Friday 29 July 2011

عورتوں کا نرم لہجے میں گفتگو کرنا


عورتوں کا نرم لہجے میں گفتگو کرنا


اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو، اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو تو نرم لہجے میں بات نہ کرو کہ جس کی دل میں روگ ہو وہ کوئی برا خیال کرے اور ہاں باقاعدے کے مطابق کلام کرو-
(الحزاب:32)
اللہ تعالی نے جس طرح عورت کے وجود کے اندر مرد کے لیے جنسی کشش رکھی ہے (جس کی حفاظت کے لیے بھی خصوصی ہدایات دی گئی ہیں تاکہ عورت مرد کے لیے فتنے کا باعث نہ بنے) اسی طرح اللہ تعالی نے عورتوں کی آواز میں بھی فطری طور پر دلکشی، نرمی اور نزاکت رکھی ہے جو مرد کو اپنی طرف کھینچتی ہے- بنا بریں اس آواز کے لیےبھی یہ ہدایت دی گئی ہے کہ مردوں سے گفتگو کرتے وقت قصدا ایسا لب و لہجہ اختیار کرو کہ نرمی اور لطافت کی جگہ قدرے سختی اور روکھاپن ہو- تاکہ کوئی بدباطن لہجے کی نرمی سے تمہاری طرف مائل نہ ہو اور اس کے دل میں برا خیال پیدا نہ ہو-
یہ روکھا پن ، صرف لہجے کی حد تک ہی ہو، زبان سے ایسا لفظ نہ نکالنا جو معروف قاعدے اور اخلاق کے منافی ہو- ان اتفتین کہ کر اشارہ کردیا کہ یا بات اور دیگر ہدایات قرآن و حدیث میں ہیں وہ متقی عورتوں کے لیے ہیں، کیونکہ انہیں ہی یہ فکر ہوتی ہے کہ ان کی آخرت برباد نہ ہوجائے- جن کے دل خوف الہی سے عاری ہیں، انہیں ان ہدایات سے کیا تعلق؟ اور وہ کب ان ہدایات کی پرواہ کرتی ہیں؟

نوٹ: میری پیاری بہنوں! جیسا کہ انٹرنیٹ ایک دنیا کے مافق ہے، یہ پرہجوم بازارہے، اگر آپ اس میں داخل ہونگي تو آپ پر بھی ہر وہ حکم شرعی نافظ ہوگا جو کہ باہر کی دنیا میں آپ پر نازل ہوتا ہے، مثلا:
٭ باہر کی دنیا میں پردہ کا حکم ہے تو نیٹ کی دنیا میں بھی پردہ کا حکم ہے کہ آپ اپنی تصویر کسی کو مت بھیجیں۔ 
٭ باہر کی دنیا میں کسی نا محرم سے بات کرنا منع ہے تو یہی قانون نیٹ کی دنیا میں بھائی لاگو ہوتا ہے- 
٭ کسی نامحرم سے بات کرنا یعنی اگر صرف اس کی آواز بھی سننا گناہ ہے جو ہر مرد و عورت پر لازم ہے- 
٭ خاص کر کے چیٹ کے معاملے میں احتیاط برتنی چاہیے کیونکہ الفاظ آپ کی زبان کی عکاسی کرتے ہیں، اگر آپ غیر محرم سے نرم رویے سے بات کریں گی تو وہ آپ کی زبان کی عکاسی کرے گا اور اس سے فتنہ پیدا ہوگا جوکہ شریعت میں بالکل جائز نہیں ہے-

ہر وہ حکم جو باہر کی دنیا میں عورتوں پر لاگو ہوتا ہے اس ہی کی بنیاد پر نیٹ پر بھی لاگو ہوتا ہے-
نیٹ ایک بازار ہے وہاں پر جانے سے پہلے بڑی احتیاط کرنی پڑتی ہے ایک غلطی کی وجہ سے عزت جانے کا خطرہ رہتا ہے-
اگر آپ بازار میں جائيں گی تو آپ کو شریعت کے دائرے میں مجبوری کی حالت میں نکلنا پڑے گا تو اسی طریقہ سے نیٹ بھی ایک دنیا ہے جہاں دین کی خاطر جانے پر اپنے آپ کو شریعت کے دآئرے میں ڈھاپانے کی اشد ضرورت ہے-
میں امید کرتا ہوں کہ یہ میرا پیغام جس بھی بہن نے پڑھا ہوگا وہ کوشش کرے گی کہ کسی بھی طرح اپنے آپ کو شریعت کے دائرے سے باہر نہ کرے گی کیونکہ جوابدہ تو ہر انسان اللہ کے سامنے ہی ہے- ان شاءاللہ 
نا محرم مرد ہو یا عورت سب پر یہ ہی قانون لاگو ہوتا ہے- اور ہر اچھے اور اللہ سے ڈرنے والے مسلمان کو ان اللہ کے قوانین کی پاسداری کرنی ہوگی کہ آخرت میں اللہ کی ذات کے سامنے سرخرو ہوسکے۔ ان شاءاللہ
والسلا م علیکم

Tuesday 26 July 2011

مرض عشق کا علاج



مرض عشق کا علاج
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ



شیخ الاسلام امام احمد بن عبدالحلیم بن تیمیہ رحمہ اللہ سے اس شخص کا علاج پوچھا گیا کہ جو شیطان کے مشہور ترین تیروں میں سے ایک تیر "عشق" کا شکار ہوگیا ہو؟

آپ نے جواب ارشاد فرمایا:

جو اس زہریلے زخم میں مبتلا ہوگیا ہو تو اسے چاہیے کہ مندرجہ ذیل کام کرے جس سے اس زہر کو کشید کیا جاسکے اور تریاق ومرہم کے ذریعہ زخم مندمل ہوجائے:

اول:
 اسے چاہیے کہ اگر کنوارہ ہے تو نکاح کرے اور اگر شادی شدہ ہے تو اپنی بیوی سے تعلق قائم کرے، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘إذا نظر أحدكم إلى محاسن امرأة فليأت أهله ; فإنما معها مثل ما معها’’([1])
 (جب تم میں سے کوئی کسی عورت کے محاسن دیکھ لے تو اسے چاہیے کہ اپنی بیوی کے پاس آئے (اور ضرورت پوری کرے)، کیونکہ اس کے پاس بھی وہی کچھ ہے جو دوسری کے پاس ہے) اور یہ بات اس کی شہوت کو توڑ دے گی اور عشق کو کمزور کردے گی۔
دوم:
 پنج وقتہ نماز کی (وقت وجماعت) کے ساتھ پابندی کرے اور رات (تہجد) کے وقت اللہ تعالی سے دعاء والحاء وزاری کرے۔ لازم ہے کہ اس کی نماز حضورِقلب اور خشوع وخضوع کے ساتھ ہو۔ اور کثرت کے ساتھ یہ دعاء پڑھے: ‘‘يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ، ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ يا مصرف القلوب صرف قلبي إلى طاعتك وطاعة رسولك’’([2])
 (اے دلوں کو پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ، اے دلوں کو پھیرنے والے میرے دل کو اپنی اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی طرف پھیر دے) پھر جب وہ دعاء کا عادی ہوجائے گا اور اللہ تعالی کے لئے تضرع والحاء وزاری کرے گا تو اللہ تعالی یقینا ًاس کا دل اس سے پھیر دے گا جیسا کہ یوسف علیہ السلام کے متعلق فرمایا:

﴿كَذَلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ﴾ (یوسف: 24)

(اسی طرح سے ہم نے ان سے برائی اور فحاشی کو پھیر دیا کیونکہ وہ ہمارے مخلص بندوں میں سے تھے)

سوم:
 اس شخص (یعنی معشوق) کے مسکن وگھر سے اور جہاں ان کا جمع ہونا ممکن ہوتا ہے وہاں سے اس طور پر دوری اختیار کرلےکہ اس کی کوئی خیر خبر اس کے کانوں سے نہ ٹکرائے، نہ ہی اس کی نظر کبھی اس پرپڑے کہ اس کے دل پر کوئی اثر ہو۔ کیونکہ دوری اختیار کرنا جفا ہے ۔ اور جب اس کا ذکر ہی کم ہوجائے گا تو اس کا اثر دل پر کمزور ہوتا جائے گا۔ 
تو اسے چاہیے کہ ان امور پر عمل پیرا ہو اور دیکھے کہ پھر اس کا کیا حال ہوتا ہے۔ واللہ اعلم

(مجموع فتاوی ابن تیمیہ ج 32 کتاب النکاح کا پہلا سوال ص 5-6ط مجمع الملك فهدسن اشاعت: 1416ھ/1995م)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواشی

[1] صحیح ترمذی 1158 کے الفاظ ہیں‘‘إِنَّ الْمَرْأَةَ إِذَا أَقْبَلَتْ أَقْبَلَتْ فِي صُورَةِ شَيْطَانٍ، فَإِذَا رَأَى أَحَدُكُمُ امْرَأَةً فَأَعْجَبَتْهُ، فَلْيَأْتِ أَهْلَهُ فَإِنَّ مَعَهَا مِثْلَ الَّذِي مَعَهَا’’ (جب عورت آتی ہے تو بصورت شیطان آتی ہے، پس اگر تم میں سے کوئی ایسی عورت دیکھ لے جو اسے اچھی لگے، تو اسے چاہیے کہ اپنی بیوی کے پاس آئے (اور ضرورت پوری کرے) کیونکہ اس کے پاس بھی وہی چیز موجود ہے جو دوسری عورت کے پاس ہے)

[2] صحیح ترمذی 3522 کے الفاظ صرف یہ ہیں: ‘‘يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ، ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ’’

Saturday 23 July 2011

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور سائنس کے اعترافات

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور سائنس کے اعترافات

جنین کی نشوونما کے پہلے چالیس دن : 

ڈاکٹر جولے سمپسن ، ہیوسٹن ( امریکہ ) کے بیلور کالج آف میڈیسن میں شعبہ حمل و زچگی و امراض نسوانی ( Ob-Gyn ) کے چیئرمین اور سالماتی و انسانی توارث کے پروفیسر ہیں ، اس سے پہلے وہ میمفس کی یونیورسٹی آف ٹینٹیسی میں شعبہ ” اوب گائن “ کے پروفیسر اور چیئرمین رہے ، وہ امریکی باروری انجمن کے صدر بھی تھے ۔ 1992ءمیں انہیں کئی ایوارڈ ملے ، جن میں ایسوسی ایشن آف پروفیسرز آف اوب گائن پبلک ریلکنیشن ایوارڈ بھی شامل تھا ۔ پروفیسر سمپسن نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی درج ذیل دواحادیث کا مطالعہ کیا ۔
(( ان احدکم یجمع خلقہ ، فی بطن امہ اربعین یوما ))
( صحیح البخاری ، بدءالخلق ، باب ذکر الملائکۃ ، حدیث : 3208 ، صحیح مسلم ، القدر ، باب کیفیۃ خلق الآدمی ، حدیث : 2643 ) 
” تم میں سے ہر ایک کی تخلیق کے تمام اجزاءاس کی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک ( نطفے کی صورت ) میں جمع رہتے ہیں ۔ “

(( اذا مر بالنطفۃ اثنتان واربعون لیلۃ ، بعث اللہ الیھا ملکا ، فصورھا وخلق سمعھا وبصرھا وجلدھا ولحمھا وعظامھا )) 
( صحیح مسلم ، القدر ، باب کیفیۃ خلق الآدمی.... حدیث : 2645 ) 
” جب نطفہ قرار پائے بیالیس راتیں گزر جاتی ہیں تو اللہ ایک فرشتے کو اس کے پاس بھیجتا ہے جو ( اللہ کے حکم سے ) اس کی شکل و صورت بناتا ہے ، اور اس کے کان ، اس کی آنکھیں ، اس کی جلد ، اس کا گوشت اور اس کی ہڈیاں بناتا ہے ۔ “ 

