Friday 11 November 2011

شیطان کا ڈاکیا

شیطان کا ڈاکیا


عربی زبان میں ایک نہایت زہریلے سانپ کو عاضۃ کہتے ہیں جس کا ڈسا ہوا فورًا مر جاتا ہے۔ اسی سے "العضۃ" کا لفظ ہے جس کا معنی چغل خور ہے کیونکہ وہ بھی فریقین کے درمیان فتنہ و فساد کی آگ بڑھکا دیتا ہے اور بات فورًا دشمنی اور قتل و غارت تک پہنچ جاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ایک دفعہ اپنے صحابہ سے مخاطب ہو کر فرمایا:
أَتَدْرُونَ مَا الْعَضْهُ؟
"جانتے ہو "العضہ" کیا ہے؟؟
صحابہ نے عرض کیا "اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتا ہے"
فرمایا: 
نَقْلُ الْحَدِيثِ مِنْ بَعْضِ النَّاسِ إِلَى بَعْضٍ، لِيُفْسِدُوا بَيْنَهُمْ
"بعض کی باتیں بعض کی طرف بیان کرنا تا کہ ان کے درمیان فساد ڈالا جائے" 
(سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ حدیث نمبر 846)

مسلمان کبھی شیطان کا ڈاکیا نہیں بنتا۔ اگر کسی موقع پر کسی کے خلاف کوئی بات سن لے تو اس کو وہاں پر ہی دفن کر دے تا کہ فریقین کےدرمیان نفرت و کدورت کے جراثیم مزید پیدا نہ ہوں۔

ایک دفعہ کسی آدمی نے اللہ کے ایک نیک بندے کو آ کر بتلایا کہ فلاں شخص آپ کے خلاف فلاں فلاں باتیں کرتا ہے، وہ سن کر فرمانے لگے "شیطان کو تیرے علاوہ کوئی ڈاکیا نہیں ملا"؟ ایک اور شخص نے اللہ کے ایک بندے سے کہا "فلاں شخص نے آپ کو یہ یہ گالی دی ہے" وہ کہنے لگے "اے ظالم! اس نے نہیں دیں گالیاں تو تو نے دی ہیں۔ اس نے تو پتھر پھینکا تھا مگر مجھے نہیں لگا مگر تو اس قدر ظالم نکلا کہ وہ اٹھا کر مجھے مار ہی دیا"۔ 
اللہ تعالیٰ ہمیں چغل خوری کی لعنت سے محفوظ فرمائے۔

Wednesday 9 November 2011

صلاۃ غوثیہ کی حقیقت

صلاۃ غوثیہ کی حقیقت


یہاں اس غلط فہمی کو دور کرنا بھی ضروری ہے جو بعض عقیدت مندوں نے پیدا کر رکھی ہے کہ "خود شیخ جیلانی نے یہ تعلیم دی تھی کہ مشکلات کے وقت مجھے پکارا کرو میں زندگی میں بھی اور بعد از حیات بھی تا قیامت تمہاری سنتا اور مدد کرتا رہوں گا"-
اس سلسلہ میں آپ کی طرف جو جھوٹی باتیں منسوب کی جاتی ہیں، ان میں سے بطور نمونہ ایک جھوٹ ملاحضہ فرمائيں:
"شیخ نے فرمایا کہ جو کوئی مصیبت میں مجھ سے مدد چاہے یا مجھ کو پکارے تو میں اس کی مصیبت کو دور کروں کا اور جو کوئی میرے توسل سے خدائے تعالی سے اپنی حاجت روائی چاہے گا تو خدا تعالی اس کی حاجت کو پورا کرے گا- جو کوئی دو رکعت نماز پرھے اور ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد گارہ مرتبہ سورۃ اخلاص یعنی "قل ھو اللہ احد" پڑھے اور سلام پھرینے کے بعد گیارہ مرتبہ درود شریف پڑھے اور مجھ پر بھی سلام بھیجے اور اس وقت اپنی حاجت کا نام بھی لے تو ان شاءاللہ تعالی اس کی حاجت پوری ہوگی- بعض نے بیان کیا ہے کہ دس پانچ قدم جانب میرے مزار کی طرف جل کر میرا نام لے اور اپنی حاجت کو بیان کرے اور بغض کہتے ہیں مندرجہ ذیل دو شعروں کو بھی پڑھے:
(ترجمہ اشعار: کیا مجھ کو کچھ تنگدستی پہنچ سکتی ہے جبکہ آپ میرا ذخیرہ ہیں اور کیا دنیا میں مجھ پر ظلم ہوسکتا ہے جبکہ آپ میرے مددگار ہیں- بھیڑ کے محافظ پر خصوصا جبکہ وہ میرا گار ہو، ننگ و ناموس کی بات ہے کہ بیابان میں میرے اونٹ کی رسی گم ہوجائے"-
(قلائد الجواہر، مترجم: ص 192)

"پھر عراق (بغداد) کی سمت میرا نام لیتا ہوا گیارہ قدم چلے"
(بھجۃ الاسرار۔ ص:102)

نقد و تبصرہ:

٭ اول تو یہ واقعہ ان کتابوں سے ماخوذ ہے جن کی استنادی حیثیت کے حوالہ سے ہم یہ ثابت کر چکے ہیں کہ وہ قابل اعتماد نہیں ہیں-
٭ اگر بالفرص شیخ نے یہ بات خود فرمائی بھی ہو تو تب بھی اس پر عمل اس لئے نہیں کیا جاسکتا کہ یہ قرآن و سنت کے صریح خلاف ہے- 
٭ فی الحقیقت یہ بات خود شیخ کی موحدانہ تعلیمات کے منافی ہے کیونکہ شیخ تو یہ فرماتے ہیں کہ:
"اخلاص پیدا کرو اور شرک نہ کرو، حق تعالی کی توحید کا پرچار کرو اور اس کے درواوے سے منہ نہ موڑو- اسی اللہ سے سوال کرو، کسی اور سے سوال نہ کرو، اسی سے مدد مانگو، کسی اور سے مدد نہ مانگو، اسی پر توکل و اعتماد کرو اور کسی پر توکل نہ کرو"-
(الفتح الربانی: مجلس 48، ص 151)

اقتباس: شیخ عبدالقادر جیلانی اور موجودہ مسلمان
تالیف: مبشر حسین لاھوری

خبر بیان کرنے کا مسئلہ

خبر بیان کرنے کا مسئلہ


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"کفی بالمرء کذبا ان یحدث بکل ما سمع"
آدمی کے لیے جھوٹا ہونے میں (یہ بات) کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو (بغیر تحقیق کے) بیان کرے"-
(رواہ مسلم)

تشریح: مطلب یہ ہے یہ اگر کوئی شخص یہ عادت رکھتا ہو کہ جو کچھ سنے بغیر تحقیق کےروایت بیان کرے تو اس کے جھوٹ بولنے میں اسی قدر کافی ہے- کیونکہ جو کچھ وہ سنتا ہے، سب سچ نہیں ہوسکتا بلکہ سنی سنائی باتیں اکثر جھوٹ ہوتی ہیں- اس لیے جب تک کسی بات یا خبر کا سچ ہونا متحقق نہ ہو اسے ہرگز آگے بیان نہیں کرنا چاہیے- معلوم ہوا کہ خبروں کا بیان کرنا ایک ذمہ داری کی چيز ہے اور مسائل دین میں سے ہے- 
خبردار! کسی سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق و تفتیش کے کبھی آگے نہ پہنچاؤ- 

برصغیر میں محدثین کی آمد

برصغیر میں محدثین کی آمد

جناب محمد زکریا شاہد اعوان

یہ بات مسلمہ ہے کہ جانباز صحابہ کرام ] کا ہر قول و فعل حدیث رسول e سے ہم آہنگ تھا۔ وہ جہاں بھی رخت سفر باندھتے، تجارت کی غرض سے جاتے غرضیکہ زندگی کے تمام نشیب و فراز میں فرامین رسول عربی سے ہی رہنمائی لیتے۔ جب محدثین کی برصغیر آمد ہوئی تو احادیث مبارکہ کا ایک روح پرور ذخیرہ بھی ان کے ساتھ آیا۔ رسول اکرم e کے دنیا سے رحلت فرمانے کے بعد ۵۱ھ میں اس خطہ میں رسول اکرم e کی احادیث مبارکہ پہنچنا شروع ہو گئی تھیں۔ صحابہ کرامؓ کی منزلیں آپ کے فرامین و ارشادات کی روشنی میں ہوتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے طرز معاشرت کا ہر گوشہ اور اسلوب زندگی کا ہر پہلو نبی کریم e کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا وہ گھر میں ہوں یا باہر سفر میں ہوں یا حضر میں، حالت امن میں ہوں یا جنگ میں، الغرض زندگی کے تمام نشیب و فراز میں فرامین رسول کا گلستان پر بہار ان کے سامنے لہلہاتا رہتا تھا اور اسی کے سائے انہیں روحانی اور جسمانی سکون حاصل ہوتا تھا۔ یہی ان کا مقصد حیات اور سرمایہ زندگی تھا۔ وہ جس ملک میں گئے حدیث رسول اپنے ساتھ لے کر گئے۔ برصغیر میں آئے تو یہ انمول خزانہ بھی ساتھ لے کر آئے۔ 
کاروان اہلحدیث:

برصغیر میں اسلام کے یہ اولین نقوش ۵۱ھ میں اس خطہ ارضی پر ابھرے اور پھر تاریخ کے ایک خاص تسلسل کے ساتھ پوری تیزی سے لمحہ بہ لمحہ ابھرتے اور نمایاں ہوتے چلے گئے۔ یہ اولین نقوش و آثار اس پر عظمت کارواں کے ہیں جنہیں اصحاب حدیث اور ”اہلحدیث“ کے عظیم الشان لقب سے پکارا جاتا ہے۔ یہی وہ پہلا کارواں تھا جو نبی اکرم eکے اس دنیا سے تشریف لے جانے کے صرف چار سال بعد برصغیر میں وارد ہوا۔ دوسرا کارواں حدیث تابعین کا، تیسرا محمد بن قاسم اور ان کے رفقائے عالی قدر کا اور چوتھا کارواں تبع تابعین کا تھا۔ 
یہ پاکباز لوگ جہاں قدم رکھتے گئے حدیث رسول ان کے ہمرکاب رہی یہی ان کی زندگی کا حاصل یہی ان کا اوڑھنا بچھونا اسی کے احکام ان کے شب و روز کا معمول تھا اور یہی ان کا مقصد زیست اور یہی ان کا طرہ امتیاز تھا۔ یہ چار جلیل القدر کارواں جنہوں نے اپنے دور میں برصغیر کے مختلف علاقوں میں مساعی جمیلہ سر انجام دیں۔ یہی وہ ذی مرتبت حضرات ہیں جنہوں نے یہاں پہلے قال اللہ وقال الرسول مسرت انگیز اور بہجت افزا صدائیں بلند کیں۔ 

ایک اشکال اور اس کا جواب:

بعض حضرات کہتے ہیں کہ برصغیر میں سب سے پہلے حنفی مسلک آیا، اہلحدیث کی عمر اس ملک میں صرف ڈیڑھ دو سو سال ہے۔ یہ بالکل بے وزن اور حقیقت کے خلاف بات ہے اور ان لوگوں کی ذہنی اختراع ہے جو برصغیر کی اسلامی تاریخ کے ابتدائی دور سے واقفیت نہیں رکھتے یا اس کا اظہار نہیں کرنا چاہتے بلکہ انہوں نے اپنی اس خواہش کا نام تاریخ رکھ لیا ہے۔ 
تاریخی واقعات بیان کرنے کیلئے تاریخ کو سمجھنے اور اس کے مختلف گوشوں کو فہم کی گرفت میں لانے کی ضرورت ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ پچیس جانباز صحابہ کرامؓ جو یہاں آئے تھے وہ حنفی تھے؟ کیا وہ کسی ذی الحرام امام فقہ کے مقلد تھے؟ کیا ان کے بعد ان کے زمانے میں برصغیر تشریف لانے والے ۲۴ بیالیس تابعین کسی لائق صد احترام شخصیت کے حلقہ تقلید سے وابستہ تھے؟ ہر گز نہیں! وہ براہ راست نبی اکرمe کی احادیث مبارکہ پر عمل پیرا تھے اور آپ کے فرامین اقدس پر عامل اور ان کے اولین مبلغ تھے اور اسی متاع گراں بہا کی رفاقت میں انہوں نے اس نواح کا رخ فرمایا۔ ان کا مرکز عمل اور نقطہ نظر صرف قرآن و حدیث تھے۔ اس کے علاوہ کوئی بات کبھی بھی ان کے حاشیہ خیال میں نہیں آئی۔ 
یہ وہ دور ہے جب فقہی مسالک کا کہیں نام و نشان نہ تھا اور نہ ہی کسی قابل تکریم امام فقہ کا کوئی وجود تھا۔ صحابہ کرامؓ کا پہلا کارواں برصغیر میں ۵۱ھ میں آیا حضرت امام ابوحنیفہؒ اس سے ۵۶ سال بعد ۰۸ ھ میں پیدا ہوئے۔ ۰۵۱ھ میں انہوں نے رخت سفر باندھا۔ امام مالکؒ ۳۹ھ میں پیدا ہوئے اور ۹۷۱ھ میں داعی اجل کو لبیک کہا۔ امام شافعیؒ ۰۵۱ میں اس جہاں ہست و بود میں نمودار ہوئے۔ اور ۴۰۲ھ میں یہ آفتاب غروب ہو گیا۔ امام احمد بن حنبلؒ کی ولادت ۴۶۱ھ ہے اور ۱۶۲ھ میں مالک حقیقی سے جا ملے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ صحابہ کرامؓ کے زمانہ اقدس میں نہ کوئی حنفی تھا نہ کوئی شافعی تھا نہ مالکی نہ ہی حنبلی تھا۔ خالص فرامین پیغمبر اور حدیث رسول کا سکہ چلتا تھا۔ کسی امام فقہ کی تقلید کا ہر گز کوئی تصور نہ تھا جب آئمہ فقہ کی پاکباز ہستیاں دنیا میں موجود ہی نہ تھیں تو تقلید کیسی؟ اور کس کی؟ 
تقلید کے سلسلے ان کے کئی سو سال بعد پیدا ہوئے پہلے صرف قرآن و حدیث اور فقط کتاب و سنت کی بنیاد پر عمل کی دیواریں استوار کی جاتی تھیں اور اسی پر اسلام کا قصہ رفیع الشان قائم تھا اور اسی کا نام اہلحدیث ہے اور اسی کو ماننے اور حرز جان بنانے والے لوگ سب سے پہلے وارد برصغیر ہوئے، جنہیں رسول اللہ e کے صحابہؓ کے پراعزاز لقب سے پکارا جاتا ہے۔ اور جن کے بارے میں قرآن ناطق ہے: ”رضی اللہ عنہم ورضواعنہ“ اللہ تعالیٰ کی خوشنودیاں ان کے حصہ میں آئیں اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ 
کیا اہلحدیث نیا مذہب ہے؟

جو حضرات گرامی قدر اہلحدیث کو برصغیر میں نیا مذہب قرار دیتے ہیں۔ ہم نہایت ادب و احترام سے ان کی خدمت میں عرض کریں گے کہ اگر اس خطہ ارضی میں رسول اکرمe کی حدیت نئی ہے تو یہ مذہب بھی نیا ہے اگر آپ کی حدیث پاک کا وجود ۴۱ سو سال پہلے سے ہے تو اہلحدیث کا وجود بھی چودہ سو سال سے ہے۔ اور اسی کا نام قدامت اہلحدیث ہے۔ تاریخی حقائق ہمیں بتاتے ہیں اور واقعات اس کی شہادت دیتے ہیں کہ مسلک اہلحدیث اصل دین اور اسلام کی صحیح ترین تعبیر ہے۔ جو صحابہ کرامؓ کی محنت و کاوش سے برصغیر میں آیا اور یہاں کے لوگ اس سے آشنا ہوئے۔ اس کے علاوہ باقی سب فقہی مذاہب یا مسالک ہیں جو بہت بعد میں عالم وجود میں آئے۔ اس وقت حنفیت، مالکیت، شافعیت اور حنبلیت کا تصور تک نہ تھا۔ 
امام ابن تیمیہ کی شہادت:

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ رقم فرماتے ہیں کہ اہل حدیث کوئی نیا مذہب نہیں بلکہ آئمہ اربعہ سے پہلے کا ہے اور صحابہ کرامؓ اسی کے مطابق عمل کرتے تھے۔ امام موصوف اس ضمن میں رقم طراز ہیں: ”اہل سنت کا یہ معروف مذہب ہے جو امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کی ولادت باسعادت سے بہت پہلے کا ہے۔ اور یہی مذہب صحابہ کرامؓ کا ہے جس کی تعلیم انہوں نے نبی اکرمe سے حاصل کی جو لوگ اس کے خلاف دوسری راہ اپنائیں گے ان کا شمار اہل بدعت میں ہو گا۔“ (منہاج السنة) 
اہل حدیث کے اوصاف بیان کرتے ہوئے امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں: یہ لوگ ہر رسول اور اللہ کی طرف سے نازل کردہ تمام کتب پر ایمان رکھتے ہیں یہ اللہ کے پیغمبروں میں سے کسی کے درمیان فرق کرتے ہیں اور نہ یہ ان لوگوں میں سے ہیں جو دین میں تفرقہ ڈالتے ہیں۔ (نقض المنطق) 
امام صاحب اپنی اسی تصنیف میں اہل حدیث کے بارے میں امام اسماعیل بن عبدالرحمن صابونیؒ کا یہ قول نقل کرتے ہیں: ”اہل حدیث کا شیوہ یہ ہے کہ وہ کتاب و سنت سے تمسک کرتے ہیں۔ اللہ کی وہی صفات بیان کرتے ہیں جو اس نے خود اپنی کتاب قرآن مجید میں بیان فرمائی ہیں۔ اور جن کا ذکر اس کے رسول نے کیا ہے جو احادیث عادل و ثقہ راویوں سے مروی ہیں وہ اس کی صفات کو اس کی مخلوقات کی صفات سے تشبیہ نہیں دیتے نہ ان کی کیفیات بیان کرتے ہیں اور نہ ہی وہ معتزلہ وجہمیہ کی طرح کلام میں تحریف کرتے ہیں۔ 
اہل حدیث کا منہج:

مسلک اہلحدیث کے اصول و ضوابط اور فروع و اصول قرآن و سنت کے قصر رفیع پر استوار ہیں۔ یہی ان کے حاملین کی روح کی غذا اور یہی ان کے قلب و ضمیر کی صدا ہے۔ زمانہ ہزاروں لاکھوں کروٹیں لے چکا ہے اور ہر صبح نئے سے نئے انقلاب کو اپنے دامن پرُ رونق میں لپیٹ کر لباس شب زیب تن کرتی ہے لیکن قرآن و سنت کے احکام و اوامر اور قوائد و قوانین اپنی جگہ اٹل ہیں۔ ان کے رنگ و روغن میں وہی سج دھج ہے جو آج سے چودہ سو سال پہلے اس کا طرہ امتیاز تھی۔ اس کے حسن و جمال میں وہی نکھار ہے وہی رعنائی وہ زیبائی وہی دلآویزی ہے جو دور نزول میں اس کے ساتھ مختص تھی۔ زمانہ جس نہج پر چل رہا ہے اور یہ عالم رنگ و بو ترقی کی جن منازل پر گامزن ہےں۔ اس کی روشنی میں غور کیا جائے تو وہ وقت دور نہیں جب پوری دنیا صرف قرآن و سنت کو ہی مرکز اطاعت قرار دینے لگے گی اور نبض عالم کی دھڑکنیں اس میں مرکوز ہو کر رہ جائیں گی۔ (ان شاءاللہ) 
اہل حدیث کی وسعت قلبی:

یہاں ہم یہ حقیقت بھی واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ اہل حدیث کے قلب و ذہن کا کوئی گوشہ فقہ اور آئمہ فقہ کے متعلق قطعاً غبار آلود نہیں۔ وہ آئمہ کرام کی وسعت پذیر مساعی اور گرانقدر خدمات کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو انہوں نے مختلف حالات و ظروف کی روشنی میں اپنے انداز میں سر انجام دی ہیں۔ وہ حضرت امام ابوحنیفہ a کی فراست فقہی، فطانت علمی اور اجتہادی صلاحیتوں کا دل کی اتھاہ گہرائیوں سے اعتراف کرتے ہیں۔ لیکن جو حضرات امام ابوحنیفہؒ کی وراثت کے مدعی بنے بیٹھے ہیں وہ ان کے علم و فضل کو ایک ہی گوشے اور ایک ہی مسلک میں محدود کر رہے ہیں یہ امام ابوحنیفہؒ کی توقیر نہیں بلکہ ان کے فیض رسانیوں کی حد بندی ہے۔ ہم امام شافعیؒ کی ان فقید المثال علمی و فقہی خدمات کو بھی کھلے دل سے خراج تحسین پیش کرتے ہیں جن کی بدولت پہلی بار استناد حدیث کے متعدد گوشے نکھر کر سامنے آئے۔ اور فکر و نظر کی طراوت کا باعث بنے۔ 
اس طرح اہلحدیث کے نزدیک امام مالکؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کی خدمات جلیلہ اور مساعی جمیلہ بھی از حد لائق تعریف ہیں کہ انہوں نے حفاظت اور صیانت سنت رسول کی ذمہ داریوں کو بھی بطریق احسن پورا کیا۔ اور تعلیم و تدریس کی مسانید کو بھی زینت بخشی یہ تمام حضرات صرف کتاب و سنت پر عمل پیرا تھے اور ان کا فرمان ہے کہ اگر ہماری کوئی بات قرآن و حدیث کے ساتھ مطابقت نہ رکھتی ہو تو اسے بالکل نہ مانو۔ 
یہی اہل حدیث کا عقیدہ بھی ہے یعنی دور صحابہؓ سے لے کر اب تک اہلحدیث کا یہی طرز عمل اور یہی طریق ہے کہ براہ راست قرآن و حدیث کو مانو کیونکہ یہی اسلام کا اصل ماخذ ہے اور وہ اس کیلئے ہر آن کوشاں ہیں۔ گزشتہ دنوں امام کعبہ سماحة الشیخ ڈاکٹر عبدالرحمن السدیس (حفظہ اللہ) پاکستان کے دورے پر تشریف لائے مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کی طرف سے فقید المثال علماءکنونشن کا انعقاد کیا گیا۔ علماءکنونشن سے خطاب کرتے ہوئے امام کعبہ نے کہا کہ تمام تر فرقے اور مسالک کو اگر کوئی چیز متحد کر سکتی ہے تو وہ صرف اور صرف کتاب و سنت ہے۔ مسلمان قرآن و سنت کا اور سلف صالحین کا منہج اختیار کر کے ہر قسم کے چیلنج سے نمٹ سکتے ہیں۔ انہوں نے دلائل کی روشنی میں اہل حدیث کو فرقہ ناجیہ (کامیاب جماعت) قرار دیا۔ 
راقم السطور کہتا ہے کہ بشری کمزوریوں کی بناءپر ان میں بہت سی خامیاں دیکھی جا سکتی ہیں لیکن جہاں تک ان کے مسلک اور ان کی دعوت کا تعلق ہے اس کے ڈانڈے صحابہؓ کی جماعت سے ملتے ہیں۔ 
احب الصالحین ولست منھم
لعل اللہ یرزقنی صلاحا
وصلی اللہ تعالیٰ علی نبینا محمد وعلیٰ اٰلہ وصحبہ اجمعین۔

نماز میں صفیں درست کرنے کا بیان

 

نماز میں صفیں درست کرنے کا بیان
صفیں درست کرنا فرض ہے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اپنی صفیں درست کرو، بلاشبہ صفیں درست کرنا نماز کا حصہ ہے"
(بخاری، کتاب الاذان، باب اقامت الصف من تمام الصلاۃ: 723، مسلم: 433)

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"صفیں سیدھی کرو، ایک دوسرے  کے ساتھ کندھے برابر کرو، خلا کو پر کرو، (صفیں درست کروانے والو9 اپنے بھائیوں کے لیے نرم ہوجاؤ اور شیطان کے لیے (بیچ میں) خالی جگہ مت چھوڑو۔"
(ابوداؤد، کتاب الصلاۃ، باب تسویۃالصفوف: 666- صحیح)

صفیں درست کرنے کی فضیلت:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"صفیں ملانے (یعنی خلا کو پر کرنے) والوں کو اللہ (اپنے ساتھ) ملالیتا ہے اور صفیں کاٹنے والوں کو اللہ (اپنے سے) کاٹ دیتا ہے-"
(ابو داؤد، کتاب الصلاۃ، باب تسویۃ الصفوف:666، نسائی:820- صحیح)

 صفیں درست نہ کرنے کی سزا:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" تم ضرور بضرور اپنی صفیں درست کرلو، ورنا اللہ تعالی تمہارے درمیان اختلاف پیدا کردے گا۔"
(بخاری، کتاب الاذان، باب تسویۃ الصفوف عند الاقامۃ و بعدھا: 717- مسلم:436)

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" اپنی صفوں میں خوب مل کر کھڑے ہوا کرو، انھیں قریب قریب بناؤ اور گردنوں کو بھی برابر رکھو، اس ذات کی قسم، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! بلاشبہ میں شیطان کو دیکھتا ہوں کہ وہ بکری کے بچے کی طرح صفوں کی خالی جگہوں میں گھس جاتا ہے (اور نماز خراب کرتا ہے)۔"
(ابوداؤد، کتاب الصلاۃ، باب تسویۃ الصفوف: 667، نسائی:816- صحیح)

صفیں درست کرنے کا طریقہ:

سیدنا انس رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں:
"جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں صفیں درست کرنے کا حکم دیتے  تو ہم اس طرح کھڑے ہوتے تھے کہ ہم نمازی اپنا پاؤں اور کندھے ساتھ والے کے ساتھ پاؤں اور کندھے کے ساتھ چپکا دیتا تھا۔"
(صحیح بخاری، کتاب الاذان، باب الزاق المنکب بالمنکب۔۔۔۔۔۔الخ:725)

سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"پاؤں کو سیدھا کرنا اور ہاتھ کو ہاتھ پر رکھنا سنت میں سے ہے-"
(ابوداؤد، کتاب الصلواۃ، باب مضع الیمنی علی الیسری فی الصلواۃ: 754- حسن)
تقبل قنا و منکم

