Saturday 18 December 2010

درود شریف کی چار اقسام

درود شریف کی چار اقسام





احادیث شریف میں درود شریف کا ذبر متعدد الفاظ کے ساتھ کیا گیا ہے- ان میں سے چار اقسام کے الفاظ مبارک ذیل میں توفیق الہی سے پیش کیے جارہے ہیں۔ ان شاءاللہ :



(1) امام بخاری رحمہ اللہ نے عبدالرحمن بن ابی لیلی سے روایت کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا ، کہ کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے میری ملاقات ہوئی، تو انہوں نے فرمایا:

" کیا میں تمہیں وہ تحفہ نہ دے دوں، جو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا؟"

میں نے عرض کیا: " جی ہاں، مجھے یہ تحفہ عطا فرمائیے-"

انہوں نے بیان فرمایا: "ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا:

" آپ کے اہل بیت پر درود کیسے ہے؟ (جبکہ) اللہ تعالی نے ہمیں سلام بھیجنے کا طریقہ تو (خود) ہی سکھلادیا ہے-"

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم کہو:

{ اللہم صل علی محمد و علی آل محمد کما صلیت علی ابراہیم و علی آل ابراہیم انک حمید مجید۔ اللہم بارک علی محمد و علی آل محمد کما بارکت علی ابراہیم وعلی آل ابراہیم انک حمید مجید-}

(صحیح بخاری، کتاب الانبیاء، باب، رقم الحدیث۔ 337، 6/408)



(2)امام بخاری رحمہ اللہ اور امام مسلم رحمہ اللہ نے کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان فرمایا: " نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے، تو ہم نے عرض کیا:

" یا رسول اللہ! ہمیں یہ تو معلوم ہوگیا ہے کہ ہم آپ پر سلام کیسے کہیں، لیکن آپ پر درود کس طرح بھیجیں؟"

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"تم کہو:

{ اللہم صل علی محمد و علی آل محمد کما صلیت علی ابراہیم انک حمید مجید۔ اللہم بارک علی محمد و علی آل محمد کما بارکت علی ابراہیم انک حمید مجید-}

متفق علیہ: (بخاری، کتاب الدعوات، باب الصلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم، رقم الحدیث 6354، 11/152)

(مسلم، کتاب الصلواۃ، باب صلواۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم بعد التشھید، رقم الحدیث 66- (406)، 1/305-) الفاظ حدیث صحیح بخاری کے ہیں-



(3) امام بخاری رحمہ اللہ نے ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے عرض کیا:

" یا رسول اللہ! ہم آپ پر درود کس طرح بھیجیں؟"

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: " تم کہو:

{ اللہم صل علی محمد و ازواجہ و ذریتہ کما صلیت علی ال ابراہیم وبارک علی محمد و ازواجہ و ذریتہ کما بارکت علی ال ابراہیم انک حمید مجید}-

(صحیح بخاری، کتاب الانبیاء، باب، رقم الحدیث 3369، 6/407)



(4) حافظ ابن حجر نے تحریر کیا ہے:

" روایات میں سب سے کم الفاظ والا (درود شریف یہ ہے):

{اللہم صل علی محمد کما صلیت علی ابراہیم}

(فتح الباری 11/166)
راتوں کو اٹھ کر، خیالوں میں ہوکر، یادوں میں کھوکر، تمہیں کیا خبر ہے



اپنے اللہ سے۔۔۔۔۔۔۔۔!

میں کیا مانگتا ہوں، ویرانوں میں جاکر، دکھڑے سنا کر، دامن پھیلا کر


آنسو بہا کر، تمہیں کیا خبر


اپنے اللہ سے میں کیا مانگتا ہوں

تم تو کہو گے، صنم مانگتا ہوں، غنم مانگتا ہوں، زر مانگتا ہوں


میں گھر مانگتا ہوں، زمین مانگتا، نگین مانگتا ہوں


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

تم تو کہو گے، ہم کو خبر ہے، کہ راتوں کو اٹھ کر، خیالوں سے ہوکر


یادوں میں کھوکر، آنکھیں بھگو کر، کسی دلربا کی، کسی دلنشین کی

وفا مانگتا ہوں، یہ بھی غلط ہے، وہ بھی غلط ہے، جو بھی ہے سوچا


سو بھی غلط ہے، نہ صنم مانگتا ہوں، نہ زر مانگتا ہوں


نہ دلربا کی، نہ دلنشین کی، نہ ماہ جبین کی وفا مانگتا ہوں

تمہیں کیا خبر ہے۔۔۔۔اپنے اللہ سے میں کیا مانگتا ہوں


میں اپنے اللہ سے

آدم کے بیٹے کی آنکھوں سے جاتی ۔۔۔۔۔حیا مانگتا ہوں


حوا کی بیٹی کے سر سے اترتی ۔۔۔۔۔۔ردا مانگتا ہوں

اس کڑے وقت میں ۔۔۔۔پاک وطن کی بقا مانگتا ہوں۔

Sunday 24 October 2010

موسمی تبدیلیاں زلزلے اور دجالین

موسمی تبدیلیاں زلزلے اور دجالین

خادم الاسلام و المسلمین ڈاکٹر عصمت حیات علوی



بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

دنیا میں موسموں کی تبدیلی اور عالمی درجہ حرارت یعنی گلوبل وارمنگ کا ذکر ہم اکثر اخبارات اور رسائل میں پڑھتے رہتے ہیں اور الیکٹرانک میڈیا پر بھی اس کے بارے میں سنتے ہی رہتے ہیں دنیا کے سبھی سائنسدان اور موسمیاتی ماہرین اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ موسموں کایہ منفی رد عمل دراصل مختلف طرح کے کارخانوں اور دیگر صنعتوں سے دھواں اور دیگر کثافتوں کے خارج ہونے کے نتیجے میں ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔
اچانک آنے والے طوفانوں بارشوں اور یہاں تک کہ زلزلوں کو بھی اسی گلوبل وارمنگ کے ردعمل کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔اب حج کے دن ہمارے مقامات مقدسہ پر جو غیر متوقع اور غیر معمولی بارش ہوئی ہے اسے بھی گلوبل ورمنگ کی کارستانی قرار دے کر بھلا دیا جائے گا ۔ مگر کچھ اہل نظر اس غیر متوقع وغیر معمولی بارش کو اور چند برس قبل کشمیر اور اس سے ملحقہ علاقوں میں آنے والے زلزلے کو قدرتی یا حقیقی قرار نہیں دے رہے ہیں بلکہ ان کے پیچھے بھی کسی انسانی ہاتھ کو دیکھ رہے ہیں بلکہ ڈھکے چھپے لفظوں میں ان دونوں واقعات کوانسانی شرارت قرار دے رہے ہیں۔
قارئین کرام یاد کریں کہ گذشتہ برس جب چین کے دارلحکومت بیجنگ میں اگست کے مہینے میں اولمپکس گیمزکھیلی گئیں تھیں تب وہ مون سون کا موسم تھا اور اس مہینے میں اس علاقے میں بارشیں ہوا ہی کرتی ہیں ۔مگر چین نے ایسا مکمل انتظام کر رکھا تھا کہ جب بادل بیجنگ کا رخ کریں تو ان کو راستے میں ہی برسا دیا جائے اور یوں بادلوں کو بیجنگ تک پہنچنے ہی نہ دیا جائے ۔
ہم بچپن میں پڑھا کرتے تھے کہ مون سون کے موسم میں بحیرہ بنگال سے نمی کے بخارات اٹھتے ہیں اور نمی سے لدے ہوئے بادل بن جاتے ہیں پھر یہ نمی سے لدے ہوئے بادل ہواﺅں کے دوش پر پورے ہندوستان پر برسے بغیرگذر جاتے ہیں اس کے بعد وہ ہمارے ملک کے شمال میں واقع بلند وبالا پہاڑوں سے ٹکرا کر رک جاتے ہیں اورواپس پلٹ کر آنے والے مزید بادلوں سے مل جاتے ہیں اس طرح سے ہمارے میدانی علاقوں کے اوپر ہوا میں نمی کا تناسب اس قدر زیادہ ہوجاتا ہے کہ ہوا اس تناسب کو سنبھال نہیں سکتی یوں نمی قطرے بن کر برسنا شروع ہو جاتی ہے۔اس عمل کو بارش کہتے ہیں۔
جس طرح سے نمی سے لدے ہوئے بادل ہندوستان کے اوپر سے برسے بغیر سینکڑوں میل کا سفر کرتے ہوئے گذر جاتے ہیں اسی طرح سے بحیرہ عرب سے اٹھنے والے نمی سے لدے ہوئے بادل بھی عرب ممالک کے اوپر اوپر سے بہت ہی زیادہ بلندی پر گذرتے ہیں مگر چونکہ ان کے راستے میں کوئی بلندوبالا پہاڑ نہیں آتے اس لئے نمی کا تناسب زیادہ نہیں ہو پاتا یوں وہ بادل عرب ممالک پر برسے بغیر آگے نکل جاتے ہیں کبھی کبھار جب ہوا میں نمی بڑھ جاتی ہے تب عرب کے ریگذاروں پر بارش ہو جایا کرتی ہے ۔
جیسے سمندروں جھیلوں اور گھنے جنگلوں کے اوپر ہوا میں نمی کی مقدار ہمیشہ ہی زیادہ ہوتی ہے اس لئے سمندروں جھیلوں اور گھنے جنگلوں پر بارشیں زیادہ ہی ہوتی ہیں یعنی کہ بارش ہونے کا عمل پہاڑوں سے بادلوں کے ٹکرائے بغیر بھی ہو سکتا ہے بشرطِ کہ ہوا میں نمی زیادہ کردی جائے اور اس عمل کا مظاہرہ یورپ کے کئی سائنسدان پچھلی صدی میں کئی مرتبہ کر چکے ہیں۔اب تو سائنس اچھی خاصی ترقی کرچکی ہے جبھی تو جدید طیاروں سٹیلائٹ اور سپیس ٹیکنالوجی کی مدد سے سائنسدانوں نے مصنوعی بارش برسانا بچوں کا کھیل بنا دیا ہے ۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارے مقامات حج پر جو یہ اچانک غیر معمولی اور غیر متوقع بارش ہوئی ہے اس کے پیچھے دجالین یعنی کہ انٹی مسلمین صہیونی سائنسدانوں کا ہاتھ ہے۔
آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو رہا ہوگا کہ یہ دجالین کیا ہے۔ دراصل ہم مسلم قوم کا قرآن کریم اور حدیث مبارکہ پر اتنا ایمان نہیں ہے جتنا اعتماد کافراقوام کو ہماری مقدس کتاب قرآن کریم اور احادیث ﷺ میں بیان کی گئی پیشین گوئیوں اور دیگر حقائق پر ہے۔ہمارے طبقہ اعلیٰ والے جب مادی و معاشی ترقی کرتے ہیں تو نہ صرف مدرپدر آزاد ہوجاتے ہیں بلکہ مذہب کا مذاق اڑانا جدیدیت اور فیشن سمجھتے ہیں جب کہ ان کے برعکس یورپ اور امریکہ کے برسراقتدار طبقات نہ صرف کٹر مذہبی ہیں بلکہ جیسے جیسے وہ اقتدار کی سیڑھی پر بلند ہوتے جاتے ہیں ویسے ویسے وہ زیادہ مذہبی اور انتہا پسند ہو تے جاتے ہیں میں ہر ملک سے مثالیں نہیں دوں گا کیونکہ ایسے بات لمبی ہو جائے گی۔
صرف امریکہ سے ایک مثال دے کر بات آگے بڑھاوں گا۔ آنجہانی صدر ریگن سے لے کر امریکہ کی موجودہ اور اصلی حکمران ہیلری کلنٹن کے عقائد کر دیکھ لیں ۔یہ سبھی کے سبھی انتہا پسند بنیاد پرست کٹراور متعصب عیسائی یا صہیونی ہیں جو کہ یسوع مسیح کی آمد پر غیر متزلزل یقین رکھتے ہیں اور ان کے استقبال کی تیاریوں میں دل وجان سے مصروف ہیں ۔ یسوع مسیح کی دوبارہ آمد کے بارے میں ان کی تبدیل شدہ کتب میں جو کچھ بھی درج ہے۔
یہ صہیونی اور صلیبی نہ صرف اس کو مانتے ہیں بلکہ اس سلسلے میں قرآن مجید اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی مطالعہ کرتے ہیں تاکہ نہ صرف ہماری روک تھام کی جا سکے بلکہ ہمیں گمراہ بھی کیا جا سکے جیسا کہ کتب احادیث میں درج ہے کہ امام مہدی کی مدد کے لئے خِراسان سے کالے جھنڈوں والا ایک لشکرنکلے گا اسی حدیث کو سچ مان کر صہیونیوں اور صلیبیوں نے اس مذکورہ لشکر کا راستہ روکنے کے لئے پہلے تو افغانستان پر بھرپور حملہ کیا تھا پھر پاکستان پر قبضہ کیا ہے اور اب اس اہم خطے میں طرح طرح کی قلعہ بندیوں میں مصروف ہیں ۔
کچھ کالمسٹ یہ خیال کرتے ہیں اور پھر وہ ایسا لکھتے بھی ہیں کہ عنقریب امریکن اس خطے سے نکل جائیں گے ایسے لکھاریوں اور دانشوروں سے میری یہ درخواست ہے کہ وہ جدید علوم پڑھنے کے ساتھ ساتھ احادیث رسول ﷺ کا مطالعہ بھی کیا کریں اگر میرے فاضل دوست خاص طور پر امام مہدی کے ظہور ۔دجال کے خِروج اور عیسیٰ علیہ اسلام کی دوبارہ آمد کی احادیث کا بغور مطالعہ کریں تو ان پر یہ حقیقت کھل جائے گی کہ یہ دجالی لشکر واپس جانے کے لئے نہیں آیا ہے بلکہ ام الحرب یعنی کہ جنگوں کی ماں لڑنے کے لئے آیا ہواہے کیونکہ دجالین کا ایمان یہی ہے کہ اس بڑی جنگ کے نتیجے میں ہی دجال کا فتنہ ظاہر ہوگا۔
سچ تو یہ ہے کہ سابق امریکن صدر جارج واکر بش نے کروسیڈ کا لفظ سہواً نہیں بولا تھا بلکہ یہ ایک کوڈ ورڈ تھا اور حقیقت میں دنیا کے کونوں کھدروں میں چھپے ہوئے صہیونیوں کے لئے ایک واضح پیغام تھا کہ اب نیو ورلڈ آڈر یعنی کہ دجال کے استقبال کی تیاریوں کے دوسرے مرحلے کا آغاز ہو چکا ہے اس لئے تم بھی اپنی کمر کس لو اب تو یہ راز بھی راز نہیں رہا ہے کہ انتہا پسند بنیاد پرست اور کٹر عیسائی یہودیوں کے مخالف نہیں رہے ہیں بلکہ وہ بھی صہیونی بن چکے ہیں ۔
یہاں پر ایک بات کی وضاحت کر دوں کہ کسی شخص کے صہیونی ہونے کے لئے اس کا یہودی ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ جو بھی شخص گریٹر اسرائیل کی حمایت کرتا ہے اور جنگوں کی ماں یعنی کہ آرمیگڈون کی تیاریوں میں انتہا پسندیہود کے ساتھ ہے وہ بھی صہیونی ہی ہے اس تعریف کے لحاظ سے بش اور کانڈولیزا رائیس بھی صہیونی ہیںاور پرویزمشرف بھی صہیونی ہی ہے ۔
اب جو لوگ دجال کو اپنا لیڈر مانتے ہیں اور اس کے استقبال کی تیاریوں میں دل وجان سے مصرف ہیں ان کو میرے کچھ قابل احترام علما ءنے دجالی کہا ہے اور میں نے انہی محترم علما اور اساتذہ کرام کی تقلید میں ان صہیونیوں اور صلیبیوں کو دجالین کا نام دیا ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ جب متعصب یہود اور ہنود ہم کو الٹے سیدھے اور اپنے من پسند القابات سے نواز سکتے ہیں تو ہمیں بھی یہ حق حاصل ہے کہ ہم اپنی سچی کتاب کی روشنی میں ان کے صفاتی اور عملیاتی نام رکھیں ۔
اب چونکہ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں یہود کے باطل لیڈر کو دجال کہا گیا ہے یوں اس کا استقبال کرنے والے اور چاہنے والے دجالیں ہی کہلوائیں گے۔یہ دجالین یا صہیونی اپنے لیڈر کی آمد کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے اطمینان سے نہیں بیٹھے ہوئے ہیں بلکہ ہر قسم کی تیاریوں میں مصروف ہیں ۔ وہ اپنے لیڈر کی قیادت میں جنگ کرنے کے لئے سپر ہیومن بنانے کے تجربات ہٹلر کے دور میں ہی شروع کرچکے ہیں ۔ دراصل ہٹلر کو اس قسم کے عجیب وغریب تجربات کرنے کے لئے اور ایک سپر ریس یا سپر ہیومین بنانے پر یہودی سائینس دانوں نے ہی آمادہ کیا تھا ۔
یوں اس عیار قوم نے جرمن قوم کا کثیر سرمایہ اپنے تخیلا تی انسان کے تجربات پر ضائع کر دیا تھا اور پھر جب ان صہیونیوں کی سازشوں سے جرمن قوم کو شکست ہوئی تھی تو انہی صہیونی یا دجالی سائنس دانوں نے اپنے گھناونے کارناموں کو ہٹلر کے کھاتے میں ڈال دیا ہے ۔ اب ہٹلر تو مر چکا ہے وہ عالم بالا سے واپس آکر صہیونیوں یعنی کہ دجالین کے بارے میں درست اور اصل حقائق تونہیں بیان کر سکتا یوں صہیونیوں کا جھوٹ دنیا کے سر پر چڑھ کر بول رہا ہے۔ جب جنگ عظیم دوم کے خاتمے پر جرمنی پر چار مغربی طاقتوں نے قبضہ کر لیا تھا تب جرمنی کے صہیونی سائنس دان نے امریکہ جانے کا فیصلہ کیا تھا تو عیسا ئی سائنس دانوں نے مجبوری کے عالم میں روسیوں کے ساتھ جانا قبول کر لیا تھا۔

