Sunday 24 October 2010

موسمی تبدیلیاں زلزلے اور دجالین

موسمی تبدیلیاں زلزلے اور دجالین

خادم الاسلام و المسلمین ڈاکٹر عصمت حیات علوی



بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

دنیا میں موسموں کی تبدیلی اور عالمی درجہ حرارت یعنی گلوبل وارمنگ کا ذکر ہم اکثر اخبارات اور رسائل میں پڑھتے رہتے ہیں اور الیکٹرانک میڈیا پر بھی اس کے بارے میں سنتے ہی رہتے ہیں دنیا کے سبھی سائنسدان اور موسمیاتی ماہرین اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ موسموں کایہ منفی رد عمل دراصل مختلف طرح کے کارخانوں اور دیگر صنعتوں سے دھواں اور دیگر کثافتوں کے خارج ہونے کے نتیجے میں ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔
اچانک آنے والے طوفانوں بارشوں اور یہاں تک کہ زلزلوں کو بھی اسی گلوبل وارمنگ کے ردعمل کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔اب حج کے دن ہمارے مقامات مقدسہ پر جو غیر متوقع اور غیر معمولی بارش ہوئی ہے اسے بھی گلوبل ورمنگ کی کارستانی قرار دے کر بھلا دیا جائے گا ۔ مگر کچھ اہل نظر اس غیر متوقع وغیر معمولی بارش کو اور چند برس قبل کشمیر اور اس سے ملحقہ علاقوں میں آنے والے زلزلے کو قدرتی یا حقیقی قرار نہیں دے رہے ہیں بلکہ ان کے پیچھے بھی کسی انسانی ہاتھ کو دیکھ رہے ہیں بلکہ ڈھکے چھپے لفظوں میں ان دونوں واقعات کوانسانی شرارت قرار دے رہے ہیں۔
قارئین کرام یاد کریں کہ گذشتہ برس جب چین کے دارلحکومت بیجنگ میں اگست کے مہینے میں اولمپکس گیمزکھیلی گئیں تھیں تب وہ مون سون کا موسم تھا اور اس مہینے میں اس علاقے میں بارشیں ہوا ہی کرتی ہیں ۔مگر چین نے ایسا مکمل انتظام کر رکھا تھا کہ جب بادل بیجنگ کا رخ کریں تو ان کو راستے میں ہی برسا دیا جائے اور یوں بادلوں کو بیجنگ تک پہنچنے ہی نہ دیا جائے ۔
ہم بچپن میں پڑھا کرتے تھے کہ مون سون کے موسم میں بحیرہ بنگال سے نمی کے بخارات اٹھتے ہیں اور نمی سے لدے ہوئے بادل بن جاتے ہیں پھر یہ نمی سے لدے ہوئے بادل ہواﺅں کے دوش پر پورے ہندوستان پر برسے بغیرگذر جاتے ہیں اس کے بعد وہ ہمارے ملک کے شمال میں واقع بلند وبالا پہاڑوں سے ٹکرا کر رک جاتے ہیں اورواپس پلٹ کر آنے والے مزید بادلوں سے مل جاتے ہیں اس طرح سے ہمارے میدانی علاقوں کے اوپر ہوا میں نمی کا تناسب اس قدر زیادہ ہوجاتا ہے کہ ہوا اس تناسب کو سنبھال نہیں سکتی یوں نمی قطرے بن کر برسنا شروع ہو جاتی ہے۔اس عمل کو بارش کہتے ہیں۔
جس طرح سے نمی سے لدے ہوئے بادل ہندوستان کے اوپر سے برسے بغیر سینکڑوں میل کا سفر کرتے ہوئے گذر جاتے ہیں اسی طرح سے بحیرہ عرب سے اٹھنے والے نمی سے لدے ہوئے بادل بھی عرب ممالک کے اوپر اوپر سے بہت ہی زیادہ بلندی پر گذرتے ہیں مگر چونکہ ان کے راستے میں کوئی بلندوبالا پہاڑ نہیں آتے اس لئے نمی کا تناسب زیادہ نہیں ہو پاتا یوں وہ بادل عرب ممالک پر برسے بغیر آگے نکل جاتے ہیں کبھی کبھار جب ہوا میں نمی بڑھ جاتی ہے تب عرب کے ریگذاروں پر بارش ہو جایا کرتی ہے ۔
جیسے سمندروں جھیلوں اور گھنے جنگلوں کے اوپر ہوا میں نمی کی مقدار ہمیشہ ہی زیادہ ہوتی ہے اس لئے سمندروں جھیلوں اور گھنے جنگلوں پر بارشیں زیادہ ہی ہوتی ہیں یعنی کہ بارش ہونے کا عمل پہاڑوں سے بادلوں کے ٹکرائے بغیر بھی ہو سکتا ہے بشرطِ کہ ہوا میں نمی زیادہ کردی جائے اور اس عمل کا مظاہرہ یورپ کے کئی سائنسدان پچھلی صدی میں کئی مرتبہ کر چکے ہیں۔اب تو سائنس اچھی خاصی ترقی کرچکی ہے جبھی تو جدید طیاروں سٹیلائٹ اور سپیس ٹیکنالوجی کی مدد سے سائنسدانوں نے مصنوعی بارش برسانا بچوں کا کھیل بنا دیا ہے ۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارے مقامات حج پر جو یہ اچانک غیر معمولی اور غیر متوقع بارش ہوئی ہے اس کے پیچھے دجالین یعنی کہ انٹی مسلمین صہیونی سائنسدانوں کا ہاتھ ہے۔
آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو رہا ہوگا کہ یہ دجالین کیا ہے۔ دراصل ہم مسلم قوم کا قرآن کریم اور حدیث مبارکہ پر اتنا ایمان نہیں ہے جتنا اعتماد کافراقوام کو ہماری مقدس کتاب قرآن کریم اور احادیث ﷺ میں بیان کی گئی پیشین گوئیوں اور دیگر حقائق پر ہے۔ہمارے طبقہ اعلیٰ والے جب مادی و معاشی ترقی کرتے ہیں تو نہ صرف مدرپدر آزاد ہوجاتے ہیں بلکہ مذہب کا مذاق اڑانا جدیدیت اور فیشن سمجھتے ہیں جب کہ ان کے برعکس یورپ اور امریکہ کے برسراقتدار طبقات نہ صرف کٹر مذہبی ہیں بلکہ جیسے جیسے وہ اقتدار کی سیڑھی پر بلند ہوتے جاتے ہیں ویسے ویسے وہ زیادہ مذہبی اور انتہا پسند ہو تے جاتے ہیں میں ہر ملک سے مثالیں نہیں دوں گا کیونکہ ایسے بات لمبی ہو جائے گی۔
