Monday 27 May 2013

سیکس گرومنگ اسکینڈل (برطانیہ)

سیکس گرومنگ اسکینڈل 



برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کو چاہئے کہ وہ ان ٹولیوں کے مسئلہ کی یکسوئی کریں جو منظم خطوط پر فروغ پاتے ہوئے نوجوان سفید فام لڑکیوں کا 
استعمال بیجا کررہے ہیں۔ آکسفورڈ میں 11سال عمر تک کی لڑکیوں کے خلاف قرون وسطی کی بدچلنی پر مبنی جرائم کے ارتکاب کی پاداش میں 7افراد کو سزا سنائی گئی۔ برطانوی وزیر انصاف ڈیمین گرین نے یہ بات بتائی۔ انہوں نے بتایاکہ وقت آچکا ہے کہ اس مسئلہ کی سیاسی تصحیح کے کسی بھی امکان کو مسترد کردیاجائے۔ پاکستانی نژاد افراد کو لڑکیوں کے خلاف جنسی جرائم کا قصور وار قرار دیا گیا۔ بحیثیت مجموعی ان کے خلاف 43جرائم پر انہیں خاطی قراردیا گیا۔ آکسفورڈ کے رہنے والے قمر جمیل، اختر ڈوگر، انجم ڈوگر، اسد حسین، محمد کرار، باسم کرار، ذیشان احمد اور محمد حسین جن کی عمریں 20تا30سال ہے انہیں عصمت ریزی یا اس جرم کی سازش پر متاثرہ لڑکیوں کو جنسی افعال کے ارتکاب سے قبل الکحل اور منشیات کا استعمال کروایا گیا تھا۔ بعض کو زدوکوب کیا گیا اور دیگر کو جھلساتے ہوئے دھمکیاں بھی دی گئیں۔ اولڈ بیلی کے جج نے آج اپنے فیصلے میں بتایاکہ "تم لوگوں کو انتہائی سنگین جرائم کا قصور وار قرار دیا گیا ہے اور مدت طویل تک حراست کے فیصلے ناگزیر ہیں"۔ متاثرہ لڑکیاں جن کی عمریں11تا15 سال تھیں انہوں نے پولیس کو اپنی استحصال اور ان دہشت ناک سرگرمیوں پر چوکس کیا تھا جو آکسفورڈ کے علاقہ کا ولی میں کھلے مقامات اور پارکس میں واقع فلیٹس اور گیسٹ ہاوزس میں جاری تھیں۔ اگرچہ کے بعض سماجی ورکرس اس بات سے واقف تھے کہ چند لڑکیوں کو تیار کیا جارہا تھا تاہم کسی نے بھی کوئی کارروائی نہیں کی اور ثبوت اکٹھا نہیں کیا۔ بعدازاں ایک تحقیقاتی عہدیدار نے 2010 کے اواخر میں اس کیس کا جائزہ حاصل کیا تھا۔ پولیس اور سماجی خدمات کی جانب سے متاثرین سے معذرت خواہی کی گئی ۔ جبکہ پولیس نے ان کی تعداد امکانی طورپر 50سے متجاوز بتائی ہے۔ 2010ء کے بعد یہ پانچواں آکسفورڈ اسکینڈل رہا ہے جبکہ مذکورہ سال کے دوران پاکستانیوں کے ٹولوں کو راشڈیل، ڈرجی، راٹرہیمپ اور شراپ شائر میں ممثال کیسس پر سزا سنائی گئی تھی۔ ڈیلی ٹیلیگراف کو دئیے گئے انٹرویو میں پولیس اور فوجداری انصاف کے وزیر گرین نے بتایاکہ وہ بچوں کے خلاف جنسی تشدد کی کارروائی کے مسئلہ سے نمٹنے دفتر داخلہ کی زیر قیادت گروپ تشکیل دے رہے ہیں۔ تاہم انہوں نے بتایاکہ پاکستانی قائدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ پوری طرح اس بات کو واضح کریں کہ اس قسم کا رویہ صد فیصد ناقابل قبول ہے۔ 




                                                                                     
اس پر تبصرہ بے معنی ہی لگتا ہے، برطانیہ میں اس قسم کے پاکستانیوں نے اپنی اور اپنے ملک کی عزت خاک میں ملا کر رکھ دی ہے۔ جہاں دیکھو ان پاکستانیوں نے قانون توڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، یہ لوگ پوری دنیا میں تو مشھور ہیں ہی مگر یوکے میں بھی ان لوگوں نے اپنی کاروائیاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ 
منشیات میں دیکھو یہ آگے، جیل میں دیکھو یہ آگے، بچوں کا استحصال دیکھو تو یہ آگے،فراڈ میں دیکھو تو یہ آگے، یعنی کہ کہیں بھی انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی اوپر سے سینہ چوڑا کرکے کہتے ہیں کہ ہم ہی اصل مسلمان ہیں اور ہم ہی محب وطن پاکستانی ہیں۔ 
کبھی پی آئی اے پائلٹ پاسپورٹ کی بوریاں لے کر یہاں بیچتے ہیں تو کبھی پاکستانی ایف آئی اے کے لوگ امیگریشن فراڈ میں ملوث نظر آتے ہیں، کیا عام سا بندہ کیا سرکاری افسر، کیا پرائیوٹ کمپنی کیا سرکاری ادارہ سب لوگ برطانیہ میں جرائم کرنے میں باز نہیں آتے۔ 
اکثریت پاکستانیوں کی برطانیہ میں امن پسند ہیں اور اچھے اچھے فلاحی کاموں میں اور سیاست میں اپنی خدمات سرانجام دیتے ہیں مگر ان چند لوگوں کی وجہ سے ہم سب لوگ بدنام ہوکر رہ گئے ہیں۔ 
کبھی پاکستانی ٹیکسی ڈرائیوروں کا اسکینڈل سامنے آیا تھا کہ یہ لوگ سفید فام لڑکیوں کو جو شراب کے نشے میں ان کے ٹیکسی میں بیٹھتی تھیں ان کی عزتیں لوٹتے تھے اور دوستوں کو بھی مدعو کرتے تھے، اب کی بار تو سیکس گروممنگ اسکینڈل نے پورے برطانیہ میں ہلچل مچادی۔ پاکستانیوں کی یہاں جو ۃھوڑی بہت عزت تھی وہ بھی خود انہوں نے خاک میں ملادی۔ 
پاکستان میں تو یہ لوگ بچوں کے ساتھ زیادتی کرکے قتل کردیتے ہیں مگر اس قسم کے ذہنی مریض لوگوں نے برطانیہ میں بھی اس قسم کی کاروائیان جاری رکھی ہوئی تھی مگر یہ لوگ بھول گئے تھے یہ یہ پاکستان نہیں بلکہ برطانیہ ہے جہاں قانون کا بول بالا ہے اور کوئی شخص قانون سے بالاتر نہیں ہے اور ہر کسی کو جو قانون کو ہاتھ میں لیتا ہے قانون کے سامنے جوابدہ ہوگا۔ ان شاءاللہ 
پتہ نہیں کب یہ قوم سدھرے گی اور اپنی غلط حرکتوں سے باز آئی گی، اللہ ہی ان کو سیدھے راستے پر لاسکتا ہے۔ ان شاءاللہ