 

جب صہیونی یعنی کہ دجالین سائنسدان امریکہ آگئے تھے تو انہوں نے اپنے شیطانی (دجالی) منصوبوں کی تکمیل کے لئے امریکہ کے سرمائے کو ایسے ہی استعمال کرنا شروع کردیا تھا جیسے وہ جرمنی کی شکست سے قبل جرمن قوم کے سرمائے کو اپنی قوم کے مقاصد کی تکمیل کے لئے استعمال کر رہے تھے یہ تجربات پچاس کی دھائی کے آغاز سے ہی شروع کر دیئے گئے تھے۔
ملٹی پل ہیومن ری پروڈکشن۔ سپر ہیومن ۔شی میل ۔ہی فیمیل ۔ سیلف ری پروڈکٹیو ہیومن(ایسا انسان یا سپر مین جو ایک مکمل نر اور مادہ ہو اور خود بخود بچے جننے کی صلاحیت رکھتا ہو) ۔یہ سبھی دجالین سائنسدانوں کے اذہان کی اختراعات ہیں اور ان پر امریکہ کے بہت سارے ریسرچ سنٹر زمیں تین چار عشروں سے کام ہو رہا ہے جن کا فائدہ تو بہرحال صہیونی (دجالین ) ہی اٹھائیں گے مگر ان پر کثیر سرمایہ امریکن کا ہی لگ رہا ہے۔ ڈولی شیپ دراصل کلوننگ سائنس کا پہلا اور ابتدائی کارنامہ ہے اور اس کے پیچھے صہیونیوں کے ایک فرقہ رئیلینز کی فکر کام کر رہی اس فرقے کو امریکن پریس کلونائیڈ کا نام دیتا ہے۔
بہرحال یہ سبجیکٹ بہت وسیع ہے اور چونکہ میں اس بارے میں خاصا علم رکھتا ہوں اس لئے ان موضوعات پر تفصیل سے لکھوں گا۔انشا اللہ العلیم و الخبیر۔ مگر اس وقت میں مسلم قوم کے ذہین افراد کا عوماً اور مسلم سائنسدانوں کا خصوصاً دھیان اس طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ صہیونی سائنس دان زمین کی مقناطیسیت اور زمین کے توازن پر پہاڑوں کی اہمیت پر برسوں سے تجربات کررہے ہیں اوران کے ان تجربات کی بنیاد قرآن حکیم کی متعدد آیات ہیں ۔جیسے کہ اللہ حکیم نے سورة ٰلقمٰن میں دسویں آیت میں ارشاد فرمایا ہے
﴾خلق السمٰوٰ ت بغیر عمدٍ ترونھا و القٰی فی الارض رواسی ان تمید بکم ﴿
تر جمہ:: اسی نے آسمانوں کو ستونوں کے بغیر پیدا کیا جیسا کہ تم دیکھتے ہو اور زمین پر پہاڑ رکھ دیے تاکہ تم ہلا ہلا نہ دے۔

میں فزکس اور ارضیات کے بارے میں کچھ علم نہیں رکھتا اسی لئے اپنے مسلم بھائی اور بہن سائنس دانوں سے درخواست گذار ہوں کہ وہ زمین کی گردش پرمقناطیسیت کے اثرات ا ور زمین کے توازن کے لئے پہاڑوں کی اہمیت پر کچھ روشنی ڈالیں اور جو کچھ بھی علم ان کو اللہ العلیم و الخبیر نے عطا فرمایا ہے اس علم کی روشنی میں مسلم امة کی راہنمائی کے لئے کچھ مفید مضامین تحریر فرمائیں۔اس کا اجر ان کو اللہ مالک و خالق عطا فرمائیں گے۔ انشا اللہ
جب کشمیر اور اس سے ملحقہ علاقوں میں شدید زلزلہ آیا تھا تو میں حیران رہ گیا تھا کیونکہ میرے علم کے مطابق ارضی اور سمٰوٰتی عذاب صرف اس بستی پر نازل ہوا کرتے ہیں جو کہ کھلم کھلا اللہ رب العزت کی نافرمان ہوچکی ہو ۔ اس لئے میں تحقیق اور جستجو میں پڑ گیا تھا پھرایک سال کے مکمل مطالعے رابطے اور انٹرویوز کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ زلزلہ زدہ علاقوں میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام برسوں سے ایک خاص نہج پر جاری و ساری ہے تو میں نے خود سے سوال کیا تھا ۔
کیا یہ عذاب الہٰی ہے یا کسی انسانی چھیڑ چھاڑ کا نتیجہ ہے؟ کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب کسی بستی یا کسی علاقے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام جاری وساری ہو تو اس بستی یا علاقے پر ربی عذاب نہیں آیا کرتے خواہ وہ بستی کھلم کھلا بدکاری کی مرتکب ہو رہی ہو کیونکہ جب تک کسی بستی میں ایک بھی مبلغ اسلام موجودہواللہ رحیم و کریم اس بستی پر رحم و کرم ہی فرمایا کرتے ہیں ۔
پھر مجھے میرے سوال کا جواب مل گیا تھا ۔یہ سب میرے رب کا فضل و کرم ہے اس میں میری کوئی خوبی نہیں ہے ۔وہ اپنے گناہ گار بندوں کی بھی راہنمائی فرماتا ہے سو اس ذات لا شریک نے میرے جیسے بدکار اور برے کی راہنمائی بھی فرمائی ہے

یہ ایک چھوٹا سا مضمون تھا جو کہ فزکس کے کسی ماہر نے لکھا تھا اور یہ انٹر نیٹ پر کچھ دیر ہی رہا تھا۔ افسوس کہ ان دنوں میرے پاس نہ تو پرنٹر تھا اور نہ ہی میرا پرانا کمپیوٹر اس قابل تھا کہ میں اس کو کاپی اور پیسٹ کرکے اپنے کمپیوٹر میں محفوظ کر لیتا مگر میرا مقصد حل ہو گیا تھا ۔الحمد للہ الرب العالمین
اس مضمون کا ماحاصل یہ تھا کہ ہماری زمین ایک بڑے مقناطیس کی مانند ہے اور اس کی کچھ پرتوں میں مقناطیسی لہریں شمالی قطب سے جنوبی قطب کو چلتی ہیں اور کچھ دوسری پرتوں میں یہی لہریں جنوبی قطب سے شمالی قطب کو واپس آتی ہیں یعنی کہ لہروں کے چلنے کا ایک مربوط اور مکمل نظام ہے اگر اس نظام میں خلل واقع ہوجائے یا کسی طرح سے خلل واقع کر دیا جائے تو زلرلہ آسکتا ہے اور پہاڑ بھی سرک سکتے ہیں کیونکہ یہ پہاڑ اسی مقناطیسی قوت کے بل پر زمین پر اپنی اپنی جگہ پر قائم ہیں۔

