Sunday 17 June 2012

کیا انسان اللہ کاخلیفہ ہے؟

کیا انسان اللہ کاخلیفہ ہے؟


السلام علیکم!
جب ہم پاکستان میں تھے تو ہمیں یہ ہی بتایا جاتا تھا کہ اللہ نے آدم علیہ سلام کو خلیفہ بنا کر زمین پر بھیجا ہے، اور آدم اللہ کا خلیفہ ہے۔ 
اور یہاں تک کہ ہمیں پڑھایا بھی یہی جاتا تھا اور وہاں کے مولوی حضرات بھی یہ ہی راگ الاپتے رہتے تھے کہ اللہ نے ہمیں اپنا خلیفہ بنا یا ہے۔ 
خیر یہاں یو کے میں بھی یہ ہی کچھ تھیوری چل رہی ہے، مگر کچھ دن پہلے ٹی وی پر ڈاکٹر الشیخ صہیب حسن حفظ اللہ کا قسط وار پروگرام "فکر آخرت" چل رہا تھا تو ادھر اسی موضوع پر تھوڑا سا تبصرہ ہوا تھا، جس کو میں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں، امید کہ معلومات میں اضافہ ہو۔ ان شاءاللہ 

یہ حقیقیت ہے کہ اللہ نے آدم کو خلیفہ بناکر دنیا میں بھیجا جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ:

"وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اِنِّىْ جَاعِلٌ فِى الْاَرْضِ خَلِيْفَةً"

(اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں)

تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ آدم کو اپنا خلیفہ بناکر دنیا میں بھیجنا چاہتا ہے۔ 
احادیث میں بھی یہ ہی مرکوز ہے کہ اللہ نے آدم کو دنیا میں خلیفہ بنایا ہے، مگرکہیں بھی مرکوز نہیں ہے کہ اللہ نے آدم کو دنیا میں اپنا خلیفہ یا نائب مقرر کیا ہے۔ 
خلیفہ عربی لفظ ہے جس کا مطلب ہے کسی کی جگہ لینے والا جسے انگریزی میں کہتے ہیں Successor، یعنی کسی کی جگہ لینا، To succeed some one
اب Successor ہمیشہ کسی کی جگہ لینے آتا ہے، جب ایک خلیفہ کا اس دنیا سے انتقال ہوگا تب دوسرا اس کی جگہ لے گا، مگر اللہ تو حیّ اور قیّوم ہے، ہمیشہ سے ہے اور رہے گا تو پھر ان کا خلیفہ بننے کا یہاں کوئی جواز نہیں ملتا۔ 
اب سوال یہ ہے کہ اگر آدم علیہ سلام اللہ کے خلیفہ بن کے زمین پر نہیں آئے تو پھر خلیفہ کا لفظ کیوں استعمال ہوا ہے؟
دراصل کچھ راویات میں آیا ہے کہ انسانوں سے پہلے اس دنیا میں جن آباد تھے پھر وہ سرکش ہوگئے اور اللہ کی حدود کو پامال کردیا تو اللہ نے انہیں ایک بہت بڑے لشکر کے ذریعے نیست و نابود کیا اور اس لشکر کے سردار عزازیل تھے۔ 
پھر اللہ نے عزازیل کا رتبہ بہت بڑا کردیا اور وہ فرشتوں کی محفل میں اٹھنے بیٹھنے لگا اور جب اللہ نے آدم کو پیدا فرمایا تو وہ اس وقت فرشتوں کی محفل میں بیٹھے ہوئے تھے تو اس نے اللہ کی نافرمانی کی تو اللہ نے اسے ابلیس بنادیا۔ 
ابلیس کا لفظ ابلس سے نکلا ہے جس کی معنی ہیں اللہ کی رحمت سے دھتکارا ہوا۔ 
تو ہم پہلے والے موضوع پر آتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ آدم سے پہلے اس زمین پر جنوں کی حکمرانی تھی اور اللہ نے آدم کو جنوں کے بعد اس زمین پر خلیفہ مقرر کیا۔ 
اب اس کا صاف مطلب نکلتا ہے کہ انسان اس زمین پر خلیفہ تو مقرر ہوا تھا مگر اللہ کا خلیفہ نہیں بلکہ اس سے پہلے کی قوم کی جگہ اس کو خلیفہ مقرر کیا تھا۔ 
اور قران میں کہیں بھی نہیں لکھا کہ آدم کو اللہ کا خلیفہ بنا کر زمین پر بھیجا گیا۔ 
واللہ اعلم