پروفیسر سمپسن ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دوحدیثوں کا بالاستیعاب مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ جنین کے پہلے چالیس دن اس کی تخلیق کے ناقابل شناخت مرحلے پر مشتمل ہوتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان احادیث میں جس قطعیت اور صحت کے ساتھ جنین کی نشوونما کے مراحل بیان کئے گئے ہیں ان سے وہ خاص طور پر متاثر ہوئے ، پھر ایک کانفرنس کے دوران انہوں نے اپنے درج ذیل تاثرات پیش کئے ۔

دونوں احادیث جو مطالعے میں آئی ہیں ، وہ ہمیں پہلے چالیس دنوں میں بیشتر جنینی ارتقاءکا متعین ٹائم ٹیبل فراہم کرتی ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج صبح دوسرے مقررین نے بھی بار بار اس نکتے کو دہرایا ہے ۔ یہ احادیث جب ارشاد فرمائی گئیں اس وقت کے میسر سائنسی علم کی بنا پر اس طرح بیان نہیں کی جا سکتی تھیں ۔ میرے خیال میں اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نہ صرف جینیات ( Genetics ) اور مذہب کے درمیان کوئی تصادم نہیں ، درحقیقت ، مذہب بعض روایتی سائنسی نقطہ نظر کو الہام سے تقویت پہنچا کر سائنس کی رہنمائی کر سکتا ہے اور یہ کہ قرآن میں ایسے بیانات موجود ہیں جو صدیوں بعد درست ثابت ہوئے اور جو اس امر کا ثبوت ہیں کہ قرآن میں دی گئی معلومات اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کی گئی ہیں ۔

انگلیوں کے پوروں پر جراثیم کش پروٹین :

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( اذا اکل احدکم من الطعام فلا یمسح یدہ حتی یلعقھا او یلعقھا ))
( صحیح مسلم ، الاشربۃ ، باب استحباب لعق الاصابع.... حدیث : 2031 ) 
” جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو وہ اپنا ہاتھ نہ پونچھے یہاں تک کہ اسے ( انگلیاں ) چاٹ لے یا چٹوالے ۔ “ 

کھانے کے بعد انگلیاں چاٹنے کا حکم پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ صدیاں پہلے دیا اور اس میں جو حکمت کار فرما ہے اس کی تصدیق طبی سائنسدان اس دور میں کر رہے ہیں ۔

ایک خبر ملاحظہ کیجئے :

جرمنی کے طبی ماہرین نے تحقیق کے بعد یہ اخذ کیا ہے کہ انسان کی انگلیوں کے پوروں پر موجود خاص قسم کی پروٹین اسے دست ، قے اور ہیضے جیسی بیماریوں سے بچاتی ہے ۔ ماہرین کے مطابق وہ بیکٹیریا جنہیں ” ای کولائی “ کہتے ہیں ، جب انگلیوں کی پوروں پر آتے ہیں تو پوروں پر موجود پروٹین ان مضر صحت بیکٹیریا کو ختم کر دیتی ہے ۔ اس طرح یہ جراثیم انسانی جسم پر رہ کر مضر اثرات پیدا نہیں کرتے خاص طور پر جب انسان کو پسینہ آتا ہے تو جراثیم کش پروٹین متحرک ہو جاتی ہے ۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر یہ پروٹین نہ ہوتی تو بچوں میں ہیضے ، دست اور قے کی بیماریاں بہت زیادہ ہوتیں ۔ ( روزنامہ نوائے وقت 30 جون 2005ء ) 

اہل مغرب کھانے کے بعد انگلیاں چاٹنے کے فعل کو غیرصحت مند ( Unhigienic ) قرار دے کر اس پر حرف گیری کرتے رہے ہیں ، لیکن اب سائنس اس کی تصدیق کر رہی ہے کہ یہ عمل تو نہایت صحت مند ہے کیونکہ انگلیاں منہ کے اندر نہیں جاتیں اور یوں منہ کے لعاب سے آلودہ نہیں ہوتیں ۔ نیز انگلیوں کے پوروں پر موجود پروٹین سے مضر بیکٹیریا بھی ہلاک ہو جاتے ہیں ۔ اس کے برعکس چمچے یا کانٹے سے کھانا کھائیں تو وہ بار بار منہ کے لعاب سے آلودہ ہوتا رہتا ہے اور یہ بے حد غیرصحت مند عمل ہے ، جب اللہ تعالیٰ نے انگلیوں کے پوروں پر جراثیم کش پروٹین پیدا کی ہے تو ہاتھ سے کھانا اور کھانے کے بعد انگلیاں چاٹنا دونوں صحت مند افعال ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ بالا حدیث میں انہی دو باتوں پر عمل کی تلقین کی گئی ہے ، یعنی ( 1 ) کھانا ہاتھ ( دائیں ) سے کھایا جائے ، ( 2 ) ہاتھ پونچھنے سے پہلے انگلیاں چاٹی جائیں ۔ 
دائیں ہاتھ سے کھانے اور اس کے بعد انگلیاں چاٹنے کی اس اسلامی روایت بلکہ سنت کو عربوں نے اب تک زندہ رکھا ہوا ہے جسے ماضی میں یورپ والے غیر 
صحت منع عمل ٹھہراتے رہے ، مگر اب انہی کے طبی محققین کی تحقیق کہہ رہی ہے کہ یہ ہرگز مضر عمل نہیں بلکہ عین صحت مند اور فائدہ مند ہے ۔

کتا چاٹ جائے تو برتن کو مٹی سے دھونے کا حکم : 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( طھور اناءاحدکم اذا ولغ فیہ الکلب ان یغسلہ سبع مرات اولاھن بالتراب ))
( صحیح مسلم ، الطھارۃ ، باب حکم ولوغ الکلب ، حدیث : 279 ) 
مسلم کی ایک اور روایت میں ہے : فلیرقۃ اسے چاہئے کہ اس ( میں موجود کھانے یا پانی ) کو بہاد دے ۔ “
( مسلم ، الطھارۃ ، باب حکم ولوغ الکلب ، حدیث : 279(89) ) 

اور ترمذی کی روایت میں ہے :

(( اولاھن او اخراھن بالتراب ))
( جامع الترمذی ، باب ما جاءفی سور الکلب ، حدیث : 91 ) 
” پہلی یا آخری بار مٹی کے ساتھ دھونا چاہئے ۔ “ ا

س کی توضیح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام ( انگریزی ) میں یوں کی گئی ہے :

یہ واضح رہے کہ کسی چیز کی محض ناپاکی سے صفائی کے لئے اسے سات دفعہ دھونا ضروری نہیں ، کسی چیز کو سات دفعہ دھونے کا فلسفہ محض صفائی کرنے سے مختلف ہے ۔ آج کے طبی ماہرین کہتے ہیں کہ کتے کی آنتوں میں جراثیم اور تقریبا 4 ملی میٹر لمبے کیڑے ہوتے ہیں جو اس کے فضلے کے ساتھ خارج ہوتے ہیں اور اس کے مقعد کے گرد بالوں سے چمٹ جاتے ہیں ، جب کتا اس جگہ کو زبان سے چاٹتا ہے تو زبان ان جراثیم سے آلودہ ہو جاتی ہے ، پھر کتا اگر کسی برتن کو چاٹے یا کوئی انسان کتے کا بوسہ لے جیسا کہ یورپی اور امریکی عورتیں کرتی ہیں تو جراثیم کتے سے اس برتن یا اس عورت کے منہ میں منتقل ہو جاتے ہیں اور پھر وہ انسان کے معدے میں چلے جاتے ہیں ، یہ جراثیم آگے متحرک رہتے ہیں اور خون کے خلیات میں گھس کر کئی مہلک بیماریوں کا باعث بنتے ہیں چونکہ ان جراثیم کی تشخیص خوردبینی ٹیسٹوں کے بغیر ممکن نہیں ۔ شریعت نے ایک عام حکم کے تحت کتے کے لعاب کو فی نفسہ ناپاک قرار دیا اور ہدایت کی کہ جو برتن کتے کے لعاب سے آلودہ ہو جائے اسے سات بار ضرور صاف کیا جائے اور ان میں سے ایک بار مٹی کے ساتھ دھویا جائے ۔
( بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام ) ( انگریزی ) مطبوعہ دارالسلام ، صفحہ : 16 حاشیہ : 1 ) 

مکھی کے ایک پر میں بیماری ، دوسرے میں شفا : 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( اذا وقع الذباب فی شراب احدکم فلیغمسہ ثم لینزعہ فان فی احدی جناحیہ داءوفی الاخرٰی شفاء ))
( صحیح البخاری ، بدءالخلق ، باب اذا وقع الذباب.... حدیث : 3320 ) 
” اگر تم میں سے کسی کے مشروب ( پانی ، دودھ وغیرہ ) میں مکھی گر پڑے تو اسے چاہئے کہ اس کو مشروب میں ڈبکی دے ، پھر اسے نکال پھینکے ، کیوں کہ اس کے ایک پر میں بیماری ہے تو دوسرے میں شفا ۔ “ 

ڈاکٹر محمد محسن خاں اس ضمن میں لکھتے ہیں : ” طبی طور پر اب یہ معروف بات ہے کہ مکھی اپنے جسم کے ساتھ کچھ جراثیم اٹھائے پھرتی ہے ، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے 1400 سال پہلے بیان فرمایا جب انسان جدید طب کے متعلق بہت کم جانتے تھے ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے کچھ عضوےے ( Organisms ) اور دیگر ذرائع پیدا کئے جو ان جراثیم ( Pathogenes ) کو ہلاک کر دیتے ہیں ، مثلاً پنسلین پھپھوندی اور سٹیفائلو کوسائی جیسے جراثیم کو مار ڈالتی ہے ۔ حالیہ تجربات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک مکھی بیماری ( جراثیم ) کے ساتھ ساتھ ان جراثیم کا تریاق بھی اٹھائے پھرتی ہے ۔ عام طور پر جب مکھی کسی مائع غذا کو چھوتی ہے تو وہ اسے اپنے جراثیم سے آلودہ کر دیتی ہے لہٰذا اسے مائع میں ڈبکی دینی چاہئے تا کہ وہ ان جراثیم کا تریاق بھی اس میں شامل کر دے جو جراثیم کامداوا کرے گا ۔ 

میں نے اپنے ایک دوست کے ذریعے اس موضوع پر جامعۃ الازہر قاہرہ ( مصر ) کے عمید قسم الحدیث ( شعبہ حدیث کے سربراہ ) محمد السمحی کو خط بھی لکھا جنہوں نے اس حدیث اور اس کے طبی پہلوؤں پر ایک مضمون تحریر کیا ہے ۔ اس میں انہوں نے بیان کیا ہے کہ ماہرین خرد حیاتیات ( Microbiologists ) نے ثابت کیا ہے کہ مکھی کے پیٹ میں خامراتی خلیات ( Yeast Cells ) طفیلیوں ( Parasites ) کے طور پر رہتے ہیں اور یہ خامراتی خلیات اپنی تعداد بڑھانے کے لئے مکھی کی تنفس کی نالیوں ( Repiratory Tubules ) میں گھسے ہوتے ہیں اور جب مکھی مائع میں ڈبوئی جائے تو وہ خلیات نکل کر مائع میں شامل ہو جاتے ہیں ، اور ان خلیات کا مواد ان جراثیم کا تریاق ہوتا ہے جنہیں مکھی اٹھائے پھرتی ہے ۔
( مختصر صحیح البخاری ) ( انگریزی ) مترجم ڈاکٹر محمد حسن خاں ، ص : 656 حاشیہ : 3 )