تب میں نے سوچا تھا کہ کسی دجالی سائنس دان نے قرآن حکیم کی سورة التکویر (۱۸) کی تیسری آیت اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے پر تدبر کیا ہوگا اور پھرسائنسی تحقیق میں جٹ گیا ہوگا۔
پھر میں نے تصور کیا تھا کہ تورا بورا پر کارپٹ بمباری کے بعد امریکن فوجیوں کے بھیس میں دجالی سائنس دان افغانستان کے علاقے واخان میں پہنچے ہوں گے اور طویل گہرے غاروں میں ایسے آلات لگائے ہوں گے جو کی زمین کے مقناطیسی لہروں میں خلل اندازی پیداکرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے اور ان سائنسی یا مقناطیسی آلات کو بذریعہ سٹیلائیٹ ریموٹ سے کنٹرول کیا جا سکتا ہوگا ۔پھر ان دجالی سائنس دانوں نے امریکہ یا اسرائیل میں بیٹھ کر یہ تجربہ کیا ہوگا جس کی کامیابی کے نتیجے میں کشمیر اور اس سے ملحقہ علاقوں میں ایک خوفناک اور تباہ کن زلزلہ آیا تھا۔
جو لوگ افغانستان کے مذکورہ پہاڑی مقامات دیکھ چکے ہیں وہ میری اس بات کی تصدیق کریں گے کہ واخان اور ملحقہ پہاڑوں میں میلوں لمبے قدرتی غار ہیں جن کی انتہا کا اندازہ لگا نا ابھی انسانی بس سے باہر ہے اور مجھے یقین ہے کہ سائنسی آلات کی مدد سے دجالی سائنس دان ایسی گہرائی تک جا پہنچے ہوں گے جہاں تک کوئی انسان نہ جا سکا ہوگا۔ یہ کوئی مفروضہ نہیں ہے ان مقناطیسی لہروں اور دیگر تجربات کے بارے میں انگلش لینگویج میں تو بہت کچھ شائع ہو چکا ہے۔
البتہ اردو زبان میں پڑھنا ہو تو میں مفتی ابولبانہ شاہ منصور کی تحقیقی کتاب دجال تجویز کرتا ہوں یہ کتاب الفلاح کراچی سے شائع ہوئی ہے اور اس میں امام مہدی کے ظہور۔ فتنہ دجال اور عیسیٰ علیہ السلام کی آمد پر بھی سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے یوں یہ کتاب دور قدیم کی اسلامی ہدایات و معلومات اور دور جدید کی تحقیقات کا حسین مرقع بن گئی ہے۔
اپنے اختتامی کلمات میں میں اپنے مسلم بھائیوں اور بہنوں سے یہی درخواست کروں گا کہ آپ جدید علوم یعنی کہ ماڈرن ایجوکیشن اینڈ ٹیکنالوجی ضروربہ ضرور حاصل کریں مگر ساتھ ہی ساتھ قرآن حکیم پر تدبر کرنے کی عادت کو اپنائیں اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر غورو فکر بھی کیا کریں۔
::وما علینا الالبلاغ

Wednesday 20 October 2010

" تبدیلی اور انقلاب بغیر قیمت دیے نہیں آتے "

" تبدیلی اور انقلاب بغیر قیمت دیے نہیں آتے "

شیخ عبدالعزیز بن باز کے فرزند شیخ احمد عبدالعزیز بن باز




نمازوں کے لئے مجبورکرنا کیا جائز ہے؟

شیخ احمد نے محکمہ امر بالمعروف کو چیلنج کیا ہے کہ وہ شریعت سے اس بات کا ثبوت پیش کریں جس کے ذریعے (بازار اور آفس زبردستی بند کروا کر) وہ عوام کو مخصوص وقت میں ہی نماز پڑھنے کا پابند کرتے ہیں۔ شیخ احمد کہتے ہیں کہ نماز کیلئے لوگوں کو تلقین کرنا ایک اچھی بات ہے تاکہ لوگ غفلت سے خبردار رہیں۔ لیکن پہلے تو یہ مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں پر زبردستی کی جائے اور نماز اُسی وقت پر نہ پڑھنے والوں کو سزا دی جائے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ میں نے سات سال کے عرصے میں امر بالمعروف والوں کو کئی بار تحریری طور پر توجہ دلائی یہ پہلی بار نہیں ہو رہا ہیکہ مجھ پر ٹکراؤ کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ ایسا کر کے امربالمعروف کے بعض لوگ لوگوں کی عزت اور آزادی کو ٹھیس پہنچاتے ہیں۔ یہ مسئلہ ہر موقع پر زیر بحث آنا چاہیے۔ تیسری بات یہ ہیکہ مجھ پر شہرت پسندی کا الزام دراصل ایسا تیار حربہ ہے جسکے ذریعے وہ اُن حقیقی مسائل اور نظریات کو نظر انداز کر ڈالتے ہیں جن پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ چوتھی بات یہ ہیکہ یہ مسائل آج تک حل نہیں کئے گئے شاید اسلئے کہ ان پر ابھی تک کسی نے توجہ نہیں دلائی۔
فتویٰ وحی نہیں ہوتا
شیخ احمد بن باز پران کے والد کے فتوؤں کے خلاف رائے دینے کا الزام ہے ۔ اس الزام کو انہوں نے ردّ کرتے ہوئے کہا کہ ان کے والدِ مرحوم کے فتوے مخصوص حالات اور وقت کے تقاضے کے مطابق تھے۔ کسی بھی چیز کو اس کی حقیقت یا حقیقی واقعہ کی روشنی میں دیکھا جاتا ہے۔ چونکہ ہر واقعہ وقتی ہوتا ہے اور اس کی نوعیت، وقت ماحول اور افراد کے ساتھ ہی بدل جاتی ہے اس لئے حالات بدلتے ہی فتوے بھی مختلف ہو جاتے ہیں۔

امام احمد بن حنبل (رحمۃ اللہ علیہ) کے ایک ہی عنوان پر نو مختلف فتوے موجود ہیں۔ امام شافعی (رحمۃ اللہ علیہ) کے بھی ایک ہی چیز کے بارے میں نئے اور پرانے مختلف فتوے موجود ہیں اور دوسرے اماموں کے ایسے کئی فتوے موجود ہیں جو ایک ہی مسئلہ پر ہوتے ہوئے ایک دوسرے سے مختلف ہیں اورکئی ائمہ سلف نے اپنی راے سے رجوع بھی کیا ہے۔ لہذا حالات کی نوعیت کے ساتھ ہی فتوے کا اطلاق بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔ خود میرے والد کے ایک ہی مسئلہ پر دو مختلف نئی اور پرانی رائیں موجود ہیں جیسے کے ٹیلیویژن کے بارے میں انہوں نے پہلے یہ فتویٰ دیا کہ یہ حرام ہے، بعد میں رائے بدلی اور یہ فتوی دیا کہ ٹی-وی ایک مشین کی طرح ہے جس کا حلال یا حرام ہونا اس کے استعمال پر منحصر ہے۔ میرے والد کے وہ فتوے جن میں اختلاف ہے کسی مخصوص شخص اور مخصوص حالات یا مخصوص اسباب کی روشنی میں تھے جو ضروری نہیں کہ وہی کسی دوسرے شخص کیلئے قابل اتباع ہوں۔ان فتوؤں کو عمومی قرار نہیں دیا جا سکتا۔
کیا ہر غیر مسلم کافر ہے؟

لفظ کافر کو عمومی طور پر ہر اہل کتاب کیلئے استعمال کرنا غلط ہے۔ قرآن و حدیث میں کہیں بھی اہلِ کتاب کو کافر نہیں قرار دیا گیا۔ کافر اس شخص کیلئے لاگو ہوتا ہے جس کو اسلام کی حقیقت پہنچا دی جائے اور وہ سچ کو پانے کے بعد بھی ردّ کردے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آج دنیا کو واقعی وہی اسلام پہنچ رہا ہے جو حقیقتاََ اسلام ہے یا اس کی مسخ شدہ شکل پہنچ رہی ہے؟

عورتوں کا کار چلانا

جہاں تک عورتوں کے کار چلانے کا تعلق ہے میرے والد نے جس وقت اس کے حرام ہونے کا فتویٰ دیا تھا اُس وقت کے حالات اور تھے آج وہ حالات نہیں رہے۔ آج اس فتوے پر پھر سے نظرِ ثانی کی ضرورت ہے۔ جس وقت اسے حرام قرار دیا گیا تھا اس وقت کے حالات شاید بہت سارے لوگوں کے علم میں نہیں ہیں۔ 1990ء کا وہ دور دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے زیادہ نازک دور تھا۔ صدام کے کویت پر قبضے اور امریکی فوجوں کی خلیج میں آمد نے ایک غیر یقینی تشویشناک صورت حال سے دوچار کر دیا تھا۔اور ٹیلیویژن بھی اسی زمانے میں غیر معمولی ترقی کر رہا تھا۔ ایسے پیچیدہ حالات میں اچانک کچھ عورتوں کا سڑک پر کار چلا کر احتجاج کرنا ایک اچنبھے میں ڈالنے والی حرکت تھی۔ اپنے مسائل کو پیش کرنے اور احتجاج کرنے کا یہ نیا طریقہ غیر اخلاقی اور نا قابل قبول تھا اور ہماری سماجی اقدار کے خلاف بھی ۔ ایسے وقت میں جبکہ سیاسی صورت حال دھماکو تھی اور جنگ سر پر منڈلا رہی تھی ، بم کے خوف سے لوگوں میں ماسک تقسیم کئے جارہے تھے، یہ اندیشہ بڑھتا جارہا تھا کہ کہیں ایک خارجی دشمن کی وجہہ سے ہم لوگ داخلی طور پر تقسیم نہ ہو جائیں ایسے وقت میں بے شمار ایسے لوگ بھی دارالافتاء پر احتجاج کیلئے جمع ہو گئے تھے جن کو متوع کہتے ہیں۔ اس وقت دارالافتاء کے اندر چند علماء تھے جن میں میرے والد بھی تھے۔ ایسے وقت میں میرے والد عبدالعزیز بن باز نے عورت کا کار چلانا حرام قرار دیا ۔ اس فتوے کو ان حالات کے پس منظر کے بغیر نہیں دیکھا جا سکتا۔
فتوؤں کا کھیل

آج کل فتوؤں کا دنیا میں ایک کھیل بن گیا ہے جس پر روک لگانے کی ضرورت ہے۔ ہمارے اسلاف کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ نہ تو وہ اس قدر سوالات کیا کرتے تھے اور نہ اس طرح فتوے دیا کرتے تھے۔ یہ ہم ہی ہیں جنہوں نے فتوؤں کو کھیل بنا دیا ہے۔ ہر شخص نے انفرادی طور پر فتوے دینا شروع کر دیا ہے۔ کچھ فروعی مسائل ایسے ہیں جن کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دے دی گئی ہے اور ان کی حیثیت ایسے فرض یا واجب کی طرح کر دی گئی ہے جن کو تبدیل کیا ہی نہیں جا سکتا حالانکہ انکی حیثیت فروعی ہے جن پر علماء کا مدت دراز سے اختلاف ہے۔ جن مسائل پر آج ہم کثرت سے گفتگو کرتے ہیں ان مسائل کی اکثریت اسی قسم کے فروعی مسائل سے ہے جن کو اتنی ہی اہمیت یا وزن دینا چاہیے جو ان کی واقعتاً ہے۔
کیا آج تجدید فقہ کی ضرورت ہے؟

جی ہاں! آج ضرورت ہے ایسے مدارس کی جہاں شریعت کے وسیع ترمقاصد کی تکمیل کیلئے فقہی تحقیق کی ضرورت ہے۔ جہاں مسائل کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے۔
مذہبی شدّت پسندی

آج کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لوگ اپنے دینی اور فقہی عقائد پر انتہا پسندی پر اُترآئے ہیں۔ دوسروں پر اپنا اصول مسلّط کرنا چاہتے ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں دنیا آج بھی وہی ہے جوآج سے ساٹھ ستّر سال پہلے تھی۔ اصلاح اور دعوت کے کام کیلئے افہام و تفہیم کے راستے کھولنے اور ذہن و دل کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ تحمل اور ضبط کے بغیر یہ کام نہیں ہوگا ۔ یہ سعی کئی قربانیاں اور وقت چاہتی ہے۔ ان امور پر توجہ کرنے کی زیادہ ضرورت ہے جو اہمیت کے اعتبار سے زیادہ اہم ہیں۔ (شیخ احمد یہ تمام باتیں اس سوال کے جواب میں کہہ رہے تھے کہ: کیا ان مسائل پر بھی فتوے دینا ضروری ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے محض رحم کی بنیاد پر ذکر کرنا مناسب نہ سمجھا، یعنی کئی ایسے مسائل جن پر شریعت نے تو خاموشی اختیار کی لیکن لوگوں نے ان پر حلال و حرام کی بحث شروع کر دی)۔
لوگ لکیر کے فقیر ہوتے ہیں

شیخ احمد کی جن لوگوں نے کردارکشی کرنے کی کوشش کی ، ان کا نام یا حوالہ دیئے بغیر کہا کہ : “اصل مسائل پر توجہ دلانے والے پر باغی ، آزاد اور سیکولر وغیرہ ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ لیکن یہ طئے ہے کہ کوئی تبدیلی اور ریفارم قیمت دئیے بغیر نہیں آتی۔ جو ریفارم کیلئے اُٹھے اُسے یہ تہمتیں اور الزامات قیمت کے طور پرسہنے ہی ہیں۔ اور جو لوگ ایسے الزامات دھرتے ہیں وہ سطحی عقل کے لوگ ہوتے ہیں۔ نہ اُن کا تعلیمی معیار ہوتا ہے اور نہ ان میں اتنی ذہانت ہوتی ہے کہ وہ تعمیری تنقید کے عمل کو سیکھیں اور برتیں۔ اور نہ ان میں افہام و تفہیم کی صلاحیت ہوتی ہے۔ اسلئے یہ لوگ اختلاف الرائے رکھنے والے کی فوری طور پر کافر ، باغی ، ایجنٹ وغیرہ کی درجہ بندی کر دیتے ہیں اور اس طرح کی اصطلاحات تراش لیتے ہیں۔ یہ بہت پرانی روش ہے۔ لیکن آج حالات بدل رہے ہیں اب لوگ پڑھتے بھی ہیں اور گفتگو بھی کرتے ہیں ہیں۔ اندھی تقلید کرنے کی روش اب بدل رہی ہے۔
دار الکفر اور دار الاسلام کی بحث

