Friday 25 May 2012

منافق کی نشانیاں

منافق کی نشانیاں

نبی کریمﷺ نے فرمایا: 
کہ ’’چار (نشانیاں) جس میں ہوں وہ منافق ہوتا ہے، یا جس میں سے ان چاروں میں سے کوئی ایک خصلت ہو، اس میں نفاق کی ایک علامت ہوتی ہے حتیٰ کہ وہ اسے چھوڑ دے:
 
٭جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔
٭وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے۔
٭ عہد کرے تو بد عہدی کرے۔
٭ جب جھگڑا کرے تو پھٹ پڑے۔
بعض روایات میں ہے کہ
"اور جب اسے امانت دی جائے تو خیانت کرے۔"

اللہ تعالیٰ ہمیں اعتقادی وعملی دونوں قسم کے نفاق سے بچائے۔
صحیح البخاری (2459)۔

اللہ کہاں ہے؟

اللہ کہاں ہے؟  
تحریر: شیخ عادل سہیل حفظ اللہ 

آئیے سب سے پہلے دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں کیا فرمایا ہے؟
1۔ اللہ العلی القدیر کا فرمان ہے:
إِنَّ رَبَّكُمُ ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍۢ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ يُغْشِى ٱلَّيْلَ ٱلنَّهَارَ يَطْلُبُهُۥ حَثِيثًۭا وَٱلشَّمْسَ وَٱلْقَمَرَ وَٱلنُّجُومَ مُسَخَّرَٰتٍۭ بِأَمْرِهِۦٓ ۗ أَلَا لَهُ ٱلْخَلْقُ وَٱلْأَمْرُ ۗ تَبَارَكَ ٱللَّهُ رَبُّ ٱلْعَٰلَمِينَ﴿54﴾
ترجمہ: بے شک تمہارا رب الله ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھرعرش پر قرار پکڑا رات سے دن کو ڈھانک دیتا ہے وہ اس کے پیچھے دوڑتا ہوا آتا ہے اور سورج اورچاند اور ستارے اپنے حکم کے تابعدار بنا کر پیدا کیے اسی کا کام ہے پیدا کرنا اور حکم فرمانا الله بڑی برکت والا ہے جو سارے جہان کا رب ہے (سورۃ الاعراف ،آیت 54)
2۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے:
إِنَّ رَبَّكُمُ ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍۢ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ ۖ يُدَبِّرُ ٱلْأَمْرَ ۖ مَا مِن شَفِيعٍ إِلَّا مِنۢ بَعْدِ إِذْنِهِۦ ۚ ذَٰلِكُمُ ٱللَّهُ رَبُّكُمْ فَٱعْبُدُوهُ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ ﴿٣﴾
ترجمہ: بے شک تمہارا رب الله ہی ہے جس نے آسمان اور زمین چھ دن میں بنائے پھر عرش پر قائم ہوا وہی ہر کام کا انتظام کرتا ہے اس کی اجازت کے سوا کوئی سفارش کرنے والا نہیں ہے یہی الله تمہارا پروردگار ہے سو اسی کی عبادت کرو کیا تم پھر بھی نہیں سمجھتے (سورۃ یونس ،آیت 3)
3۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان ہے:
ٱللَّهُ ٱلَّذِى رَفَعَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ بِغَيْرِ عَمَدٍۢ تَرَوْنَهَا ۖ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ ۖ وَسَخَّرَ ٱلشَّمْسَ وَٱلْقَمَرَ ۖ كُلٌّۭ يَجْرِى لِأَجَلٍۢ مُّسَمًّۭى ۚ يُدَبِّرُ ٱلْأَمْرَ يُفَصِّلُ ٱلْءَايَٰتِ لَعَلَّكُم بِلِقَآءِ رَبِّكُمْ تُوقِنُونَ ﴿٢﴾
ترجمہ: الله وہ ہے جس نے آسمانوں کو ستونوں کے بغیر بلند کیا جنہیں تم دیکھ رہے ہو پھر عرش پر قائم ہوا اور سورج اور چاند کو کام پر لگا دیا ہر ایک اپنے وقت معین پر چل رہا ہے وہ ہر ایک کام کاانتظام کرتا ہے نشانیاں کھول کر بتاتا ہے تاکہ تم اپنے رب سے ملنے کا یقین کر لو (سورۃ الرعد،آیت 2)
4۔ اللہ الرحمن کا فرمان ہے:
ٱلرَّحْمَٰنُ عَلَى ٱلْعَرْشِ ٱسْتَوَىٰ ﴿٥﴾
ترجمہ: رحمان جو عرش پر جلوہ گر ہے (سورۃ طہ،آیت 5)
5۔ اللہ ہر ایک چیز کے واحد خالق کا فرمان ہے:
ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِى سِتَّةِ أَيَّامٍۢ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ ۚ ٱلرَّحْمَٰنُ فَسْـَٔلْ بِهِۦ خَبِيرًۭا ﴿59﴾
