے سے کیا ہوتا ہے‘ اس کے گرد تو اونٹ اور گدھے بھی پھر تے ہیں تو وہ کبھی حاجی نہیں ہوئے“۔ (تفسیر القرآن ج:۱‘ ص:۲۱۱و۲۵۱)
 مزید لکھتاہے:
”کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا اسلام کا کوئی اصلی حکم نہیں ہے “۔ (تفسیر القرآن ج:۱‘ ص:۱۵۷)
خانہ کعبہ کے گرد طواف کے مقدس عمل کو سرسید  کا ”سات دفعہ اس کے گرد پھرنا“ پھر خدا کے اس عظیم اور مقدس گھر کو انتہائی ڈھٹائی اور بے غیرتی کے ساتھ ”چوکھونٹا گھر“ کہنا اور آگے خباثت کی انتہا کرتے ہوئے یہ کہنا کہ اس کے گرد تو اونٹ اور گدھے بھی پھر تے ہیں‘ کیا وہ حاجی بن گئے؟ پھر  نماز میں خانہ کعبہ کی طرف منہ کرنے کے خلاف یہ زہر افشانی کرنا کہ یہ اسلام کا اصلی حکم نہیں ہے‘  کیا  یہ بکواسات  کیا کوئی صاحب ایمان کرسکتا ہے ؟ 
دوسرے پارہ کے شروع میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایاہے:
 ”سیقول السفہاء الخ“ ”اب بہت سارے بیوقوف کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس سے خانہ کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم کیوں دیا؟“
 اس آیت کی رو سے جو لوگ خانہ کعبہ کی طرف منہ کرنا نہیں مانتے وہ بیوقوف ہیں اور سرسید تمام بیوقوفوں کا سردار۔
6 - سرسید فرشتوں کے وجود کا منکر
فرشتوں کا مستقل خارجی وجود قرآن وحدیث سے صراحۃ ثابت ہے اور فرشتوں کا اس طرح وجود ماننا اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے‘ ان کے وجود کو مانے بغیر کوئی مسلمان نہیں کہلا سکتا۔قرآن پاک میں ہے کہ: 
فرشتے خدا کی ایسی مخلوق ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کرتے اور جس کام کا حکم دیا جاتاہے اس کو بجالاتے ہیں (التحریم:۶)
دوسری جگہ مذکور ہے
پھر یہی فرشتے حضرت لوط علیہ السلام کے پاس پہنچے اور قوم لوط پر عذاب ڈھانے لگے۔ (الحجر:۵۸تا۷۷)