صرف امریکہ سے ایک مثال دے کر بات آگے بڑھاوں گا۔ آنجہانی صدر ریگن سے لے کر امریکہ کی موجودہ اور اصلی حکمران ہیلری کلنٹن کے عقائد کر دیکھ لیں ۔یہ سبھی کے سبھی انتہا پسند بنیاد پرست کٹراور متعصب عیسائی یا صہیونی ہیں جو کہ یسوع مسیح کی آمد پر غیر متزلزل یقین رکھتے ہیں اور ان کے استقبال کی تیاریوں میں دل وجان سے مصروف ہیں ۔ یسوع مسیح کی دوبارہ آمد کے بارے میں ان کی تبدیل شدہ کتب میں جو کچھ بھی درج ہے۔
یہ صہیونی اور صلیبی نہ صرف اس کو مانتے ہیں بلکہ اس سلسلے میں قرآن مجید اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی مطالعہ کرتے ہیں تاکہ نہ صرف ہماری روک تھام کی جا سکے بلکہ ہمیں گمراہ بھی کیا جا سکے جیسا کہ کتب احادیث میں درج ہے کہ امام مہدی کی مدد کے لئے خِراسان سے کالے جھنڈوں والا ایک لشکرنکلے گا اسی حدیث کو سچ مان کر صہیونیوں اور صلیبیوں نے اس مذکورہ لشکر کا راستہ روکنے کے لئے پہلے تو افغانستان پر بھرپور حملہ کیا تھا پھر پاکستان پر قبضہ کیا ہے اور اب اس اہم خطے میں طرح طرح کی قلعہ بندیوں میں مصروف ہیں ۔
کچھ کالمسٹ یہ خیال کرتے ہیں اور پھر وہ ایسا لکھتے بھی ہیں کہ عنقریب امریکن اس خطے سے نکل جائیں گے ایسے لکھاریوں اور دانشوروں سے میری یہ درخواست ہے کہ وہ جدید علوم پڑھنے کے ساتھ ساتھ احادیث رسول ﷺ کا مطالعہ بھی کیا کریں اگر میرے فاضل دوست خاص طور پر امام مہدی کے ظہور ۔دجال کے خِروج اور عیسیٰ علیہ اسلام کی دوبارہ آمد کی احادیث کا بغور مطالعہ کریں تو ان پر یہ حقیقت کھل جائے گی کہ یہ دجالی لشکر واپس جانے کے لئے نہیں آیا ہے بلکہ ام الحرب یعنی کہ جنگوں کی ماں لڑنے کے لئے آیا ہواہے کیونکہ دجالین کا ایمان یہی ہے کہ اس بڑی جنگ کے نتیجے میں ہی دجال کا فتنہ ظاہر ہوگا۔
سچ تو یہ ہے کہ سابق امریکن صدر جارج واکر بش نے کروسیڈ کا لفظ سہواً نہیں بولا تھا بلکہ یہ ایک کوڈ ورڈ تھا اور حقیقت میں دنیا کے کونوں کھدروں میں چھپے ہوئے صہیونیوں کے لئے ایک واضح پیغام تھا کہ اب نیو ورلڈ آڈر یعنی کہ دجال کے استقبال کی تیاریوں کے دوسرے مرحلے کا آغاز ہو چکا ہے اس لئے تم بھی اپنی کمر کس لو اب تو یہ راز بھی راز نہیں رہا ہے کہ انتہا پسند بنیاد پرست اور کٹر عیسائی یہودیوں کے مخالف نہیں رہے ہیں بلکہ وہ بھی صہیونی بن چکے ہیں ۔
یہاں پر ایک بات کی وضاحت کر دوں کہ کسی شخص کے صہیونی ہونے کے لئے اس کا یہودی ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ جو بھی شخص گریٹر اسرائیل کی حمایت کرتا ہے اور جنگوں کی ماں یعنی کہ آرمیگڈون کی تیاریوں میں انتہا پسندیہود کے ساتھ ہے وہ بھی صہیونی ہی ہے اس تعریف کے لحاظ سے بش اور کانڈولیزا رائیس بھی صہیونی ہیںاور پرویزمشرف بھی صہیونی ہی ہے ۔
اب جو لوگ دجال کو اپنا لیڈر مانتے ہیں اور اس کے استقبال کی تیاریوں میں دل وجان سے مصرف ہیں ان کو میرے کچھ قابل احترام علما ءنے دجالی کہا ہے اور میں نے انہی محترم علما اور اساتذہ کرام کی تقلید میں ان صہیونیوں اور صلیبیوں کو دجالین کا نام دیا ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ جب متعصب یہود اور ہنود ہم کو الٹے سیدھے اور اپنے من پسند القابات سے نواز سکتے ہیں تو ہمیں بھی یہ حق حاصل ہے کہ ہم اپنی سچی کتاب کی روشنی میں ان کے صفاتی اور عملیاتی نام رکھیں ۔
اب چونکہ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں یہود کے باطل لیڈر کو دجال کہا گیا ہے یوں اس کا استقبال کرنے والے اور چاہنے والے دجالیں ہی کہلوائیں گے۔یہ دجالین یا صہیونی اپنے لیڈر کی آمد کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے اطمینان سے نہیں بیٹھے ہوئے ہیں بلکہ ہر قسم کی تیاریوں میں مصروف ہیں ۔ وہ اپنے لیڈر کی قیادت میں جنگ کرنے کے لئے سپر ہیومن بنانے کے تجربات ہٹلر کے دور میں ہی شروع کرچکے ہیں ۔ دراصل ہٹلر کو اس قسم کے عجیب وغریب تجربات کرنے کے لئے اور ایک سپر ریس یا سپر ہیومین بنانے پر یہودی سائینس دانوں نے ہی آمادہ کیا تھا ۔
یوں اس عیار قوم نے جرمن قوم کا کثیر سرمایہ اپنے تخیلا تی انسان کے تجربات پر ضائع کر دیا تھا اور پھر جب ان صہیونیوں کی سازشوں سے جرمن قوم کو شکست ہوئی تھی تو انہی صہیونی یا دجالی سائنس دانوں نے اپنے گھناونے کارناموں کو ہٹلر کے کھاتے میں ڈال دیا ہے ۔ اب ہٹلر تو مر چکا ہے وہ عالم بالا سے واپس آکر صہیونیوں یعنی کہ دجالین کے بارے میں درست اور اصل حقائق تونہیں بیان کر سکتا یوں صہیونیوں کا جھوٹ دنیا کے سر پر چڑھ کر بول رہا ہے۔ جب جنگ عظیم دوم کے خاتمے پر جرمنی پر چار مغربی طاقتوں نے قبضہ کر لیا تھا تب جرمنی کے صہیونی سائنس دان نے امریکہ جانے کا فیصلہ کیا تھا تو عیسا ئی سائنس دانوں نے مجبوری کے عالم میں روسیوں کے ساتھ جانا قبول کر لیا تھا۔