Saturday 5 November 2011

***** نفلی روزوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حُکم اور ہفتہ کا روزہ *****

***** نفلی روزوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حُکم اور ہفتہ کا روزہ *****


نفلی روزوں کے معاملے میں ایک بہت ہی اہم بات جو ہمیں اچھی طرح سمجھنا چاہیئے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حُکم ہے لاتصوموا یومَ السبت اِلَّا فیمَا افتُرض َ علیکُم فاِن لم یَجِدَ احدکُم اِلَّا عُودَ عِنَبٍ او لَحَاءَ شجرۃٍ فَلیَمُصّہُ )( ہفتے کے دِن کا روزہ مت رکھو ، سوائے فرض روزے کے ، اگر تُم سے کِسی کو انگور کی چھال یا درخت کی جڑ کے عِلاوہ اور کُچھ نہ ملے تو اسی کو چُوس لو ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِن الفاظ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہفتے کے دِن کے روزے کی ممانعت کِس قدر شدید ہے کہ اگر درخت کی چھال یا جڑ چُوس کر ہی افطار کرنا پڑے تو بھی حالتِ افطار میں رہنا چاہئیے ، روزہ نہیں رکھنا چاہیئے ، سوائے فرض یعنی رمضان کے روزں کے ۔ 

یہ حدیث عبداللہ بن بُسر ، الصَّمَّاءُ بنت بُسر ، بُسر بن ابی بُسر المازنی ، اور ابی اُمامہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے مُندرجہ ذیل کتابوں میں روایت کی گئی ہے ، 
صحیح ابن خزیمہ/ حدیث /٢١٦٤ ، مُستدرک الحاکم/١٥٩٢ ، اِمام الحاکم نے کہا کہ یہ حدیث بُخاری کی شرط کے مُطابق صحیح ہے ، سُنن ابو داؤد/حدیث /٢٤١٨ ، سُنن ابن ماجہ/حدیث /١٧٦٦ ، سُنن الترمذی/حدیث /٧٤٤ ، مُسند احمد ٦/ ٣٦٨ ، سُنن الدارمی/حدیث/١٧٤٩ ، سُنن البیہقی/٤/ ٣٠٢ ، مُسند عبد بن حمید/حدیث/٥٠٧ ، اِمام ابو نعیم نے '' الحُلیۃ الاولیاء '' میں ، اِمام خطیب بُغدادی نے '' تاریخ '' میں اِمام الضَّیاء المقدسی نے '' الاحادیث المُختارۃ '' میں ، اِمام الدَّولابی نے '' الکُنی '' میں ، اِمام ابنِ عساکر نے اپنی '' تاریخ '' میں اِمام ابو زرعۃ الدمشقی نے اپنی '' تاریخ '' میں ، اِمام ابن الاثیر نے '' اُسد الغابہ '' میں ، اِمام البغوی نے '' شرح السُنّۃ '' میں روایت کیا ، اور اِس کے عِلاوہ بھی یہ حدیث بہت سی دیگر کتابوں میں مُختلف اسناد کے ساتھ موجود ہے شیخ علی بن حسن نے اپنی کتاب '' زَہر الرَّوض فی حُکم صِیام یَوم السَّبت فی غیر الفَرض '' میں اِس کی مُکمل تحقیق اور تخریج کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس حُکم کو ٹالنے یا بدلنے یا خاص اور عام کرنے کی کوئی دلیل نہیں .

***** بھائیوں ، بہنوں ، مندرجہ بالا صحیح حدیث کی روشنی میں کوئی بھی نفلی روزہ ہفتے کے دِن رکھنا جائز نہیں ، آپ صاحبان شوال کے روزے رکھتے ہوئے اور کوئی بھی نفلی روزہ رکھتے ہوئے اِس بات کو کبھی نہ بھولئیے گا اور اپنے ساتھ ساتھ اپنے دوسرے مُسلمان بھائی بہنوں کو بھی بتائیے تا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حُکم کی نافرمانی کا شکار نہ ہوں ۔ 

::: یوم عرفات ، نو ذی الحج کا روزہ :::

::: یوم عرفات ، نو ذی الحج کا روزہ ::: 
ماہ ذی الحج کے پہلے دس دِن بہت ہی فضیلت والے ہیں ، اِس کا بیان ''' ماہ حج اور ہم::: ماہ حج کے پہلے دس دِن ::: فضیلت اور احکام ''' میں کر چکا ہوں ، 
اِن ہی دس بلند رتبہ دِنوں کا نواں دِن وہ ہے جِس دِن حاجی میدانِ عرفات میں قیام کرتے ہیں ، اِس دِن اور قیام کی فضیلت بھی ابھی اُوپر ذِکر کیے گئے مضمون میں مختصراً بیان کر چکاہوں۔
اِس با برکت دِن میں عرفات میں قیام کرنے والوں کو اللہ کی طرف سے مغفرت کی خوشخبری دی گئی ، اور جو وہاں نہیں ہوتے لیکن اُس دِن اللہ کی رضا حاصل کرنے کی نیّت سے روزہ رکھیں تو اُنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زُبانِ مُبارک سے یہ خوشخبری سُنائی گئی:
((((( صِیَامُ یَومِ عَرَفَۃَ اَحتَسِبُ علی اللَّہِ اَن یُکَفِّرَ السَّنَۃَ التی قَبلَہُ وَالسَّنَۃَ التی بَعدَہُ ::: مجھے اللہ سے یقین ہے کہ (اللہ) عرفات کے دِن کے روزے کے ذریعے ایک پچھلے سال اور ایک اگلے سال کے گُناہ معاف کر دے گا ))))) 

اور دوسری روایت کے الفاظ ہیں (((((یُکَفِّرُ السَّنَۃَ المَاضِیَۃَ وَالبَاقِیَۃَ::: پچھلے ایک سال اور اگلے ایک سال کے گُناہ معاف کرواتا ہے ))))) دونوں روایات صحیح مُسلم /حدیث ١١٦٢ /کتاب کتاب الصیام /باب ٣٦،

::::: ایک بہت ہی اہم بات :::::
دو سال کے صغیرہ (چھوٹے) گُناہ معاف ہونا ، عرفات کے دِن کے روزے کے نتیجے میں ہے ، یعنی وہ دِن جِس دِن حاجی میدانِ عرفات میں قیام کرتے ہیں ، نہ کہ اپنے اپنے مُلکوں ، عِلاقوں میں اپنے اپنے مذاہب و مسالک کی پابند تاریخوں کے مُطابق آنے والے نو ذی الحج کے دِن کے روزے کے نتیجے میں، پس اِس بات کا خیال رکھا جانا چاہیئے کہ روزہ عرفات والے دِن کا رکھنا ہے ۔

::::: ذرا غور تو فرمائیے ::::: اگر اِس چھوٹے سے مضمون کو نشر کریں اور آپ کو سبب بنا کر اللہ تعالیٰ کچھ مُسلمانوں کو یوم عرفات کا روزہ رکھنے کو توفیق عطاء فرما دے ، تو اُن سب کے روزے کے ثواب کے برابر آپ کو بھی ثواب ملے گا ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے (مَن دَلَّ عَلَی خَیرٍ فَلَہُ مِثلُ اَجرِ فَاعِلِہِ ) ( جِس نے خیر کی طرف راہنمائی کی اُس کو اُس خیر پر عمل کرنے والے کے ثواب کے برابر ثواب ملے گا ) صحیح مُسلم /حدیث ١٨٩٣ /کتاب الامارۃ /باب٣٨، 

فورمز کی انتظامیہ سے بھی گذارش ہے کہ اِس مراسلے کی تشہیر کریں ، اللہ تعالیٰ اِس کو سبب بنا کر زیادہ سے زیادہ مُسلمانوں کو یوم عرفات کا روزہ رکھنے کی توفیق عطاء فرمائے اور اُن کے روزے قُبُول فرمائے اور ہمیں اُن کے برابر ثواب عطاء فرمائے۔
:::::: ایک اور اہم بات ::::::
اس دفعہ یعنی ذی الحج 1432 ہجری میں بھی عرفات کا دِن ہفتے کو آ رہا ہے ، اس لیے سب ہی قارٕئین کی خصوصی توجہ اس طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ اس دفعہ یومءعرفات کا روزہ نہ رکھا جإئے ، کیونکہ ہفتے کے دِن نفلی روزہ رکھنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے بہت سختی سے منع فرمایا ہے ، 
ارشاد فرمایا ہے کہ ((((( لاتصوموا یومَ السبت اِلَّا فیمَا افتُرض َ علیکُم ، فاِن لم یَجِدَ أحدکُم اِلَّا عُودَ عِنَبٍ أو لَحَائَ شجرۃٍ ، فَلیَمُصّہُ ::: ہفتے کے دِن کا روزہ مت رکھو ، سوائے فرض روزے کے اگر تُم سے کِسی کو انگور کی لکڑی یا درخت کی جڑ کے عِلاوہ اور کُچھ نہ ملے تو اِسی کو چُوس لو ))))) 
نہ ہی اس حکم سے کسی استثناء کی گنجإئش ہے کہ ہفتے کے ساتھ کسی اور دِن کا روزہ ملا لیا جإئے تو پھر ہفتے کا نفلی روزہ رکھا جا سکتا ہے ، 
اس موضوع پر جنوری 2004 میں‌ میں نے ایک تحقیقی کتاب لکھی تھی ، ان شاء اللہ جلد ہی اسے ری فارمیٹ کر کے قارٕئین کے لیے پیش کروں گا ، ان شاء اللہ اُس کا مطالعہ تمام اشکال رفع کرنے کا سبب ہو گا ، فی الحال یہ سمجھ لیجیے کہ ہفتے کا نفلی روزہ نہیں رکھا جانا چاہیے خواہ اس 
کی کتنی ہی فضیلت بیان ہوٕئی ہو ، والسلام علیکم۔