ان تمام آیات اور روایات سے معلوم ہوا کہ فرشتوں کا مستقل خارجی وجود ہے‘ مگر سرسید اس کے منکر ہیں وہ لکھتے ہیں کہ:
” قرآن مجید سے فرشتوں کا ایسا وجود جیسا مسلمانوں نے اعتقاد کررکھا ہے ثابت نہیں ہوتا“۔ (تفسیر القرآن ج:۱‘ص:۴۲) 
آگے لکھتا ہے
”اس میں شک نہیں کہ جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئے تھے‘ انسان تھے اور قوم لوط کے پاس بھیجے گئے تھے۔علماء مفسرین نے قبل اس کے کہ الفاظ قرآن پر غور کریں یہودیوں کی روایتوں کے موافق ان کا فرشتہ ہونا تسلیم کرلیا ہے‘ حالانکہ وہ خاصے بھلے چنگے انسان تھے۔ (ایضاً ج:۵‘ص:۶۱)
اس طرح قرآن پاک اور احادیث طیبہ یہ بات موجود ہے کہ  مختلف غزوات کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد کے لئے فرشتوں کو بھیجا ہے جیسا کہ آیت ولقد نصرکم اللہ ببدر وانتم اذلة“ (آل عمران:۱۲۳) میں مذکور ہے۔ سرسید اس کا منکر ہے وہ اس آیت کے تحت لکھتاہے۔
” بڑا بحث طلب مسئلہ اس آیت میں فرشتوں کا لڑائی میں دشمنوں سے لڑنے کے لئے اترناہے‘ میں اس بات کا بالکل منکر ہوں‘ مجھے یقین ہے کہ کوئی فرشتہ لڑنے کو سپاہی بن کریا گھوڑے پر چڑھ کر نہیں آیا‘ مجھ کو یہ بھی یقین ہے کہ قرآن سے بھی ان جنگجو فرشتوں کا اترنا ثابت نہیں“۔
 (تفسیر القرآن از سرسید ج:۲‘ص:۵۲)
7 - سرسید جبرائیل امین کا  منکر :۔
قرآن پاک میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کا ذکر ہے‘ 
ترجمہ:․․․”جو کوئی مخالف ہو اللہ کا یا اس کے فرشتوں کا یا اس کے پیغمبروں کا یا جبرائیل کا اور میکائیل کاتو اللہ تعالیٰ ایسے کافروں کا مخالف ہے“۔(البقرہ:۹۸)
اسی طرح  کئ احادیث  میں ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کبھی انسانی شکل میِں بار گاہ نبوی میں تشریف لاتے ‘چنانچہ مشکوٰة کی پہلی حدیث ”حدیث جبرائیل“ میں جب سوالات کرنے کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام تشریف لے گئے تو آپ ا نے فرمایا :”فانہ جبرئیل اتاکم یعلمکم دینکم“ (یہ حضرت جبرائیل علیہ السلام تھے‘ تم کو تمہارا دین سکھانے آئے تھے) (مشکوٰة: کتاب الایمان)
سرسید حضرت جبرائیل علیہ السلام کے وجود کا منکر ہے۔ وہ لکھتاہے:
ہم بھی جبرائیل اور روح القدس کو شئ واحد تجویز کرتے ہیں‘ مگر اس کو خارج از خلقتِ انبیاء جداگانہ مخلوق تسلیم نہیں کرتے‘ بلکہ اس بات کے قائل ہیں کہ خود انبیاء علیہم السلام میں جو ملکہ نبوت ہے اور ذریعہ مبدء فیاض سے ان امورکے اقتباس کا ہے جو نبوت یعنی رسالت سے علاقہ رکھتے ہیں‘ وہی روح القدس ہے اور وہی جبرائیل ہے“۔ (تفسیر القرآن از سرسید ج:۲‘ ص:۱۵۶‘ ج:۱‘ ص:۱۸۱‘ ۱۲۲‘ ۱۲۹‘ ۱۷۰)
اس عبارت میں سرسید نے اس بات کا انکار کیا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کوئی خارجی وجود ہے ‘ بلکہ ان کے نزدیک یہ رسول اکرم  کی طبیعت میں ودیعت کردہ ایک ملکہٴ نبوت کا نام ہے۔
8 - سرسید کا واقعہٴ معراج سے انکار:۔
رسول اللہ  کے معجزات میں سے ایک معجزہ واقعہٴ معراج ہے ۔سرسید  نےیہاں بھی عقل لڑائی مشکرکین مکہ کی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے جسم مبار کے ساتھ سات آسمانوں پر جانا اسکی عقل میں نہ آسکا اور وہ انکار کرگیا ۔ اپنی تفسیرالقرآن ج :۲ ص: ۱۳۰ پرلکھتا ہے:
”ہماری تحقیق میں واقعہ معراج ایک خواب تھا جو رسول اللہ نے دیکھا تھا"
حقیقت میں معجزہ کہتے ہی اسکو ہیں جسکو سمجھنے سے عقل عاجز ہو۔ اگر اسے خواب یا تصور کا واقعہ قرار دیں تو معجزہ نہیں کہلا یا جاسکتا‘ کیونکہ خواب اور تصور میں کوئی بھی شخص اس قسم کا واقعہ دیکھ سکتاہے۔  اس لیے آنحضرت کا واقعہ معراج تب معجزہ بنے گا جب ہم یہ تسلیم کرلیں کہ آنحضرت کو معراج روح مع الجسد ہوئی تھی یعنی جسم اور روح دونوں کو معراج ہوئی تھی‘ اور اسی بات پر امت کا اجماع چلا آرہا ہے۔ روایات میں آتاہے کہ واقعہ معراج کا سن کر کفار ومشرکین مکہ آپ کے ساتھ حجت بازی کرنے لگے۔ اگر واقعہ معراج خواب کا واقعہ ہوتا تو کفار ومشرکین کبھی آپ  کے ساتھ حجت بازی نہ کرتے۔
9 - جنات وشیاطین کے وجود کا انکار :۔
جنات وشیاطین کا وجود قرآن وحدیث سے ثابت ہے اور ایک راسخ العقیدہ مسلمان کے لئے اس میں شک وشبہ کی گنجائش نہیں‘ مگر سرسید اس کا انکار کرتا ہے‘ وہ حضرت سلیمان علیہ السلام اور ان کے ماتحت جنات کے کام کرنے کے قرآنی واقعہ پر تبصرہ کرتا ہے:
”ان آیتوں میں ”جن“ کا لفظ آیا ہے‘ اس سے وہ پہاڑی اور جنگلی آدمی مراد ہے‘ جو حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہاں بیت المقدس بنانے کا کام کرتے تھے اور جن پر بسبب وحشی اور جنگلی ہونے کے جو انسانوں سے جنگلوں میں چھپے رہتے تھے اور نیز بسبب قوی اور طاقتور اور محنتی ہونے کے ”جن“ کا اطلاق ہوا ہے پس اس سے وہ جن مراد نہیں جن کو مشرکین نے اپنے خیال میں ایک مخلوق مع ان اوصاف کے جو ان کے ساتھ منسوب کئے ہیں‘ ماناہے اور جن پر مسلمان بھی یقین کرتے ہیں۔ (تفسیر القرآن ج: ۳‘ ص: ۶۷) 

اس طرح سرسید  شیطان کا الگ مستقل وجود تسلیم نہیں کرتا‘ بلکہ انسان کے اندر موجود شرانگیز صفت کو شیطان قرار دیتاہے 
آگے  لکھتاہے: ”
انہی قویٰ کو جو انسان میں ہے اور جن کو نفس امارہ یا قوائے بہیمیہ سے تعبیر کرتے ہیں‘ یہی شیطان ہے“۔ (ج ۳ ص۴۵ پ)

سرسید کے اعتزالی عقائد و نظریات کا مکمل احاطہ کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب تیار ہوسکتی ہے ، ہم نے اس کے چند گمراہ افکار پر روشنی ڈالی ہے۔ حقیقت میں سرسید اور ان جیسے دیگر روشن خیالوں کی فکری جولانیوں کودیکھ کر یہی کہا جاسکتاہے کہ:
ناطقہ بگریباں ہے اسے کیا کہئے؟ 
خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا لکھئے؟
مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ موجودہ دور کے ان معتزلہ کے افکار ونظریات کو پہچان کر اپنے ایمان وعمل کو ان کی فریب کاری سے بچائیں اور جو سادہ لوح مسلمان ان کے شکنجہ میں آچکے ہیں ان کے بارے میں فکر مند ہوکر ان کو راہِ راست پر لانے کی کوشش کریں.