 

جب صہیونی یعنی کہ دجالین سائنسدان امریکہ آگئے تھے تو انہوں نے اپنے شیطانی (دجالی) منصوبوں کی تکمیل کے لئے امریکہ کے سرمائے کو ایسے ہی استعمال کرنا شروع کردیا تھا جیسے وہ جرمنی کی شکست سے قبل جرمن قوم کے سرمائے کو اپنی قوم کے مقاصد کی تکمیل کے لئے استعمال کر رہے تھے یہ تجربات پچاس کی دھائی کے آغاز سے ہی شروع کر دیئے گئے تھے۔
ملٹی پل ہیومن ری پروڈکشن۔ سپر ہیومن ۔شی میل ۔ہی فیمیل ۔ سیلف ری پروڈکٹیو ہیومن(ایسا انسان یا سپر مین جو ایک مکمل نر اور مادہ ہو اور خود بخود بچے جننے کی صلاحیت رکھتا ہو) ۔یہ سبھی دجالین سائنسدانوں کے اذہان کی اختراعات ہیں اور ان پر امریکہ کے بہت سارے ریسرچ سنٹر زمیں تین چار عشروں سے کام ہو رہا ہے جن کا فائدہ تو بہرحال صہیونی (دجالین ) ہی اٹھائیں گے مگر ان پر کثیر سرمایہ امریکن کا ہی لگ رہا ہے۔ ڈولی شیپ دراصل کلوننگ سائنس کا پہلا اور ابتدائی کارنامہ ہے اور اس کے پیچھے صہیونیوں کے ایک فرقہ رئیلینز کی فکر کام کر رہی اس فرقے کو امریکن پریس کلونائیڈ کا نام دیتا ہے۔
بہرحال یہ سبجیکٹ بہت وسیع ہے اور چونکہ میں اس بارے میں خاصا علم رکھتا ہوں اس لئے ان موضوعات پر تفصیل سے لکھوں گا۔انشا اللہ العلیم و الخبیر۔ مگر اس وقت میں مسلم قوم کے ذہین افراد کا عوماً اور مسلم سائنسدانوں کا خصوصاً دھیان اس طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ صہیونی سائنس دان زمین کی مقناطیسیت اور زمین کے توازن پر پہاڑوں کی اہمیت پر برسوں سے تجربات کررہے ہیں اوران کے ان تجربات کی بنیاد قرآن حکیم کی متعدد آیات ہیں ۔جیسے کہ اللہ حکیم نے سورة ٰلقمٰن میں دسویں آیت میں ارشاد فرمایا ہے
﴾خلق السمٰوٰ ت بغیر عمدٍ ترونھا و القٰی فی الارض رواسی ان تمید بکم ﴿
تر جمہ:: اسی نے آسمانوں کو ستونوں کے بغیر پیدا کیا جیسا کہ تم دیکھتے ہو اور زمین پر پہاڑ رکھ دیے تاکہ تم ہلا ہلا نہ دے۔