ڈاکٹرطاہر القادری اور موضوع روایات کی ترویج

ڈاکٹرطاہر القادری اور موضوع روایات کی ترویج



٭۔یہ بات بالکل سچ اور حق ہے کہ 
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
’’ لا تکذبوا عليّ فإنہ من کذَب عليّ فلیلِج النار ‘‘
’’مجھ پر جھوٹ نہ بولو،کیونکہ بیشک جس نے مجھ پر جھوٹ بولا تو وہ (جہنم کی) آگ میں داخل ہو گا۔ ‘‘( صحیح بخاری ، کتاب العلم، باب إثم من کذب علی النبي ﷺ ح ۱۰۶، صحیح مسلم : ۱)
٭۔ایک حدیث میں آیا ہے کہ
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’ من حدّث عني بحدیث یرٰی أنہ کذب فھو أحد الکاذبین ‘‘
’’جس نے مجھ سے ایسی حدیث بیان کی جس کا جھوٹ ہونا معلوم ہو ، تو وہ شخص جھوٹوں میں سے ایک ( یعنی جھوٹا) ہے۔ ‘‘( صحیح مسلم قبل ح ۱، ترقیم دارالسلام : ۱)
ان احادیث اور دیگر دلائل کو مدنظر رکھ کر علماے کرام نے فرمایا کہ موضوع (یعنی جھوٹی، من گھڑت )روایت کا بیان کرنا حلال نہیں ہے۔
حافظ ابن الصلاح نے فرمایا : 
’’اعلم أن الحدیث الموضوع شر الأحادیث الضعیفۃ ولا تحل روایتہ لأحد عَلِم حالہ في أي معنی کان إلا مقرونًا بِبَیان وضعہ ‘‘ ( مقدمہ ابن الصلاح مع التقیید والایضاح ص ۱۳۰، ۱۳۱، دوسرا نسخہ ص ۲۰۱)
’’جان لو کہ بے شک موضوع حدیث ضعیف اَحادیث میں سب سے بری ہوتی ہے اور حال معلوم ہونے کے بعد کسی شخص کے لئے اس کی روایت حلال نہیں ہے، چاہے جس معنی میں (بھی ) ہو ، سوائے اس کے کہ اُس کے موضوع ہونے کا ذکر ساتھ بیان کر دیا جائے۔‘‘
مگر افسوس ہے اُن لوگوں پر جو اَحادیث نبویہ ﷺ اور آثارِ صحیحہ کے باوجود جھوٹی اور بے اصل روایتیں مزے لے لے کر بیان کرتے ہیں اور آخرت کی پکڑ سے ذرّہ بھر بھی نہیں ڈرتے۔
٭۔ایک طویل حدیث میں آیا ہے کہ 
نبی کریمﷺ نے خواب میں دیکھا: ایک شخص کی باچھیں چیری جا رہی ہیں۔ ( دیکھئے صحیح بخاری : ۱۳۸۶) یہ عذاب اس لئے ہو رہا تھا کہ وہ شخص جھوٹ بولتا تھا، لہٰذا آپ غور کریں کہ رسول اللہﷺ پر جھوٹ بولنے یا جھوٹ پھیلانے والے کو کتنا بڑا عذاب ہو گا!؟
٭۔رسولﷺنے فرمایا:
’’ وإیاکم والکذب ‘‘ (صحیح مسلم: ۲۶۰۷، ترقیم دارالسلام : ۶۶۳۹) ’’اور(تم سب ) جھوٹ سے بچ جائو۔ ‘‘
٭۔حافظ ابو محمد علی بن احمد بن سعید بن حزم الاندلسی(متوفی ۴۵۶ھ)نے لکھا ہے:
’’وأما الوضع في الحدیث فباقٍ ما دام إبلیس وأتباعہ في الأرض ‘‘
’’اور اس وقت تک وضع ِ حدیث ( کا فتنہ ) باقی رہے گا، جب تک ابلیس اور اُس کے پیروکار رُوئے زمین پر موجود ہیں۔ ‘‘ ( المحلی:۹؍ ۱۳ مسئلہ : ۱۵۱۴)
معلوم ہوا کہ شیطان اور اُس کے چیلوں کی وجہ سے جھوٹی روایات گھڑنے اور ان کے پھیلانے کا فتنہ قیامت تک باقی رہے گا، لہٰذا ہر انسان کو اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہئے اور اپنی خیر منانی چاہئے ، کہیں ایسا نہ ہو کہ ٹھکانا جہنم مقرر کر دیا گیا ہو اور بندہ اپنے آپ کو بڑا نیک ، جنتی ، مبلغ اور عظیم سکالر سمجھتا رہے!
اس تمہید کے بعد عرض ہے کہ جھوٹی روایات پھیلانے اور غلط بیانیاں لکھنے میں پروفیسر ڈاکٹرمحمد طاہر القادری بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں، جس کی فی الحال دس (۱۰) مثالیں مع ثبوتِ وضع پیشِ خدمت ہیں:
1۔سیدہ عائشہ صدیقہؓ کی طرف منسوب ایک روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہﷺکے پاس سفید ٹوپی تھی جسے آپ پہنا کرتے تھے ، وہ آپ کے سر اَقدس پر جمی رہتی تھی۔ ( المنہاج السوي ص ۷۷۰ ح ۹۸۵ بحوالہ ابن عساکر فی تاریخ دمشق ۴؍ ۱۹۳ (دوسرا نسخہ ۴؍ ۳۳۳) کنز العمّال ۷؍۱۲۱ ح ۱۸۲۸۵)
اس روایت کوطاہر القادری صاحب نے بطورِ حجت اپنی کتاب میں پیش کیا ہے، حالانکہ اسکی سند میں عاصم بن سلیمان کوزی راوی ہے، جس کے بارے میں 
حافظ ابن عدی نے فرمایا:
’’ یعدّ فیمن یضع الحدیث ‘‘ ( الکامل لابن عدي ۵؍ ۱۸۷۷، دوسرا نسخہ ۶؍ ۴۱۲) ’’اُس کا شمار اُن لوگوں میں ہے جو حدیث گھڑتے تھے۔‘‘
امام دارقطنی نے فرمایا:
’’بصري کذاب عن ہشام وغیرہ‘‘ ’’ہشام ( بن عروہ ) وغیرہ سے روایت کرنے والا بصری جھوٹا ہے۔‘‘(الضعفاء والمتروکین: ۴۱۲) 
2۔کئی مجہول راویوں کی ایک روایت میں آیا ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: 
’’إذا کان یوم القیامۃ نادٰی منادٍ یا محمد! قُم فادخل الجنۃ بغیر حساب، فیقـوم کل من اسمہ محمّد فیتوھم أن النداء لہ فلکرامۃ محمد لایُمنعون‘‘ (اللآلی المصنوعۃ في الأحادیث الموضوعۃ للسیوطي :۱؍ ۱۰۵)
’’جب قیامت کا دن ہو گا تو ایک منادی پکارے گا:اے محمد! اُٹھ کر جنت میں بغیر حساب کے داخل ہو جاؤ، تو ہر وہ شخص جس کا نام محمد ہو گا یہ سمجھتے ہوئے اُٹھ کھڑا ہو گا کہ یہ نداء اُس کے لئے ہے، پس محمدﷺ کی کرامت ( بزرگی ) کے سبب انھیں منع نہیں کیا جائے گا۔ ‘‘
یہ روایت بیان کر کے جلال الدین سیوطی نے فرمایا: 
’’ ھذا معضل،سقط منہ عدۃ رجال، واﷲ أعلم ‘‘ ( ایضاً: ص ۱۰۵، ۱۰۶)
’’یہ معضل ( یعنی شدید منقطع) ہے، اس سے کئی راوی گر گئے ہیں۔ واللہ اعلم ‘‘ 
محدثین کی اصطلاح میں ’ معضل‘ اُس روایت کو کہتے ہیں جس کے ’’ درمیان سند سے دو متوالی راویوں کو چھوڑ دیا جائے۔‘‘ ( دیکھئے تذکرۃ المحدثین از غلام رسول سعیدی، ص ۳۴)
متوالی کا مطلب ہے: اوپر نیچے، پے در پے ، لگاتار۔
سیوطی کی بیان کردہ اس موضوع اور معضل روایت کو علی بن برہان الدین حلبی شافعی (متوفی۱۰۴۴ھ)نے اپنی کتاب ’انسان العیون‘ یعنی السیرۃ الحلبیۃ میں درج ذیل الفاظ کے ساتھ نقل کیاہے: 
’’وفي حدیثٍ معضلٍ: إذا کان یوم القیامۃ ۔ ۔ ۔ ‘‘ (۱؍ ۸۳، دوسرا نسخہ :۱؍ ۱۳۵)
اس روایت کو طاہر القادری صاحب نے اپنی علمیت کا اظہار کرتے ہوئے درج ذیل الفاظ میں نقل کیا ہے:
’’ مُعضل سے مروی حدیث ِمبارکہ میں ہے: 
إذا کان یوم القیامۃ ‘‘( تبرک کی شرعی حیثیت، ص ۵۸، اشاعت سوم، ستمبر ۲۰۰۸ئ)