ترجمہ: جس نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے چھ دن میں بنایا پھر عرش پر قائم ہوا وہ رحمنٰ ہے پس ا س کی شان کسی خبردار سے پوچھو (سورۃ الفرقان،آیت 59)
6۔ اللہ الحکیم کافرمان ہے:
ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِى سِتَّةِ أَيَّامٍۢ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ ۖ مَا لَكُم مِّن دُونِهِۦ مِن وَلِىٍّۢ وَلَا شَفِيعٍ ۚ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ ﴿٤﴾
ترجمہ: الله وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اورجو کچھ ان میں ہے چھ روز میں بنایا پھر عرش پر قائم ہوا تمہارے لیے اس کے سوا نہ کوئی کارساز ہے نہ سفارشی پھر کیا تم نہیں سمجھتے (سورۃ السجدۃ،آیت 4)
7۔ اللہ الکریم کا فرمان ہے:
هُوَ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍۢ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ ۚ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِى ٱلْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ ٱلسَّمَآءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا ۖ وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ ۚ وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌۭ ﴿٤﴾
ترجمہ: وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر جا ٹھہرا۔ جو چیز زمین میں داخل ہوتی اور جو اس سے نکلتی ہے اور جو آسمان سے اُترتی اور جو اس کی طرف چڑھتی ہے سب اس کو معلوم ہے۔ اور تم جہاں کہیں ہو وہ تمہارے ساتھ ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس کو دیکھ رہا ہے (سورۃ الحدید ،آیت 4)
اس مندرجہ بالا آیت مبارکہ میں ہمارے اس رواں موضوع کی دلیل کے ساتھ ساتھ ایک اور بات کی بھی وضاحت ہے ،جس کے بارے میں اکثر لوگ غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں،اور وہ ہے اللہ تبارک و تعالیٰ کی "معیت" یعنی اُس کا ساتھ ہونا۔جس کے بارے میں عموما یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنی ذات مبارک کے ذریعے کسی کے ساتھ ہوتا ہے،جو کہ درست نہیں ہے کیونکہ اللہ جل جلالہ نے خود ہی اپنی "معیت" کی کیفیت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌۭ ﴿٤﴾
ترجمہ: اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس کو دیکھ رہا ہے (سورۃ الحدید ،آیت 4)
یعنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ساتھ ہونا اُس کے علم و قدرت ،سماعت و بصارت کے ذریعے ہے ،نہ کہ اس کی ذات مبارک کے وجود پاک کے ساتھ کسی کے ساتھ ہونا ہے۔ان شاء اللہ اس موضوع پر بات پھر کسی وقت۔(1)
(8) اللہ المعز کا فرمان ہے:
مَن كَانَ يُرِيدُ ٱلْعِزَّةَ فَلِلَّهِ ٱلْعِزَّةُ جَمِيعًا ۚ إِلَيْهِ يَصْعَدُ ٱلْكَلِمُ ٱلطَّيِّبُ وَٱلْعَمَلُ ٱلصَّٰلِحُ يَرْفَعُهُۥ ۚ وَٱلَّذِينَ يَمْكُرُونَ ٱلسَّيِّـَٔاتِ لَهُمْ عَذَابٌۭ شَدِيدٌۭ ۖ وَمَكْرُ أُو۟لَٰٓئِكَ هُوَ يَبُورُ ﴿10﴾
ترجمہ: جو شخص عزت چاہتا ہو سو الله ہی کے لیے سب عزت ہے اسی کی طرف سب پاکیزہ باتیں چڑھتی ہیں اور نیک عمل اس کو بلند کرتا ہے اور جو لوگ بری تدبیریں کرتے ہیں انہی کے لیے سخت عذاب ہے اوران کی بری تدبیر ہی برباد ہو گی (سورۃ الفاطر،آیت 10)
(9) اللہ ذی المعارج کا فرمان ہے:
سَأَلَ سَآئِلٌۢ بِعَذَابٍۢ وَاقِعٍۢ ﴿١﴾لِّلْكَٰفِرِينَ لَيْسَ لَهُۥ دَافِعٌۭ ﴿٢﴾مِّنَ ٱللَّهِ ذِى ٱلْمَعَارِجِ ﴿٣﴾تَعْرُجُ ٱلْمَلَٰٓئِكَةُ وَٱلرُّوحُ إِلَيْهِ فِى يَوْمٍۢ كَانَ مِقْدَارُهُۥ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍۢ ﴿٤﴾