Sunday 3 June 2012

بر طانیہ میں مسلمانوں کا قیام : صدیوں کے آئینے میں

بر طانیہ میں مسلمانوں کا قیام : صدیوں کے آئینے میں

مسجد القديسة آن
 چاسرنے کینٹربری ٹیلز میں اسلامی اسکالرز کے حوالے دئیے ہیں۔
1386 ء
جان نیلسن پہلا شخص تھا جس کے اسلام قبول کرنے کا علم ہوا۔
16 ویں صدی میں
اوکسفرڈ اور کیمبرج یونی ورسٹیوں نے عربی چیئرز قائم کیں۔
1630 ء کے عشرے میں
ایک دستاویز میں حوالہ دیا گیا کہ  ’  محمتنوں (ahomatens) کے ایک فرقے کا یہاںلندن میں پتا چلا ہے‘۔
1641 ء
  الیگزینڈر راس نے انگریزی زبان میں قران مجید کا پہلا ترجمہ کیا۔
1649 ء
مسلمانوں کا پہلا بڑا گروپ ہندوستان سے برطانیہ پہنچا۔ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان میں جو بحری عملہ بھرتی کیا اس نے ساحلی علاقوں اور شہروں میں پہلی مسلمان کمیونٹیز کی 
تشکیل کی۔دوسرے افراد ان علاقوں سے آئے جو اب بنگلہ دیش اور پاکستان کا حصہ ہیں۔
1700 ء
  نہر سوئیز کے کھلنے سے مسلمان تارکینِ وطن کی ایک اور لہر آئی۔تجارت کو فروغ ہوا تو یمنی اورصومالی محنت کش کارڈف،  لورپول،  پولک شیلڈز اور لندن کے ساحلوں پرکام کرنے آ پہنچے۔
1869 ء
مغربی رسم الخط میں تحریر شدہ قدیم قرانی نسخہ؛   مرسیہ اور انگلینڈ کے بادشاہ اؤفا مصنوعی سونے کا سکہ دینار، یہ سکہ عباسی خلیفہ منصور کے 157ہجری  (74  عیسوی)سونے 
کے دینار کی نقل ہے اور اس پر عربی میںاسلامی کلمہ شہادت کندہ کیا گیا ہے۔
لندن  میں انجمنِ اسلام قائم ہوئی جسے بعد میں پین اسلامک سوسائٹی کا نام دیا گیا۔
1886 ء
لور پول کے ایک سا لیسٹر ولیم ہنری کوئیلیم نے مراکش میں اپنے قیام کے دوران اسلام قبول کیا۔انہوں نے لورپول میں لورپول مسجد، مسلم انسٹی ٹیوٹ اور ایک یتیم خانہ مدینہ ہاؤس قائم کیا۔وہ ’  اسلامک ورلڈ‘  او ر  ہفت روزہ ’ کریسنٹ‘  کی ادارت بھی کرتے تھے۔
1887 ء
ووکنگ میں پہلی باقاعدہ تعمیر شدہ مسجد کا افتتاح ہوا۔
1889 ء
ایک اسلامی اسکالر امیر علی نے رٹز میں ایک عوامی میٹنگ منعقد کی جس میں لندن میں ایک’  ایسی مسجد کے قیام کا مطالبہ کیا گیا جو اسلامی روایات اور برطانوی سلطنت کے دارالحکومت کے شانِ شایان ہو  ‘۔
1910 ء
جانوروں کے ذبیحے کے قانون میں حلال ذبیحے کے لئے استثناء فراہم کیا گیا۔
1911 ء
لاہور سے ایک بیرسٹر خواجہ کمال الدین لندن صرف اس مقصد سے آئے کہ اسلام کے بارے میںغلط فہمیاں دور کی جاسکیں۔ایک سال بعد انہوں نے اسلامک ریویو شائع کرنا شروع کیا۔
1912 ء
انگریز نومسلم لارڈ ہیڈلی نے برٹش مسلم سوسائٹی کی بنیاد ڈالی۔
1914 ء
لندن میں مرکزی مسجد کی تعمیر کی تجاویز پر غور کرنے کے لئے لندن نظامیہ ٹر سٹ قائم کیا گیا۔
1928 ء
 برٹش لائبریری میں ایرانی اور ترکی ذخیرے کے مہتمم ڈاکٹر محمد عیسٰی والی ؛  ووکنگ مسجد