اس سلسلے میں ” الطب النبوی صلی اللہ علیہ وسلم لابن القیم “ کے انگریزی ترجمہ : Healing with the Madicine of the Prophet طبع دارالسلام الریاض میں لکھا ہے :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ مکھی خوراک میں گر پڑے تو اسے اس میں ڈبویا جائے ، اس طرح مکھی مر جائے گی ، بالخصوص اگر غذا گرم ہو ، اگر غذا کے اندر مکھی کی موت غذا کو ناپاک بنانے والی ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے پھینک دینے کا حکم دیتے اس کے برعکس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے محفوظ بنانے کی ہدایت کی ۔ شہد کی مکھی ، بھڑ ، مکڑی اور دیگر کیڑے بھی گھریلو مکھی کے ذیل میں آتے ہیں ، کیوں کہ اس حدیث سے ماخوذ حکم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم عام ہے ۔ مردہ جانور ناپاک کیوں ہیں ؟ اس کی توجیہ یہ ہے کہ ان کا خون ان کے جسموں کے اندر رہتا ہے ، اس لئے کیڑے مکوڑے یا حشرات جن میں خون نہیں ہوتا وہ پاک ہیں ۔ 

بعض اطباءنے بیان کیا ہے کہ بچھو اور بھڑ کے کاٹے پر گھریلو مکھی مل دی جائے تو اس شفا کی وجہ سے آرام آ جاتا ہے جو اس کے پروں میں پنہاں ہے ، اگر گھریلو مکھی کا سر الگ کر کے جسم کو آنکھ کے پپوٹے کے اندر رونما ہونے والی پھنسی پر ملا جائے تو انشاءاللہ آرام آجائے گا ۔ ( الطب النبوی : 105,104 ) 

طاعون زدہ علاقے سے دور رہنے کا حکم اور اس کی حکمت : 
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( الطاعون رجز ، ارسل علی بنی اسرائیل ، او علی من کان قبلکم فاذا سمعتم بہ بارض فلا تقدموا علیہ ، واذا وقع بارض وانتم بھا ، فلا تخرجوا فرارا منہ ))
( صحیح مسلم ، الطب ، باب الطاعون ، حدیث : 2218 ) 
” طاعون عذاب ہے ، جو بنی اسرائیل کے ایک گروہ پر اور تم سے پہلوں پر نازل ہوا ، چنانچہ جب تم سنو کہ کسی علاقے میں طاعون پھیلا ہوا ہے تو وہاں نہ جاؤ اور جب وہ اس علاقے میں پھوٹ پڑے جہاں تم مقیم ہو تو فرار ہو کر اس علاقے سے باہر مت جاؤ ۔ “

صحیحین ہی کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( الطاعون شھادۃ لکل مسلم ))
( صحیح البخاری ، الطب ، باب ما یذکر من الطاعون ، حدیث : 5732 ) 
” طاعون ہر مسلم کے لئے شہادت ہے ۔ “ 

طبی اصطلاح میں طاعون ایک مہلک گلٹی ہے جو بہت شدید اور تکلیف دہ متعدی عارضہ ہے اور یہ تیزی سے متاثرہ حصے کے رنگ کو سیاہ ، سبز یا بھورے رنگ میں تبدیل کر دیتا ہے پھر جلد ہی متاثرہ حصے کے اردگرد زخم نمودار ہونے لگتے ہیں ۔ طاعون عموماً جسم کے تین حصوں ،بغلوں ، کان کے پیچھے اور ناک پھنک یا جسم کی نرم بافتوں ( Tissues ) پر حملہ کرتا ہے ۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے طاعون کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا :

(( غدۃ ، کغدۃ البعیر یخرج فی المراق والابط ))
( التمھید لابن عبدالبر : 6/212 ) 
” یہ ایک گلٹی ہے ، جو اونٹ کی گلٹی سے مشابہ ہے اور جو پیٹ کے نرم حصوں اور بغلوں میں نمودار ہوتی ہے ۔ “ 

امام ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ کی تصنیف الطب النبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ” نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو طاعون زدہ علاقے میں داخل نہ ہونے کا حکم دیا ہے ، کے زیر عنوان لکھا ہے :

طاعون کے نتیجے میں جسم میں تعدیہ یا عفونت ( Infection ) زخم ( Ulcers ) اور مہلک رسولیاں نمودار ہوتی ہیں ، اطباءاپنے مشاہدے کی رو سے انہیں طاعون کی علامات قرار دیتے ہیں ۔ طبی ماہرین کہتے ہیں کہ طاعون کی وبا سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ جسم کو مضر رطوبتوں سے نجات پانے میں مدد دی جائے ۔ اسے پرہیزی غذا ملے اور جسم کی خشکی عموماً محفوظ رہے ۔ انسانی جسم میں مضر مادے ہوتے ہیں جو بھاگ دوڑ اور غسل کرنے سے متحرک ہو جاتے ہیں پھر وہ جسم کے مفید مادوں سے مل کر کئی بیماریوں کا باعث بنتے ہیں ، اس لئے جب کسی جگہ طاعون حملہ آور ہو تو وہیں ٹھہرنے میں عافیت ہے تا کہ انسان کے جسم میں مضر مادے متحرک نہ ہوں ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو طاعون سے متاثرہ علاقے میں نہ جانے یا وہیں ٹھہرنے کا جو حکم دیا ، اس میں بڑی حکمت پنہاں ہے ، اس کا مقصد یہ ہے :

( 1 ) آدمی نقصان اور نقصان کا باعث بننے والی شے سے بچ جائے ۔

( 2 ) اپنی صحت برقرار رکھے ، کیوں کہ ضرورت زندگی کے حصول اور عاقبت کے تقاضے پورے کرنے کا دارومدار اسی پر ہے ۔ 

( 3 ) آلودہ اور مضر ہوا میں سانس لے کر بیمار نہ پڑ جائے ۔

( 4 ) طاعون سے متاثرہ لوگوں سے میل ملاپ سے احتراز کرے ، تا کہ خود اسے طاعون نہ آئے ۔ 

( 5 ) جسم اور روح کی چھوت اور توہم سے تحفظ ہو ، جن کا نقصان صرف انہیں ہوتا ہے جو ان پر یقین رکھتے ہوں ۔ 

غرض یہ کہ طاعون سے متاثرہ علاقے میں داخل ہونے کی ممانعت ایک احتیاطی تدبیر اور ایک طرح کی پرہیزی غذا ہے ، جو انسان کو نقصان کی راہ سے پرے رکھتی ہے ، اور یہ طاعون سے متاثرہ علاقہ چھوڑ کر جانے کا نہیں بلکہ اللہ کی رضا اور اس کے فیصلوں کے آگے سرجھکانے کا سبق ہے ۔ پہلا حکم تعلیم و تربیت ہے جب کہ دوسرا تسلیم و اطاعت اور تمام امور اللہ کی رضا پر چھوڑ دینے کا درس دیتا ہے ۔
( الطب النبوی ( انگریزی ) کے صفحہ 53 کے حاشیے میں ” ایڈیٹر کا نوٹ “ کے زیر عنوان لکھا ہے : ” ہمارے مصنف ( ابن قیم ) کے زمانے میں ابھی قرنطینہ کا طبی تصور قائم نہیں ہوا تھا مگر یہ حدیث مصنف سے بھی تقریبا 700 سال پہلے ارشاد ہوئی تھی ۔ اس حدیث نے ایمان کی وساطت سے قرنطینہ نافذ کر دیا تھا ، اگرچہ طب کے علماءکو اس سے متعلق علم کہیں صدیوں بعد حاصل ہوا ۔

Saturday 16 July 2011

ماہر القادری رح کا دین خانقاہی پر تبصرہ


ماہر القادری رح کا دین خانقاہی پر تبصرہ


ہر طرف خیمے لگے ہیں دور تک بازار ہے
یہ نمائش ہے کوئی میلہ ہے یا تہوار ہے


کوئی بارات اس جگہ اتری ہے باصد کر و فر
میں یہ سمجھا شامیانوں کی قطاریں دیکھ کر


یہ نفیری کی صدائيں یا کٹوروں کی کھنک
یہ دھویں کے پیچ یہ پھولوں کے گجروں کی مہک


نیم وا برقعے نگاہوں پر فسوں کرتے ہوئے
شوق نظارا کو ہر لخط فووں کرتے ہوئے


ہے یہ تقریب عقدت عرس ہے اک پیر کا
کام کرتی ہے یہان کی خاک بھی اکثیر کا

اک طوائف گارہی ہے سامنے درگاہ کے
کیا مزے ہیں خوب حضرت سہاگن شاہ کے


ساز پر کچھ چھوکرے قوالیاں گاتے ہوئے
گٹکری لیتے ہوئے ہاتھوں کو پچکاتے ہوئے


رقص فرمانے لگے کجھ صاحبان وجد و حال
یہ کرامت شیخ کی ہے یا ہے نغمے کا کمال


عورتوں کی بھیڑ میں نظارہ ٹھوکر کھائے ہے
اس ہجوم رنگ و بو میں کب خدا یاد آئے ہے


مقبرے کی جالیوں میں عرضیان لٹکی ہوئيں
یہ وہ منزل ہے جہاں نیکیاں بھٹکی ہوئيں


ان میں لکھا ہے ہماری جھولیاں بھردے
درد دل سن لیجیے مشکل کشائی کیجیے


پھول ہٹتے ہیں کہیں اور دیگ لٹتی ہے کہیں
دل مچلتا ہے کہیں اور سانس گھٹتی ہے کہیں

یہ چراغوں کی قطاریں جگ مگاتے بام و در
جس طرف بھی دیکھنے سامان تفریح نظر


چادریں چڑھتی ہوئيں ڈھولک بھی ہے بجتی ہوئی
یہ مجاور ہیں جو پوجا کررہے ہیں قبر کی


کوئی سجدے میں جھکا ہے کوئی مصروف طواف
تھام رکھا ہے کسی نے دونوں ہاتھوں سے غلاف


رو رہا ہے کوئی چوکھٹ ہی پہ سر رکھے ہوئے
ہیں کسی کے ہاتھ بہر التجا اٹھتے ہوئے


دیکھتا ہی رہ تماشائی زباں سے کجھ نہ بول
چادروں کی دھجیاں بکتی ہیں یاں سونے کے مول


ھن برستا ہے یہان چاندی اگلتی ہے زمین
آخرت کی یاد اس جا پاؤں رکھ سکتی نہیں


زائروں کے خود مجاور ہی جھکادیتے ہیں سر
مو رکے پنکھوں کے سائے میں کلاوے باندھ کر


ہے یہی تعلیم تعلیم نبی ۖ فرمان قرآن کی
ہر ایک بدعت ضلالت شرک ہے ظلم عظیم


مدعی توحید کے اور شرک سے یہ ساز باز
ایک طرف قبروں پہ سجدے دوسری جانب جائے نماز


تابکے یہ کھیل دنیا کو دکھایا جائے گا
مضحکہ توحید کا کب تک اڑایا جائے گا
------------------------------------------------------------------------------------
اقتباس: اہل حرم کے سومنات
تالیف: زاہد حسین مرزا