ترجمہ: ایک طلب کرنے والے نے عذاب طلب کیا جو نازل ہو کر رہے گا (یعنی) کافروں پر (اور) کوئی اس کو ٹال نہ سکے گا (اور وہ) اللہ ئے صاحب درجات کی طرف سے (نازل ہوگا) جس کی طرف روح (الامین) اور فرشتے پڑھتے ہیں (اور) اس روز (نازل ہوگا) جس کا اندازہ پچاس ہزار برس کا ہوگا (سورۃ المعارج،آیت 1تا4)
(10) اللہ الاعلیٰ کا فرمان ہے:
يُدَبِّرُ ٱلْأَمْرَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ إِلَى ٱلْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِى يَوْمٍۢ كَانَ مِقْدَارُهُۥٓ أَلْفَ سَنَةٍۢ مِّمَّا تَعُدُّونَ ﴿٥﴾
ترجمہ: وہ آسمان سے لے کر زمین تک ہر کام کی تدبیر کرتا ہے پھراس دن بھی جس کی مقدار تمہاری گنتی سے ہزار برس ہو گی وہ انتظام اس کی طرف رجوع کرے گا (سورۃ السجدۃ،آیت 5)
(11) اللہ العلی القدیر کا فرمان ہے:
يَخَافُونَ رَبَّهُم مِّن فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ۩ ﴿50﴾
ترجمہ: اور اپنے پروردگار سے جو ان کے اوپر ہے ڈرتے ہیں اور جو ان کو ارشاد ہوتا ہے اس پر عمل کرتے ہیں (سورۃ النحل،آیت 50)
اللہ تعالیٰ کے مندرجہ بالا فرامین سے صاف اور واضح طور پر سمجھ آتا ہے کہ اللہ الاعلیٰ اپنی تمام مخلوق کے اوپر ،اُس سے جدا اور بلند ہے،کسی لفظ کی کوئی تشریح یا تاویل کرنے سے پہلے ہمیں اللہ تعالیٰ کے یہ درج ذیل فرامین بھی ذہن میں رکھنے چاہیے جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اکرم محمد ﷺ کو مخاطب فرما کر ،اُن کے اُمتیوں کو اُن ﷺ کے منصب رسالت کی ذمہ داریوں میں سب سے اہم ذمہ داری بتائی ہے اور ہمیں یہ سمجھایا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرامین مبارک کو اللہ کے رسول ﷺ کی بیان کردہ قولی اور عملی تفسیر شرح اور تعلیمات کے مطابق سمجھنا ہے،نہ کہ اپنی عقل و سوچ،مزاج،پسند و ناپسند اور اپنے خود ساختہ جہالت زدہ فلسفوں کے مطابق:
بِٱلْبَيِّنَٰتِ وَٱلزُّبُرِ ۗ وَأَنزَلْنَآ إِلَيْكَ ٱلذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ ﴿٤٤﴾
ترجمہ: (اور ان پیغمبروں کو) دلیلیں اور کتابیں دے کر (بھیجا تھا) اور ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو (ارشادات) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو اور تاکہ وہ غور کریں (سورۃ النحل،آیت 44)
اور مزید تاکید فرمائی کہ:
وَمَآ أَنزَلْنَا عَلَيْكَ ٱلْكِتَٰبَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ ٱلَّذِى ٱخْتَلَفُوا۟ فِيهِ ۙ وَهُدًۭى وَرَحْمَةًۭ لِّقَوْمٍۢ يُؤْمِنُونَ ﴿64﴾
ترجمہ: اور ہم نے جو تم پر کتاب نازل کی ہے تو اس کے لیے جس امر میں ان لوگوں کو اختلاف ہے تم اس کا فیصلہ کردو۔ اور (یہ) مومنوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے (سورۃ النحل،آیت 64)
اللہ تعالیٰ کے فرمان کی تفسیر اور شرح کی ذمہ داری اللہ کی طرف سے اپنے رسول ﷺ کو دی گئی ہے ہر کس و ناکس کو یہ اجازت نہیں کہ وہ اپنی مرضی سےیا اپنی سوچ و فکر کے مطابق ،یا اُس کے ذہن پر مسلط فلسفوں اور شرعا نا مقبول خود ساختہ کسوٹیوں کی بنا پر قرآن پاک کی آیات مبارکہ کی ایسی تفسیر یا تشریح کرے جو اللہ یا رسول ﷺ کی صحیح ثابت شدہ سنت مبارکہ کہ مطابق نہ ہوں، اور جب اس کی جہالت زدہ سوچیں اور فلسفے قرآن کریم کی ہی آیات شریفہ کے ذریعے مردود قرار پائیں تو آیات شریفہ کی باطل تاویلات کرنے لگے،اور جب اس کی باطل تاویلات صحیح چابت شدہ سنت مبارکہ کے ذریعے مردود قرار پائیں تو سنت مبارکہ کا ہی انکار کرنے لگے۔