حکومت نے لندن میں مسجد کی تعمیر کے لئے00,000پاؤنڈ مختص کر دئیے۔
1940 ء
ایسٹ لند ن مسجد ٹرسٹ نے کمرشل روڈاسٹیپنی میں تین عمارتیں خرید کر انہیں لندن کی پہلی مسجد میں تبدیل کر دیا۔
1941 ء
شاہ جارج ششم ریجنٹس پارک لندن میں اسلامک کلچرل سینٹر کے افتتاح میں شریک ہوئے۔
1944 ء
اسلامی ملکوں کے 13سفیروں نے سینٹرل لندن مسجد ٹرسٹ قائم کردیا۔
1947 ء
تقسیم کے بعد بھارت اور پاکستان سے مسلمان تارکینِ وطن برطانیہ پہنچے۔برطانیہ میں محنت کشوں کی کمی سے ، جوخاص طور پر یارکشائر اور لنکاشائر میںاسٹیل اور کپڑا بنُنے کی صنعت میںتھی اس نقل ِمکانی کی حوصلہ افزائی ہوئی
1950-60 ء
مسلمانوں کی آبادی اندازاً 23,000ہو گئی۔
1951 ء
مسلمان تارکینِ وطن کی اگلی لہر افریقہ ، خاص طور پر کینیا اور یوگنڈا سے آئی جہاں کئی ایشیائیوں کو تعصب کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔
1960-70 ء
برطانیہ میں مسلمان آبادی 82,000تک پہنچ گئی ، یہ اضافہ لوگوں کے کامن ویلتھ ایکٹ (962ئ) نافذ ہونے سے پہلے برطانیہ پہنچنے کی کو شش کی وجہ سے ہوا کیونکہ اس ایکٹ سے کامن ویلتھ کے شہریوں کابرطانیہ میں داخلے کا خود اختیاری حق ختم ہونے والا تھا۔
1961 ء
 ایسٹ لندن مسجد؛ کارڈف، ویلز میں 50سال تک امامت کرنے والے شیخ زید؛ ایک ایشیائی دلہن نورجہاں
برطانیہ میں اب 18مساجدہوگئیں،  جن کی تعداد میں اگلے دس سال میں سالانہ سات کے حساب سے اضافہ ہوتا رہے گا۔
1966 ء
مسلمان آبادی اندازاً 369,000ہوگئی۔
1971 ء
عیدی امین نے یوگنڈا سے 60,000ایشیائی مسلمانوں کو نکال دیا ، جن میں سے بیشتر برطانیہ میں آباد ہوگئے۔
1972 ء
اسلامک کونسل آف یورپ کا قیام عمل میں آیا جس کاہیڈ کوارٹر لندن بنا۔عیسائیوں اورمسلمانوں میں ’ محلے میں اسلام ‘  کے موضوع پر پہلا ڈائیلاگ ہوا۔
1973 ء
برٹش کونسل آف چرچز نے برطانیہ میں اسلام کے مطالعے کے لئے ایک مشیر مقرر کیا۔
1974 ء
ملکہ برطانیہ نے فیسٹول آف اسلام کا افتتاح کیا۔
1976 ء
ریجنٹس پارک میں لند ن سینٹرل مسجد کی شروعات ہوئیں ۔ بلفاسٹ اسلامک سینٹر کا قیام عمل میں آیا۔آئر لینڈ میں مسلمانوں کی تعداد کا تخمینہ 3,000لگایا گیا
1977 ء
نیچے بائیں سے دائیں: ریجنٹس پارک مسجد لندن؛ اسلامک سینٹر ڈبلن ، آئر لینڈ
اسلامک ریلیف قائم ہوئی جوآج بر طانیہ کی سب سے بڑی اسلامی فلا حی تنظیم ہے۔
1984 ء
اب یہاں رجسٹرڈ مساجدکی تعداد 338 ہوگئی
1985 ء
بر طانیہ کے سب سے بڑے اسلامی جریدے ’ کیو نیو ز  ‘کا اجراء؛  بریڈفورڈ میں پہلے رمضان ریڈیو نے مذہبی تقاریر، مذہبی موسیقی اور مذاکروں کی ملی جلی نشریات کا آغاز کیا۔
1992 ء