عورتوں کا کان و ناک کا چھدوانا؟


السلام علیکم شیوخ!
کسی سسٹر نے مجھے ای میل کی تھی اور اس میں انہوں نے سوال کیا تھا اور وہ جاننے کی کوشش کررہی تھیں کہہ:
اسلام میں عورت کا کان و ناک چھدوانے کے بار ےمیں کیا حکم ہے؟
اگر اسلام میں اس قسم کا کوئی حکم ہے تو اس کا ثبوت پیش کیا جائے اور نہیں ہے تو اس کا بھی ثبوت پیش کیا جائے اور بتایا جائے کہ ہر عورت (اسلامی و غیر اسلامی) کان و ناک چھدواتی ہے تو کیوں؟
امید کہ واضح جواب عنایت فرمائیے گا۔ ان شاءاللہ
والسلام علیکم

رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارکہ میں صحابیات ایسا کرتی تھیں یعنی ناک کان چھدواتی تھیں اور بالیاں وغیرہ پہنتی تھیں اور ضرورت پڑنے پر اپنے کانوں سے بالیاں اتار کر صدقہ بھی فرما دیا کرتیں تھیں 
عن جابر بن عبد الله قال :" شهدت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم الصلاة يوم العيد , فبدأ بالصلاة قبل الخطبة بغير أذان و لا إقامة , ثم قام متوكئا على بلال , فأمر بتقوى الله , و حث على طاعته , و وعظ الناس و ذكرهم , ثم مضى حتى أتى النساء , فوعظهن و ذكرهن , فقال : تصدقن فإن أكثركن حطب جهنم , فقامت امرأة من وسط النساء سفعاء الخدين , فقالت : لم يا رسول الله ? قال : لأنكن تكثرن الشكاة و تكفرن العشير , قال : فجعلن يتصدقن من حليهن , يلقين فى ثوب بلال من أقراطهن و خواتمهن " . 
أخرجه مسلم ( 3/19 ) و كذا النسائى ( 1/233 ) و الدارمى ( 1/377 ـ 378 ) و البيهقى ( 3/296 ) و المحاملى ( 135/2 ) و أحمد ( 3/318 )


عید میلاد النّبی کس دن منائيں؟


عید میلاد النّبی کس دن منائيں؟



جیسا کہ اہل سنت کے ایک مخصوص فرقہ کے نزدیک عید میلاد النّبی منانا جائز ہے اور وہ اس پر لاتعداد بے وجہ کے دلائل دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
عید میلاد النّبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عید ثالث کا نام بھی دیا جاتا ہے- لیکن عام آدمی بھی جانتا ہے کہ عید کے دن میں اختلاف نہیں ہوتا- مثلا عید الفطر یکم شوال کو ہوتی ہے، کبھی کسی نے نہیں کہا کہ اس مرتبہ عید 5 شوال کو ہوگی یا 28 رمضان کو ہوگی، ایسے ہی عید الاضحی 10 ذوالحج کو ہوتی ہے، کبھی کسی نے نہیں کہا کہ اس مرتبہ عیدالاضحی 4 یا 5 ذوالحج کو منائيں گے- اس لیے کہ ان عیدوں کا اسلام نے ایک دن متعین فرمایا ہے- شروع اسلام سے لےکر آج تک ان دونوں میں اختلاف نہیں ہوا، اختلاف اس میں ہوتا ہے جسے بعد میں لوگ اپنی طرف سے شروع کردیں- جب ہر گروہ اپنا علحیدہ دن مقرر کرے اس لیے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہ دن مقرر نہیں کیا ہوتا یہی حال اس من گھڑت عید میلادالنّبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے کہ انسان شش و پنج میں پڑجاتا ہے کہ وہ اگر اسے عید سمجھ لے تو کس دن منائے! اب غور فرمائیے ہر گروہ کا علحیدہ دن ہے- اگر سارے عیدیں منانا شروع کردیں تو ربیع الاول کا مہینہ عیدوں میں ہی گذر جائے-
اس اختلاف کو ہم مختصرا آپ کے سامنے ذکر کرتے ہیں-

5 ربیع الاول

امیر الدین نے "سیرت طیبہ" میں لکھا ہے:

" قول مختار یہ ہے کہ 5 ربیع الاول کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے-"
(امیر الدین، سیرت طیبہ، ص:76، مدرسہ تعلیم القرآن نواں شھر ملتان)

8 ربیع الاول

حافظ ابن قیم متوفی 751ھ نے لکھا ہے کہ:

" جمھور قول یہ ہے کہ 8 ربیع الاول کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی-"
(زادلمعاد ج، ص:68 مترجم رئيس احمد جعفری)

9 ربیع الاول

برصغیر میں اکثر سیرت نگاروں نے 9 ربیع الاول کویوم ولادت قرار دیا ہے- چند ایک حوالہ جات پیش خدمت ہیں:

٭ ہمارے نبی موسم بہار، دو شنبہ کے دن 9 ربیع الاول کو پیدا ہوئے- 
(رحمۃ للعالمین، قاضی سلیمان منصور پوری ج ص:72)

٭ 9 ربیع الاول 571ھ بروز سوموار از صبح صادق اور قبل طلوع آفتاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے-
( تاریخ اسلام، اکبر نجیب آبادی حصہ اول ص:72)

٭ عبداللہ کی وفات کے چند مہینوں بعد عین موسم بہار اپریل 571ھ، 9 ربیع الاول کو عبداللہ کے گھر فرزند تولد ہوا- بوڑھے اور زخم خوردہ عبدالمطلب پوتے کی پیدائش کی خبر سن کر گھر آئے اور نومولود کو خانہ کعبہ لیجا کر اس کے لیے دعا مانگی- 
( تاریخ اسلام، معین الدین ندوی ج ص: 25)

٭ 20 اپریل 571ھ مطابق 9 ربیع الاول دوشنبہ کی مبارک صبح قدسی آسمان پر جگہ جگہ سرگوشیوں میں مصروف تھے کہ آج دعائے خلیل اور نویدمسیحا مجسم بن کر دنیا میں ظاہر ہوگی- 
(محبوب خدا، چودھری افضل حق، ص:20)

٭ اسی طرح ابوالکلام آزاد نے "رسول حرمت" اور ڈاکٹر اسرار احمد نے "رسول کامل" صفحہ 23 اور حفظ الرحمن سوہاری نے قصص القرآن جلد 4 میں 9 ربیع الاول کو پیدائش کا دن ٹھرایا- 

10 ربیع الاول

ماہ ربیع الاول کی 10 راتیں گذریں تھیں کہ دوشنبہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے- 
(الطبقات الکبرای لابن سعد، 100 مطبوعۃ بیروت-)

12 ربیع الاول

٭ واقعہ فیل کے پچپن روز کے بعد 12 ربیع الاول مطابق 20 اپریل 571ھ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی- 
(محمود احمد رضوی – دین مصطفی، ص:84)

٭ 12ربیع الاول کو حضور صلی اللہ علیہ مسلم رونق افروز گیتی ہوئے-
(ضیاء القرآن، پیر کرم شاہ الازہری، ج 5، ص:665)

٭ 12 ربیع الاول کی صبح صادق کے وقت مکہ مکرمہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی-
(تبرکات صدر الافضل، ص:199، مرتبہ حسین الدین سواد اعظم لاہور-)

17 ربیع الاول

شیعہ کے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا دن 17 ربیع الاول ہے- چنانچہ سید انجم الحسن کراروی نے اپنی کتاب "چودہ ستارے" کے صفحے 28، 29 پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا دن 17 ربیع الاول ذکر کیا ہے-

اسی طرح مسعود رضا خاکی نے مضمون "چودہ معصومین" میں لکھا ہے کہ فقہ جعفریہ کے علماء کے نزدیک طے شدہ ولادت 17 ربیع الاول ہے- 
(البشر، ماہنامہ لاہور ھادی انسانیت نمبر فروری 1980ہ، ص:50)

نوٹ: اب میلادی بھائی سب سے پہلے آپس میں کسی ایک تاریخ پر متفق ہوجائيں پھر ہم سے بحث ومباحثہ کریں کہ میلاد النّبی منانا جائز ہے کہ نہیں- (منہج سلف)۔

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی عظمت


مغربی الحاد:

اس وقت برصغیر میں ہر طرف مغربی الحاد کا رونا رویا جارہا ہے اور اس سیلاب میں اسلام کے بہ جانے کا خطرہ محسوس کیا جارہا ہے، لیکن کیا واقعی اسلام کو آج بھی مغربی خیالات سے وکئی خطرہ لاحق ہے؟ میرے خیال میں باکل نہیں- اسلام کو آج تک بیرونی قوتوں سے، خواہ وہ مادی ہوں یا ذھنی، نقصان نہیں پہنچا اور نہ آئندہ پہنچ سکتاہے کیونکہ وہ دین فطرت ہے اور اس کی بنیادیں حق کی ٹھوس چٹان پر قائم ہیں- البتہ جو کچھ نقصان پہنچ چکا ہے اور جس کا آغندہ اندیشہ ہے، وہ اندرونی فساد ہے نہ کہ بیرونی حملہ- تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان ہمیشہ خود ہی اسلام کے دشمن بنے اور اپنےہی ہاتھوں اس کی عمارت ڈھاتے رہے ہیں- خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بدنصیبی کی پیشین گوئی کردی تھی جو امام مسلم اور اصحاب سنن نے روایت کی ہے- آپ نے فرمایا:
" اللہ تعالی نے میرے لیے زمین سمیٹ دی اور میں نے اس کا مشرق و مغرب سب دیکھ لیا- میری امت کی سلطنت وہاں تک پہنچے گی جہاں تک زمین مجھے دکھائی گئی ہے مجھے سرخ اور سفید (سونا چاندی) دونوں خزانے بخش دیے گئے- میں نے اللہ تعالی سے التجا کی کہ میری امت کو قحط سے ہلاک نہ کرے اور اس پر خود اپنے سوا، کسی اور کو مسلط نہ کرے جو اس کا ملک اس سے چھین لے-"
اللہ تعالی نے جواب دیا: " اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)! جب میں فیصلہ کردیتا ہوں تو وہ ٹالا نہیں جاسکتا- میں نے تیری التجا منطور کرلی کہ تیری امت قحط سے ہلاک نہیں کروں گا اور اس پر خود اس کے اپنے سوا کسی کو مسلط نہیں کروں کا جو اس کا ملک اس سے چھین لے، اگرچہ ساری دنیا بھی اس ارادے سے اس کے خلاف جمع ہوجائے یہاں تک کہ تیری امت خود باہم ایک دوسرے کو ہلاک اور قید کرنے لگ جائے-"
( صحیح مسلم، الفتن، باب ھلاک ھذہ الامۃ بعضھم بعض، حدیث:2889)

علمائے سوء اور مدعیان تصوف:

علمائے سوء کا جمود، تقلید اور دین فروشی اور داعیان تصوف کا شرک و بدعت اور نفس پرستی-
یہی وہ جراثیم ہیں جنہوں نےاسلام کو اس اس حال میں کردیا ہے کہ اسے پہچانا مشکل ہوگیا ہے اور مسلمانوں کی حالت ایسی بنادی ہے کہ ننگ انسانیت و شرافت اور مضحکہ اقوام و ملل ہوگئے ہیں-

اصل خطرہ:

طویل غور و فکر کے بعد دیانت داری اور ذمہ داری کے ساتھ میں اپنے اس یقین کا بے خوف و حطر اعلان کرتا ہوں کہ مغربی افکار سے اسلام کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا، البتہ اسلام اور مسلمانوں کی بربادی جس چيز سے مکمل ہورہی ہے وہ صرف علماء سوء اور نام نہاد صوفیون کے فتنے ہیں- بدقسمتی سے ہم میں اخلاص کی بہت کمی واقع ہوگئی ہے اس لیے سرداری کے بھوکے چالاک لوگ، مغربی افکار کے موہوم خطرات سے مصنوعی جنگ میں مصروف ہوگئے ہیں، حالانکہ اس فرضی جنگ سے اسلام کو مطلقا کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا البتہ ان اشخاص کو اس سے ذاتی فوائد ضرور حاصل ہورہے ہیں- اگر ان لوگوں میں اسلام اور مسلمانوں کا درد ہوتا تو اس بازی گری کو چھوڑ کر جمود و تقلید اور شرک و بدعت کے خلاف اعلان جنگ کردیتے، جس سے واقعتا اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت ہوسکتی، مگر وہ ایسا نہیں کرتے- 
جھوٹی سرداری کے طلب گاروں سے مجھے کوئی سروکار نہین، لیکن جو لوگ سچا اسلامی درد رکھتے ہیں اور حقیقی اصلاح چاہتے ہیں، ان سے میں مکمل نا صحانہ اور خیر خوانہ انداز کے ساتھ کہتا ہوں کہ وہ خود غرصوں کے شور و غل سے دھوکہ نہ کھائيں- اسلام اور مسلمانوں کے لیے بیرونی مہلک خطرہ درپیش نہیں ہے، البتہ وہ اندرونی خطرہ ہے جو تمام سابقہ بربادیوں کا اصل سر چشمہ ہے اور اگر اسے اب بھی رفع نہ کیا گیا تو عنقریب یہ مکمل تباہی اور بربادی کا باعث بنے گا-

بہترین تدبیر:

میرے علم و دانست میں اس اندرونی خطرے کا مقابلہ جن ہتھیاروں سے کیا جاسکتا ہے ان میں ایک نہایت کارگر ہتھیار شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے علوم و معارف مسلمانوں میں اشاعت ہے- اسلام کی پوری علمی و اصلاحی تاریخ میں ان کے مانند دلیری و کامیابی سے کسی شخص نے شرک و بدعت کا مقابلہ نہیں کیا- وہ صحیح معنوں میں مجدّد تھے اور بلامبالغہ انھوں نے اسلام کی گرتی ہوئی عمارت از سر نو قائم کردی-

ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی عظمت:

اس حقیقیت کا اعتراف مسلمان مؤرخین ہی نہیں، یورپین مستشرقین نے بھی کیا ہے-
جرمن اسکالر لکھتا ہے:
" اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جو عظیم الشان تحریک امام ابن تیمیہ (رحمہ اللہ) سے شروع ہوئی اور جس میں اسلام کے اصلی و حقیقی اجحانات پوری طاقت سے ظاہر ہوئے، اس نے کثیر اندرونی و بیرونی خطروں کے مقابلے میں اسلام کی خود اعتمادی کا زبردست ثبوت پیش کیا ہے جو تیرہویں صدی عیسوی میں اسلام کے وجود کو لاحق تھے- صلیبی جنگوں اور ان سے بھی زیادہ تاتاری یلغاروں نے مسلمانوں کی قوت کو مفلوج اور ان کی خود اعتمادی کو بہت مضمحل کردیا تھا- اشعری اصول و عقائد کارآمد نہیں ہوسکتے تھے- صوفیوں کا عقیدہ ہر لحاظ سے مسلمانوں کے اخلاق کو کمزورکرنے والا ثابت ہوا تھا- اسلامی دنیا میں ولی پرستی، محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)کی تعلیمات کے ساتھ لگاتار متصادم تھی- ابن تیمیہ (رحمہ اللہ) اور ان کے تلامذہ اپنی دعوت کی ذمہ داریاں اٹھانے کی پوری اہلیت رکھتے تھے- وہ بڑے ہی پرجوش و سرکرم تھے- انھوں نے بڑی مردانگی کے ساتھ اپنے عقائد کا اعلان کیا، ایسا اعلان جو عطیم حیالات کے زیر اثر انسان ہی سے ممکن ہے-"
یہی اسکالم ایک دوسری جگہ لکھتا ہے:
" اسلام، رومن کیتھولک مسیحیت کی طرح ہوگیا تھا مگر ابن تیمیہ (رحمہ اللہ) نے اس کی ازسرنو تحدید کردی-"
"Book: Contribution to the History of civilization
Writer: Von Kremer Alfred
انگلش ترجہ: صلاح الدین بخش بیرسٹر
مسلمان مصنفین میں خصوصیت کے اعتبار سے جو امتياز شیخ الاسلام کو حاصل تھا وہ یہ ہے کہ ان کے مباحث جدّت اور زندگی سے لبریز ہیں- طریق استدلال از حددل نشین اور معقول ہے- دل و دماغ کو بیک وقت متاٹر کرتا ہے، چونکہ وہ علم کا بحرزخار ہیں اس لیے ہر مسئلے پر قیصلہ کن بحث کرتے ہیں اور مخاطب قائل ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا-

ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی اصلاحی تحریک:

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی اصلاحی تحریک کا اصل مقصد یہی تھا کہ اسلام اور مسلمانوں کو علمائے سوء کے جمود و تقلید اور مدعیان تصوف کے شرک و بدعت سے نجات دلائی جائے- یہی وجہ ہے کہ ان کی بیشتر تصانیف کا موصوع یہی چيز ہیں اور حق یہ ہےکہ انھوں نے دونوں فتنوں پر بہت ہی زبردست ضربیں لگائی ہیں- افسوس! ان کی زندگی کا زیادہ عرصہ قید خانے میں گزرا، ورنہ قوی امید تھی کہ وہ ان فتنوں کا بالیل قلع قمع کرڈالتے- اس سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ان کے بعد کوئی ان جیسا صاحب عزم پیدا نہ ہوا جو توحید کا پرچم برابر بلند رکھتا- نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان بتدریج ان کی تعلیمات سے غافل ہوگئے، حتی کہ ان کی متعدد تصانیف بھی ضائع ہوگئيں جن میں سب سے اہم تفسیر القرآن تھی- یہی نہیں بلکہ عاقبت نا اندیشہ لوگوں نے خود اس علمبدار توحید اور دشمن شرک و بدعت کی قبر پر پرستش شروع کردی- 



امید کی کرن:

لیکن یہ واقعہ مسلمانوں کی مایوس کن حالت میں کسی خوشگوار تبدیلی کی امید دلا رہا ہے کہ صدیوں گمنام رہنے کے بعد جب سے شیخ الاسلام کی تصانیف شایع ہونا شروع ہوئي ہیں، تمام اسلامی ممالک میں ان کا گرم جوشی سے استقبال کیا جارہا ہے- یہ خیر مقدم زیادہ تر اس جدید طبقے کی طرف سے کیا جاتا ہے جو مغربی افکار سے متاثر ہوکر جمود و تقلید کے چنگل سے اواد ہوچکا ہے- اس لحاظ سے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مغربی خیالات مسلمانوں کے لیے فتنہ ثابت ہونے نے زیادہ رحمت ثابت ہورہے ہیں- کتنی ہی قباحتیں اور مفاسد بیان کیے جائين، مگر ان کے اس فائدے سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ عقل کو جمود و تقلید کے بندشوں سے آزاد کردیتے ہین اور یہ بات واضح ہے کہ عقل کی آزادی ہی اصلاح کی اولین شرط ہے-بلاشبہ یہ خیالات علمائے سوء اور بدعتی صوفیوں کے اسلام کے لیے حطرہ ہیں، یعنی اس اسلام کے لیے جو صرف تقلید و جہل کی ظلمتوں ہی میں زندہ رہ سکتا ہے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علکیہ وسلم کے اسلام کو ان سے کوئی خطرہ نہیں بشرطیکہ اسے اس کے حقیقی صورت میں نئی نسلوں کے سامنے پیش کیا جائے-
امام تیمیہ رحمہ اللہ کی تصانیف کی اشاعت سے یہ مقصد بھی پورا ہوسکتا ہے-

اہل حدیث:

بعض مسلمان اس طرح کی گمراہیوں اور بے راہ روی میں مبتلا ہیں- صرف ایک جماعت اہل حدیث ہی صحیح اسلام پر استوار ہے، مگر بدقسمتی سے اس میں بھی فساد آگیا ہے- یہ جماعت صحیح عقائد بھی رکھتی ہے اور صحیح اعمال بھی، لیکن ایک طرف افراط و تفریط میں مبتلا ہوگئی ہے اور دوسری طرف ایک اہم فریضہ دین سے غافل ہوچکی ہے-
اہم ترین فریضہ دین جس سے یہ جماعت غافل ہوگئی ہے، وہ جہاد فی سبیل اللہ ہے- ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک جہاد نہ کیا جائے یا کم از کم اس کا پختہ عزم نہ رکھا جائے-
حدیث میں ہے کہ:
" بارہ ھزار سچے مسلمانوں پردنیا کی کوئی قوت غالب نہیں آسکتی"
(سنن ابی داؤد، الجہاد، باب فی ما یستحب من الجیوش والرفقاء والیسرا، حدیث:2611-)
اس حدیث کو امام حاکم نے صحیح قرار دیا ہے، امام ذھبی نے ان کی تائید کی ہے اور امام ترمذی نے بھی اسے حسن کہا ہے-

لیکن لاکھوں کی تعداد میں اہل حدیث موجود ہین مگر کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتے- وجہ یہی ہے کہ فریصہ جہاد کے عمل و ارادے سے ان کے دل غافل ہوگئے ہیں-
میں پھر کہتا ہوں کہ صرف جماعت اہل حدیث ہی حقیقی اسلام پر قائم ہے- اور اگر یہ دونوں فساد دور کردیے جائيں تو اسلام کو پھر سے عروج حاصل ہوسکتا ہے- بلاشبہ اہل حدیث نجد، فریصہ جہاد ادا کرہے ہیں-
شیخ الاسلام رحمہ اللہ اپنے عہد کے بہت بڑے مجاہد تھے- مصر میں تاتاری یلغار صرف انھی کی اولواعزمی سے ناکام رہی- ان کی تصانیف مجاہدانہ روح سے لبریز ہیں اور ان کی اشاعت سے مسلمانوں کے دلوں میں گرمی پیدا کی جاسکتی ہے-
یہی وہ اسباب ہین جن کی بنیاد پر میں نے شیح الاسلام کی تصانیف کے اردو ترجمے کا کام اپنے ذمے لیا ہے-

صراط مستقیم:

"صراط مستقیم" شیخ الاسلام رحمہ اللہ کی جلیل قدر کتاب "اقتضاء الصارط المستقیم مخالفتہ اصحاب الجحیم" کا اختصار ہے- اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ مذکورہ جرمن اسکالر بھی، جو بالکل غیر جانبدار ہے، اس کی تعریف کرتے ہوئے لکھتا ہے:
" ابن تیمیہ (رحمہ اللہ) کی یہ کتاب مسلمانوں کی زندگی کے وہ تمام پہلو بڑی خوبی سے روز روشن کی طرح ظاہر کردیتی ہے جو مشرکانہ و بت پرستانہ ہیں-"
(Contribution to the History of the Civilization)

کفار کی عیدیں:

شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے ثابت کردیا ہے کہ کفار کی عیدوں، تہواروں، اور میلوں میں مسلمانوں کی شرکت کسی حیثیت سے بھی روا اور جائز نہین مکر اس سے غلط فہمی میں نہیں پڑنا چاہیے- اس حکم میں وہ تقریبات داخل نہین ہے جو مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے مشترک وطنی مصائب یا مسرتوں کی یادگار کو طور پر منائی جاتی ہین- ان تقریبات کور محافل کا دینی عقائد سے کوئی تعلق نہیں ہوتا- بلکہ وہ سراسر دنیاوی معاملات سے تعلق رکھتی ہیں- اسلام میں دین اور دنیا کی کوئی تفریق ہے نہ انسانی زندگی کا کوئی مسئلہ اسلامی حدود سے تجاوز ہے فرق صرف رہنمائی کا ہے- عبادت مین حرمت اصل ہے (یعنی جس کا شریعت میں حکم موجود نہ ہو کام نہین کرسکتے-) معاملات میں اباحت (جواز) اصل ہے یعنی جس کام پر شریعت نے پابندی نہیں لگائی ہو وہ کرسکتے ہیں- ایسے ایام اور ان پر ہونے والے امور کا اسی اصول کے تحت جائزہ لیں گے کہ وہ اسلامی منہیات 

سے متصادم تو نہیں ہیں-


عبدالرزاق ملیح آبادی (کلکتہ)
    مترجم: اقتضاء صراط مستقیم از امام تیمیہ 

مسجد کے آداب اور عمرفاروق کا کوڑا


مسجد کے آداب اور عمرفاروق کا کوڑا


عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ كُنْتُ قَائِمًا فِي الْمَسْجِدِ فَحَصَبَنِي رَجُلٌ، فَنَظَرْتُ فَإِذَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَقَالَ اذْهَبْ فَأْتِنِي بِهَاذَيْنِ‏.‏ فَجِئْتُهُ بِهِمَا‏.‏ قَالَ مَنْ أَنْتُمَا ـ أَوْ مِنْ أَيْنَ أَنْتُمَا؟ قَالاَ مِنْ أَهْلِ الطَّائِفِ‏.‏ قَالَ لَوْ كُنْتُمَا مِنْ أَهْلِ الْبَلَدِ لأَوْجَعْتُكُمَا، تَرْفَعَانِ أَصْوَاتَكُمَا فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم . 