استغفار کی فضیلت: امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا ایک سبق آموز واقعہ

 امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا ایک سبق آموز واقعہ


ایک بار امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سفرمیں تھے، ایک قصبے میں رات ہو گئی تو نماز کے بعد مسجد میں ہی ٹھہرنے کا ارادہ کر لیا۔ اُن کی عاجزی و انکساری نے یہ گوارا نہ کیا کہ لوگوں کو اپنا تعارف کروا کر خوب آؤ بھگت کروائی جائے۔ مسجد کے خادم نے امام کو نہ پہچانا اور اُن کو مسجد سے باہر نکلنے کا کہا، امام نے سوچا کہ مسجد کے دروازے پر سو جاتا ہوں، لیکن خادم نے وہاں سے بھی کھینچ کر نکالنا چاہا۔
 

یہ تمام منظر ایک نانبائی نے دیکھ لیا جو مسجد کے قریب ہی تھا، اُس نانبائی نے امام کو اپنے گھر رات ٹھہرنے کی پیشکش کر دی جبکہ وہ امام کو جانتا بھی نہیں تھا۔ امام جب اُس کے گھر تشریف لے گئے تو دیکھا کہ نانبائی کام کے دوران بھی کثرت سے استغفار (استغفر اللہ) کر رہا ہے۔
امام نے استفسار کیا:
 کیا تمہیں اس قدر استغفار کرنے کا پھل ملا ہے؟
نانبائی نے جواب دیا:
 میں نے جو بھی مانگا اللہ مالکُ المُلک نے عطا کیا۔۔۔۔ ہاں ایک دعا ہے جو ابھی تک قبول نہیں ہوئی۔
امام نے پوچھا:
 وہ کونسی دعا ہے؟
نانبائی بولا:
 میرے دل میں کچھ دنوں سے یہ خواہش مچل رہی ہے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے ملنے کا شرف حاصل کروں۔ 
امام فرمانے لگے:
 میں ہی احمد بن حنبل ہوں۔ اللہ نے نا صرف تمہاری دُعا سُنی بلکہ مجھے تمہارے دروازے تک کھینچ لایا۔
۔(الجمعہ میگزین، والیم 19، جلد 7)۔

ایک اور حکایت:
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے کسی نے قحط سالی کی شکایت کی۔
فرمایا: استغفار کرو،
دوسرے نے تنگدستی کی شکایت کی،
فرمایا: استغفار کرو،
تیسرے آدمی نے اولاد نہ ہونے کی شکایت کی،
فرمایا: استغفار کرو،
چوتھے نے شکایت کی کہ پیداوارِ زمین میں کمی ہے،
 
فرمایا: استغفار کرو،
پوچھا گیا کہ آپ نے ہر شکایت کا ایک ہی علاج کیسے تجویز فرمایا؟
تو انہوں یہ آیت تلاوت فرمائی:
استغفرو ربکم انہ کان غفاراً یرسل السماء علیکم مدراراً ویمدد کم باموال وبنین ویجعل لکم جنت ویجعل لکم انہارا۔“ (سورۃ نوح: 10-11-12)
ترجمہ:۔
 استغفار کرو اپنے رب سے بے شک وہ ہے، بخشنے والا، وہ کثرت سے تم پر بارش بھیجے گا اور تمہارے مال اور اولاد میں ترقی دے گا اور تمہارے لئے باغات بنادے گا اور تمہارے لئے نہریں جاری فرمادے گا۔