اسلامک سوسائٹی آف برٹن نے اسلام کے بارے میں شعور کے فروغ اور غلط فہمیوں کے تدارک کے لئے پہلی باراسلامی آگاہی کا ہفتہ منعقد کیا ۔
1994 ء
انڈیپینڈینٹ رنی میڈ ٹرسٹ نے ’ برطانوی مسلمان اور اسلامو فوبیا ‘ پر کمیشن قائم کیا۔
1996 ء
  برطانیہ کی تمام اسلامی تنظیموں کی سرپرست تنظیم کی حیثیت سے مسلم کونسل آف برٹن(ایم سی بی)کا قیام عمل میں آیا۔محمد سرور (گووآن سے) پہلے مسلمان رکن پارلمینٹ منتخب ہوئے۔
1997 ء
دو اسلامی اسکولوں کوسرکاری گرانٹ کے استحقاق کا درجہ ملا۔ دار الامراء میں لارڈ نذیر احمد اور بیرونس پاؤلاالدین پہلے مسلمان لارڈز  مقرر ہوئے۔
1998 ء
فارن آفس نے حج وفد تشکیل دیا جو ہر سال حج کے لئے مکہ جانے والے 25,000حاجیوں کو طبی اور کونسلر خدمات فراہم کیا کریگا۔
2000 ء
  ہز رائل ہائی نس پرنس چارلس لندن میں اسلامیہ اسکول کا دورہ کر رہے ہیں؛ کوسووا میں اسلامک ریلیف کا فلاحی کام
قوی مردم شماری میں پہلی بار مذہب کے بارے میں ایک سوال شامل کیا گیا ۔ یارکشائر کے شہروں میں فسادات کے بعد ٹیڈ کینٹل کی سر براہی میں لئے گئے سرکاری جائزے میں کمیونٹیز کے ادغام کو بہتر بنانے کے بارے میں تجاویز پیش کی گئیں۔حکومت نے نسلی تعلقات کے قوانین میں نسلی منافرت پر اکسانے کو شامل کرنے کے لئے قوانین پیش  کئے۔
2001 ء
جیل کے لئے پہلے کل وقتی امام کا برکسٹن جیل میں تقرر کیاگیا ۔
2002 ء
بنک آف انگلینڈ کے ڈپٹی گورنر ہاورڈ ڈیویزنے ایک تاریخی تقریر کی جس میں بر طانیہ میں اسلامی سرمایہ کاری کے فروغ کی حوصلہ افزائی کی گئی تھی۔ اسلامی مارگیجز میں سہولت کے لئے گھروں کی خریداری پر ٹیکس کے ضابطوں میں ترمیم کی گئی۔ جائے ملازمت پر مذہبی عقیدے کی بنا پر تعصب کو غیر قانونی قرار دینے کے لئے قانون متعارف کرا  یا گیا۔
2003 ء
یورپ کے پہلے اسلامی بنک ، اسلامک بنک آف برٹن نے برمنگھم میں پہلی برانچ کا آغاز کیا ۔الپ محمت بر طانیہ کے پہلے مسلمان سفیر( برائے آئس لینڈ) مقرر ہوئے۔
2004 ء
ڈیفنس منسٹری نے عاصم حفیظ کو مسلح افواج کاپہلا’  مسلمان چیپلن ‘  مقرر کیا۔اسلامی فلاحی تنظیموں نے ’  غربت کو تاریخ کا حصہ بنادو‘  مہم میں شرکت کا آغاز کیا ۔جولائی کے لندن بم دھماکوں کے بعد حکومت نے ’  ا نتہاپسندی کا مشترکہ بچاؤ‘ کے تحت برطانوی مسلمانوں کے ورکنگ گروپس تشکیل دئیے۔کشمیر میں آنے والے زلزلے کے دو دن کے اندر برطانوی اسلامی فلاحی تنظیموں نے ہنگامی امداد کے لئے 1.75ملین پاؤنڈ جمع کئے۔
2005 ء
وکٹوریہ اینڈ البرٹ میوزیم میں اسلامی آرٹ کے لئے نئی گیلری مخصوص کر دی گئی۔مانچسٹرمیوزیم آف سائنس اینڈ انڈسٹری میں 1001ایجادات کے عنوان سے نمائش کا آغاز ہوا جس میں جدیدطرزِ زندگی پرعربوں اورمسلمانوں کے  اثرات کو نمایاں کیا گیا تھا۔امجد حسین برطانیہ کے پہلے مسلمان ایڈمرل مقرر ہوئے۔