میں فزکس اور ارضیات کے بارے میں کچھ علم نہیں رکھتا اسی لئے اپنے مسلم بھائی اور بہن سائنس دانوں سے درخواست گذار ہوں کہ وہ زمین کی گردش پرمقناطیسیت کے اثرات ا ور زمین کے توازن کے لئے پہاڑوں کی اہمیت پر کچھ روشنی ڈالیں اور جو کچھ بھی علم ان کو اللہ العلیم و الخبیر نے عطا فرمایا ہے اس علم کی روشنی میں مسلم امة کی راہنمائی کے لئے کچھ مفید مضامین تحریر فرمائیں۔اس کا اجر ان کو اللہ مالک و خالق عطا فرمائیں گے۔ انشا اللہ
جب کشمیر اور اس سے ملحقہ علاقوں میں شدید زلزلہ آیا تھا تو میں حیران رہ گیا تھا کیونکہ میرے علم کے مطابق ارضی اور سمٰوٰتی عذاب صرف اس بستی پر نازل ہوا کرتے ہیں جو کہ کھلم کھلا اللہ رب العزت کی نافرمان ہوچکی ہو ۔ اس لئے میں تحقیق اور جستجو میں پڑ گیا تھا پھرایک سال کے مکمل مطالعے رابطے اور انٹرویوز کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ زلزلہ زدہ علاقوں میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام برسوں سے ایک خاص نہج پر جاری و ساری ہے تو میں نے خود سے سوال کیا تھا ۔
کیا یہ عذاب الہٰی ہے یا کسی انسانی چھیڑ چھاڑ کا نتیجہ ہے؟ کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب کسی بستی یا کسی علاقے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام جاری وساری ہو تو اس بستی یا علاقے پر ربی عذاب نہیں آیا کرتے خواہ وہ بستی کھلم کھلا بدکاری کی مرتکب ہو رہی ہو کیونکہ جب تک کسی بستی میں ایک بھی مبلغ اسلام موجودہواللہ رحیم و کریم اس بستی پر رحم و کرم ہی فرمایا کرتے ہیں ۔
پھر مجھے میرے سوال کا جواب مل گیا تھا ۔یہ سب میرے رب کا فضل و کرم ہے اس میں میری کوئی خوبی نہیں ہے ۔وہ اپنے گناہ گار بندوں کی بھی راہنمائی فرماتا ہے سو اس ذات لا شریک نے میرے جیسے بدکار اور برے کی راہنمائی بھی فرمائی ہے

یہ ایک چھوٹا سا مضمون تھا جو کہ فزکس کے کسی ماہر نے لکھا تھا اور یہ انٹر نیٹ پر کچھ دیر ہی رہا تھا۔ افسوس کہ ان دنوں میرے پاس نہ تو پرنٹر تھا اور نہ ہی میرا پرانا کمپیوٹر اس قابل تھا کہ میں اس کو کاپی اور پیسٹ کرکے اپنے کمپیوٹر میں محفوظ کر لیتا مگر میرا مقصد حل ہو گیا تھا ۔الحمد للہ الرب العالمین
اس مضمون کا ماحاصل یہ تھا کہ ہماری زمین ایک بڑے مقناطیس کی مانند ہے اور اس کی کچھ پرتوں میں مقناطیسی لہریں شمالی قطب سے جنوبی قطب کو چلتی ہیں اور کچھ دوسری پرتوں میں یہی لہریں جنوبی قطب سے شمالی قطب کو واپس آتی ہیں یعنی کہ لہروں کے چلنے کا ایک مربوط اور مکمل نظام ہے اگر اس نظام میں خلل واقع ہوجائے یا کسی طرح سے خلل واقع کر دیا جائے تو زلرلہ آسکتا ہے اور پہاڑ بھی سرک سکتے ہیں کیونکہ یہ پہاڑ اسی مقناطیسی قوت کے بل پر زمین پر اپنی اپنی جگہ پر قائم ہیں۔