واضح ہے کہ استغفار پر اللہ تعالیٰ نے جن جن انعامات کا اس آیت میں اعلان فرمایا ہے تو ان چاروں کو انہی کی حاجات درپیش تھیں، لہٰذا حضرت حسن بصری رحمہ اللہ نے سب کو استغفار ہی کی تلقین فرمائی۔

استغفر اللہ الذی لا الہ الا ھو الحی القیوم و اتوب الیہ

علم طلب کرو خواہ چین جانا پڑے


علم طلب کرو خواہ چین جانا پڑے


از قلم: عادِل سُہیل ظفر

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہُ ،
یہ بات جو بطورِ حدیث
بیان کی جاتی ہے کہ
 اُطلُبُوا العِلمَ و لَو بِالصِّینِ عِلم طلب کرو خواہ چین سے(یعنی خواہ چین جانا پڑے ) 
گو کہ اِس مقولے کی کمزوری کے عقلی دلائل بھی دیے جا سکتے ہیں لیکن دِین کے معاملات کو عقل پر پرکھنا عموماً غلطی کا باعث ہوتا ہے اِسی لیے نقل کو معیار بنایا گیا ہے اور پھر نقل ہو کر آنے والی ہر بات کو جانچنے پرکھنے کے لیے کسوٹیاں مقرر ہیں ، یہ اُنکی تفصیل کا نہ تو مُقام ہے نہ ہی وقت،


اِمام ابن الجوزی نے ا ِس مقولے کے بارے میں '''
 الموضوعات ''' میں اِمام ابن حبان کا قول لکھا کہ ''' یہ بات باطل ہے اور اِس کی کوئی اصل نہیں'' ،،، میں نے رجب کے بارے میں مَن گھڑت احادیث کے دو مضامین میں امام ابن حبان کا حدیث پر کمزوری یا جھوٹی ہونے کے بارے میں بیان کیا تھا کہ امام ابن حبان حدیثوں کو صحیح قرار دینے میں نرمی سے کام لیتے تھے اور اِس نرمی کے باوجود اگر وہ کسی حدیث کو کمزور یا باطل قرار دیں تو اُنکی بات کافی مضبوط ہوتی ہے، اِس بات کا ذِکر ''' ماہ رجب کی کونسی بہاریں اور فضلیتں'''
میں بھی کِیا گیا تھا ،

یہ مندرجہ بالاحدیث ، اِن کتابوںمیں روایت کی گئی ہے ، اِمام ابو نعیم الاصبہانی کی ''اخباراصبہان''' اِمام ابن علیک کی '' الفوائد '' اِمام الخطیب البغدادی کی '' تاریخ بغداد '' اِمام البیہیقی کی '' المدخل '' اور اِمام ابن عبدالبر کی '' جامع بیان العِلم '' اور پھر کئی اور کتابوں میں نقل کی گئی ، سب روایات کی سندیں ایک مُقام پر مشترک ہو یہ ایک سند بن جاتی ہے ::: حسن بن عطیہ کے ذریعے ، کہ اُس نے ابو عاتکہ طریف بن سلیمان سے سُنا ، کہ وہ انس بن مالک رضی اللہ عنہُ کے ذریعے روایت کرتا کہ
 
اِس سند کے مرکزی اور مشترک راوی ابو عاتکہ طریف بن سلیمان کے بارے میں اِمام البخاری نے ''تاریخ الکبیر ''میں کہا '' مُنکر الحدیث '' یعنی اِسکی حدیث مُنکر ہے ،،، '' الجرح و تعدیل '' میں اِمام ابو حاتم محمد بن اِدریس الرازی نے '' ضعیف الحدیث '' یعنی اِس کی بیان کردہ حدیث کمزور ہے ،،،