Friday 25 May 2012

منافق کی نشانیاں

منافق کی نشانیاں

نبی کریمﷺ نے فرمایا: 
کہ ’’چار (نشانیاں) جس میں ہوں وہ منافق ہوتا ہے، یا جس میں سے ان چاروں میں سے کوئی ایک خصلت ہو، اس میں نفاق کی ایک علامت ہوتی ہے حتیٰ کہ وہ اسے چھوڑ دے:
 
٭جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔
٭وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے۔
٭ عہد کرے تو بد عہدی کرے۔
٭ جب جھگڑا کرے تو پھٹ پڑے۔
بعض روایات میں ہے کہ
"اور جب اسے امانت دی جائے تو خیانت کرے۔"

اللہ تعالیٰ ہمیں اعتقادی وعملی دونوں قسم کے نفاق سے بچائے۔
صحیح البخاری (2459)۔

اللہ کہاں ہے؟

اللہ کہاں ہے؟  
تحریر: شیخ عادل سہیل حفظ اللہ 

آئیے سب سے پہلے دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں کیا فرمایا ہے؟
1۔ اللہ العلی القدیر کا فرمان ہے:
إِنَّ رَبَّكُمُ ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍۢ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ يُغْشِى ٱلَّيْلَ ٱلنَّهَارَ يَطْلُبُهُۥ حَثِيثًۭا وَٱلشَّمْسَ وَٱلْقَمَرَ وَٱلنُّجُومَ مُسَخَّرَٰتٍۭ بِأَمْرِهِۦٓ ۗ أَلَا لَهُ ٱلْخَلْقُ وَٱلْأَمْرُ ۗ تَبَارَكَ ٱللَّهُ رَبُّ ٱلْعَٰلَمِينَ﴿54﴾
ترجمہ: بے شک تمہارا رب الله ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھرعرش پر قرار پکڑا رات سے دن کو ڈھانک دیتا ہے وہ اس کے پیچھے دوڑتا ہوا آتا ہے اور سورج اورچاند اور ستارے اپنے حکم کے تابعدار بنا کر پیدا کیے اسی کا کام ہے پیدا کرنا اور حکم فرمانا الله بڑی برکت والا ہے جو سارے جہان کا رب ہے (سورۃ الاعراف ،آیت 54)
2۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے:
إِنَّ رَبَّكُمُ ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍۢ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ ۖ يُدَبِّرُ ٱلْأَمْرَ ۖ مَا مِن شَفِيعٍ إِلَّا مِنۢ بَعْدِ إِذْنِهِۦ ۚ ذَٰلِكُمُ ٱللَّهُ رَبُّكُمْ فَٱعْبُدُوهُ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ ﴿٣﴾
ترجمہ: بے شک تمہارا رب الله ہی ہے جس نے آسمان اور زمین چھ دن میں بنائے پھر عرش پر قائم ہوا وہی ہر کام کا انتظام کرتا ہے اس کی اجازت کے سوا کوئی سفارش کرنے والا نہیں ہے یہی الله تمہارا پروردگار ہے سو اسی کی عبادت کرو کیا تم پھر بھی نہیں سمجھتے (سورۃ یونس ،آیت 3)
3۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان ہے:
ٱللَّهُ ٱلَّذِى رَفَعَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ بِغَيْرِ عَمَدٍۢ تَرَوْنَهَا ۖ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ ۖ وَسَخَّرَ ٱلشَّمْسَ وَٱلْقَمَرَ ۖ كُلٌّۭ يَجْرِى لِأَجَلٍۢ مُّسَمًّۭى ۚ يُدَبِّرُ ٱلْأَمْرَ يُفَصِّلُ ٱلْءَايَٰتِ لَعَلَّكُم بِلِقَآءِ رَبِّكُمْ تُوقِنُونَ ﴿٢﴾