تب میں نے سوچا تھا کہ کسی دجالی سائنس دان نے قرآن حکیم کی سورة التکویر (۱۸) کی تیسری آیت اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے پر تدبر کیا ہوگا اور پھرسائنسی تحقیق میں جٹ گیا ہوگا۔
پھر میں نے تصور کیا تھا کہ تورا بورا پر کارپٹ بمباری کے بعد امریکن فوجیوں کے بھیس میں دجالی سائنس دان افغانستان کے علاقے واخان میں پہنچے ہوں گے اور طویل گہرے غاروں میں ایسے آلات لگائے ہوں گے جو کی زمین کے مقناطیسی لہروں میں خلل اندازی پیداکرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے اور ان سائنسی یا مقناطیسی آلات کو بذریعہ سٹیلائیٹ ریموٹ سے کنٹرول کیا جا سکتا ہوگا ۔پھر ان دجالی سائنس دانوں نے امریکہ یا اسرائیل میں بیٹھ کر یہ تجربہ کیا ہوگا جس کی کامیابی کے نتیجے میں کشمیر اور اس سے ملحقہ علاقوں میں ایک خوفناک اور تباہ کن زلزلہ آیا تھا۔
جو لوگ افغانستان کے مذکورہ پہاڑی مقامات دیکھ چکے ہیں وہ میری اس بات کی تصدیق کریں گے کہ واخان اور ملحقہ پہاڑوں میں میلوں لمبے قدرتی غار ہیں جن کی انتہا کا اندازہ لگا نا ابھی انسانی بس سے باہر ہے اور مجھے یقین ہے کہ سائنسی آلات کی مدد سے دجالی سائنس دان ایسی گہرائی تک جا پہنچے ہوں گے جہاں تک کوئی انسان نہ جا سکا ہوگا۔ یہ کوئی مفروضہ نہیں ہے ان مقناطیسی لہروں اور دیگر تجربات کے بارے میں انگلش لینگویج میں تو بہت کچھ شائع ہو چکا ہے۔
البتہ اردو زبان میں پڑھنا ہو تو میں مفتی ابولبانہ شاہ منصور کی تحقیقی کتاب دجال تجویز کرتا ہوں یہ کتاب الفلاح کراچی سے شائع ہوئی ہے اور اس میں امام مہدی کے ظہور۔ فتنہ دجال اور عیسیٰ علیہ السلام کی آمد پر بھی سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے یوں یہ کتاب دور قدیم کی اسلامی ہدایات و معلومات اور دور جدید کی تحقیقات کا حسین مرقع بن گئی ہے۔
اپنے اختتامی کلمات میں میں اپنے مسلم بھائیوں اور بہنوں سے یہی درخواست کروں گا کہ آپ جدید علوم یعنی کہ ماڈرن ایجوکیشن اینڈ ٹیکنالوجی ضروربہ ضرور حاصل کریں مگر ساتھ ہی ساتھ قرآن حکیم پر تدبر کرنے کی عادت کو اپنائیں اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر غورو فکر بھی کیا کریں۔
::وما علینا الالبلاغ

Wednesday 20 October 2010

" تبدیلی اور انقلاب بغیر قیمت دیے نہیں آتے "

" تبدیلی اور انقلاب بغیر قیمت دیے نہیں آتے "

شیخ عبدالعزیز بن باز کے فرزند شیخ احمد عبدالعزیز بن باز




نمازوں کے لئے مجبورکرنا کیا جائز ہے؟

شیخ احمد نے محکمہ امر بالمعروف کو چیلنج کیا ہے کہ وہ شریعت سے اس بات کا ثبوت پیش کریں جس کے ذریعے (بازار اور آفس زبردستی بند کروا کر) وہ عوام کو مخصوص وقت میں ہی نماز پڑھنے کا پابند کرتے ہیں۔ شیخ احمد کہتے ہیں کہ نماز کیلئے لوگوں کو تلقین کرنا ایک اچھی بات ہے تاکہ لوگ غفلت سے خبردار رہیں۔ لیکن پہلے تو یہ مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں پر زبردستی کی جائے اور نماز اُسی وقت پر نہ پڑھنے والوں کو سزا دی جائے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ میں نے سات سال کے عرصے میں امر بالمعروف والوں کو کئی بار تحریری طور پر توجہ دلائی یہ پہلی بار نہیں ہو رہا ہیکہ مجھ پر ٹکراؤ کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ ایسا کر کے امربالمعروف کے بعض لوگ لوگوں کی عزت اور آزادی کو ٹھیس پہنچاتے ہیں۔ یہ مسئلہ ہر موقع پر زیر بحث آنا چاہیے۔ تیسری بات یہ ہیکہ مجھ پر شہرت پسندی کا الزام دراصل ایسا تیار حربہ ہے جسکے ذریعے وہ اُن حقیقی مسائل اور نظریات کو نظر انداز کر ڈالتے ہیں جن پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ چوتھی بات یہ ہیکہ یہ مسائل آج تک حل نہیں کئے گئے شاید اسلئے کہ ان پر ابھی تک کسی نے توجہ نہیں دلائی۔
فتویٰ وحی نہیں ہوتا
شیخ احمد بن باز پران کے والد کے فتوؤں کے خلاف رائے دینے کا الزام ہے ۔ اس الزام کو انہوں نے ردّ کرتے ہوئے کہا کہ ان کے والدِ مرحوم کے فتوے مخصوص حالات اور وقت کے تقاضے کے مطابق تھے۔ کسی بھی چیز کو اس کی حقیقت یا حقیقی واقعہ کی روشنی میں دیکھا جاتا ہے۔ چونکہ ہر واقعہ وقتی ہوتا ہے اور اس کی نوعیت، وقت ماحول اور افراد کے ساتھ ہی بدل جاتی ہے اس لئے حالات بدلتے ہی فتوے بھی مختلف ہو جاتے ہیں۔