( صحيح البخاري :470، المساجد – السنن الكبرى :2/447،448 – مصنف عبد الرزاق :1/438 )

ترجمہ : حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بار میں مسجد نبوی میں سویا ہوا تھا کہ کسی نے مجھے کنکر پھینک کر مارا ، جب میں نے دیکھا تو وہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ تھے ، انہوں نے مجھ سے کہا کہ : جاؤ اور ان دونوں آدمیوں کو بلا کر لاؤ ، جب میں ان دونوں کو بلا کر لایا تو حضر عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا : تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو ؟ ان دونوں نے جواب دیا کہ ہم طائف سے آئے ہیں ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اگر تم اہل مدینہ میں سے ہوتے تو میں تم کو سخت سز ادیتا ، تم دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں اپنی آواز بلند کررہے ہو ۔ 

{ صحیح بخاری و سنن کبری }

تشریح : محبت ،خوف اور رجا کے ساتھ تعظیم عبادت الہی کے لازمی جزء ہیں ، ضروری ہے کہ اللہ تعالی کی عبادت کرتے وقت جہاں اس سے محبت ، خوف ، رجا وغیرہ جیسے قلبی جذبات انسان کے اندر موجزن ہوں وہیں اس ذات ذو الجلال و الاکرام کی تعظیم کا جذبہ بھی کار فرما ہو ، یہی وجہ ہے کہ غایت تعظیم کی جتنی صورتیں ہیں وہ صرف باری تعالی کے ساتھ خاص ہیں جیسے سجدہ ، رکوع اور ہاتھوں کو باندھ کر بلا حس وحرکت کھڑا ہونا ، واضح رہے کہ تعظیم صرف اعمال عبادت تک خاص نہیں بلکہ امکنہ عبادت کی بھی تعظیم ، تعظیم الہی کا ایک حصہ ہے چنانچہ اللہ تعالی فرماتا ہے :

[وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى القُلُوبِ] 
{الحج:32} 

"اور جو شخص اللہ کے شعائر کی تعظیم کرتا ہے تو یہ بات اس کے دلوں کے تقوی سےتعلق رکھتی ہے "

اس آیت میں شعائر سے مراد وہ تمام اشیاء ہیں جو دین اسلامی کے نمایاں امتیازی امور ہیں ،جیسے ، کعبہ مشرفہ ، صفا مروہ ، عرفات ، منی ومزدلفہ وغیرہ نیز اذان ، مسجدیں اور وہ دینی محفلیں داخل ہیں جو اللہ تعالی کے نام پر قائم کی جائیں ۔

یہ بات آج ملاحظے میں ہے کہ ذات باری تعالی اور اس کے شعائر سے متعلق تعظیم کا جذبہ لوگوں کے دلوں سے مفقود ہوتا جارہا ہے خصوصا مسجدوں کی تعظیم تو اب سرے سے ناپید ہوتی جارہی ہے جب کہ مسجد اللہ کے شعائر میں بہت اونچا مقام رکھتی ہے ،

جس کا اندازہ زیر بحث حدیث سے ہوتا ہے کہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے یہاں تک گوارہ نہیں کیا کہ مسجد رسول میں بلند آواز سے گفتگو کی جائے اور ان دونوں کو سخت سزا دینا چاہا لیکن صرف اس بنیاد پر سخت سزا دینے سے باز رہے کہ وہ لوگ مدینہ منورہ جو مرکز علم تھا اس سے دور کے رہنے والے تھے ، بلکہ آپ رضی اللہ عنہ نے تو مسجد کی تعظیم کو یہاں تک مدنظر رکھا کہ مسجد نبوی سے باہر ایک چبوترہ بنوادیا تھا کہ اگر کوئی شخص دنیاوی بات چیت کرنا چاہتا ہے تو وہ مسجد سے نکل جائے اور باہر بیٹھ کر گفتگو کرے ۔
{ موطا امام مالک}

لیکن افسوس کہ آج مسلمانوں نے مسجدوں کے اس ادب کو کھودیا ہے حتی کہ حرمین شریفین کے ادب کو بھی بالائے طاق رکھ دیا ہے خاص کر موبائل اور اس کی میوزک نما گھنٹی کی شکل میں تو مسجدوں کے ساتھ کھلی بے ادبی ہورہی ہے اور معاملہ یہاں تک پہنچ چکا ہے کہ لوگ اپنے موبائلوں میں موسیقا اور گانوں کی گھنٹی رکھتے ہیں اور بغیر بند کئے عام مسجدوں اور حرمین شریفین میں داخل ہوجاتے ہیں ، پھر نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مسجدوں بلکہ حرمین شریفیں میں نمازوں کے دوران مختلف گھنٹیوں اور گانے باجے کی آواز سنائی دیتی ہے ، جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ مسجد کی اہمیت اور ادب لوگوں کے دلوں سے ناپید ہے ،یہ حضرات یہ دھیان نہیں دیتے کہ کس کے دربار اور کس کی مجلس میں حاضری کے لئے جارہے ہیں ؟ اس طرح اگر غور کیا جائے تو وہ لوگ کئی جرموں کے مرتکب ہورہے ہیں ۔


[۱] اللہ کے ساتھ سوء ادب ۔

[۲] نماز میں خشوع وخضوع میں خلل اندازی ۔

[3] مسلمانوں کو تکلیف دینا اور ان کی نماز میں خلل اندازی ۔

[۴] اور سب سے بڑی بات یہ کہ مسجد میں شیطانی آواز ۔ 


اس لئے ضروری ہے کہ اس طرف توجہ دی جائے ورنہ ڈرہے کہ ہم لوگ اس حدیث کے ضمن میں آجائیں ، آخری زمانے میں کچھ ایسے لوگ ظاہر ہوں گے کہ وہ مسجدوں میں دنیا کی باتیں کریں گے ، ایسے لوگوں کی اللہ تعالی کو کوئی ضرورت نہیں ۔ { صحیح ابن حبان } عیاذ باللہ ۔

فوائد :


1. مسجد میں سونا جائز ہے ۔

2. مسجد میں بلا ضرورت آواز بلند کرنا ، شور مچانا جائز نہیں ہے ۔

3. مسجد کی تعظیم گویا اللہ تعالی کی تعظیم ہے ۔

4. مسجد میں داخلہ کے وقت اپنے موبائل کو خاموش {سائلنٹ } رکھنا ضروری ہے ۔ 



Wednesday 13 July 2011

اسامہ بن لادن کی موت کے بارے میں شبہات


السلام علیکم ورحمۃ اللہ
میرا آج کا موضوع ہے:
اسامہ بن لادن کی موت  کے بارے میں شبہات

پچھلے  ہفتے کی گرما گرم بحث کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے اسامہ بن لادن کے موضوع کو آخری رخ دے کر ختم کرنے کا اردہ کرلیا ہے،  یہ میرا ان پر آخری موضوع ہے۔
امید کرتا ہوں کہ اس موضوع کو بھی بڑے  ٹھنڈے مزاج سے اور حقیقت  سے پر ہوکر اور جذبات کو بالائے تاک رکھ کو زیر غور فرمائيں گے۔ ان شاءاللہ
سب سے پہلے آپ ایک بات کو مد نظر رکھیں کہ آج تک مغربی میڈیا نے جو عکس مسلمانوں کا پیش کیا ہے یا جو روپ انہوں نے اسامہ بن لادن کیا پیش کیا ہے یا وہ تصویر کشی انہوں نے  دھشتگردی کی مھیا کی ہے یا جو  نظریہ انہوں نے تکفریوں سے لےکر مسلمانوں پر تھوپا ہے یہ چيزیں ہرگز ہرگز اسلام یا مسلمانوں کا پیشہ خیمہ نہیں ہیں۔
سب لوگ جانتے ہیں کہ اس وقت دنیا میں مغربی میڈیا بہت طاقتور ہے یا یوں کہیں کہ مغربی میڈیا پوری دنیا پر قابض ہے کہ حکومت کررہی ہے اور جو امیج وہ مسلمانوں کا پیش کرے گی دنیا اس کو ہی حقیقت تسلیم کرتی ہے۔
ہاں یہ اور بات ہے کہ اس پوری طاقتور میڈیا مافیا میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو ان کے انتہانہ پسدانہ نظریہ کے مخالف ہیں اور اسلام اور مسلمانوں کا حقیقی روپ پیش کرنے کی حتی الامکان کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں۔
مغربی میڈیا کا ہر بندہ اسلام مخالف نہیں ہے، ہر اینکر یا ہر اینالسٹ مسلمانوں کا دشمن نہیں ہے اور وہ اس کوشش میں سرگرداں ہے کہ کہیں سے مغربی میڈیا و حکومتوں کی اسلام مخالف سازش کا پتہ چلایا جائے اور اس راز کو افشاں کیا جائے۔
ایسے بہت سے محقق مغرب میں آج بھی موجود ہیں اور ان کی تحقیقات کو اب بھی مسلمان قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ الحمدللہ
بہت سے ایسے سچے، حقیقت پسند  اور میڈیا مافیا کی سازشوں سے دور لوگوں نے اپنی ویب سائیٹس، بلاگز  بنا رکھے ہیں اور اپنے تحقیق آرٹیکلس سے دنیا کو ان سازشوں سے آگاہ کرتے رہتے ہیں۔
اب یہ اور بات ہے کہ ہمارے کچھ تنگ نظر لوگ اس کو بھی مغربی سازش کا نام دیں تو  ان کی عقل پر ہم ہنس ہی سکتے ہیں۔
اگر آپ لوگ مغری میڈیا کی منفی سوچ کے علاوہ ایسے لوگوں  کی مثبت سوچ کو پڑھیں تو آپ کو حقیقت کچھ اور نظر آئے گی، میں مغربی میڈیا کا رسیا یہ ان کا گرویدہ یا ایجنٹ یا جوبھی آپ الزام لگائيں یا نام رکھیں وہ نہیں ہوں بلکہ مغرب میں رہتے ہوئے میں سکے کے دونوں پانسوں کو دیکھنے کا عادی ہوں، اگر جہاں مغری میڈیا میں 100 بندے اسلام مخالف ہیں اور اللہ رب العزت نے وہاں ایک بندہ ایسا ضرور پیدا کیا ہے جو ان سب کی سوچوں سے متفق نہیں ہے اور وہ حقیقت کی کھوج میں کوشاں رہتا ہے تو کیوں نہ ہم لوگ ایسے بندوں کی کھوج لگائيں اور ان کو پڑھیں کہ کیا بات ہے کہ ایک طرف 100 لوگ اسلام کے خلاف منفی سوچ رکھتے ہیں  اور ان میں سے ایک بندہ مثبت سوچ کا حامی ہے تو کوئی نہ کوئی بات ضرور ہوگی۔ ان شاءاللہ
تو میں ایسے لوگوں کو پڑھنے کا عادی ہوں، باقی لوگوں کی منفی باتیں تو ویسے ہی پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں جن کی تلاش کرنے کی ضرورت نہیں رہتی، اصل ضرورت ہے ایسے لوگوں کے تاثرات قلم بند کرنے کی جو ان سازشوں کو کسی اور نظر سے دیکھتے ، پرکھتے اور ہم سب کے سامنے رکھتے ہیں، اب یہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم ان کی تحریروں کا کتنا اثر رکھتے ہیں۔
تو یہ وہ بات تھی جو میں نے آپ کے سامنے اپنے نقطہ نظر کے طور پر پیش کی تھیں کہ جذبات میں آنے سے پہلے کسی کے نظریات کو پڑھنے سے اصل حقیقت کی رو تک باآسانی پہنچ سکتے ہیں باقی الزامات لگانے اور اول فول بولنے سے کسی کی ذات پر کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ اگلے کے اخلاق  کی حد ضرور سامنے پہنچ جاتی ہے۔
تو امید کرتا ہوں کہ میری اس آخری تحریر کو بھی مثبت سوچ سے پڑھیں گے اور اس پر تنقید کرنا آپ کا ولین فرض ہے  کہ میں نے تنقید کو کبھی نہیں روک بلکہ اگر تنقید اخلاق، عزت، ادب و احترام کے دائرے میں ہو تو اگلے کے علمی  رتبے کا پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک علمی تحقیق پر مبنی تحریر ہے اور یہ تحریر و تحقیق میری اپنی نہیں ہے قلم میرا ہے مگر تحقیق مغربی مثبت سوچ رکھنے والے بندوں کی ہے جو آپ  یا ہم تک اصل حقیقت سے پردہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ ان شاءاللہ
ایسے  ہی پرنٹ میڈیا  میں ایک مثبت سوچ رکھنے والے محقق کا نام ہے "گورڈن ڈف
مسٹر گوڈن ڈف نے اپنا ایک آرٹیکل پیش کیا تھا جس کا عنوان تھا:


دھائیاں پہلے یو ایس اے کھلے عام اسامہ بن لادن کی موت کا اقرار کر چکی تھی۔

Conservative commentator, former Marine Colonel Bob Pappas has been saying for years that bin Laden died at Tora Bora۔
کنزر ویٹو کمانڈر و سابقہ میرین کرنل باب پاپاس کافی سال پہلے کہ چکا تھا کہ بن لادن تورا بورا میں مر چکا ہے۔

  Now we know that Pappas was correct.
اور اب ہم جانتے ہیں کہ پاپاس صحیح کہ رہا تھا۔

However, since we lost a couple of hundred of our top special operations forces hunting for bin Laden after we knew he was dead۔
جیسا کہ ہم نے سیکڑوں اپنے فوجی جوان کی جانیں گنوادیں بن لادن کی تلاش میں حالانکہ ہم جانتے تھے کہ وہ مر چکا ہے۔

 Since we spent 200 million dollars on “special ops” looking for someone we knew was dead, who is going to jail for that?
ہم نے 200 ملین‎ ڈالرس خرچ کیے اس کی تلاش میں جس کا ہمیں پتہ کہ وہ مرچکا ہے تو کون اس کا ذمہ دار ہے اور کس کو جیل میں جانا چاہیے؟

In 66 pages, General Stanley McChrystal never mentions Osama bin Laden.  Everything is “Mullah Omar”now.  In his talk at West Point, President Obama never mentioned Osama bin Laden۔
66 صفحات میں کہیں بھی جنرل مک کرسل نے بن لادن کا ذبر نہیں کیا مگر صرف ملاں عمر کا، اوبامہ نے بھی اپنی اسپیچ ویسٹ پوائنٹ میں کھبی بھی اسامہ کا ذکر نہیں کیا۔

America knew Osama bin Laden died December 13, 2001۔
امریکیوں کو پتہ تھا کہ اسامہ بن لادن 13 دسمبر 2001  میں وفات پاچکا ہے۔

The bin Laden scam is one of the most shameful acts ever perpetrated against the American people.  We don’t even know if he really was an enemy, certainly he was never the person that Bush and Cheney said.  In fact, the Bush and bin Laden families were always close friends and had been for many years.
بن  لادن کے بارے میں جھوٹ سب سے بڑا شرم والا کھیل تھا جو امریکی عوام کے خلاف کھیلا گیا، ہم یہاں تک کہ یہ بھی نہیں جانتے کہ بن لادن واقعی امریکی دشمن تھا، حالانکہ یہ اس طرح کا بندہ نہیں تھا جس طرح بش و ڈک چینی نے اسے پیش کیا بلکہ حقیقت میں بن لادن فیملی اور بش کے فیملی ہمیشہ آپسی میں گہرے دوست رہے ہیں کافی سالوں سے۔

For years, we attacked the government of Pakistan for not hunting down someone everyone knew was dead.  Bin Laden’s death hit the newspapers in Pakistan on December 15, 2001.
کافی سالوں سے، ہم پاکستانی حکومت سے زبانی حملے/تنقید کرتے رہتے ہیں اس بندے کو نہ پکڑنے کی وجہ سے جس کے بارے میں ہمیں پہلے ہی پتہ ہے کہ وہ مر چکا ہے، جس کے موت کی خبریں 15 دسمبر 2001 میں پاکستانی اخبارات کی زینت بھی بنی تھیں۔

How do you think our ally felt when they were continually berated for failing to hunt down and turn over someone who didn’t exist?
آپ کیا محسوس کرتے ہونگے کہ ہمارے اتحادی اس بندے کی تلاش میں مسلسل ناکامی کا شکار ہیں جو اس دنیا میں وجود ہی نہیں رکھتا۔

What do you think this did for American credibility in Pakistan and thru the Islamic world?  Were we seen as criminals, liars or simply fools? 
آپ کو کیا لگتا ہے کہ امریکی ساکھ بچانے کے لیے پاکستان وی اسلامی دنیا میں اس طرح کیا گیا؟ کیا ہم دنیا میں مجرم، جھوٹے اور بے وقوف نظر نہیں آرہے ہیں؟

How many “Pentagon Pundits,” the retired officers who sold their honor to send us to war for what is now known to be domestic political dirty tricks and not national security are culpable in these crimes?
کتنے پینٹاگوں بنڈت، رٹائرڈ آفیسرز نے اپنا ضمیر بیچا ہم (امریکیوں) کو اس جنگ میں بھیج کر جو سواء ڈومیسٹک سیاسی کچرے تھا نہ کہ امریکی نیشنل سیکیورٹی۔

We spent 8 years chasing a dead man, spending billions, sending FBI agents, the CIA, Navy Seals, Marine Force Recon, Special Forces as part of a political campaign to justify running American into debt.
ہم نے 8 سال گذارے، بلینس خرچ کیے، ایف بی آئی و سی آئ اے ایجنٹس، نیوی والے، میرینس فورس مالے، اسپیشل فورس والے سب بھیجے صرف ایک مرے ہوئے بندے کی تلاش میں، جوکہ ایک سیاسی جواز تھا۔


How many laws were pushed thru because of a dead man?
How many hundreds were tortured to find a dead man?
How many hundreds died looking for a dead man?
How many billions were spent looking for a dead man?
کتنے قانون بن گئے ایک مرے ہوئے بندے کے ذریعے؟
کتنے سیکڑوں کو ٹارچر کیا گیا ایک میرے ہوئے بندے کی معلومات حاصل کرنے کے لیے؟
کتنے سیکڑوں مرگئے ایک مرے ہوئے بندے کی تلاش میں؟
کتنے بلینس ڈالرس خرچ کیے ایک مرے ہوئے بندے کو تلاش کرنے کے لیے؟

Every time Bush, Cheney and Rumsfeld stood before troops and talked about hunting down the dead bin Laden, it was a dishonor.  Lying to men and women who put their lives on the line is not a joke.
ہر دفعہ بش، ڈک چینی، رمسفیلڈ نے اپنی فوجیوں کے سامنے کھڑے ہوکر تقریر کی وہ بھی ایک مرے ہوئے آدمی کی تلاش میں، یہ ایک بے عزتی کا مقام تھا کہ جھوٹ بولا گیا ان مردوں و عورتوں سے جنہوں نے اپنی زندگیاں جنگ کے دہانے پر کھڑی کیں تھیں جوکہ کوئی مذاق نہیں تھا۔

Who is going to answer to the families of those who died for the politics and profit tied to the Hunt for Bin Laden?
کون جواب دہ ان فوجیوں کے خاندانوں کو جو مر گئے ایک سیاسی اور منافع والی جنگ میں جوکہ بن لادن کی تلاش سے منسلک تھی؟


گورڈن ڈف کے ایک اور آرٹیکل کو نظر سے اتاریں:

DOUBT THROWN ON PROOF BIN LADEN A TERRORIST LEADER

جس میں انہوں نے کہا ہے کہ:

Two weeks ago, CIA Director Leon Panetta told the press the CIA had not been able to positively confirm any specific information on Osama bin Laden since “late 2000.
دو ہفتے پہلے سی آئی اے کے ڈائریکٹر لیون پینٹا نے میڈیا کے سامنے کہا کہ سی آئی اے کو سن 2000 کے آخر سے  اسامہ بن لادن کے بارے میں کسی قسم کی کوئی  کنفرم معلومات نہیں تھی ۔

some at the highest levels, have confirmed that all evidence lends toward Osama bin Laden’s death in December 2001.
کچھ ہاء رینکنگ نے کنفر کیا ہے کہ سارے ثبوت اسامہ بن لادن کی دسمبر 2001 میں موت کی طرف جاتے ہیں۔

The transcripts of the last proven bin Laden interview, translated by the CIA, are compared to similar translations of a 2007 “broadcast” said to be by Osama bin Laden.
اب آخری ثبوت بن لادن کا انٹرویو جوکہ سی آئی اے کے ذریعے ٹرانسلیٹ کیا گیا تھا جوکہ بالکل 2007 جیسا ترجمہ تھا۔

 Yet transcripts of translated audio and video tapes, albeit widely disputed, are continually released by a news agency tied to Israeli intelligence services.
ترجمہ کی گئی آڈیوز، وڈیوز جو بہت حد تک پھیلائي گئي تھیں جوکہ مسلسل رلیز ہورہی تھی ایک نئی ایجنسی (الجزیرہ چینل) کے ذریعے جن کا لنک اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی (موساد) سے ہے۔

With dozens of films, videos and recordings, all claiming Osama bin Laden has taken credit for 9/11 and other terrorist attacks against America, Britain, Spain and other nations۔
لاتعداد فلمز، وڈیوز اور ریکارڈنگس سب میں یہ دکھایا گیا کہ اسامہ بن لادن سے سارے دھماکوں کا کریڈٹ اپنے سر لیا ہے، چاہے 11/9 ہو  یا دوسرے دھشتگرد حملے ہوں امریکا، برطانیا، اسپین اور دوسرے ملکوں میں کیے گئے۔

 ایک اور امریکی محقق پال جوزف ویٹسن نے اس بارے میں ایک اور آرٹیکل لکھا ہے جس کا عنوان ہے:


Top US Government Insider: Bin Laden Died In 2001, 9/11 A False Flag (confirmed!)