سعودی عرب ہی کے ایک عالم نے شیخ احمد بن عبدالعزیز بن باز کے 2003ء میں شائع شدہ الشرق الاوسط کے ایک مضمون کے جواب میں اپنا سخت موقف اختیار کرتے ہوئے مذہب اور سیکولرزم کے نازک فرق کو نظرانداز کرتے ہوئے یہ لکھا کہ :

” جسطرح رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ہجرت کے بعد مکہ مکرمہ میں مشرکین کی حکومت رہی اور مسلمانوں کو ان کے دین کی دعوت کے حق سے محروم کر دیا گیا۔ اسی طرح کی جہاں بھی ایسی ریاست جس میں شرک اور کفر کی حکومت ہوگی وہ دارالکفر کہلائے گا اور موصوف نے لکھا تھا کہ دارالکفر یا دارالاسلام محض اصطلاحات نہیں بلکہ نص سے ثابت ہیں”۔

اس کے جواب میں شیخ احمد بن باز نے کہا کہ” دارالاسلام یا دارالکفر کی درجہ بندی دراصل ایسی اصطلاحات ہیں جو اجتہادی ہیں ۔ جن لوگوں نے بھی ان اصطلاحات کو رائج کیا وہ ان کی ذاتی سوچ و فکر یا ذاتی رائے ہے۔ آج کے عہد میں ان فقہی اصطلاحات کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ درحقیقت صدیاں گزرجانے کے بعد آج بھی ہم کئی ایسے خیالات اور اصطلاحات کو برت رہے ہیں جن کا نہ قرآن سے کوئی ثبوت ہے اور نہ وہ آج کے حالات سے کسی قسم کی مطابقت رکھتے ہیں۔ جس دور میں مسلمانوں کی حکومت کو دارالاسلام اور غیر مسلموں کی حکومت کو دارالکفر کہا جاتا تھا آج وہ دور باقی نہیں رہا اب کسی کو دارالاسلام یا دار الکفر قرار دینا مشکل ہے۔ ان اصطلاحات کو اسلئے بھی منطبق نہیں کیا جا سکتا کہ اب حکومت کا تصور الگ ہے۔ اس میں ریاست ، قوم، شہری، مختلف طرزِحکومت ، طریقہ انتخاب ، پارلیمنٹ، مجالس نمائندگان، ملکی اور عالمی تنظیمیں ایک ریاست کے تصور میں شامل ہیں۔ مثال کے طور پر لبنان کو لیجئے جہاں صدر اگرا یک مذہب کا ہو تو وزیر اعظم دوسرے مذہب کا ہوتا ہے۔ اسپیکر تیسرے مذہب کا ہوتا ہے۔ (وہاں مسلمان کرسچین اور یہودی سارے مل کر رہتے ہیں مسلمانوں میں بھی شیعہ سنی بڑی تعداد میں ہیں اس لئے قانون یہ بنا دیا گیا کہ صدر ، وزیراعظم اور اسپیکر مختلف مذاہب کے ہوں گے تا کہ تمام مذاہب کا حکومت کی تشکیل میں برابر کا حصہ رہے)۔ اسلئے اب لبنان کو قدیم اصطلاحات کی بنیاد پر کیا درجہ دیا جائے گا؟ دارالکفر یا دار الاسلام؟۔

آج ہم کو نئی فقہی نظریات کی تخلیق کرنے کی ضرورت ہے، جوحکومت، قوم، وطن سے وفاداری، عالمی تعلقات اور عالمی تنظیموں کا صحیح تصور پیش کریں، ایسا تصورجسے سماجی، سیاسی اور دانشوری کے زاویہ سے دیکھا جائے۔

آج ہمیں انتفادہ کی ضرورت ہے (جس طرح فلسطینیوں نے میدان کارزار میں انتفادہ کیا اسی طرح کا ) ایسا انتفادہ جو دانشورانہ اور علمی ہو۔ اس کے لئے ورکشاپس، یونیورسٹیوں میں تحقیق اور نئی فقہی تالیف کی ضرورت ہے جس کے ذریعے آج کی تیزی سے تغیر پذیر تہذیبی نشیب و فراز کا جائزہ لیا جائے۔ ہمیشہ کی طرح (پرانی کتابوں اور پرانے اصولوں کو) کاپی پیسٹ نہ کیا جائے جسطرح کہ اسلامی معاشیات کی کتابوں میں کیا جاتا ہے۔ آج کی دنیا نے کئی اہم تہذیبی اورانسانی کارنامے انجام دئیے ہیں ، صنعتی انقلاب سے لے کر آج کے ڈیجیٹل انقلاب تک وہ وہ تبدیلیاں آچکی ہیں جو پہلے ہزاروں سال میں نہیں آئی تھیں۔

ہم کو ایک لمحے کے لئے رک کر سوچنا ہوگا اور کئی چیزوں پر از سرِنو غور کرنا ہوگا،اور ایسے نئے اصول وضوابط وضع کرنے ہونگے جو شریعت کی کسوٹی اور مقصد کی عکاسی کریں۔ ہم محض خاموش تماشائی یا ان ترقیوں کے محض خریدنے والے بن کر نہ رہیں بلکہ آگے بڑھیں اور مستقبل کیلئے خود بھی کچھ اقدام کریں ۔ ہم ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کیلئے جیتے ہیں ، ہمارے ایجنڈے میں وہی مسائل ہوتے ہیں جو فوری طور پر پیش آتے ہیں (مستقبل کی منصوبہ بندی ہمارے لائحہ عمل میں شامل نہیں ہوتی)۔



شیخ احمد بن باز نے ایک اور اچھی خبر سنائی کہ سعودی عرب کے موجودہ فرمانروا مَلِک عبداللہ بن عبدالعزیز خود ایک تبدیلی اور انقلاب کے خواہاں ہیں اور اس کے لئے انہوں نے انقلابی اقدامات شروع کر دیئے ہیں۔ شیخ احمد نے یہ اقرار کیا کہ ان کی دعوتی اور اصلاحی کوششوں میں مَلِک عبداللہ بن عبدالعزیز ہی کی ہمت
افزائی کے نتیجے میں اضافہ ہوا ہے۔




Monday 19 July 2010

اللہ لفظ کہنے سے ذہنی امراض دور ہوجاتے ہیں

ہالینڈ کے اسکالر ، پروفیسر ، فان دیر ہوون نے کہا ہے کہ:
 قرآن مجید کی تلاوت خصوصاً لفظ "اللہ" کہنے سے ذہنی امراض دور ہوجاتے ہیں اور انسانی اعصاب سکون محسوس کرنے لگتے ہیں ۔
انہوں نے المدینہ اخبار کو بتایا کہ لفظ "اللہ" میں موجود پانچوں حروف کی حیرت انگیز تاثیر ریکارڈ کی گئی ہے ۔ یہ انسانی فکر کے دسترس سے باہر ہے ۔ عربی زبان میں حرف "الف" کا تلفظ سینے کے اوپر والے حصے سے ہوتا ہے ۔ ادائیگی کی شروعات ہوتے ہی تنفس موزوں ہونے لگتا ہے ۔
ہالینڈ کی زبان میں عربی کے حرف الف کی جگہ "اے" (A) آتا ہے ۔ عربی کے حرف "ل" کا معمولی سا حصہ غیر ملکی زبانوں میں بھی پایا جاتا ہے ۔ اس کی ادائگی پر زبان کی نوک پر جبڑے کا بالائی حصہ حرکت میں آتا ہے اور دو سیکنڈ سے کم عرصے کیلئے توقیف کا عمل ہوتا ہے ، اس کے تیزی کے ساتھ تکرار سے انسان زیادہ طاقتور اور زیادہ شفاف حرف "ہ" کی ادائگی کے لیے تیار ہوجاتا ہے ۔ عربی کے "ہ" کے بالمقابل ہالینڈ کی زبان میں حرف "ایچ" (H) آتا ہے ۔ یہ حرف پھیپڑوں کو دل سے جوڑ کر دل کی حرکت منظّم کردیتا ہے ۔ دس سے ایک ہزار بار "اللہ" کہنے سے ذہنی یا اعصابی مرض میں مبتالا افراد راحت محسوس کرتے ہیں۔


(بشکریہ اردو نیوز و المدینہ اخبارات ، جدہ ، سعودی عرب)

Thursday 15 July 2010

اقوال صحابہ کی حجیت

اقوال صحابہ کی حجیت


نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کے صحابہ میں سے بغض علم، فقہ اور فتوای وغیرہ میں بہت مشھور ہوئے- ان کے کئے ہوئے فیصلے اور کس فتوے بذریعہ روایت ہم تک پہنچے ہیں- اگر کسی مجتہد کو کتاب و سنت اور اجماع سے کسی مسئلے سے کسی مسئلے کے لیے دلیل نہ ملے تو کیا وہ صحابہ کے ان اقوال، فتاوی جات اور فیصلوں سے حجت لے سکتا ہے یا نہیں؟ تو اس پر کچھ تفصیل نیچے ہے-

٭ صحابی کی وہ بات جو اجتہاد اور رائے کے ذریعے نہیں کی جاسکتی علماء کے نزدیک حجت ہے کیونکہ اس میں یہ احتمال ہے کہ یقینا یہ بات صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی سنی ہوگی۔

٭ صحابی کے جس قول پر اجماع ہوچکا ہو علماء اسے شرعی حجت قرار دیتے ہیں-

٭ صحابی کا ایسا قول جو رائے اور اجتہاد پر مبنی ہو کیا وہ حجت ہے؟

اس میں علماء نے اختلاف کیا ہے:

1/ بعض علماء اسے شرعی حجت قرار دیتے ہیں- ان کا کہنا ہے کہ جب کوئی مسئلہ عتاب و سنت اور اجماع سے نہ مل سکے تو صحابی کے قول پر عمل کرنا چاہیے کیونکہ اگرچہ وہ بات رائے پر مبنی ہے لیکن ان کی رائے ہماری رائے سے بہرحال بہتر ہے وہ اس لیے کہ وہ نزول وحی کے زمانے میں موجود تھے، تشریح احکام کی حکمت اور اسباب نزول سے واقف تھے، اور ایک لمبا عرصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں بھی رہے تھے- ان تمام وجوہات کی بنا پر ان کی آراء کو دوسروں کی آراء پر بڑی فضیلت حاصل ہے-

2/ اوربعض علماء اسے شرعی حجت نہیں گردانتے- ان کا کہنا ہے کہ ہم صرف کتاب و سنت کے دلائل پر عمل کے پابند ہیں اور صحابی کا قول ان میں شامل نہیں-

ہمارے علم کے مطابق راجح بات یہ ہے کہ اگرچہ صحابی کے ایسے قول پر جو اجتہاد و رائے پر مبنی ہو عمل واجب نہیں لیکن اپنی رائے پر ان کی رائے کو ترجیح دینا افضل ہے جیسا کہ اس کی وجوہات پہلے قول کےضمن میں بیان کی جا چکی ہیں-

اب ہم فقہ کے اماموں کی اس بارے میں رائے ملاحظہ کریں گے:

(ابو حنیفہ رحمہ اللہ):
اگر اللہ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں مجھے کوئی چیز نہیں ملتی تو میں صحابہ کے اقوال اختیار کرلیتا ہوں-
[ ابو حنیفہ للشیخ ابی زھرۃ (ص/309)]

(مالک رحمہ اللہ):
 انہوں نے اپنی کتاب موطا میں بہت سے صحابہ کے فتاوی جات نقل کیے ہیں اور اکثر مسائل میں انہی پر اعتماد کیا ہے۔
[ مالک للشیخ ابی زھرۃ (ص/259)]

(شافعی رحمہ اللہ):
 اگر مجھے کتاب و سنت یا اجماع یا اس کے ہم معنی کسی دوسری چيز میں جو حکم لگانے والی ہو یا اس کے ساتھ قیاس ہو، کوئی چیز نہیں ملتی تو میرا مسلک یہی ہے کہ صحابہ میں سے کسی کے قول کو اختیار کرلیا جائے-
[ الرسالۃ للشافعی (ص/598)]

(احمد بن جنبل رحمہ اللہ):
 میں نے ہر مسئلے میں یا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے جواب دیا یا صحابہ یا تابعین کے کسی قول سے-
[ اصول الفقہ لابی زھرۃ (ص/215) ، اصول الفقہ و ابن التیمیہ (ص/356)]