ترجمہ: الله وہ ہے جس نے آسمانوں کو ستونوں کے بغیر بلند کیا جنہیں تم دیکھ رہے ہو پھر عرش پر قائم ہوا اور سورج اور چاند کو کام پر لگا دیا ہر ایک اپنے وقت معین پر چل رہا ہے وہ ہر ایک کام کاانتظام کرتا ہے نشانیاں کھول کر بتاتا ہے تاکہ تم اپنے رب سے ملنے کا یقین کر لو (سورۃ الرعد،آیت 2)
4۔ اللہ الرحمن کا فرمان ہے:
ٱلرَّحْمَٰنُ عَلَى ٱلْعَرْشِ ٱسْتَوَىٰ ﴿٥﴾
ترجمہ: رحمان جو عرش پر جلوہ گر ہے (سورۃ طہ،آیت 5)
5۔ اللہ ہر ایک چیز کے واحد خالق کا فرمان ہے:
ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِى سِتَّةِ أَيَّامٍۢ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ ۚ ٱلرَّحْمَٰنُ فَسْـَٔلْ بِهِۦ خَبِيرًۭا ﴿59﴾
ترجمہ: جس نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے چھ دن میں بنایا پھر عرش پر قائم ہوا وہ رحمنٰ ہے پس ا س کی شان کسی خبردار سے پوچھو (سورۃ الفرقان،آیت 59)
6۔ اللہ الحکیم کافرمان ہے:
ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِى سِتَّةِ أَيَّامٍۢ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ ۖ مَا لَكُم مِّن دُونِهِۦ مِن وَلِىٍّۢ وَلَا شَفِيعٍ ۚ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ ﴿٤﴾
ترجمہ: الله وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اورجو کچھ ان میں ہے چھ روز میں بنایا پھر عرش پر قائم ہوا تمہارے لیے اس کے سوا نہ کوئی کارساز ہے نہ سفارشی پھر کیا تم نہیں سمجھتے (سورۃ السجدۃ،آیت 4)
7۔ اللہ الکریم کا فرمان ہے:
هُوَ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍۢ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ ۚ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِى ٱلْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ ٱلسَّمَآءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا ۖ وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ ۚ وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌۭ ﴿٤﴾
ترجمہ: وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر جا ٹھہرا۔ جو چیز زمین میں داخل ہوتی اور جو اس سے نکلتی ہے اور جو آسمان سے اُترتی اور جو اس کی طرف چڑھتی ہے سب اس کو معلوم ہے۔ اور تم جہاں کہیں ہو وہ تمہارے ساتھ ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس کو دیکھ رہا ہے (سورۃ الحدید ،آیت 4)