گویا کہ طاہر القادری صاحب کے نزدیک معضل نامی کوئی راوی تھا ، جس سے یہ موضوع حدیث مروی ہے۔ سبحان اللہ !!
اُصولِ حدیث کی اِصطلاح معضل( یعنی منقطع) کو راوی بنا دینا اس بات کی دلیل ہے کہ واقعی طاہر القادری صاحب بہت بڑے ’ ڈاکٹر ‘ اور ’ پروفیسر‘ ہیں۔ سبحان اللہ !
3۔ایک روایت میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
مجھے اپنی عزت اور جلال کی قسم !(اے نبی کریمﷺ) میں کسی ایسے شخص کو آگ کا عذاب نہیں دوں گا جس کا نام آپ کے نام پر (یعنی محمد ) ہو گا۔ (إنسان العیون یعنی السیرۃ الحلبیۃ:۱؍ ۸۳، دوسرا نسخہ :۱؍ ۱۳۵)
اس روایت کو طاہر القادری صاحب نے روایت نمبر۱ قرار دے کر بحوالہ انسان العیون بطورِ حجت پیش کیا ہے، حالانکہ انسان العیون (السیرۃ الحلبیۃ) نامی کتاب میں اس کی کوئی سند یا حوالہ موجود نہیں ہے۔
علامہ عجلونی حنفی اور ملا علی قاری نے بتایا کہ اسے ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔ (دیکھئے: کشف الخفاء ومُزیل الإلباس:۱؍۳۹۰ح ۱۲۴۵،الأسرار المرفوعۃ في الأخبار الموضوعۃ : ص ۲۰۱ رقم ۱۹۲)
ابو نعیم والی روایت کی سند سیوطی کی کتاب ذیل اللآلي المصنوعۃ (ص ۲۰۱) میں موجود ہے اور ابو نعیم کی سند سے ہی اسے مسند الفردوس میں نقل کیا گیا ہے۔ دیکھئے مسند الفردوس اور اس کا حاشیہ (۳؍ ۲۲۰ ح ۴۴۹۱ وقال في الأصل:نبیط بن شریط)
اس کے راوی احمد بن اسحق بن ابراہیم بن نبیط بن شریط کے بارے میں حافظ ذہبی نے فرمایا :
’’لا یحل الاحتجاج بہ فإنہ کذاب‘‘ ’’اس سے حجت پکڑنا حلال نہیں،کیونکہ وہ کذاب ( جھوٹا )ہے۔ ‘‘ (میزان الاعتدال:۱؍ ۸۳ ت ۲۹۶، لسان المیزان: ۱؍ ۱۳۶)
کذاب کے موضوع نسخے سے روایت کو ’ مشہور حدیث ِمبارکہ‘ کہہ کر بطورِ حجت نقل کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ بیان کرنے والاڈاکٹر طاہر القادری ترویج اکاذیب میں مصروف ہے۔
4۔ایک روایت میں آیا ہے کہ آدمؑ نے (سیدنا) محمد رسول اللہﷺ کے وسیلے سے دعا کی تھی۔ طاہر القادری صاحب نے اس روایت کو بحوالہ المستدرک للحاکم ( ۲؍ ۶۱۵) نقل کر کے لکھا ہے:
’’ اس حدیث پاک کو جن اجل علماء اور ائمہ و حفاظ حدیث نے اپنی کتب میں نقل کر کے صحیح قرار دیا ہے، ان میں سے بعض یہ ہیں:
  1. البیہقي في الدلائل، ۵:۴۸۹
  2. ابو نعیم فی الحلیۃ ، ۹: ۵۳
  3. التاریخ الکبیر ، ۷: ۳۷۴
  4. المعجم الصغیر للطبراني، ۲: ۸۲
  5. الہیثمي في مجمع الزوائد، ۸: ۱۵۳ f ابن عدي في الکامل ، ۴: ۱۵۸۵
  6. الدر المنثور، ۱: ۶۰
  7. الآجري في الشریعۃ ۴۴۲۔ ۴۲۵
  8. فتاوٰی ابن تیمیہ ، ۲: ۱۵۰ ‘‘
( عقیدئہ توحید اور حقیقت ِشرک، ص ۲۶۶، اشاعت ہفتم ،جون ۲۰۰۵ئ)
اس عبارت میں طاہر القادری صاحب نے نو(۹) مذکورہ کتابوں اور علماء کے بارے میں نو (۹) عدد غلط بیانیاں کی ہیں، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
1۔امام بیہقی نے اس روایت کو صحیح نہیں کہا، بلکہ فرمایا:
’’تفرّد بہ عبدالرحمٰن بن زید ابن أسلم من ھذا الوجہ عنہ وھو ضعیف (واﷲ أعلم)‘‘ ( دلائل النبوۃ :۵؍ ۴۸۹ ،طبع دارالکتب العلمیہ بیروت، لبنان ) ’’اس سند کے ساتھ عبدالرحمن بن زید بن اسلم منفرد ہوا، اور وہ ضعیف ہے۔ ‘‘( واللہ اعلم )
امام بیہقی نے توراوی کو ضعیف قرار دیا ہے اور قادری صاحب کہہ رہے ہیں کہ اُنہوں نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے ۔ سبحان اللہ!
2۔حافظ ابو نعیم الاصبہانی کی کتاب حلیۃ الأولیاء ( ۹؍ ۵۳) میں یہ روایت نہیں ملی اور نہ اسے ابو نعیم کا صحیح قرار دینا ثابت ہے۔
3۔التاریخ الکبیرسے مراد اگر امام بخاری کی کتاب التاریخ الکبیرہے تو یہ روایت وہاں نہیں ملی اور نہ امام بخاری سے اسے صحیح قرار دینا ثابت ہے۔اگر التاریخ الکبیرسے مراد کوئی دوسری کتاب ہے تو اس کی صراحت کیوں نہیں کی گئی بلکہ یہ تو صریح تدلیس ہے۔
4۔المعجم الصغیر للطبراني (۲؍ ۸۲، ۸۳ ح ۱۰۰۵، بترقیمی) میں یہ روایت موجود ہے لیکن امام طبرانی نے اسے صحیح قرار نہیں دیابلکہ فرمایا:یہ (سیدنا) عمرؓسے صرف اسی اسناد (سند ) کے ساتھ مروی ہے، احمد بن سعید نے اس کے ساتھ تفرد کیا ہے۔
5۔حافظ ہیثمی نے اس روایت کو صحیح قرار نہیں دیا، بلکہ لکھا ہے:
’’رواہ الطبراني في الأوسط والصغیر وفیہ من لم أعرفھم ‘‘
’’ اسے طبرانی نے الأوسط اورالصغیرمیں روایت کیا اور اس میں ایسے راوی ہیں جنھیں میں نہیں جانتا ۔‘‘ ( مجمع الزوائد: ۸؍ ۲۵۳)
6۔ابن عدی کی کتاب الکامل کے محولہ صفحے بلکہ ساری کتاب میں یہ روایت نہیں ملی۔
7۔درّمنثور(۱؍ ۵۸، دوسرا نسخہ ۱؍ ۱۳۱)میںیہ روایت بحوالہ المعجم الصغیر للطبراني، حاکم،الدلائل لأبي نعیم، الدلائل للبیہقياور ابن عساکر موجود ہے، لیکن اسے صحیح قرار نہیں دیا گیا۔
8۔الآجري نے اسے صحیح قرار نہیں دیا۔ (الشریعہ: ص ۴۲۷، ۴۲۸ ح ۹۵۶، دوسرا نسخہ :۳؍ ۱۴۱۵)
9۔حافظ ابن تیمیہ ؒ نے اس روایت کو بحوالہ ابو نعیم في دلائل النبوۃ نقل توکیا ہے مگر صحیح قرار نہیں دیا،بلکہ عرش کے بارے میں صحیح اَحادیث کی تفسیر کے طور پر نقل کیا۔ (دیکھئے: مجموع فتاویٰ : ۲؍ ۱۵۰، ۱۵۱)بلکہ ابن تیمیہؒ نے بذاتِ خود اس روایت پر جرح کی ، فرمایا:
’’اس حدیث کی روایت پر حاکم پر انکار کیا گیا ہے،کیونکہ اُنہوں نے خود (اپنی)کتاب المدخل میں کہا: عبدالرحمن بن زید بن اسلم نے اپنے باپ سے موضوع حدیثیں روایت کیں۔۔۔( قاعدۃ جلیلۃ في التوسل والوسیلۃ ص ۸۵، مجموع فتاویٰ ج۱ص ۲۵۴۔ ۲۵۵)
فائدہ:
مجھے عبدالاول بن حماد بن محمد انصاری مدنیؒ نے خبر دی کہ میں نے اپنے والد (شیخ حماد الانصاری رحمہ اللہ)کو فرماتے ہوئے سنا:
’’إن الاعتماد علی الفتاوٰی التي في خمسۃ وثلاثین مجلدًا لا ینبغي وتحتاج إلی إعادۃ النظر وقد وجدّتُ فیھا تصحیفًا وتحریفًا ‘‘ 