امام احمد بن حنبل (رحمۃ اللہ علیہ) کے ایک ہی عنوان پر نو مختلف فتوے موجود ہیں۔ امام شافعی (رحمۃ اللہ علیہ) کے بھی ایک ہی چیز کے بارے میں نئے اور پرانے مختلف فتوے موجود ہیں اور دوسرے اماموں کے ایسے کئی فتوے موجود ہیں جو ایک ہی مسئلہ پر ہوتے ہوئے ایک دوسرے سے مختلف ہیں اورکئی ائمہ سلف نے اپنی راے سے رجوع بھی کیا ہے۔ لہذا حالات کی نوعیت کے ساتھ ہی فتوے کا اطلاق بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔ خود میرے والد کے ایک ہی مسئلہ پر دو مختلف نئی اور پرانی رائیں موجود ہیں جیسے کے ٹیلیویژن کے بارے میں انہوں نے پہلے یہ فتویٰ دیا کہ یہ حرام ہے، بعد میں رائے بدلی اور یہ فتوی دیا کہ ٹی-وی ایک مشین کی طرح ہے جس کا حلال یا حرام ہونا اس کے استعمال پر منحصر ہے۔ میرے والد کے وہ فتوے جن میں اختلاف ہے کسی مخصوص شخص اور مخصوص حالات یا مخصوص اسباب کی روشنی میں تھے جو ضروری نہیں کہ وہی کسی دوسرے شخص کیلئے قابل اتباع ہوں۔ان فتوؤں کو عمومی قرار نہیں دیا جا سکتا۔
کیا ہر غیر مسلم کافر ہے؟

لفظ کافر کو عمومی طور پر ہر اہل کتاب کیلئے استعمال کرنا غلط ہے۔ قرآن و حدیث میں کہیں بھی اہلِ کتاب کو کافر نہیں قرار دیا گیا۔ کافر اس شخص کیلئے لاگو ہوتا ہے جس کو اسلام کی حقیقت پہنچا دی جائے اور وہ سچ کو پانے کے بعد بھی ردّ کردے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آج دنیا کو واقعی وہی اسلام پہنچ رہا ہے جو حقیقتاََ اسلام ہے یا اس کی مسخ شدہ شکل پہنچ رہی ہے؟

عورتوں کا کار چلانا

جہاں تک عورتوں کے کار چلانے کا تعلق ہے میرے والد نے جس وقت اس کے حرام ہونے کا فتویٰ دیا تھا اُس وقت کے حالات اور تھے آج وہ حالات نہیں رہے۔ آج اس فتوے پر پھر سے نظرِ ثانی کی ضرورت ہے۔ جس وقت اسے حرام قرار دیا گیا تھا اس وقت کے حالات شاید بہت سارے لوگوں کے علم میں نہیں ہیں۔ 1990ء کا وہ دور دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے زیادہ نازک دور تھا۔ صدام کے کویت پر قبضے اور امریکی فوجوں کی خلیج میں آمد نے ایک غیر یقینی تشویشناک صورت حال سے دوچار کر دیا تھا۔اور ٹیلیویژن بھی اسی زمانے میں غیر معمولی ترقی کر رہا تھا۔ ایسے پیچیدہ حالات میں اچانک کچھ عورتوں کا سڑک پر کار چلا کر احتجاج کرنا ایک اچنبھے میں ڈالنے والی حرکت تھی۔ اپنے مسائل کو پیش کرنے اور احتجاج کرنے کا یہ نیا طریقہ غیر اخلاقی اور نا قابل قبول تھا اور ہماری سماجی اقدار کے خلاف بھی ۔ ایسے وقت میں جبکہ سیاسی صورت حال دھماکو تھی اور جنگ سر پر منڈلا رہی تھی ، بم کے خوف سے لوگوں میں ماسک تقسیم کئے جارہے تھے، یہ اندیشہ بڑھتا جارہا تھا کہ کہیں ایک خارجی دشمن کی وجہہ سے ہم لوگ داخلی طور پر تقسیم نہ ہو جائیں ایسے وقت میں بے شمار ایسے لوگ بھی دارالافتاء پر احتجاج کیلئے جمع ہو گئے تھے جن کو متوع کہتے ہیں۔ اس وقت دارالافتاء کے اندر چند علماء تھے جن میں میرے والد بھی تھے۔ ایسے وقت میں میرے والد عبدالعزیز بن باز نے عورت کا کار چلانا حرام قرار دیا ۔ اس فتوے کو ان حالات کے پس منظر کے بغیر نہیں دیکھا جا سکتا۔
فتوؤں کا کھیل