اس مندرجہ بالا آیت مبارکہ میں ہمارے اس رواں موضوع کی دلیل کے ساتھ ساتھ ایک اور بات کی بھی وضاحت ہے ،جس کے بارے میں اکثر لوگ غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں،اور وہ ہے اللہ تبارک و تعالیٰ کی "معیت" یعنی اُس کا ساتھ ہونا۔جس کے بارے میں عموما یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنی ذات مبارک کے ذریعے کسی کے ساتھ ہوتا ہے،جو کہ درست نہیں ہے کیونکہ اللہ جل جلالہ نے خود ہی اپنی "معیت" کی کیفیت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌۭ ﴿٤﴾
ترجمہ: اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس کو دیکھ رہا ہے (سورۃ الحدید ،آیت 4)
یعنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ساتھ ہونا اُس کے علم و قدرت ،سماعت و بصارت کے ذریعے ہے ،نہ کہ اس کی ذات مبارک کے وجود پاک کے ساتھ کسی کے ساتھ ہونا ہے۔ان شاء اللہ اس موضوع پر بات پھر کسی وقت۔(1)
(8) اللہ المعز کا فرمان ہے:
مَن كَانَ يُرِيدُ ٱلْعِزَّةَ فَلِلَّهِ ٱلْعِزَّةُ جَمِيعًا ۚ إِلَيْهِ يَصْعَدُ ٱلْكَلِمُ ٱلطَّيِّبُ وَٱلْعَمَلُ ٱلصَّٰلِحُ يَرْفَعُهُۥ ۚ وَٱلَّذِينَ يَمْكُرُونَ ٱلسَّيِّـَٔاتِ لَهُمْ عَذَابٌۭ شَدِيدٌۭ ۖ وَمَكْرُ أُو۟لَٰٓئِكَ هُوَ يَبُورُ ﴿10﴾
ترجمہ: جو شخص عزت چاہتا ہو سو الله ہی کے لیے سب عزت ہے اسی کی طرف سب پاکیزہ باتیں چڑھتی ہیں اور نیک عمل اس کو بلند کرتا ہے اور جو لوگ بری تدبیریں کرتے ہیں انہی کے لیے سخت عذاب ہے اوران کی بری تدبیر ہی برباد ہو گی (سورۃ الفاطر،آیت 10)
(9) اللہ ذی المعارج کا فرمان ہے:
سَأَلَ سَآئِلٌۢ بِعَذَابٍۢ وَاقِعٍۢ ﴿١﴾لِّلْكَٰفِرِينَ لَيْسَ لَهُۥ دَافِعٌۭ ﴿٢﴾مِّنَ ٱللَّهِ ذِى ٱلْمَعَارِجِ ﴿٣﴾تَعْرُجُ ٱلْمَلَٰٓئِكَةُ وَٱلرُّوحُ إِلَيْهِ فِى يَوْمٍۢ كَانَ مِقْدَارُهُۥ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍۢ ﴿٤﴾
ترجمہ: ایک طلب کرنے والے نے عذاب طلب کیا جو نازل ہو کر رہے گا (یعنی) کافروں پر (اور) کوئی اس کو ٹال نہ سکے گا (اور وہ) اللہ ئے صاحب درجات کی طرف سے (نازل ہوگا) جس کی طرف روح (الامین) اور فرشتے پڑھتے ہیں (اور) اس روز (نازل ہوگا) جس کا اندازہ پچاس ہزار برس کا ہوگا (سورۃ المعارج،آیت 1تا4)
(10) اللہ الاعلیٰ کا فرمان ہے:
يُدَبِّرُ ٱلْأَمْرَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ إِلَى ٱلْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِى يَوْمٍۢ كَانَ مِقْدَارُهُۥٓ أَلْفَ سَنَةٍۢ مِّمَّا تَعُدُّونَ ﴿٥﴾
ترجمہ: وہ آسمان سے لے کر زمین تک ہر کام کی تدبیر کرتا ہے پھراس دن بھی جس کی مقدار تمہاری گنتی سے ہزار برس ہو گی وہ انتظام اس کی طرف رجوع کرے گا (سورۃ السجدۃ،آیت 5)