اِس حدیث کی دو اور سندیں بھی امام السیوطی نے '' اللآلی ''' میں ذِکر کئی ہیں ، جِن میں سے ایک میں''' یعقوب بن اِسحاق بن اِسماعیل العسقلانی ''' نامی راوی ہے جِسے اِمام الذہبی نے '' جھوٹا '' قرار دِیا ، اور دوسری سند میں ''' احمد بن عبداللہ الجُویباری ''' نامی راوی ہے جِسے خود اِمام السیوطی نے ''' حدیث گھڑنے والا ''' کہا ۔اختصار کے پیش نظر میں نے تفصیل سے حوالہ جات کا ذِکر نہیں کِیا ، کِسی کے پاس اگر اِس مِن گھڑت روایت کی اِن ناقابل اعتبار سندوں کے عِلاوہ کوئی اور سند ہو براہِ مہربانی مجھے اُس کی اطلاع کرے اور اگر نہیں ہے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے تقاضے کو پورا کیجیئے اور اُن کی ذاتِ مبارک سے کوئی ایسا قول یا فعل منسوب ہونے سے 
روکیئے جو اُن صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ۔

اپنے دروازہ کی چوکھٹ تبدیل کردیں

اپنے دروازہ کی چوکھٹ تبدیل کردیں

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ عورتوں نے سب سے پہلے ازار بند بنانا سیدنا
 اسماعیل کی ماں سے سیکھا انہوں نے ازار بند بنایا تاکہ اپنے نشانات کو سارہ سے چھپائیں پھر انہیں اور ان کے لڑکے اسماعیل کو سیدناابراہیم علیہ السلام لے کر آئے اور وہ انہیں دودھ پلاتی تھیں تو ان دونوں کو مسجد کے اوپری حصہ میں زمزم کے پاس کعبہ کے قریب ایک درخت کے پاس بٹھا دیا اور اس وقت مکہ میں نہ تو آدمی تھا نہ پانی ابراہیم نے انہیں وہاں بٹھا دیا اور ان کے پاس ایک چمڑے کے تھیلے میں کھجوریں اور مشکیزہ میں پانی رکھ دیا اس کے بعد ابراہیم لوٹ کر چلے تو اسماعیل کی والدہ نے ان کے پیچھے دوڑ کر کہا اے ابراہیم کہا جا رہے ہو اور ہمیں ایسے جنگل میں جہاں نہ کوئی آدمی ہے نہ اور کچھ (کس کے سہارے چھوڑے جا رہے ہو؟) اسماعیل کی والدہ نے یہ چند مرتبہ کہا مگرسیدنا ابراہیم نے ان کی طرف مڑ کر بھی نہ دیکھا اسماعیل کی والدہ نے کہا کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے؟ انہوں نے کہا ہاں!سیدہ ہاجرہ نے کہا تو اب اللہ بھی ہم کو برباد نہیں کرے گا پھر وہ واپس چلی آئیں اور سیدنا ابرہیم چلے گئے حتیٰ کہ وہ ثنیہ کے پاس پہنچے، جہاں سے وہ لوگ انہیں دیکھ نہ سکتے تھے، تو انہوں نے اپنا منہ کعبہ کی طرف کر کے دونوں ہاتھ اٹھا کر یہ دعا کی کہ ( اے ہمارے رب میں اپنی اولاد کو آپ کے معظم گھر کے قریب ایک (کفدست) میدان