آج کل فتوؤں کا دنیا میں ایک کھیل بن گیا ہے جس پر روک لگانے کی ضرورت ہے۔ ہمارے اسلاف کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ نہ تو وہ اس قدر سوالات کیا کرتے تھے اور نہ اس طرح فتوے دیا کرتے تھے۔ یہ ہم ہی ہیں جنہوں نے فتوؤں کو کھیل بنا دیا ہے۔ ہر شخص نے انفرادی طور پر فتوے دینا شروع کر دیا ہے۔ کچھ فروعی مسائل ایسے ہیں جن کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دے دی گئی ہے اور ان کی حیثیت ایسے فرض یا واجب کی طرح کر دی گئی ہے جن کو تبدیل کیا ہی نہیں جا سکتا حالانکہ انکی حیثیت فروعی ہے جن پر علماء کا مدت دراز سے اختلاف ہے۔ جن مسائل پر آج ہم کثرت سے گفتگو کرتے ہیں ان مسائل کی اکثریت اسی قسم کے فروعی مسائل سے ہے جن کو اتنی ہی اہمیت یا وزن دینا چاہیے جو ان کی واقعتاً ہے۔
کیا آج تجدید فقہ کی ضرورت ہے؟

جی ہاں! آج ضرورت ہے ایسے مدارس کی جہاں شریعت کے وسیع ترمقاصد کی تکمیل کیلئے فقہی تحقیق کی ضرورت ہے۔ جہاں مسائل کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے۔
مذہبی شدّت پسندی

آج کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لوگ اپنے دینی اور فقہی عقائد پر انتہا پسندی پر اُترآئے ہیں۔ دوسروں پر اپنا اصول مسلّط کرنا چاہتے ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں دنیا آج بھی وہی ہے جوآج سے ساٹھ ستّر سال پہلے تھی۔ اصلاح اور دعوت کے کام کیلئے افہام و تفہیم کے راستے کھولنے اور ذہن و دل کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ تحمل اور ضبط کے بغیر یہ کام نہیں ہوگا ۔ یہ سعی کئی قربانیاں اور وقت چاہتی ہے۔ ان امور پر توجہ کرنے کی زیادہ ضرورت ہے جو اہمیت کے اعتبار سے زیادہ اہم ہیں۔ (شیخ احمد یہ تمام باتیں اس سوال کے جواب میں کہہ رہے تھے کہ: کیا ان مسائل پر بھی فتوے دینا ضروری ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے محض رحم کی بنیاد پر ذکر کرنا مناسب نہ سمجھا، یعنی کئی ایسے مسائل جن پر شریعت نے تو خاموشی اختیار کی لیکن لوگوں نے ان پر حلال و حرام کی بحث شروع کر دی)۔
لوگ لکیر کے فقیر ہوتے ہیں

شیخ احمد کی جن لوگوں نے کردارکشی کرنے کی کوشش کی ، ان کا نام یا حوالہ دیئے بغیر کہا کہ : “اصل مسائل پر توجہ دلانے والے پر باغی ، آزاد اور سیکولر وغیرہ ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ لیکن یہ طئے ہے کہ کوئی تبدیلی اور ریفارم قیمت دئیے بغیر نہیں آتی۔ جو ریفارم کیلئے اُٹھے اُسے یہ تہمتیں اور الزامات قیمت کے طور پرسہنے ہی ہیں۔ اور جو لوگ ایسے الزامات دھرتے ہیں وہ سطحی عقل کے لوگ ہوتے ہیں۔ نہ اُن کا تعلیمی معیار ہوتا ہے اور نہ ان میں اتنی ذہانت ہوتی ہے کہ وہ تعمیری تنقید کے عمل کو سیکھیں اور برتیں۔ اور نہ ان میں افہام و تفہیم کی صلاحیت ہوتی ہے۔ اسلئے یہ لوگ اختلاف الرائے رکھنے والے کی فوری طور پر کافر ، باغی ، ایجنٹ وغیرہ کی درجہ بندی کر دیتے ہیں اور اس طرح کی اصطلاحات تراش لیتے ہیں۔ یہ بہت پرانی روش ہے۔ لیکن آج حالات بدل رہے ہیں اب لوگ پڑھتے بھی ہیں اور گفتگو بھی کرتے ہیں ہیں۔ اندھی تقلید کرنے کی روش اب بدل رہی ہے۔
دار الکفر اور دار الاسلام کی بحث

سعودی عرب ہی کے ایک عالم نے شیخ احمد بن عبدالعزیز بن باز کے 2003ء میں شائع شدہ الشرق الاوسط کے ایک مضمون کے جواب میں اپنا سخت موقف اختیار کرتے ہوئے مذہب اور سیکولرزم کے نازک فرق کو نظرانداز کرتے ہوئے یہ لکھا کہ :

” جسطرح رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ہجرت کے بعد مکہ مکرمہ میں مشرکین کی حکومت رہی اور مسلمانوں کو ان کے دین کی دعوت کے حق سے محروم کر دیا گیا۔ اسی طرح کی جہاں بھی ایسی ریاست جس میں شرک اور کفر کی حکومت ہوگی وہ دارالکفر کہلائے گا اور موصوف نے لکھا تھا کہ دارالکفر یا دارالاسلام محض اصطلاحات نہیں بلکہ نص سے ثابت ہیں”۔