(11) اللہ العلی القدیر کا فرمان ہے:
يَخَافُونَ رَبَّهُم مِّن فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ۩ ﴿50﴾
ترجمہ: اور اپنے پروردگار سے جو ان کے اوپر ہے ڈرتے ہیں اور جو ان کو ارشاد ہوتا ہے اس پر عمل کرتے ہیں (سورۃ النحل،آیت 50)
اللہ تعالیٰ کے مندرجہ بالا فرامین سے صاف اور واضح طور پر سمجھ آتا ہے کہ اللہ الاعلیٰ اپنی تمام مخلوق کے اوپر ،اُس سے جدا اور بلند ہے،کسی لفظ کی کوئی تشریح یا تاویل کرنے سے پہلے ہمیں اللہ تعالیٰ کے یہ درج ذیل فرامین بھی ذہن میں رکھنے چاہیے جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اکرم محمد ﷺ کو مخاطب فرما کر ،اُن کے اُمتیوں کو اُن ﷺ کے منصب رسالت کی ذمہ داریوں میں سب سے اہم ذمہ داری بتائی ہے اور ہمیں یہ سمجھایا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرامین مبارک کو اللہ کے رسول ﷺ کی بیان کردہ قولی اور عملی تفسیر شرح اور تعلیمات کے مطابق سمجھنا ہے،نہ کہ اپنی عقل و سوچ،مزاج،پسند و ناپسند اور اپنے خود ساختہ جہالت زدہ فلسفوں کے مطابق:
بِٱلْبَيِّنَٰتِ وَٱلزُّبُرِ ۗ وَأَنزَلْنَآ إِلَيْكَ ٱلذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ ﴿٤٤﴾
ترجمہ: (اور ان پیغمبروں کو) دلیلیں اور کتابیں دے کر (بھیجا تھا) اور ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو (ارشادات) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو اور تاکہ وہ غور کریں (سورۃ النحل،آیت 44)
اور مزید تاکید فرمائی کہ:
وَمَآ أَنزَلْنَا عَلَيْكَ ٱلْكِتَٰبَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ ٱلَّذِى ٱخْتَلَفُوا۟ فِيهِ ۙ وَهُدًۭى وَرَحْمَةًۭ لِّقَوْمٍۢ يُؤْمِنُونَ ﴿64﴾
ترجمہ: اور ہم نے جو تم پر کتاب نازل کی ہے تو اس کے لیے جس امر میں ان لوگوں کو اختلاف ہے تم اس کا فیصلہ کردو۔ اور (یہ) مومنوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے (سورۃ النحل،آیت 64)
اللہ تعالیٰ کے فرمان کی تفسیر اور شرح کی ذمہ داری اللہ کی طرف سے اپنے رسول ﷺ کو دی گئی ہے ہر کس و ناکس کو یہ اجازت نہیں کہ وہ اپنی مرضی سےیا اپنی سوچ و فکر کے مطابق ،یا اُس کے ذہن پر مسلط فلسفوں اور شرعا نا مقبول خود ساختہ کسوٹیوں کی بنا پر قرآن پاک کی آیات مبارکہ کی ایسی تفسیر یا تشریح کرے جو اللہ یا رسول ﷺ کی صحیح ثابت شدہ سنت مبارکہ کہ مطابق نہ ہوں، اور جب اس کی جہالت زدہ سوچیں اور فلسفے قرآن کریم کی ہی آیات شریفہ کے ذریعے مردود قرار پائیں تو آیات شریفہ کی باطل تاویلات کرنے لگے،اور جب اس کی باطل تاویلات صحیح چابت شدہ سنت مبارکہ کے ذریعے مردود قرار پائیں تو سنت مبارکہ کا ہی انکار کرنے لگے۔