’’بے شک پینتیس (۳۵) جلدوں والے فتاویٰ پر اعتماد نہیں کرنا چاہئے اور ( اس میں)نظر ثانی کی ضرورت ہے،میں نے اس میں تصحیف اور تحریف پائی ہے۔‘‘ ( نیز دیکھئے المجموع في ترجمۃ حماد الانصاري :۲؍ ۷۲۳ فقرہ نمبر ۱۱۰)
معلوم ہوا کہ فتاویٰ ابن تیمیہ مطبوعہ پر اندھا دھند اعتماد صحیح نہیں بلکہ اس کی عبارات کو حافظ ابن تیمیہ ؒکی دوسری عبارات پر پیش کرنا چاہئے۔
قادری صاحب کی نو( ۹) غلط بیانیوں کے تذکرے کے بعد عرض ہے کہ مستدرک الحاکم وغیرہ کی روایتِ مذکورہ موضوع ہے۔ اسے حافظ ذہبی نے موضوع کہا اور باطل خبر قرار دیا۔ حافظ ابن حجر نے ’خبرًا باطلا‘ والی جرح نقل کر کے کوئی تردید نہیں کی یعنی حافظ ابن حجر کے نزدیک بھی یہ روایت باطل ہے۔ (دیکھئے: لسان المیزان :۳؍ ۳۶۰، دوسرا نسخہ :۴؍ ۱۶۲)
٭۔اگر کوئی کہے کہ حاکم نے اسے صحیح الإسناد کہا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تصحیح کئی وجہ سے غلط ہے۔مثلاً:
1۔خود حاکم نے اس روایت کے ایک راوی عبدالرحمن بن زید بن اسلم کے بارے میں فرمایا: 
’’روٰی عن أبیہ أحادیث موضوعۃ۔ ۔ ۔‘‘ ( المدخل إلی الصحیح ص ۱۵۴ت ۹۷)
’’اُس نے اپنے باپ سے موضوع حدیثیں بیاں کیں ۔‘‘
گویا وہ اپنی شدید جرح بھول گئے تھے۔
2۔حاکم کی یہ جرح جمہور علماء مثلاً حافظ ذہبی وغیرہ کی جرح سے معارض ہے۔
3۔حاکم اپنی کتاب المستدرک میں متساہل تھے۔
4۔اس کی سند میں عبداللہ بن مسلم راوی ہے، جس کے بارے میں حافظ ابن حجرؒ نے فرمایا کہ اس کا عبداللہ بن مسلم بن رشید ہونا میرے نزدیک بعید نہیں ہے۔ ( لسان المیزان ۳؍ ۳۶۰)
اس ابن رشید کے بارے میں حافظ ابن حبان نے فرمایا:’یضع‘وہ ( حدیثیں) گھڑتا تھا۔ ( المجروحین:۲؍ ۴۴، لسان المیزان:۳؍ ۳۵۹)
5۔ایک روایت میں آیا ہے کہ ’’ کوئی قوم مشورہ کے لئے جمع ہو اور محمد نام والا کوئی شخص اُن کے مشورہ میں داخل نہ ہو تو اُن کے کام میں برکت نہیں ہو گی۔‘‘ (موضح أوھام الجمع والتفریق للخطیب:۱؍ ۴۲۹،دوسرا نسخہ ۱؍ ۴۴۶ ذکر أحمد بن حفص الجزري )
یہ روایت نقل کر کے طاہر القادری صاحب نے لکھا ہے کہ
’’ حلبی نے إنسان العیون (۱:۱۳۵) میں کہا ہے کہ حفاظِ حدیث نے اِس روایت کی صحت کا اِقرار کیا ہے۔ ‘‘ ( تبرک کی شرعی حیثیت ،ص ۶۰ حاشیہ ۲)
عرض ہے کہ نہ تو حلبی نے انسان العیون ( ۱؍ ۱۳۵، دوسرا نسخہ ۱؍ ۸۳) میں یہ بات کہی ہے اور نہ حفاظِ حدیث نے اس کی صحت کا اقرار کیا ہے بلکہ حلبی نے روی کہہ کر اس روایت کو بغیر سند اوربغیر حوالے کے ذکر کیاہے
جبکہ حافظ ذہبی نے اس روایت کے راوی احمد بن کنانہ شامی پر ابن عدی کی جرح نقل کی، اور یہ حدیث مع دیگر اَحادیث نقل کر کے فرمایا:
’’قلت:وھٰذہ أحادیث مکذوبۃ‘‘ ’’میں نے کہا: اور یہ حدیثیں جھوٹی ہیں۔ ‘‘ ( میزان الاعتدال :۱؍ ۱۲۹ ت ۵۲۲)
حافظ ابن حجر نے اس جرح کو نقل کر کے برقرار رکھا اور کوئی تردید نہیں کی۔ (دیکھئے :لسان المیزان :۱؍ ۲۵۰، دوسرا نسخہ :۱؍ ۳۷۷)
حفاظِ حدیث نے تو اس روایت کو مکذوب(جھوٹی) قرار دیا ہے، لیکن طاہر القادری صاحب اسے صحیح باور کرانے کی فکر میں ہیں ۔
6۔طاہر القادری صاحب نے امام ابو حنیفہ سے ایک روایت نقل کی :
’’ میں نے حضرت انس بن مالکؒسے سنا، اُنھوں نے حضور نبی اکرمﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
’’ طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلیٰ کُلِّ مُسْلِمٍ ‘‘
’’علم حاصل کرناہر مسلمان پر فرض ہے۔ ‘‘( امام ابو حنیفہ امام الائمہ فی الحدیث :۱؍ ۷۸۷، ۷۸۶)
قادری صاحب نے اس کے لئے تین حوالے دیئے:
  1. ’’ ابو نعیم الاصبہانی ، مسند الامام ابی حنیفہ : ۱۷۶ ( ہمارا نسخہ ص ۲۴)
  2. خطیب بغدادی ، تاریخ بغداد ، ۴: ۲۰۸، ۹: ۱۱۱
  3. موفق ، مناقب الامام الاعظم ابی حنیفہ ، ۱: ۲۸ ‘‘
اس کے بعد قادری صاحب نے دیگر محدثین کے حوالے دیئے ، جن کی روایات میں إمام أبو حنیفۃ قال:سمعت أنس بن مالک رضي اﷲ عنہ یقول:‘‘ کا نام و نشان تک نہیں لہٰذا اُن کا یہاں ذکر صحیح نہیں ہے۔
روایت ِ مذکورہ کی تینوں سندوں میں احمد بن صلت حمانی راوی ہے، جسے امام ابن عدی، حافظ ابن حبان اور امام دارقطنی وغیرہم نے کذاب قرار دیا اور حافظ ذہبی نے فرمایا:
’’ کذاب وضّاع‘‘( میزان الاعتدال:۱؍ ۱۴۰) ’’وہ جھوٹا، حدیثیں گھڑنے والا ہے۔الخ ‘‘ تفصیل کے لئے دیکھئے ماہنامہ ’الحدیث‘ حضرو ( عدد ۷۲ ص ۱۲۔۱۳)
قادری صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ کذاب راوی کی منفرد روایت موضوع ہوتی ہے اور روایتِ مذکورہ کو کسی ثقہ و صدوق راوی کا امام ابو حنیفہ سے’’ قال سمعت أنس ابن مالک رضي اﷲ عنہ‘‘کی سند سے بیان کرنا کہیں بھی ثابت نہیں ہے۔موٹی موٹی کتابیں لکھنے کے بجائے اگر چھوٹی سی مختصر اور صحیح احادیث والی کتاب ہو تو دنیا اور آخرت دونوں کے لئے مفید ہو سکتی ہے بشرطیکہ آدمی کا عقیدہ صحیح ہو اور کتاب سلف صالحین کے فہم و منہج پر ہو۔
تنبیہ:
روایتِ مذکورہ پر خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے درج ذیل جرح فرمائی ہے:
اسے بشر ( بن الولید ) سے احمدبن صلت کے سوا کسی نے روایت نہیں کیا اور یہ ابو یوسف سے محفوظ( یعنی صحیح ثابت ) نہیں ہے اور انس بن مالک ؓسے امام ابو حنیفہ کا سماع ثابت نہیں ہے۔ واللہ اعلم (تاریخ بغداد :۴؍ ۲۰۸)
دوسرے حوالے میں اس روایت کے بارے میں خطیب بغدادی نے فرمایا: 
’’لا یصح لأبي حنیفۃ سماع من أنس بن مالک وھذا الحدیث باطل بھٰذا الإسناد ۔ ۔ ۔ ‘‘ (تاریخ بغداد ۹؍ ۱۱۱ ت ۴۷۱۹)
’’انس بن مالکؓ سے ابو حنیفہ کا سماع صحیح نہیں ہے اور یہ حدیث اس سند سے باطل ہے۔۔۔ ‘‘
تاریخ بغداد کے مذکورہ حوالے پیش کرنا اور اس جرح کو چھپانا اگر خیانت نہیں تو پھر کیا ہے؟
7۔طاہر القادری صاحب نے امام ابو حنیفہ سے ذکر کیا کہ 