اس کے جواب میں شیخ احمد بن باز نے کہا کہ” دارالاسلام یا دارالکفر کی درجہ بندی دراصل ایسی اصطلاحات ہیں جو اجتہادی ہیں ۔ جن لوگوں نے بھی ان اصطلاحات کو رائج کیا وہ ان کی ذاتی سوچ و فکر یا ذاتی رائے ہے۔ آج کے عہد میں ان فقہی اصطلاحات کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ درحقیقت صدیاں گزرجانے کے بعد آج بھی ہم کئی ایسے خیالات اور اصطلاحات کو برت رہے ہیں جن کا نہ قرآن سے کوئی ثبوت ہے اور نہ وہ آج کے حالات سے کسی قسم کی مطابقت رکھتے ہیں۔ جس دور میں مسلمانوں کی حکومت کو دارالاسلام اور غیر مسلموں کی حکومت کو دارالکفر کہا جاتا تھا آج وہ دور باقی نہیں رہا اب کسی کو دارالاسلام یا دار الکفر قرار دینا مشکل ہے۔ ان اصطلاحات کو اسلئے بھی منطبق نہیں کیا جا سکتا کہ اب حکومت کا تصور الگ ہے۔ اس میں ریاست ، قوم، شہری، مختلف طرزِحکومت ، طریقہ انتخاب ، پارلیمنٹ، مجالس نمائندگان، ملکی اور عالمی تنظیمیں ایک ریاست کے تصور میں شامل ہیں۔ مثال کے طور پر لبنان کو لیجئے جہاں صدر اگرا یک مذہب کا ہو تو وزیر اعظم دوسرے مذہب کا ہوتا ہے۔ اسپیکر تیسرے مذہب کا ہوتا ہے۔ (وہاں مسلمان کرسچین اور یہودی سارے مل کر رہتے ہیں مسلمانوں میں بھی شیعہ سنی بڑی تعداد میں ہیں اس لئے قانون یہ بنا دیا گیا کہ صدر ، وزیراعظم اور اسپیکر مختلف مذاہب کے ہوں گے تا کہ تمام مذاہب کا حکومت کی تشکیل میں برابر کا حصہ رہے)۔ اسلئے اب لبنان کو قدیم اصطلاحات کی بنیاد پر کیا درجہ دیا جائے گا؟ دارالکفر یا دار الاسلام؟۔

آج ہم کو نئی فقہی نظریات کی تخلیق کرنے کی ضرورت ہے، جوحکومت، قوم، وطن سے وفاداری، عالمی تعلقات اور عالمی تنظیموں کا صحیح تصور پیش کریں، ایسا تصورجسے سماجی، سیاسی اور دانشوری کے زاویہ سے دیکھا جائے۔

آج ہمیں انتفادہ کی ضرورت ہے (جس طرح فلسطینیوں نے میدان کارزار میں انتفادہ کیا اسی طرح کا ) ایسا انتفادہ جو دانشورانہ اور علمی ہو۔ اس کے لئے ورکشاپس، یونیورسٹیوں میں تحقیق اور نئی فقہی تالیف کی ضرورت ہے جس کے ذریعے آج کی تیزی سے تغیر پذیر تہذیبی نشیب و فراز کا جائزہ لیا جائے۔ ہمیشہ کی طرح (پرانی کتابوں اور پرانے اصولوں کو) کاپی پیسٹ نہ کیا جائے جسطرح کہ اسلامی معاشیات کی کتابوں میں کیا جاتا ہے۔ آج کی دنیا نے کئی اہم تہذیبی اورانسانی کارنامے انجام دئیے ہیں ، صنعتی انقلاب سے لے کر آج کے ڈیجیٹل انقلاب تک وہ وہ تبدیلیاں آچکی ہیں جو پہلے ہزاروں سال میں نہیں آئی تھیں۔

ہم کو ایک لمحے کے لئے رک کر سوچنا ہوگا اور کئی چیزوں پر از سرِنو غور کرنا ہوگا،اور ایسے نئے اصول وضوابط وضع کرنے ہونگے جو شریعت کی کسوٹی اور مقصد کی عکاسی کریں۔ ہم محض خاموش تماشائی یا ان ترقیوں کے محض خریدنے والے بن کر نہ رہیں بلکہ آگے بڑھیں اور مستقبل کیلئے خود بھی کچھ اقدام کریں ۔ ہم ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کیلئے جیتے ہیں ، ہمارے ایجنڈے میں وہی مسائل ہوتے ہیں جو فوری طور پر پیش آتے ہیں (مستقبل کی منصوبہ بندی ہمارے لائحہ عمل میں شامل نہیں ہوتی)۔



شیخ احمد بن باز نے ایک اور اچھی خبر سنائی کہ سعودی عرب کے موجودہ فرمانروا مَلِک عبداللہ بن عبدالعزیز خود ایک تبدیلی اور انقلاب کے خواہاں ہیں اور اس کے لئے انہوں نے انقلابی اقدامات شروع کر دیئے ہیں۔ شیخ احمد نے یہ اقرار کیا کہ ان کی دعوتی اور اصلاحی کوششوں میں مَلِک عبداللہ بن عبدالعزیز ہی کی ہمت
افزائی کے نتیجے میں اضافہ ہوا ہے۔