Monday 28 June 2010

خواتین کو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی نصیحتیں

خواتین اسلام کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی نصیحتیں



فرمانِ الہٰی ہے :۔

1(اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم ) مومن عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نظر یں نیچی رکھیں ، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ۔ (النور24:آیت31)

2 اپنی زیب وزینت کا اظہار نہ ہونے دیں۔(النور24:آیت31)

3 اپنی اوڑھنیاں اپنے سینوں پر ڈالے رہیں۔(النور24:آیت31)

4 ( غیر محرموں سے) نرم لہجہ میں بات نہ کرو ۔(الاحزاب33:آیت32)

5 نماز کی پابندی کرو، زکوٰۃ کی ادائیگی کرو۔(الاحزاب33:آیت32)

6 اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔(الاحزاب33:آیت32)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :۔

1 ایسے راستوں پر نہ چلیں جہاں مردوں کی ریل پیل ہوبلکہ کنارے کنارہ چلتے ہوئے راستہ طے کریں۔(ابوداؤد)

2 غیر محرم مردوں سے تنہائی میں نہ ملیں اس لئے کہ اس وقت تیسرا شیطان ہوتا ہے۔(جو برائی کروانے کی بھرپور کوشش کرتا ہے)۔(ابوداؤد)

3 دیور ، جیٹھ وغیرہ سے بھی تنہائی میں نہ ملیں۔(بخاری)

4 غیر محرم کے ساتھ سفر سے اجتناب کریں۔(بخاری)

5 بازار بد ترین جگہ ہے (بلا ضرورت بازار نہ جائیں)۔(مسلم)

6 خوشبو لگا کر اور باریک لباس پہن کر گھر سے نہ نکلیں اس لئے کہ یہ عریانی اور دعوتِ گناہ ہے ۔(مسلم)

7 اپنے شوہر کی برائیاں بیان نہ کریں۔(بخاری)

8 اپنے شوہر کی نافرمانی نہ کریں۔(نسائی)

9 شوہر کی عدم موجودگی میں اپنی عزت، مال و اولاد کی حفاظت کریں۔(حاکم)

مندرجہ بالا نصیحتوں پر عمل کرنے سے مسلمان عورتیں جنت کی حقدار بن سکتی ہیں جو کہ یقینی کامیابی ہے ۔ ’’جسے آگ سے بچا کر جنت میں داخل کردیا گیا وہ یقیناًکامیاب ہوگیا۔‘‘(اٰلِ عمران3آیت185)