’’ میں نے حضرت عبداللہ بن اُنیسؓ سے سنا:اُنہوں نے حضور نبی اکرمﷺسے سنا: تیری کسی چیز سے محبت تجھے اندھا اور بہرا کر دیتی ہے۔ ‘‘ ( المنہاج السوي ص ۸۰۸ ح ۱۰۴۶ بحوالہ جامع المسانید للخوارزمي:۱؍ ۷۸)
عرض ہے کہ مسند الخوارزمی کی اس روایت کا دارومدار أبو علی الحسن بن علی بن محمد بن إسحق دمشقی التمار پر ہے، جس نے اسے علی بن بابویہ اسواری عن جعفر بن محمد بن علی بن الحسن عن یونس بن حبیب عن أبی داود طیالسی کی سند سے روایت کیا ہے۔(جامع المسانید:۱؍ ۷۸۔ ۷۹)
اس الحسن بن علی کے بارے میں امام ابن عساکر نے فرمایا:
’’حدّث عن علي بن بابویہ الأسواري عن أبي داود الطیالسي بخبر کذب والحمل فیہ علیہ أو علیٰ شیخہ فإنما مجھولان‘‘ 
’’اس نے علی بن بابویہ اسواری عن ابی داود الطیالسی کی سند سے جھوٹی روایت بیان کی جس کا ذمہ دار وہ یا اُس کااستاد ہیں کیونکہ یہ دونوں مجہول ہیں۔ ‘‘ ( لسان المیزان:۲؍ ۲۴۰، ۲۴۱ ، نیز دیکھئے :لسان المیزان :۲؍ ۲۳۶)
سیدنا عبداللہ بن اُنیسؓ جون (۵۴) ہجری میں فوت ہوئے تھے اور امام ابو حنیفہ اَسّی ( ۸۰) ہجری میں پیدا ہوئے تھے۔ دیکھئے: تقریب التہذیب (۳۲۱۶ ، ۷۱۵۳)
اپنی پیدائش سے چھبیس ( ۲۶) سال پہلے فوت ہو جانے والے صحابی سے امام ابو حنیفہ کس طرح حدیث سن سکتے تھے؟ کیا انہی ’ تحقیقات ‘ کی بنا پر انہوں نے ’شیخ الاسلام‘ کا لقب اختیار کیا ہے؟! 
8۔طاہر القادری صاحب فرماتے ہیں:
’’ حضرت امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ۸۰ ہجری میں پیدا ہوا اور میں نے اپنے والد کے ساتھ ۹۶ ہجری میں ۱۶ سال کی عمر میں حج کیا پس جب میں مسجد ِحرام میں داخل ہوا میں نے ایک بہت بڑا حلقہ دیکھا تو میں نے اپنے والد سے پوچھا یہ کس کا حلقہ ہے؟تو اُنہوں نے فرمایا: یہ عبداللہ بن جَزء زبیدی کا حلقہ ہے۔ پس میں آگے بڑھا اور ان کو فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : جو اللہ تعالیٰ کے دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے غموں کو کافی ہو جاتا ہے اور اسے وہاں وہاں سے رزق دیتا ہے جہاں کا وہ سوچ بھی نہیں سکتا۔‘‘ ( المنہاج السوي ص ۸۰۹ ح ۱۰۴۸، بحوالہ جامع المسانید للخوارزمي ۱؍۸۰، تاریخ بغداد للخطیب البغدادي۳؍ ۳۲ رقم ۹۵۶)
اس روایت کی دو سندیں ہیں:
1۔ایک میں احمد بن صلت حمانی ہے جو کہ بہت بڑا کذاب تھا۔ (دیکھئے مضمون ہذا ،روایت نمبر ۶)
2۔الحسن بن علی دمشقی کذاب ہے ۔ (دیکھئے روایت نمبر ۷)
اسکے باقی کئی راوی مجہول ہیں اور سیدنا عبداللہ بن حارث بن جزء زبیدیؓ اس جھوٹی روایت کے برعکس ۸۵، ۸۶، ۸۷ یا ۸۸ھ میں فوت ہو گئے تھے۔ (دیکھئے: تقریب التہذیب: ۳۲۶۲)
9۔طاہر القادری صاحب نے سیدنا ابو ہریرہؓ کی طرف منسوب سند سے نقل کیا کہ رسول اللہﷺکے پاس ایک شامی سفید ٹوپی تھی۔
( المنہاج السوي ص ۷۶۹ ح ۹۸۳ ، بحوالہ جامع المسانید للخوارزمي ۱؍ ۱۹۸)
اس روایت کا پہلا راوی ابو محمد عبداللہ بن محمد بن یعقوب البخاری الحارثی کذاب ہے۔ اس کے بارے میں امام ابو احمد الحاکم الکبیر اور حاکم نیشاپوری صاحب المستدرک دونوں نے فرمایا: ’’وہ حدیث بناتا تھا۔‘‘ ( کتاب القراء ۃ للبیہقي ص ۱۵۴، دوسرا نسخہ ص ۱۷۸ ح ۳۸۸ وسندہ صحیح إلیہما)
مزید تفصیل کے لئے دیکھئے الکشف الحثیث عمن رُمی بوضع الحدیث (ص ۲۴۸) لسان المیزان ( ۳؍ ۳۴۸۔ ۳۴۹) اور میری کتاب نُور العینین (ص ۴۳)
نیز اس روایت میں کئی راوی نامعلوم ہیں۔
10۔طاہر القادری صاحب نے لکھا ہے:
’’ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے مبارک قدموں کو بھی یہ معجزہ عطا فرمایا کہ اُن کی وجہ سے پتھر نرم ہو جاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے قدومِ مبارک کے نشان بعض پتھروں پر آج تک محفوظ ہیں۔ ‘‘
1۔حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں:
’’ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ کَانَ إذا مَشٰی عَلَی الصَّخر غَاصَتْ قَدَمَاہُ فِیْہِ وَ أَثرت ‘‘ (تبرک کی شرعی حیثیت ،ص۷۶، اشاعت سوم ستمبر ۲۰۰۸ئ)
(زرقانی ، شرح المواھب اللدنیہ ،۵:۴۸۲… سیوطی ، الجامع الصغیر،۱:۲۷،رقم:۹)
’’ حضور نبی اکرمﷺ جب پتھر وں پر چلتے تو آپﷺ کے پاؤں مبارک کے نیچے وہ نرم ہو جاتے اور قدمِ مبارک کے نشان اُن پر لگ جاتے۔‘‘ حالانکہ یہ روایت ذکر کرنے کے بعد زرقانی (متوفی ۱۱۲۲ھ) نے لکھاتھا :
’’ وأنکرہ السیوطي وقال: لم أقف لہ علیٰ أصل ولا سند ولا رأیت من خرجہ في شيء من کتب الحدیث وکذا أنکرہ غیرُہ لکن ۔۔۔ ‘‘ 
’’اور سیوطی نے اس ( روایت ) پر انکار کیا اور کہا: مجھے اس کی کوئی اصل یا سند نہیں ملی اور نہ میں نے دیکھا کہ حدیث کی کتابوں میں کسی نے اسے روایت کیا ہے، اور اس طرح دوسروں نے بھی اس (روایت) کا انکار کیا لیکن ۔۔۔ ‘‘ ( المواہب اللدنیۃ :۵؍ ۴۸۲)
’لیکن‘ والی بات تو بے دلیل ہے اور سیوطی کی کتاب الجامع الصغیرمیں یہ روایت قطعاً موجود نہیں بلکہ عبدالرؤف المناوی نے اسے الجامع الصغیرکی شرح میں ذکر کیا اور کہا: ’’ولم أقف لہ علیٰ أصل‘‘ مجھے اس کی کوئی اصل نہیں ملی۔ (فیض القدیر شرح الجامع الصغیر:۵؍ ۹۱ح ۶۴۷۸)
مناوی کی اس شرح کے شمائل والے حصے کو حسن بن عبید باحبشی (مجہول)نے الشمائل الشریفۃ کے نام سے دار طائر العلم سے شائع کیا اور اس کی ج۱؍ص ۹، رقم ۹ (الشاملہ) پر یہ روایت مناوی کی جرح کے ساتھ موجود ہے۔
محمد بن یوسف صالحی شامی نے کہا:
’’ولا وجود لذٰلک في کتب الحدیث البتۃ‘‘ ( سبل الھدی والرشاد في سیرۃ خیر العباد ۲؍ ۷۹، مکتبہ شاملہ)
’’اور اس ( روایت ) کا کتب ِ حدیث میں کوئی وجود نہیں ہے۔‘‘
خلاصہ یہ کہ اس بے سند اوربے اصل (موضوع) روایت کو طاہر القادری نے حدیثِ رسول قرار دے کر عام لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے۔
لنک