اقتباس: فقہ الحدیث

تالیف: حافظ عمران ایوب لاھوری حفظ اللہ

اجماع

اجماع


قرآن و سنت کے بعد فقہ کے ذیلی ماخذ میں سے پہلا ماخذ اجماع ہے اور جمہور علماء کے نزدیک یہ ماخذ دیگر ماخذ سے قوت اور حجیت سے زیادہ قوی ہے۔

اجماع کی تعریف:

لغوی اعتبار سے تو اجماع "عزم، پختہ ارادہ اور کسی بات پر متفق ہونے" کو کہتے ہیں جیسا کہ حدیث میں ہے۔

لاَ صِيَامَ لِمَنْ لَمْ يُجْمِعْ قَبْلَ الْفَجْرِ
"اس شخص کا روزہ نہیں ہوگا جو فجر سے پہلے ہی روزہ رکھنے کی نیت نہ کرے"
(صحیح: النسائی، کتاب الصیام: باب ذِكْرِ اخْتِلاَفِ النَّاقِلِينَ لِخَبَرِ حَفْصَةَ فِي ذَلِك:2348 ، 2349)

اور قرآن میں ہے کہ:

[فَأَجْمِعُواْ أَمْرَكُمْ وَشُرَكَاءكم]
"تم اپنا معاملہ اپنے شرکاء سے مل کر پختہ طور پر طے کرو"
(سورہ یونس:71)

اصطلاحی اعتبار سے اجماع کی تعریف یہ کی جاتی ہے:

(ھو اتفاق المجتہدین فی عصر من الغصور علی حکم شری بعد وفاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم بدلیل)
"اجماع سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی خاص دور میں (امت اسلامیہ کے) تمام مجتہدین کا کسی دلیل کے ساتھ کسی شرعی حکم پر متفق ہوجانا ہے-"
[ الارشاد المفحول (1/285)، المستصفی الغزالی (1/183)]

:اجماع کی شرائط

٭ مطلوبہ مسئلے پر متفق ہونے والے افراد مجتہد ہوں ورنہ اجماع معتبر نہ ہوگا۔

٭ مجتہدین کے اتفاق سے مراد تمام مجتہدین کا اتفاق ہے ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ صرف ایک شہر والے یا ایک بستی کے علماء ہی کسی مسئلے پر جمع ہوں کیونکہ ایک کی مخالفت بھی اجماع کے منعقد ہونے مین رکاوٹ ہے-

٭ تمام مجتہد مسلمان ہوں۔

٭ جب کسی مسئلے پر تمام مجتہد متفق ہوجائيں تو پھر ضروری ہے کہ اتفاقی فیصلہ عمل میں آجائے- علاوہ ازیں یہ شرط نہیں ہے کہ تمام مجتہدین کی موت بھی اس اتفاق پر ہی ہو-

٭ اجماع کے لیے ضروری ہے کہ کسی شرعی حکم پر اتفاق ہو نہ کہ طب، ریاضی یا لغت سے متعلقہ کسی مسئلے پر ہو۔

٭ صرف وہی اجماع قابل قبول ہوگا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفات کے بعد ہوا ہو-

٭ اجماع کے لیے کسی شرعی دلیل کا ہونا ضروری ہے جس پر سب متفق ہوئے ہوں محض اپنی خواھش پر کیا جانے والا اجماع معتبر نہیں ہوگا۔

اجماع کی مثالیں:

٭ مسلمان عورت کا کسی غیر مسلم مرد سے نکاح نہیں ہوسکتا

٭ پھوپھی او ر بھتیجی، خالہ اور بھانجی کو بیک وقت نکاح میں نہیں رکھا جاسکتا

٭ مفتوحہ اراضی کو فاتحین کے درمیان دیگر اموال غنیمت کی طرح نہیں بانٹا جائے گا

٭ اگر سگے بھائی، بہن نہ ہوں تو باپ کی طرف سے بننے والے بھائی بہن کو ان کا حصہ دیا جائے گا۔

اجماع کی حجیت:

جمہور علماء کے نزدیک اجماع حجیت ہے اور وہ حجیت اجماع کے جو دلائل پیش کرتے ہیں ان میں سے چند حسب ذیل ہیں:

٭ ارشاد باری تعالی ہے کہ:

{وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءتْ مَصِيرًا}
"اور جس نے ہدایت واضح ہوجانے کے بعد رسول کی نافرمانی کی اور مومنین کے راستے کے علاوہ کسی دوسرے راستے کی پیروی کی تو اسے ہم اسی کی طرف لے جائيں گے جدھر وہ خود گیا اور اسے جہنم میں داخل کردیں گے جو بہت بری جائے قرار ہے-"
(النساء:115)

٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

{ إن أمتي لا تجتمع على ضلالة }
" بلاشبہ میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہوگی-"
(صحیح: ابن ماجہ، کتاب الفتن: باب السواد الاعظم3950)

٭ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

{ لا نزال طائفۃ من امتی ظاھرین علی الحق}
" میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر غالب رہے گا-"
(صحیح بخاری: کتاب التوحید: باب قول اللہ تعالی [ انما قولنا لشیئی اذا اردناہ}، 7459)

اجماع کی اقسام:

٭ اجماع صریح: اس سے مراد یہ ہے کہ تمام مجتہدعلماء کسی مسئلے پر اس طرح متفق ہوں کہ وہ اس کے متعلق صراحت سے اظہار کریں حواہ قول سے کریں یا افتاء سے کریں یا قضاء سے کریں- یہ اجماع بالاتفاق حجت ہے-

٭ اجماع سکوتی: اس سے مراد یہ ہے کہ جب کوئی مسئلہ پیش کیا جائے تو چند اہل اجتہاد علماء تو اس پر متفق ہوجائيں لیکن دیگر مجتہدین اس پر خاموشی اختیار کریں اور کوئی اعتراض نہ کریں- یا اجماع احناف کے نزدیک حجت ہے جبکہ امام مالک رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ اسے اجماع تسلیم نہیں کرتے۔

اقتباس: فقہ الحدیث

تالیف: حافظ عمران ایوب لاھوری حفظ اللہ

Monday 12 July 2010

تقلید کا مفہوم ، تاریخ ، حکم اور نقصانات

تقلید کا مفہوم ، تاریخ ، حکم اور نقصانات

تقلید کی لغوی تعریف

دیوبندیوں کی لغت کی مستند کتاب ”القاموس الوحید“ میں لکھا ہے:
1:-
 قلّد۔۔فلاناً: تقلید کرنا،بنادلیل پیروی کرنا،آنکھ بن کر کے کسی کے پیچھے چلنا
 (القاموس الوحیدص:۶۴۳۱)

2:-
التقلید:بے سوچے سمجھے یا بنادلیل پیروی،نقل،سپردگی
 (القاموس الوحیدص:۶۴۳۱)
3:-
امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"اما التقلید فاصلہ فی الغة ماخوزمن القلادہ التی یقلد غیربہاومنہ تقلیدالہدی فکان المقلد جعل زلک الحکم الذی قلد فیہ المجتھد کالقلادة فی عنق من قلدہ۔

"یعنی تقلیدلغت میں گلے میں ڈالے جانے والے پٹے سے ماخوز ہے اور وقف شدہ حیوانات کے گلے میں طوق ڈالنا بھی اسی میں سے ہے، تقلید کو تقلید اس لئے کہتے ہیں کہ اسمیں مقلد جس حکم میں مجتہد کی تقلید کرتا ہے، وہ حکم اپنے گلے میں طوق کی طرح ڈالتا ہے۔"
(ارشاد الفحول ص:۱۴۴)
4:-
اسی طرح غیاث الغات میں تقلید کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے:
”گردن بنددرگردن انداختن وکار بعھد کسی ساختن وبر گردن خود کار بگرفتن و مجاز بمعنی پیروی کسی بے در یافت حقیقت آن“

یعنی تقلید گلے میں رسی ڈالنے یا کسی کے زمےکوئی کام لگانے کا نام ہے۔اسی طرح اپنے زمہ کوئی کام لینابھی تقلید کہلاتا ہے ، اس کے مجازی معنیٰ یہ ہیں کی حقیقت معلوم کیے بغیرکسی کی تا بعداری کی جائے۔
 (غیاث الغات ص:۳۰۱)

تقلید کی اصطلاحی تعریف

1:-
حنفیوں کی معتبر کتاب ”مسلم الثبوت“میں لکھا ہے:
”التقلید: العمل بقول الغیرمن غیر حجةکا خذ العامی والمجتھد من مثلہ، فا لرجوع الی النبی علیہ الصلاٰة والسلام او الی ا الجماع لیس منہ و کذا العامی الی المفتی والقاضی الی العدول لا یجاب النص ذلک علیھما لکن العرف علی ان العامی مقلد للمجتھد، قال الامام: وعلیہ معضم الاصولین“ الخ
تقلید کسی دوسرے کے قول پر بغیر (قرآن و حدیث کی) دلیل کے عمل کو کہتے ہیں۔جیسے عامی (کم علم شخص) اپنے جیسے عامی اور مجتھدکسی دوسرے مجتھد کا قول لے لے۔پس نبی علیہ الصلاة اولسلام اور اجماع کی طرف رجوع کرنا اس (تقلید) میں سے نہیں۔ اور اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا(تقلید نہیں) کیونکہ اسے نص (دلیل) نے واجب کیا ہے لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے۔امام (امام الحرمین الشافعی) نے کہا کہ” اور اسی تعریف پر علمِ اصول کے عام علماء(متفق)ہیں“۔ الخ
(مسلم الثبوت ص۹۸۲طبع ۶۱۳۱ھ وفواتح الر حموت ج۲ ص۰۰۴)
2:-
امام ابن ہمام حنفی (متوفی۱۶۸ھ) نے لکھا ہے:

”مسالة:التقلید العمل بقول من لیس قولہ احدی الحجج بلا حجة منھا فلیس الرجوع النبی علیہ الصلاة والسلام واالاجماع منہ“
مسئلہ:تقلید اس شخص کے قول پر بغیر دلیل عمل کو کہتے ہیں جس کا قول (چار) دلائل میں سے نہیں ہے۔پس نبی علیہ الصلاةوالسلام اوراجماع کی طرف رجوع تقلید میں سے نہیں ہے۔
 (تحریر ابنِ ہمام فی علم الاصول ج ۳ص۳۵۴)
نوٹ : بلکل یہی تعریف ابنِ امیر الحجاج الحنفی نے کتاب التقریروالتحبیرفی علم الاصول ج ۳ص ۳۵۴،۴۵۴ اور قاضی محمد اعلیٰ تھانوی حنفی نے کشاف الاصطلاحات الفنون ج ۲ص۸۷۱۱ میں بیان کی ہے کہ نبی علیہ الصلاةوالسلام اور اجما ع کی طرف رجو ع کرنا تقلید نہیں (کیونکہ اسے دلیل نے واجب کیا ہے)

3:-
تقلید کی ایک اور مشہور اصطلاحی تعریف یہ کی گئی ہے:

”ھو عمل بقول الغیر من غیر حجة“
کسی دوسرے کی بات پر بغیر (قرآن وحدیث کی) دلیل کے عمل کرنا تقلید ہے۔
 (ارشاد الفحول ص۱۴۴، شرح القصیدة الامالیة لملا علی القاری حنفی و تفسیر القرطبی ۲۱۱۲)
4:-
قاری چن محمد دیوبندی نے لکھا ہے:

”اور تسلیم القول بلا دلیل یہی تقلید ہے یعنی کسی قول کو بنا دلیل تسلیم کرنا، مان لینا یہی تقلید ہے“
 (غیر مقلدین سے چند معروضات ص۱ عرض نمبر ۱)
5:-
مفتی سعید احمد پالن پوری دیوبندی نے لکھا ہے:

کیونکہ تقلید کسی کا قول اس کی دلیل جانے بغیر لینے کا نام ہے۔
 (آپ فتویٰ کیسے دیں گے؟ ص۶۷)
6:-
اشرف علی تھانوی کے ملفوضات میں لکھا ہے:

ایک صاحب نے عرض کیا تقلید کی حقیقت کیا ہے؟ اور تقلید کسے کہتے ہیں؟ فرمایا : تقلید کہتے ہیں: ”اُمتی کا قول بنا دلیل ماننا“ عرض کیا کہ کیا اللہ اور رسول علیہ الصلاةوالسلام کی بات ماننا بھی تقلید ہے؟ فرمایا اللہ اور رسول علیہ الصلاةوالسلام کی بات ماننا تقلید نہیں بلکہ اتباع ہے۔
(الافاضات الیومیہ من الافادات القومیہ ملفوضات حکیم الامت ج۳ص۹۵۱ ملفوض:۸۲۲)
7:-
مفتی احمد یار نعیمی حنفی بریلوی لکھتے ہیں:

مسلم الثبوت میں ہے ، ”التقلید العمل بقول الغیر من غیر حجة“ اس تعریف سے معلوم ہوا کہ حضورعلیہ الصلاةوالسلام کی اطاعت کو تقلید نہیں کہہ سکتے کیونکہ انکا ہر قول دلیل ِ شرعی ہے (جبکہ) تقلید میں ہوتا ہے دلیل ِ شرعی کو نہ دیکھنا لہذا ہم نبی علیہ الصلاةوالسلام کے اُمتی کہلائیں گے نہ کے مقلد۔اسی طرح صحابہ کرام اور ائمہ دین حضورعلیہ الصلاةوالسلام کے اُمتی ہیں نہ کہ مقلداسی طرح عالم کی اطاعت جو عام مسلمان کرتے ہیں اس کو بھی تقلید نہ کہا جائے گاکیونکہ کوئی بھی ان علماءکی بات یا ان کے کام کواپنے لئے حجت نہیں بناتا، بلکہ یہ سمجھ کر ان کی بات مانتا ہے کہ مولوی آدمی ہیں کتاب سے دیکھ کر کہہ رہے ہوں گے۔۔۔
( جاءالحق ج۱ ص۶۱ طبع قدیم)
8:-
غلام رسول سعیدی نے لکھا ہے:

تقلید کے معنی ہیں(قرآن و حدیث کے) دلائل سے قطع نظر کر کے کسی امام کے قول پر عمل کرنا اور اتباع سے مراد یہ ہے کہ کسی امام کہ قول کوکتاب و سنت کہ موافق پا کراور دلائل ِ شرعیہ سے ثابت جان کراس قول کو اختیار کر لینا
(شرح صحیح مسلم ج۵ص۳۶)
9:-
سرفرازخان صفدر دیوبندی لکھتے ہیں:

.اور یہ طے شدہ بات ہے کہا کہ اقتداءو اتباع اور چیز ہے اور تقلید اور چیز ہے
 (المنہاج الواضح یعنی راہ سنت ص۵۳)
10:-
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

قبول قول لا یدری ما قال من این قال و زلک لا یکون علماً دلیلہ قولہ تعالیٰ: فا علم انہ لا الہ الا اللہ، فامر با لمعرفة لا بظن والتقلید۔
تقلید ایسی بات کے ماننے کو کہتے ہیں جس کی حیثیت اور ماخذ معلوم نہ ہو۔ ایسی بات کے ماننے کو علم نہیں کہتے کیونکہ اللہ کا فرمان ہے ”جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں“ اس (آیت) میں اللہ نے جاننے کا حکم دیا ہے نہ کہ گمان اور تقلید کا ۔
(فقہ اکبر للشافعی رحمہ اللہ ص۰۱)

نوٹ:

بریلویوں،دیوبندیوں اور علمِ اصول کے علماءکی ان تعریفوں سے درج باتیں ثابت ہوتی ہیں:

1:-کسی دوسرے شخص کی بات پر (قرآن و حدیث کی) دلیل کے بغیر عمل کرنا ”تقلید “ ہے۔
2:-احادیث پر عمل کرنا تقلید نہیں۔
3:-اجما ع پر عمل کرنا تقلید نہیں۔
4:-علماءکی بات پر( دلیل جان کر) عمل کرنا تقلید نہیں بلکہ یہ اتباع کہلاتا ہے۔
5:-اسی طرح قاضی کا گواہوں کی طرف اور عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا بھی تقلید نہیں۔

6:-صرف اس گمان اور قیاس پر امام کی اندھا دھند تقلید کرنا کہ اُس کی بات کتاب و سنت کے مطابق ہو گی باطل ہے کیونک اللہ نے جاننے کا حکم دیا ہے نہ کے گمانوں اور قیاس آرائیوں کا (دیکھئے امام شافعی کی آخری تعریف)۔

مقلدین ہر جگہ یہ شورمچاتے نظر آتے ہیں کہ فلاں غیر مقلد نے اپنے فلاں عالم کی کتاب سے استفادہ کر لیا یا فلاں عالم سے مسئلہ پوچھ لیا اس لئیے وہ اُس عالم کا مقلد بن گیا ہے۔۔۔۔۔

جبکہ آلِ تقلید کے اپنے اکابرین نے تقلید کی جو تعریف کی ہے اُس کے مطابق دلیل کے ساتھ کسی عالم کی بات بیان کرنے یا اس پر عمل کرنے کو تقلید کہتے ہی نہیں۔

ہم مقلدین سے پوچھتے ہیں کہ اگر ایک حنفی شخص تقی عثمانی سے کوئی مسئلہ پوچھتا ہے اور مولانا کے بتا ئے ہوئے مسئلے پر عمل بھی کرتا ہے تو وہ کس کا مقلد کہلائے گا، تقی عثمانی کا یا امام ابو حنیفہ کا؟؟؟ ظاہری بات ہے کہ وہ امام ابوحنیفہ کا ہی مقلد کہلائے گا یعنی کسی عالم سے مسئلہ پوچھنا تقلید نہیں، اگر یہ تقلید ہے تو پھر اسوقت دنیا میں کوئی ایک بھی حنفی موجود نہیں بلکہ سب اپنے اپنے علماء کے مقلد ہیں۔۔۔۔فما کان جوابکم فھوجوابنا۔ ۔ ۔ ۔ ۔  

Thursday 8 July 2010

وضع حدیث اور موقف صحابہ رضی اللہ عنہ

وضع حدیث اور موقف صحابہ رضی اللہ عنہ



امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مسلمان سخت ابتلا اور آزمائش میں گرفتار ہوگئے ملت واحدہ فرقوں میں تقسیم ہوگئی دشمنان اسلام بھی یہی کچھ چاہتے تھے چنانچہ انہیں اپنی کوششیں ثمر آور نظر آنے لگيں۔ مسلمانوں کے باہمی مناقشات نے ان کے پست حوصلوں کو بلند کیا جس سے یہ لوگ برسر عام اسلام کے بنیادی اصولوں کی تضحیک و تذلیل پر اتر آئے-

عبداللہ ابن سبا جو دراصل یہودی تھا اس نے اسلام کو نقصان پہنچانے کی خاطر اسلام کا ظاہری لبادہ اوڑھا تھا- مسلمانوں کے درمیاں اختلاف پیدا کرنے میں اس کی پارٹی کا ہاتھ تھا- اب وہ پارٹی بھی مستحکم ہوچکی تھی اور اہل بیت کی محبت کے پردہ میں وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر سرعام تنقید کرتے تھے کہ خلافت کے اصل حق دار آل رسول تھے جسے صحابہ کرام رض نے زبردستی عصب کرلیا- ظاہر ہے اس قسم کے الزامات کے لئے مواد کی ضرورت تھی مگر ان کے پاس مواد کہاں سے آتا لہذا انہوں نے دین میں جھوٹ کو داخل کیا اور پوری گرم جوشی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف من گھڑت روایات منسوب کیں-
سبائیوں نے اس منحوس امر کے آغاز کے لئے حالات کو سازگار پایا اس لئے کہ اکثر صحابہ کرام دنیا سے رخصت ہوچکے تھے اور جو باقی زندہ تھے ان میں اکثر مدینہ منورہ میں مقیم مسند علمی بچھوائے ہوئے تھے اور اسلام کی حفاظت میں انہیں نقوش پر گامزن تھے جن پر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علکہ وسلم اور اکابر کو پایا تھا لہذا ان کے لئے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ سبائیوں کے اس ہلاکت خيز فتنے پر خاموش تماشائی بنے رہتے چنانچہ انہوں نے ان حالات میں اسلام کی حفاطت کا فریضہ اس طرح انجام دیا کہ کذب پردازوں کی کوششیں ان کی موجودگی میں ناکام ثابت ہوئيں۔

 
تحقیق حدیث کا اہتمام
وہ ایسے کہ اہل علم صحابہ کرام نے روایت کو قبول کرنے کے لئے تحقیق کو لازم قرار دیا اور حدیث کے قبول کرنے کا ایک معیار مقرر کیا تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف من گھڑت بات منسوب نہ ہوجائے- جس کی توضیح عبداللہ ابن
عباس رضی اللہ عنہ کے مقرر کردہ اس اصول سے ہوتی ہے کہ فرماتے ہیں:
" ہم جب کسی آدمی سے سنتے کہ وہ قال رسول اللہ کہتا تو ہماری نظریں فورا اس کی طرف اٹھ جاتیں اور ہم کانوں کو اس کی طرف جھکادیتے مگر جب لوگوں نے ہر طرح کی حدیٹیں روایت کرنا شروع کریں تو ہم انہیں حظرات سے حدیث قبول کرتے جن کو ہم جانتے تھے-"
(مسلم:ص 10)

 
صحابہ کرام کے اس موقوف کی ترجمانی اور توضیح مشہور تابعی امام محمد بن سیرین نے کی ہے فرماتے ہیں:

" لوگ سند طلب نہیں کرتے تھے مگر جب (عثمان رض کی شہادت کا) فتنہ رونما ہوا (تو حدیث کے بارے میں سختی کی گئی اور سند کا مطالبہ شروع ہوگیا) وہ کہتے ہیں ہمیں بتاؤ یہ حدیث کس نے روایت کی ہے پھر دیکھا جاتا اگر اس حدیث کے راوی کا تعلق اہل سنت سے ہے تو تو اس کی حدیث قبول کرلی جاتی اہل بدیت کو دیکھا جاتا اگر حدیث کا راوی اہل بدعت سے ہوتا تو اس کی حدیث رد کی جاتی-"
( مسلم، ج 1، ص 11)

یہ اصول صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظم نے وصع کئے تھے بعد والوں نے علم حدیث کو انہیں اصولوں پر مرتب کیا-
جھوٹ سے نفرت

 
یہ اصول اسکی غمازی کرتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم روایت حدیث کے بارے میں بڑے محتاظ تھے اور قطعا پسند نہیں کرتے تھے کہ جھوٹ کا دین میں کجھ دخل ہو وہ ہر حال میں دین کو انہیں خطوط پر برقرار رکھتے تھے جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پایا تھا- یہی وجہ ہے کہ صحیح دین کے خلاف کسی امر کو پاتے تو فورا اس کا تدارک چاہتے اور ایسے کرنے والون کو رد کردیتے (جس کی متعدد مثالیں کتب حدیث میں موجود ہیں) اس لئے کہ انہوں نے دین براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اخذ کیا تھا اور ان کی تربیت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں ہوئی تھی اس لئے ان کی جھوٹ سے نفرت بجا آور قرین قیاس تھی-

پھر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اصل دین سمجھتے تھے اور دین کے لئے انہوں نے بے پناہ قربانیاں دی تھیں بھلا وہ جھوٹ بول کرصحیح دین کو باطل سے مکدر کیے کرسکتے تھے بلکہ وہ حدیث پورے حزم و احتیاط سے روایت کرتے جس میں جھوٹ کا شائبہ تا نہ ہوتا تھا-
مشہور تابعی حمید فرماتے ہیں کہ ہمیں انس رضی اللہ عنہ نے بتایا:
"ہم آپ سے جو حدیثیں روایت کرتے ہیں وہ تمام ہم نے براہ راست رسول اللہ صلی اللہ سے نہیں سنی ہوتیں لیکن ہم ایک دوسرے سے جھوٹ نہیں بولتے-"

حضرت براء فرماتے ہیں:
" ہمارے تمام حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث نہیں سنتے تھے کیونکہ ہمارا کاروبار تھا جس میں ہم مشغول رہتے تھے لیکن بات یہ ہے کہ لوگ اس وقت جھوٹ نہیں بولتے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوتا وہ اس تک حدیث پہنچا دیتا جو غا‏ئب ہوتا-"
(المستدرک، ج 1، ص 123)
مشہور تابعی حضرت قتادہ رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
" ایک شحص نے حدیث بیان کی تو کسی نے اس سے پوچھا کیا یہ حدیث آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی"
وہ فرمانے لگے:
" جی ہاں میں نے رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے یا پھر مجھ سے اس شخص نے بیال کی ہے جو جھوٹ نہیں بولتا، اللہ کی قسم نہ ہم جھوٹ بولتے ہیں اور نہ ہی ہم جھوٹ سے واقف ہیں-"
( مفتاح الجنہ ص 37)
ان آثار سے واضح ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا دامن کذب سے پاک تھا بلاشبہ کسی صحابی سے بصحت سند معلوم نہیں کہ اس نے عمدا کسی جھوٹی بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا ہو یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عدالت پر تمام اہل سنت کا اجماع ہے اور اس عدالت سے کوئی ایک بھی مستثنی نہیں ہے-

 
اقتباس: ضعیف اور موضوع روایات


تالیف: محمد یحی گوندلوی حفظ اللہ

علم مصطلح سے متعلق مشہور ترین تصانیف

علم مصطلح سے متعلق مشہور ترین تصانیف



٭ المحدث الفاصل بین الراوی والواعی

اسے قاضی ابم محد حسن بن عبدالرحمن بن خلاد رامہرمزی متوفی 360ھ نے تصنیف کیا، لیکن انہوں نے مصطلح الحدیث کی تمام بحثون کا احاطہ نہیں کیا- غالبا جو شحص بھی کسی فن یا علم میں پہلی کتاب لکھتا ہے اس کا یہی حال ہوتا ہے-