 

اس آرٹیکل میں ڈپٹی اسسٹنٹ سیکریٹی  آف یو ایس اے کو یہ انکشاف کرتے بتایا گیا ہے کہ:
He is prepared to tell a federal grand jury the name of a top general who told him directly 9/11 was a false flag attack۔
یہ فیدرل گرانڈ جیوری کو ایک فوج کے جنرل کا نام بتانے والا تھا جس سے اسے بتایا کا 11/9 کا واقعہ اندرونی سازش تھی۔

“Bin Laden had already been “dead for months,” and that the government was waiting for the most politically expedient time to roll out his corpse. Pieczenik would be in a position to know, having personally met Bin Laden and worked with him during the proxy war against the Soviets in Afghanistan back in the early 80′s”۔
ڈپٹی سیکریٹری آف اسٹیٹ نے یہ بھی انکشاف کیا کہ اسامہ بن لادن کافی مھینے پہلے مر چکا تھا اور حکومت صحیح وقت کا انتظار کررہی تھی اس کی موت کو کیش کرنے کے لیےاور ڈپٹی سیکریٹری اس بات کرنے کی پوزیشن میں تھا کیونکہ وہ ذاتی طور پر  بن لادن سے مل بھی چکا تھا اور یہ دونوں روس کے خلاف جنگ میں ایک دوسرے کے ساتھ کام بھی کرچکے تھے۔

Top US government insider Dr. Steve R. Pieczenik, a man who held numerous different influential positions under three different Presidents and still works with the Defense Department, shockingly told The Alex Jones Show yesterday that Osama Bin Laden died in 2001۔
امریکی ٹاپ آفیسر ڈپٹی سیکریٹری ڈاکٹر اسٹیو، جوکہ امریکا کے تین صدور کے ساتھ کام کرچکا ہے اور ابھی تک ڈفینس ڈپارٹمنٹ کے ساتھ منسلک ہے نے ایلیکس جان شو میں بتایا ہے کہ اسامہ بن لادن 2001 میں مرچکا تھا۔

Pieczenik said that Osama Bin Laden died in 2001, “Not because special forces had killed him, but because as a physician I had known that the CIA physicians had treated him and it was on the intelligence roster that he had marfan syndrome,” adding that the US government knew Bin Laden was dead before they invaded Afghanistan.
ڈپٹی سیکریٹری نے انکشاف کیا ہے کہ اسامہ بن لادن 2001 ایک میں وفات پاگیا تھا یہ نہیں کہ امریکی اسپیشل فورس نے اسے قتل کیا بلکہ ڈاکٹر ہونے کے ناتے مجھے معلوم ہے کہ ایک سی آئی اے کے ڈاکٹر نے اس کا علاج کیا تھا اور بتایا تھا کہ اسے مارفن سینڈروم بیماری ہے اور امریکی حکومت کو افغانستان پر حملہ کرنے سے پہلے اس کی موت کے بارے میں علم تھا۔

یہ کون سے بیماری ہے جو اسامہ بن لادن کو لگی تھی جس کی وجہ سے ان کی موت واقع ہوگئی تھی اس کے بارے میں نیچے مختصر جانیے۔
Marfan syndrome is a degenerative genetic disease for which there is no permanent cure. The illness severely shortens the life span of the sufferer.

“He died of marfan syndrome, Bush junior knew about it, the intelligence community knew about it,” said Pieczenik, noting how CIA physicians had visited Bin Laden in July 2001 at the American Hospital in Dubai.
انہوں نے مزید انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ بن لادن اس خطرناک بیماری سے وفات پاگیا تھا اور امریکی صدر بش جونیئر کو اس بارے میں معلوم تھا، انٹیلی جنس کمیونٹی کو بھی اس بارے میں علم تھا، اور اس نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ایک سی آئی اے کے فزیشن نے اسامہ بن لادن سے دبئی کی اسپتال میں ملاقات کی تھی۔
(میں  اس انکشاف بارے میں تحریر پیش کرچکا ہوں)

“He was already very sick from marfan syndrome and he was already dying, so nobody had to kill him,” added Pieczenik, stating that Bin Laden died shortly after 9/11 in his Tora Bora cave complex.
مزید بات کرتے ہوئے کہا کہ بن لادن اس خطرناک بیماری میں پہلے ہی بہت بیمار تھا اور وہ مرنے کے بالکل قریب پہنچ چکا تھا تو کسی کو بھی اسے مارنے کی ضرورت نہیں تھی اور 11/9 کے واقعہ کے فوری بعد تورا بورا میں اپنے ہی غار میں وہ اس دنیا سے رحلت کرگئے۔

Pieczenik, referring to Sunday’s claim that Bin Laden was killed at his compound in Pakistan, adding, “This whole scenario where you see a bunch of people sitting there looking at a screen and they look as if they’re intense, that’s nonsense,” referring to the images released by the White House which claim to show Biden, Obama and Hillary Clinton watching the operation to kill Bin Laden live on a television screen.
انہوں نے انٹرویو میں بتایا کہ اتوار کو کاروائی دکھائی گئی ہے کہ پاکستان میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کیا گیا ہے یہ سارا واقعہ جو آپ نے دیکھا ہے کہ کچھ لوگ بیٹھے ہوئے ہیں اور اسکریں میں آپریشن کو لائیو دیکھ رہے ہیں جن میں جوبائیڈن، ہیلری کلنٹن اور اوبامہ شامل ہیں،  یہ سب بکواس تھا۔

“It’s a total make-up, make believe, we’re in an American theater of the absurd….why are we doing this again….nine years ago this man was already dead….why does the government repeatedly have to lie to the American people۔
یہ سب بنا بنایا کھیل تھا، یہ سب ہم دوبارہ کیوں کر رہے ہیں جبکہ 9 سال پہلے یہ بندہ (اسامہ بن لادن) پہلے ہی مرچکا تھا، کیوں یہ حکومت دوبارہ سے امریکی عوام سے جھوٹ بول رہی ہے؟

“Osama Bin Laden was totally dead, so there’s no way they could have attacked or confronted or killed Osama Bin laden۔
اسامہ بن لادن بالکل مرچکا ہے تو اس بات کا کوئی امکان نہیں تھا کہ (پاکستان میں) حملہ کیا جاتا اور اسامہ بن لادن کو ہلاک کیا جاتا۔

Pieczenik said that the decision to launch the hoax now was made because Obama had reached a low with plummeting approval ratings and the fact that the birther issue was blowing up in his face.
انہوں نے مزید کہا کہ یہ سب کچھ اس لیے کیا گیا کہ امریکی صدر بارک اوبامہ کا گراف بہت نیچے گرچکا تھا۔

The farce was also a way of isolating Pakistan as a retaliation for intense opposition to the Predator drone program, which has killed hundreds of Pakistanis.
یہ سب کچھ کرنے کا مقصد پاکستان کو (بین الاقوامی طور پر ) الگ تھلگ کرنا تھا اور پاکستان کو جواب دینا تھا ڈرون حملوں کی مخالفت کرنے کا جس میں سیکڑوں پاکستانی ہلاک ہوئے تھے۔

During his interview with the Alex Jones Show yesterday, Pieczenik also asserted he was directly told by a prominent general that 9/11 was a stand down and a false flag operation, and that he is prepared to go to a grand jury to reveal the general’s name.
انہوں نے انٹرویو میں بتایا ہے کہ امریکی فوج کے ایک جنرل نے ان سے مل کر یہ بتایا کہ 11/09 کا واقعہ ڈرامہ تھا اور وہ اس جنرل کا کورٹ میں بتانے کے لیے تیار تھا۔

“They ran the attacks,” said Pieczenik, naming Dick Cheney, Paul Wolfowitz, Stephen Hadley, Elliott Abrams, and Condoleezza Rice amongst others as having been directly involved.
انہوں نے کہ ڈرامہ رچایا اور ڈک چینی، پال، اسٹیفن ہیڈلے، ایلئٹ ابرام اور کونڈولیزا رائس ڈائریکٹلی اس میں کھیل میں ملوث تھے۔

Pieczenik re-iterated that he was perfectly willing to reveal the name of the general who told him 9/11 was an inside job in a federal court, “so that we can unravel this thing legally, not with the stupid 9/11 Commission that was absurd.”
انہوں نے پھر اس بات پر زور دیا کہ یہ بالکل ہر طرح سے تیار ہوچکا تھا کہ جیوری کو اس جنرل کا نام بتادوں جس نے یہ کہا تھا کہ یہ ڈرامہ امریکی حکومت کا اندرونی سازش تھی کہ اور اس کو کورٹ کے سامنے قانونی طور پر ظاہر کرسکیں نہ کہ وہ جوکہ 11/9 کمیشن نے بتایا تھا۔ (جوکہ سراسر حھوٹ پر مبنی رپورٹ تھی)۔

:باقی پورا آرٹیکل پڑھنے کے لیے نیچے کلک کریں

Top US Government Insider: Bin Laden Died In 2001, 9/11 A False Flag 



اسامہ بن لادن کے 10 سال پہلے مرنے کے بعد اس کی لاش کو کہاں رکھا گیا اس بات کو جاننے کے لیے نیچے دیے گئے لنک کو کلک کریں

 Bin Laden’s Corpse Has Been On Ice For Nearly a Decade


اسامہ بن لادن کی کھوپڑی کو 10 سال تا بحرین کے ایک سرد خانے میں محفوظ رکھا گیا ہے اور اسامہ کی فریز کی گئی کھوپڑی کو بمع تصویر کے دیکھنے اور اس کےبارے؛؛ میں مزید پڑھنے کے لیے نیچے کلک کریں۔

The Re- Death of Bin Laden;s Frozen Corpse 


ڈاکٹر اسٹیو (رٹائرڈ ڈپٹی سیکریٹری آف اسٹیٹ ) کا انٹرویو پڑھنے کے لیے نیچے لنک کو کلک کریں:

آخر میں یہ ہی عرض کروں گا کہ حقائق کو تلاش کرنے کے لیے مثبت ذھن و سوچ کا ہونا نہایت ضروری ہے اور جذبات کو بالائے تاک رکھ کر اگر حقیقت کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش کریں گے بو بہت کچھ دیکھنے اور پڑھنے کو ملے گا جس کے بارے میں ہمارا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا ہے۔ 

اس لیے امید کرتا ہوں کہ مغربی اور مثبت سوچ رکھنے والے محققین گورڈن ڈف، پال جوزف ویٹس اور ان جیسے بہت سے سچ کی تلاش کے کھوجی کو پڑھیں اور حقائق کو جاننے کی کوشش کریں کہ اسلام دشمن قووتیں ہمارے کتنے قریب پہنچ جکی ہیں اور ہو جذبات کی رو میں بہتے جارہے ہیں کہ فلاں اسلام کا سپاہی ہے، فلاں اسلام کا ہیرو ہے یا فلاں اسلام کا مسیحا ہے۔ 
اللہ تبارک و تعالی  سب مسلمانوں کو حقیقت پسندانہ اور مثبت سوچ کا حامل بنادے اور جذبات و غصہ سے بچائے رکھے اور ہم سب کو ھدایت نصیب فرمائے۔ آمین
والسلام علیکم