میں جو زراعت کے قابل نہیں آباد کرتا ہوں) اورسیدنا اسماعیل علیہ السلام کی والدہ انہیں دودھ پلاتی تھیں اور اس مشکیزہ کا پانی پیتی تھیں حتی کہ جب وہ پانی ختم ہو گیا تو انہیں اور ان کے بچہ کو (سخت) پیاس لگی وہ اس بچہ کو دیکھنے لگیں کہ وہ مارے پیاس کے تڑپ رہا ہے یا فرمایا کہ ایڑیاں رگڑ رہا ہے وہ اس منظر کو دیکھنے کی تاب نہ لا کر چلیں اور انہوں نے اپنے قریب جو اس جگہ کے متصل تھا کوہ صفا کو دیکھا پس وہ اس پر چڑھ کر کھڑی ہوئیں اور جنگل کی طرف منہ کرکے دیکھنے لگیں کہ کوئی نظر آتا ہے یا نہیں؟ تو ان کو کوئی نظر نہ آیا (جس سے پانی مانگیں) پھر وہ صفا سے اتریں جب وہ نشیب میں پہنچیں تو اپنا دامن اٹھا کے ایسے دوڑیں جیسے کوئی سخت مصیب زدہ آدمی دوڑتا ہے حتیٰ کہ اس نشیب سے گزر گئیں پھر وہ کوہ مروہ پر آکر کھڑی ہوئیں اور ادھر ادھر دیکھا کہ کوئی نظر آتا ہے یا نہیں تو انہیں کوئی نظر نہ آیا اسی طرح انہوں نے سات مرتبہ کیا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اسی لئے لوگ صفا و مروہ کے درمیان سعی کرتے ہیں جب وہ آخری دفعہ کوہ مروہ پر چڑھیں تو انہوں نے ایک آواز سنی خود ہی کہنے لگیں ذرا ٹھہر کر سننا چاہئے تو انہوں نے کان لگایا تو پھر بھی آواز سنی خود ہی کہنے لگیں (اے شخص) تو نے آواز تو سنا دی کاش کہ تیرے پاس فریاد رسی بھی ہو، یکایک ایک فرشتہ کو مقام زمزم میں دیکھا اس فرشتہ نے اپنی ایڑی ماری یا فرمایا کہ اپنا پر مارا حتیٰ کہ پانی نکل آیا ہاجرہ اسے حوض کی شکل میں بنا کر روکنے لگیں اور ادھر ادھر کرنے لگیں اور چلو بھر بھر کے اپنی مشک میں ڈالنے لگیں ان کے چلو بھرنے کے بعد پانی زمین سے ابلنے لگا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ اسماعیل کی والدہ پر رحم فرمائے اگر وہ زمزم کو (روکتی نہیں بلکہ) چھوڑ دیتیں یا فرمایا چلو بھر بھر کے نہ ڈالتیں تو زمزم ایک جاری رہنے والا چشمہ ہوتا پھر فرمایا کہ انہوں نے پانی پیا اور بچہ کو پلایا پھر ان سے فرشتہ نے کہا کہ تم اپنی ہلاکت کا اندیشہ نہ کرو کیونکہ یہاں بیت اللہ ہے جسے یہ لڑکا اور اس کے والد تعمیر کریں گے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ہلاک و برباد نہیں کرتا (اس وقت) بیت اللہ زمین سے ٹیلہ کی طرح اونچا تھا سیلاب آتے تھے تو اس کے دائیں بائیں کٹ جاتے تھے ہاجرہ اسی طرح رہتی رہیں ۔(روایت اختصار سے پیش کی جارہی ہے )