٭ معرفت علوم الحدیث

اسے ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ الحاکم نیشاپوری متوفی 405ھ نے لکھا مگر انہوں نے بحثوں کو مہذب و مرتب نہ بنایا اور نہ ہی مناسب فنی ترتیب دے سکے-



٭ المستخرج علی معرفۃ علوم الحدیث
یہ ابو نعیم احمد بن عبداللہ اصبہانی متوفی 430ھ کی تصنیف ہے- اس میں انہوں نے امام حاکم پر اسبدراک کیا ہے (ان کی شرط کے مطابق وہ چيزیں درج کی ہیں) ان بحثوں پر جو امام حاکم سے ان کی کتاب معرفۃ علوم الحدیث میں رہ گئي تھیں یعنی فن کے قواعد وغیرہ- لیکن انہوں نے بھی ایسی بہت سی اشیاء کو چھوڑا ہے جن کا استدراک پیچھے انے والے بھی کرسکتے ہیں-



٭ الکفایت فی علم الراویۃ

اسے ابو بکر احمد بن علی بن ثابت المعروف بہ خطیب بغدادی متوفی 363ھ نے تصنیف کیا- یہ کتاب اس فن (مصطلح الحدیث) کے مسائل سے بھرپور اور روایت کے قواعد کے بیان سے سیراب ہے- اس علم کے یہ عمدہ مصادر میں شمار ہوتی ہے-



٭ الجامع الاخلاق الراوی و آداب السامع
یہ بھی خطیب بغدادی کی تصنیف ہے- اس کتاب میں روایت کے آداب سے متعلق بحث کی گئی ہے جیسا کہ اس کے نام سے واضح ہوتا ہے- یہ اپنے میدان میں یکتا و منفرد کتاب ہے اور اپنی بحثوں اور موضوعات و مشتملات میں پحتہ ہے-خطیب بغدادی نے حدیث کے علوم میں سے ہر فن میں ایک الگ اور مستقل کتاب لکھی ہے سوائے چند فنون کے- خطیب کی حیثیت و مقام یہ ہے جیسا ابوبکر بن نقطہ نے فرمایا ہے:

"جس نے بھی انصاف کیا اس نے یہی جانا (اور کہا) کہ خطیب کے بعد آنے والے تمام محدثین ان کی کتب کے محتاج ہیں-



٭ الالماع الی معرفۃ اصول الراویۃ و تقیید السماع

اسے قاضی عیاض بن موسی یحصبی متوفی 544ھ نے تصنیف کیا- اس کتاب میں مصطلح کی مکمل اور تمام بحثیں شامل نہیں بلکہ یہ تحمل و ادا کی کیفیت اور اس کی فروعات سے متعلقات پر مقصود و محصور ہے- لیکن اس کے باوجود نظم و نسق اور ترتیب کےاعتبار سے اپنے فن کی بہت عمدہ کتاب ہے-



٭ مالا یسع المحدث جھلہ

اس کے مصنف ابو حفص عمر بن عبدالمجید میانجی متوفی 5810ھ ہیں یہ ایک چھوٹا اور مختصر جز ہے جس مین کوئی بڑا فائدہ پنہاں نہیں ہے-



٭ علوم الحدیث
اسے ابو معرو عثمان بن عبدالرحمان شہزوری المعروف بہ ابن الاصلاح متوفی 643ھ نے تصنیف کیا ہے- ا نکی یہ کتاب لوگوں کےہاں مقدمہ ابن الصلاح رحمہ اللہ کے نام سے مشھور ہے- فن اصول حدیث میں سب سے عمدہ کتاب ہے- اس کے مؤلف نے اس میں خطیب بغدادی اور دوسرے متقدمین وغیرہ کی کتابوں سے متفرق و منتشر مواد جمع کردیا ہے، گویا یہ فوائد سے بھرپور کتاب ہے، لیکن مؤلف اسے مناسب ترتیب اور وضع پر مرتب نہ کرسکے کیونکہ انہوں نے اس کتاب کو تھوڑا تھوڑا کرکے املا کرایا تھا (شاگردوں کو حسب ضرورت بحثیں لکھوایا کرتے تھے) اس کے باوجود یہ بعد میں آنے والے علماء کے لیے ایک ستون ثابت ہوئی- اس کے بہت سے اختصار کئے گئے ہیں- کہیں اسے نظم کیا گیا تو کہیں اس کا معارضہ پیش کیا گیا تو کسی نے اس کی تائید میں لکھا-



٭ التقریب والتیسیر لمعرفۃ سنن البشیر و النذیر

اسے تصنیف کرنے والے محی الدین یحی بن شرف النووی متوفی 676ھ ہیں- یہ کتاب ابن الصلاح رحمہ اللہ کی کتاب علوم الحدیث کا اختصار ہے- یہ ایک عمدہ کتاب ہے لیکن بعض مقامات پر عبارت کچھ مغلق ہے-



٭ تدریب الراوی فی شرح تقریب النووی

اس کے مصنف جلال الدین عبدالرحمن بن ابی بکر السیوطی متوفی 911ھ ہیں- یہ امام نووی رحمہ اللہ کی کتاب التقریب کی شرح ہے جیسا کہ نام سے بھی واصح ہے- اس میں مؤلف نے بہت سے فوائد جمع کردیے ہیں-



٭ نظم الدرر فی علم الاثر

اسے زین الدین عبدالرحیم بن الحسین عراقی متوفی 806ھ نے تصنیف کیا ہے- یہ الفیہ العراقی کے نام سے مشہور ہے جس میں انہوں نے ابن الصلاح رحمہ اللہ کی علوم الحدیث کو اشعار میں لکھا ہے اور کچھ اضافہ بھی کیا ہے- یا عمدہ اور شاندار فوائد پر مشتمل ہے اور اس کی کئی شروح ہیں- ان میں سے دو شرحیں مصنف نے خود لکھی ہیں-



٭ فتح المغیث فی شرح الفیۃ الحدیث

اس کے مصنف محمد بن عبدالرحمن السخاوی متوفی 902ھ ہیں- یہ الفیہ عراقی کی شرح ہے اور یہ الفیہ کی شروع میں سب سے مفصل ہے اور بہت عمدہ شرح ہے-



٭ نخبۃ الفکر فی المصطلح اھل الاثر
اسے حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی 852ھ نے تصنیف کیا ہے- یا ایک بہت ہی مختصر سا جزہے لیکن ترتیب کے اعتبار سے مختصرات میں سب سے نفع مند اور عمدہ ترین جز ہے- اس میں ترتیب و تقسیم کے طریقے کے اعتبار سے مصنف وہ سبقت لے گیا ہے جس کی طرف پہلے کسی نے بھی سبقت نہیں کی اور مصنف نے خود اس کی شرح بھی لکھی جس کا نام انہوں نے "نزھۃ النظر" رکھا جیسا کہ دوسروں نے بھی اس کی شروح لکھی ہیں-



٭ المنظومۃ البیقونیۃ

اس کو تصنیف کرنے والے عمر بن محمد البیقونی متوفی 1080ھ ہیں- یہ مختصر منظومات میں سے ہے- یہ 34 اشعار سے متجاوز نہیں ہے- اس کا شمار مفید اور مشہور مختصرات میں ہوتا ہے اور اس کی بھی کئی شروح لکھی گئي ہیں-



٭ قواعد التحدیث

یہ محمد جمال الدین قاسمی متوفی 1332ھ کی تصنیف ہے اور بہت مفید کتاب ہے-

اس موضوع پر اور بھی بہت سے تصانیف موجود ہیں، جن کے ذکر سے بحث طویل ہوجائے گی، میں نے ان مین سے مشہور تصانیف کے ذکر کرنے پر اکتفاء کیا ہے-

اللہ تعالی ہماری اور تمام مسلمانوں کی طرف سے ان تمام مصنفین کو جزائے خیر عطا فرمائے- آمین





اقتباس: تیسیر مصطلح الحدیث

تالیف: ڈاکٹر محمود الطحان

اپنے طریقہ کار کو اچھا جانتے ہوئے اس پر اڑنا نہیں چاہیے

اپنے طریقہ کار کو اچھا جانتے ہوئے اس پر اڑنا نہیں چاہیے



مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ
(32) سورة الروم
"(اے ایمان والو!) ان لوگوں میں سے نہ ہو کہ جنہوں نے اپنے دین میں پھوٹ ڈالی اور بہت سے فرقے بن گئے (اس طرح) ہر فرقہ جو کچھ (غلط عقائدوغیرہ) اپنائے (اور اختیار کئے) ہوئے ہے وہ اسی پر خوش ہورہا ہے۔"



یعنی جو کام شریعت میں یا عقل کے نزدیک صریح بد ہے اس کو ار کوئی بد (برا) جانتا ہے اور جو برا کام کہ آدمی اپنی عقل سے یا اور کسی سے سیکھ کر نیا ایجاد کرتا ہے تو اس کی برائی صحیح قرآن و حدیث میں نہیں پاتا سو اس کام کو نیک جانتا ہے اور اس پر خوش ہوتا ہے اور بہت سے لوگ جو ایسی نئی باتیں نکالتے ہیں جس پرخوش ہوکر یا اس کو تسند کرکے، اختیرا کرتے ہیں اور ہر فرقے کی (طرف سے) جدا جدا نئی نئی بدعتیں علحیدہ علحیدہ وضع کی ہوتی ہیں تو گروہ ہوجاتے ہیں اور دین میں ایکا (اتحاد اور اتفاق) نہیں رہتا ہور پھوٹ پرجاتی ہے- مثلا ایک فرقہ علی رضی اللہ عنہ کو باقی صحابہ رضی اللہ عنہھم سے افضل اور بہتر جانا اور اپنا لقب "تفضیلہ" رکھا اور ایک فرقہ ان سے بڑہ کر علی رضی اللہ عنہ کو افصل جبکہ باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو برا جانا اور محرم کی محفلیں، تعزیہ داری اور مرثیہ خوانی اور سیہ پوشی اور حق حق پی اور بھس اڑانے کی (بدعات) ایجاد کیں اور ایک نے عید غدیر اور عید بابا شجاع ٹھرائی اور نو روز کیا اور روزے، نماز، اذان، وضو میں کمی بیشی کرلی اور اپنا لقب شیعہ اور محّب اہل بیت رکھا- اور ایک فرقہ نے ان کے مقابلے میں علی رضی اللہ عنہ کو برا کہا اور اپنا لقب خارجی پسند کیا-

ایک فرقے نے علی رضی اللہ عنہ کی اولاد کی دشمنی اور عداوت اختیار کی اور ناصبی خطاب اپنے واسطے گوارا کیا- اور ایک فرقے نے دیدار الہی کا انکار کیا اور گناہ کبیرہ کو اسلام سے خروج کا باعث جانا اور معتزلی کہلوائے- اور ایک فرقے نے گوشہ نشینی اور ترک امر بالمعروف و نہی عن المنکر اختیار کرکے شغل برزخ اور نماز معکوس اور ختم اور توشے اور طرح طرح کے نئے نئے ورد اور وضیفے اور فال نامے اور گنڈے، تعویذ اور اتارے اور حاضرتیں اور عرس اور قبروں پر مرقبہ اور باجا، راگ سننا اور حال لانا ایجاد کیا اور مشائخ اور پیر کہلائے-

پھر کسی نے ان کو چشتی مقرر کیا، کسی نے قادری، کسی نے نقشبندی، کسی نے سہروردی، کسی نے رفاعی ٹھرالیا اور کوئی سر پر بڑے بڑے بال رکھ کر یا چار ابرو کا صفایا کرکے اور بڑی بڑی ٹوپیاں اور تاج دھر کر اور کفنی اور سہیلیاں گلے میں ڈال کر ماریہ اور جلالیہ مشہور ہوا- اور کسی نے دو چار زئلیں (بحثیں) منطق اور ریاضی اور ہندسے کی یاد کرلیں اور اپنے آپ کو مّلا اور مولوی اور عالم مشہور کرنا چاہا-
سو اس کے سوا سینکڑوں بلکہ ہزاروں طرح کی راہیں نکالیں اور ہر ایک فرقہ خوش ہوا کہ ہم ہی خوب ہیں اور ہماری ہی راہ اچھی ہے- سو اللہ تعالی نے فرمایا کہ تم ایسا نہ کرو بلکہ ایک ملت اور دین اختیار کرو جو اللہ تعالی نے فرمادیا- سابق میں بھی یہود و نصاری نے اپنے دین میں تفرقہ ڈالا اور کئی گروہ ہوگئے- سو تم ویسے نہ بنو۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ اور اپنے دین میں پھوٹ اور تفرقہ نا ڈالو- ایک قرآن اور حدیث پر عمل کرو اور اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے تابع رہو تاکہ دین میں پھوٹ نہ پڑے-
اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ آدمی کو چاہیے کہ اپنے ہی مذہب اور روّیہ، طریقے، رسوم، عادات کو اچھا جان کر اس پر خاطر جمع نہ کرے، بے فکر ہو کر نہ رہے بلکہ جق بات کی تلاش مین رہے اور اپنے مذہب اور روّیہ اور طریقے، رسوم کا قرآن و حدیث سے مقابلہ کرے جو اس کے موافق ہو، وہ اختیار کرے اور جو اس کے مخالف وہ ترک کرے- بنا گمراہی کی یہی ہے کہ آدمی اپنے رویّہ، طریقہ پر اڑارہے اور بے فکر ہوکر بیٹھ رہے – بہت سی خلقت اسی گمراہی میں پڑی ہوئی ہے کہ اللہ اور رسول کا حکم دریافت اور تحقیق نہیں کرتے- اپنے بزرگوں کی راہ پر خاطر جمع سے مطمعن ہوکر بیٹھے رہتے ہیں اور جانتے ہیں کہ یہی حق ہے-


اقتباس: بدعات سے دامن بچائیے مع احکام زیارت القبور

تالیف: شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ علیہ

Thursday 1 July 2010

دعوت دین کی اہمیت


اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو دین عطا کیا ہے، یہ محض رسوم عبادت یا چند اخلاقی نصائح کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ یہ زندگی کے تمام پہلوؤں میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اس دین کو ماننے والوں کے لئے صرف یہی ضروری نہیں کہ وہ اس دین کو نظریاتی طور پر مان لیں بلکہ ا س کا عملی زندگی میں اطلاق بھی ان کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ العصر میں مسلمانوں کی بنیادی ذمہ داریاں اس طرح بیان کرتا ہے:

وَالْعَصْرِ. إِنَّ الإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ. إِلاَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ. (سورۃ العصر)

 
’’زمانہ گواہ ہے کہ انسان ضرور ضرور خسارے میں ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے ، نیک عمل کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔ ‘‘

 
دین کا عملی زندگی میں اطلاق صرف یہی تقاضانہیں کرتا کہ اس پر خود عمل کیا جائے بلکہ یہ بات بھی دین کے تقاضے میں شامل ہے کہ اس دین کو دوسروں تک پہنچایا بھی جائے اور ایک دوسرے کی اصلاح کی جائے۔ جہاں کہیں بھی کوئی شرعی یا اخلاقی خرابی نظر آئے، ا س کی اصلاح کرنے کی کوشش کی جائے۔
امت مسلمہ کے اس عمومی رویے کے علاوہ اس میں ایک گروہ ایسا ضرور ہونا چاہئے جو دعوت دین ہی کو اپنا فل ٹائم مشغلہ بنائیں ، دین میں پوری طرح تفقہ حاصل کریں اور پھر عوام الناس کو اللہ کے دین کی دعوت دیتے ہوئے آخرت کی زندگی کے بارے میں خبردار کریں جیسا کہ قرآن مجید میں ارشا د ہے۔

وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ۔ (التوبہ 9:122) ’’
اور سب مسلمانوں کے لئے تو یہ ممکن نہ تھاکہ وہ اس کام کے لئے نکل کھڑے ہوتے، لیکن ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کے ہر گروہ میں سے کچھ لوگ نکل کر آتے تاکہ دین میں بصیرت حاصل کرتے اورجب (علم حاصل کرلینے کے بعد) اپنی قوم کی طرف لوٹتے تو ان لوگوں کو انذار کرتے، تاکہ وہ (گناہوں سے ) بچتے۔ ‘‘

 
دنیا کا کوئی بھی کام احسن انداز میں کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کام میں پہلے اچھی طرح مہارت حاصل کی جائے اور پھر اس کی مناسب منصوبہ بندی کرکے اس پر عمل درآمد کیا جائے۔ جو لوگ اللہ کے دین کی دعوت کا کام سوچ سمجھ کر کرنا چاہتے ہوں ، ان کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ وہ خود میں وہ صلاحیتیں پیدا کریں جو دعوت دین کے لئے ضروری ہیں اور پھر اس کام کو مناسب حکمت عملی اور منصوبہ بندی سے انجام دیں۔ اس تحریر میں ہم داعین کی خصوصیات بیان کریں گے اور تفصیل سے یہ عرض کرنے کی کوشش کریں کہ دعوتی عمل حکمت عملی سے کو کس طرح سرانجام دیا جائے۔اس ضمن میں درج ذیل پہلو زیر بحث آئیں گے۔

 
· داعی اسلام اور اس کی صفات

· دعوت دین کی منصوبہ بندی

· دعوتی پیغام کی اقسام اور تیاری

Monday 28 June 2010

خواتین کو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی نصیحتیں

خواتین اسلام کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی نصیحتیں



فرمانِ الہٰی ہے :۔

1(اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم ) مومن عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نظر یں نیچی رکھیں ، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ۔ (النور24:آیت31)

2 اپنی زیب وزینت کا اظہار نہ ہونے دیں۔(النور24:آیت31)

3 اپنی اوڑھنیاں اپنے سینوں پر ڈالے رہیں۔(النور24:آیت31)

4 ( غیر محرموں سے) نرم لہجہ میں بات نہ کرو ۔(الاحزاب33:آیت32)

5 نماز کی پابندی کرو، زکوٰۃ کی ادائیگی کرو۔(الاحزاب33:آیت32)

6 اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔(الاحزاب33:آیت32)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :۔

1 ایسے راستوں پر نہ چلیں جہاں مردوں کی ریل پیل ہوبلکہ کنارے کنارہ چلتے ہوئے راستہ طے کریں۔(ابوداؤد)

2 غیر محرم مردوں سے تنہائی میں نہ ملیں اس لئے کہ اس وقت تیسرا شیطان ہوتا ہے۔(جو برائی کروانے کی بھرپور کوشش کرتا ہے)۔(ابوداؤد)

3 دیور ، جیٹھ وغیرہ سے بھی تنہائی میں نہ ملیں۔(بخاری)

4 غیر محرم کے ساتھ سفر سے اجتناب کریں۔(بخاری)

5 بازار بد ترین جگہ ہے (بلا ضرورت بازار نہ جائیں)۔(مسلم)

6 خوشبو لگا کر اور باریک لباس پہن کر گھر سے نہ نکلیں اس لئے کہ یہ عریانی اور دعوتِ گناہ ہے ۔(مسلم)

7 اپنے شوہر کی برائیاں بیان نہ کریں۔(بخاری)

8 اپنے شوہر کی نافرمانی نہ کریں۔(نسائی)

9 شوہر کی عدم موجودگی میں اپنی عزت، مال و اولاد کی حفاظت کریں۔(حاکم)

مندرجہ بالا نصیحتوں پر عمل کرنے سے مسلمان عورتیں جنت کی حقدار بن سکتی ہیں جو کہ یقینی کامیابی ہے ۔ ’’جسے آگ سے بچا کر جنت میں داخل کردیا گیا وہ یقیناًکامیاب ہوگیا۔‘‘(اٰلِ عمران3آیت185)

Thursday 17 June 2010

شاہ عبداللہ کی بدولت 866 افراد نے اسلام قبول کیا

جسمانی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے بچوں کی پیدائش کے واقعات آج کل کوئی نئی بات نہیں رہی، مختلف ملکوں میں ایسے بچوں کو بڑے آپریشن کے ذریعے علحیدہ کرنے کے انتظامات بھی ہیں-
اور بعض ممالک ایسے بھی ہیں جہاں ایسے بچے انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے ساری زندگی انتہائی تکلیف دہ انداز میں گزارنے پر مجبور ہیں-
افریقی ممالک بھی ان میں شامل ہیں- جہاں بچوں کو نارمل زندگی جینے کے مواقع میسر نہیں، اس کی مثال افریقی ملک "کیمرون" کے ایک عیسائی گھرانے میں پیدا ہونے والے دو بچے ہیں جو ایک عرصے تک اسی حال میں رہے، تاآنکہ سعودی عرب کے شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز تک یہ خبر پہنچی، چونکہ سعودی عرب میں ڈاکٹر عبداللہ ربیعہ اس قسم کے آپریشن کے ماہر تصور کیے جاتے ہیں، شاہ عبداللہ نے انتہائی فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کیمرون کے اس عیسائی خانادن کے سعودی عرب میں حکومت کے خرچ پر ان بچوں کے آپریشن کی آفر دےدی۔
آپریشن کے دوراں بچوں کے والد جیمز کومسو نے جو سعودی عرب مین شاہ عبداللہ کی دعوت پر قیام پذیر تھے، ڈاکٹر ربیعہ اور دیگر مسلمانوں کے حسن سلوک سے متاثر ہوکر نہ صرف اسلام قبول کیا بلکہ کیمرون لوٹ کر اپنے دیہات میں بھی اسلام کی دعوت کا کام شروع کردیا، جس کے نتیجے میں ان کے دیہات اور قرب و جوار کے دیہات سے جملہ 866 افراد نے اسلام قبول کیا۔
اللہ اکبر
انہوں نے بتلایا کہ ان مسلمانوں کے لئے مسجد اور اسلامی مرکز کے تعمیر کی ضرورت تھی، انہوں نے شاہ عبداللہ سے درخواست کی جو فوری طور پر قبول کرلی گئی اور عنقریب یہاں ایک اسلامی مرکز کی تعمیر بھی عمل میں لائی جارہی ہے۔
سبحان اللہ
اللہ شاہ عبداللہ کو لمبی عمر عطا فرمائے، ان کا یہ کام ان کی نجات کا ذریعہ بنادے، ان کے اگلے اور پجھلے گناہ معاف فرمادے۔ آمین
والسلام علیکم

اقتباس: مجلہ صراط مستقیم برمنگھم

Wednesday 16 June 2010

عورت کو نماز پڑھتے وقت اپنے پاؤں چھپانے چاہیے

السلام علیکم شيوخ!

کل میری اپنے استاذ عربی شیخ عبداللہ سے بات چیت ہورہی تھی۔
بات کہیں سے کہیں نکل گئی اور میں نے کہا کہ عورت کو نماز پڑھتے وقت اپنے پاؤں چھپانے چاہیں چاہے وہ موزے پہن کر چھپائے۔
تو شیخ نے فرمایا کہ میں اس بات کو قبول نہیں کرتا کہ نہ میں نے کہیں پڑھا ہے اور نہ دیکھا ہے تو آپ اس کی دلیل لائيں؟

یہ حدیث سنن ابی داؤد میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے سوال کیا کہ کیا عورت تہ بند کےبغیر نماز پزھ سکتی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ہاں! مگر کپڑا یا کرتا لمبا ہو اور پاؤں نظر نہیں آئيں۔

اور میں نے ایک اور جگہ پڑھا تھا کہ فرشتے کی نطر نہ پڑے اس لیے عورت کو نماز میں پاؤں چھپانے چاہیں۔
واللہ اعلم

تو میرا سوال ہے کہ اگر آپ کے پاس اس پر کوئی حدیث، تحقیق و دلیل بمع حکم ہے تو پیش کریں کہ میں اپنے استاذ کے سامنے پیش کر سکوں۔ ان شاءاللہ
والسلام علیکم


1) عن ابن عمر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من جر ثوبه خيلاء لم ينظر الله إليه يوم القيامة فقالت أم سلمة فكيف يصنعن النساء بذيولهن قال يرخين شبرا فقالت إذا تنكشف أقدامهن قال فيرخينه ذراعا لا يزدن عليه

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ فرماتے ہیں‌ کہ رسول اللہ صلى اللہ نے فرمایا جس نے ازراہ تکبر اپنا کپڑا لٹکایا اللہ تعالى قیامت
کے دن اسکی طرف نہیں‌ دیکھے گا۔

ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے استفسار کیا کہ عورتیں‌ اپنے دامنوں کا کیا کریں (کیا وہ بھی مردوں کی طرح نصف ساق پر رکھیں ) تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ (نصف پنڈلی سے ) ایک بالشت نیچے تک لٹکائیں وہ عرض گداز ہوئیں کہ پھر تو انکے پاؤں کھلے رہ جائیں‌ گے تو آپ‌ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر (نصف پنڈلی سے ) ایک ذراع؏ نیچے لٹکائیں
؏ (ڈیڑھ فٹ / دو بالشت / ہاتھ‌ کی درمیانی انگلی سے کہنی تک کے حصہ کو ذراع کہتے ہیں‌ جوکہ دو بالشت کی ہو تی ہے اور متوسط آدمی کا ذراع ڈیڑھ فٹ‌کا ہو تا ہے )
جامع ترمذی أبواب اللباس باب ما جاء فی جر ذیول النساء (1731) ابن ماجة ( 3580 - 3581 )
یہ حدیث صحیح ہے

اس سے معلوم ہوا کہ عورتیں:

1) غیر محرموں سے اپنے پاؤں کو چھپائیں
2) کپڑا نصف پنڈلی سے عموما ایک بالشت اور گھر سے باہر نکلتے ہوئے دو بالشت تک لٹکائیں
3) جب نصف پنڈلی سے ایک بالشت نیچے تک لٹکائیں گی تو بالضرور انکے پاؤں‌ چھپ جائیں‌ گے
یاد رہے کہ
4) تنگ پائنچے رکھنا عورتوں کے لیے شرعا ممنوع ہے
5) عورت کا یہ لباس نماز اور غیر نماز دونوں کے لیے یکساں ہے

والسلام علیکم