سیدنا اسماعیل کی والدہ سیدہ ہاجرہ (علیہما السلام )وفات پاگئیں سیدنا ابراہیم علیہ السلام اپنے چھوڑے ہوؤں کو دیکھنے کے لئے اسماعیل کے نکاح کے بعد تشریف لائے تو اسماعیل کو نہ پایا ان کی بیوی سے معلوم کیا تو اس نے کہا کہ وہ ہمارے لئے رزق تلاش کرنے گئے ہیں پھر ابراہیم علیہ السلام نے اس سے بسر اوقات اور حالت معلوم کی تو اس عورت نے کہا ہماری بری حالت ہے اور ہم بڑی تنگی اور پریشانی میں مبتلا ہیں (گویا) انہوں نے سیدنا ابراہیم سے شکوہ کیا ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ جب تمہارے شوہر آ جائیں تو ان سے میرا سلام کہنا اور یہ کہنا کہ اپنے دروازہ کی چوکھٹ تبدیل کردیں جب اسماعیل علیہ السلام واپس آئے تو گویا انہوں نے اپنے والد کی تشریف آوری کے آثار پائے تو کہا کیا تمہارے پاس کوئی آدمی آیا تھا ؟ بیوی نے کہا ہاں! ایسا ایسا ایک بوڑھا شخص آیا تھا اس نے آپ کے بارے میں پوچھا تو میں نے بتا دیا اور اس نے ہماری بسر اوقات کے متعلق دریافت کیا تو میں نے بتا دیا کہ ہم تکلیف اور سختی میں ہیں سید نا اسماعیل نے کہا کیا انہوں نے کچھ پیغام دیا ہے؟ کہا ہاں! مجھ کو حکم دیا تھا کہ تمہیں ان کا سلام پہنچا دوں اور وہ کہتے تھے تم اپنے دروازہ کی چوکھٹ بدل دو اسماعیل نے کہا وہ میرے والد تھے اور انہوں نے مجھے تم کو جدا کرنے کا حکم دیا ہے لہذا تم اپنے گھر چلی جاؤ اور اس کو طلاق دے دی اور بنو جرہم کی کسی دوسری عورت سے نکاح کر لیا کچھ مدت کے بعد ابراہیم پھر آئے تو اسماعیل کو نہ پایا ان کی بیوی کے پاس آئے اور اس سے دریافت کیا تو اس نے کہا وہ ہمارے لئے رزق تلاش کرنے گئے ہیں ابراہیم علیہ السلام نے پوچھا تمہارا کیا حال ہے؟ اور ان کی بسر اوقات معلوم کی اس نے کہا ہم اچھی حالت اور فراخی میں ہیں اور اللہ کی تعریف کی ابراہیم علیہ السلام نے پوچھا تمہاری غذا کیا ہے؟ انہوں نے کہا گوشت سیدنا ابراہیم نے پوچھا تمہارے پینے کی کیا چیز ہے؟ انہوں نے کہا پانی، ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی اے اللہ! ان کے لئے گوشت اور پانی میں برکت عطا فرما۔ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس وقت وہاں غلہ نہ ہوتا تھا اگر غلہ ہوتا تو اس میں بھی ان کے لئے دعا کرتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص مکہ کے سوا کسی اور جگہ گوشت اور پانی پر گزارہ نہیں کرسکتا صرف گوشت اور پانی مزاج کے موافق نہیں آ سکتا ابراہیم نے کہا جب تمہارے شوہر آ جائیں تو ان سے میرا سلام کہنا اور انہیں میری طرف سے یہ حکم دینا کہ اپنے دروازہ کی چوکھٹ باقی رکھیں جب سیدنا اسماعیل آئے تو پوچھا کیا تمہارے پاس کوئی آدمی آیا تھا ؟ بیوی نے کہا ہاں! ایک بزرگ خوبصورت پاکیزہ سیرت آئے تھے اور ان کی تعریف کی تو انہوں نے مجھ سے آپ کے بارے میں پوچھا تو میں نے بتا دیا پھر مجھ سے ہماری بسراوقات کے متعلق پوچھا تو میں نے بتایا کہ ہم بڑی اچھی حالت میں ہیں اسماعیل نے کہا کہ تمہیں وہ کوئی حکم دے گئے ہیں انہوں نے کہا کہ وہ آپ کو سلام کہہ گئے ہیں اور حکم دے گئے ہیں کہ آپ اپنے دروازہ کی چوکھٹ باقی رکھیں اسماعیل علیہ السلام نے کہا وہ میرے والد تھے اور چوکھٹ سے تم مراد ہو گویا انہوں نے مجھے یہ حکم دیا کہ تمہیں اپنی زوجیت میں باقی رکھوں پھرسیدنا ابراہیم کچھ مدت کے بعد پھر آئے اور سیدنا اسماعیل کو زمزم کے قریب ایک درخت کے سایہ میں بیٹھے ہوئے اپنے تیر بناتے پایا جب سیدنا اسماعیل نے انہیں دیکھا تو ان کی طرف بڑھے اور دونوں نے ایسا معاملہ کیا جیسے والد لڑکے سے اور لڑکا والد سے کرتا ہے سیدنا ابراہیم نے کہا اے اسماعیل! اللہ نے مجھے ایک کام کا حکم دیا ہے انہوں نے عرض کیا کہ اس حکم کے مطابق عمل کیجئے ابراہیم بولے کیا تم میرا ہاتھ بٹاؤ گے؟ اسماعیل نے کہاں ہاں! میں آپ کا ہاتھ بٹاؤ ن گا ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ اللہ نے مجھے یہاں بیت اللہ بنانے کا حکم دیا ہے اور آپ نے اس اونچے ٹیلے کی طرف اشارہ کیا یعنی اس کے گردا گرد ان دونوں نے کعبہ کی دیواریں بلند کیں اسماعیل پتھر لاتے تھے اور ابراہیم تعمیر کرتے تھے حتیٰ کہ جب دیوار بلند ہوئی تو سیدنااسماعیل ایک پتھر کو اٹھا لائے اور اسے ابراہیم علیہ السلام کے لئے رکھ دیا سیدنا ابراہیم اس پر کھڑے ہو کر تعمیر کرنے لگے اور سیدنااسماعیل انہیں پتھر دیتے تھے اور دونوں یہ دعا کرتے رہے کہ اے پروردگار! ہم سے (یہ کام) قبول فرما بیشک تو سننے والا جاننے والا ہے پھر دونوں تعمیر کرنے لگے اور کعبہ کے گرد گھوم کر یہ کہتے جاتے تھے اے ہمارے پروردگار ہم سے (یہ کام) قبول فرما بیشک تو سننے والا جاننے والا ہے

صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 599 کتاب الانبیاء