Thursday 17 June 2010

شاہ عبداللہ کی بدولت 866 افراد نے اسلام قبول کیا

جسمانی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے بچوں کی پیدائش کے واقعات آج کل کوئی نئی بات نہیں رہی، مختلف ملکوں میں ایسے بچوں کو بڑے آپریشن کے ذریعے علحیدہ کرنے کے انتظامات بھی ہیں-
اور بعض ممالک ایسے بھی ہیں جہاں ایسے بچے انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے ساری زندگی انتہائی تکلیف دہ انداز میں گزارنے پر مجبور ہیں-
افریقی ممالک بھی ان میں شامل ہیں- جہاں بچوں کو نارمل زندگی جینے کے مواقع میسر نہیں، اس کی مثال افریقی ملک "کیمرون" کے ایک عیسائی گھرانے میں پیدا ہونے والے دو بچے ہیں جو ایک عرصے تک اسی حال میں رہے، تاآنکہ سعودی عرب کے شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز تک یہ خبر پہنچی، چونکہ سعودی عرب میں ڈاکٹر عبداللہ ربیعہ اس قسم کے آپریشن کے ماہر تصور کیے جاتے ہیں، شاہ عبداللہ نے انتہائی فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کیمرون کے اس عیسائی خانادن کے سعودی عرب میں حکومت کے خرچ پر ان بچوں کے آپریشن کی آفر دےدی۔
آپریشن کے دوراں بچوں کے والد جیمز کومسو نے جو سعودی عرب مین شاہ عبداللہ کی دعوت پر قیام پذیر تھے، ڈاکٹر ربیعہ اور دیگر مسلمانوں کے حسن سلوک سے متاثر ہوکر نہ صرف اسلام قبول کیا بلکہ کیمرون لوٹ کر اپنے دیہات میں بھی اسلام کی دعوت کا کام شروع کردیا، جس کے نتیجے میں ان کے دیہات اور قرب و جوار کے دیہات سے جملہ 866 افراد نے اسلام قبول کیا۔
اللہ اکبر
انہوں نے بتلایا کہ ان مسلمانوں کے لئے مسجد اور اسلامی مرکز کے تعمیر کی ضرورت تھی، انہوں نے شاہ عبداللہ سے درخواست کی جو فوری طور پر قبول کرلی گئی اور عنقریب یہاں ایک اسلامی مرکز کی تعمیر بھی عمل میں لائی جارہی ہے۔
سبحان اللہ
اللہ شاہ عبداللہ کو لمبی عمر عطا فرمائے، ان کا یہ کام ان کی نجات کا ذریعہ بنادے، ان کے اگلے اور پجھلے گناہ معاف فرمادے۔ آمین
والسلام علیکم

اقتباس: مجلہ صراط مستقیم برمنگھم

Wednesday 16 June 2010

عورت کو نماز پڑھتے وقت اپنے پاؤں چھپانے چاہیے

السلام علیکم شيوخ!

کل میری اپنے استاذ عربی شیخ عبداللہ سے بات چیت ہورہی تھی۔
بات کہیں سے کہیں نکل گئی اور میں نے کہا کہ عورت کو نماز پڑھتے وقت اپنے پاؤں چھپانے چاہیں چاہے وہ موزے پہن کر چھپائے۔
تو شیخ نے فرمایا کہ میں اس بات کو قبول نہیں کرتا کہ نہ میں نے کہیں پڑھا ہے اور نہ دیکھا ہے تو آپ اس کی دلیل لائيں؟

یہ حدیث سنن ابی داؤد میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے سوال کیا کہ کیا عورت تہ بند کےبغیر نماز پزھ سکتی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ہاں! مگر کپڑا یا کرتا لمبا ہو اور پاؤں نظر نہیں آئيں۔

اور میں نے ایک اور جگہ پڑھا تھا کہ فرشتے کی نطر نہ پڑے اس لیے عورت کو نماز میں پاؤں چھپانے چاہیں۔
واللہ اعلم

تو میرا سوال ہے کہ اگر آپ کے پاس اس پر کوئی حدیث، تحقیق و دلیل بمع حکم ہے تو پیش کریں کہ میں اپنے استاذ کے سامنے پیش کر سکوں۔ ان شاءاللہ
والسلام علیکم


1) عن ابن عمر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من جر ثوبه خيلاء لم ينظر الله إليه يوم القيامة فقالت أم سلمة فكيف يصنعن النساء بذيولهن قال يرخين شبرا فقالت إذا تنكشف أقدامهن قال فيرخينه ذراعا لا يزدن عليه

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ فرماتے ہیں‌ کہ رسول اللہ صلى اللہ نے فرمایا جس نے ازراہ تکبر اپنا کپڑا لٹکایا اللہ تعالى قیامت
کے دن اسکی طرف نہیں‌ دیکھے گا۔

ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے استفسار کیا کہ عورتیں‌ اپنے دامنوں کا کیا کریں (کیا وہ بھی مردوں کی طرح نصف ساق پر رکھیں ) تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ (نصف پنڈلی سے ) ایک بالشت نیچے تک لٹکائیں وہ عرض گداز ہوئیں کہ پھر تو انکے پاؤں کھلے رہ جائیں‌ گے تو آپ‌ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر (نصف پنڈلی سے ) ایک ذراع؏ نیچے لٹکائیں
؏ (ڈیڑھ فٹ / دو بالشت / ہاتھ‌ کی درمیانی انگلی سے کہنی تک کے حصہ کو ذراع کہتے ہیں‌ جوکہ دو بالشت کی ہو تی ہے اور متوسط آدمی کا ذراع ڈیڑھ فٹ‌کا ہو تا ہے )
جامع ترمذی أبواب اللباس باب ما جاء فی جر ذیول النساء (1731) ابن ماجة ( 3580 - 3581 )
یہ حدیث صحیح ہے

اس سے معلوم ہوا کہ عورتیں:

1) غیر محرموں سے اپنے پاؤں کو چھپائیں
2) کپڑا نصف پنڈلی سے عموما ایک بالشت اور گھر سے باہر نکلتے ہوئے دو بالشت تک لٹکائیں
3) جب نصف پنڈلی سے ایک بالشت نیچے تک لٹکائیں گی تو بالضرور انکے پاؤں‌ چھپ جائیں‌ گے
یاد رہے کہ
4) تنگ پائنچے رکھنا عورتوں کے لیے شرعا ممنوع ہے
5) عورت کا یہ لباس نماز اور غیر نماز دونوں کے لیے یکساں ہے

والسلام علیکم

Tuesday 15 June 2010

تصحیح العقائد بابطال الشواھد الشاھد

کتاب کا نام : تصحیح العقائد بابطال الشواھد الشاھد
مولف کا نام : علامہ محمد رئیس ندوی رحمۃ اللہ علیہ
ناشر: ام القری پبلیکیشنز فتومند روڈ سیالکوٹ روڈ گوجرانوالہ
03008110896،03216466422

مکتبہ اسلامیہ اور مکتبہ قدوسیہ اردو بازار لاہور سے بآسانی دستیاب ہے۔
سن اشاعت :  مارچ 2010
قیمت : 560 روپے ، 50 % ڈسکاونٹ کے بغیر

تعارف کتاب :

یہ کتاب دراصل مسئلہ علم غیب اور اور مسئلہ حاضر ناظر پر بریلوی کتاب "الشاہد" کا جواب ہے۔مصنف نے اس موضوع کے حوالے سے بیش بہا دلائل دیئے ہیں۔ یہ مفصل جواب 212 عناوین اور 448 صفحات پر مشتمل ھے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عالم الغیب اور حاضر و ناظر ہونے کے عقیدے کا رد کیا گیا ہے۔

مصنف کا تعارف : مصنف جامعہ سلفیہ بنارس میں شیخ الحدیث تھے اور انہوں نے 10 مئی 2009 کو وفات پائی، ان کے شاگردوں میں ڈاکٹر رضا اللہ مبارکپوری رحمہ اللہ اور ڈاکٹر وصی اللہ عباس نمایاں ہیں۔
مصنف کی کل 23 تصانیف تھیں۔

Monday 14 June 2010

اسلام اور رہبانیت

ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہ کو جمع ہونے کا حکم دیا، پھر ان کے سامنے حسب ذیل خطبہ ارشاد فرمایا:

ما بال اقوام حرّمو النساء والطعام والطیب وشھوات الدنیا- فانی لست امرکم ان تکونو قسیسین ورھبانا- فانہ لیس فی دینی ترک اللّحم والنساء ولا اتحاذ الصوامع، وان سیاحۃ امتی الصوم ورہبانیتھم الجھاد، اعبدواللہ ولا تشرکو بہ شیئا و حجو واعتمرو واقیمو الصلواۃ واتو الزکواۃ مصومو رمضان واستقیموا یستقم لکم- فانما ھلک من کان قبلکم بالتشدید علی انفسھم فشدد اللہ علیھم- فتلک بقایاھم فی الدیار والصوامع-
(معالم التنزیل)

" لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ عورتوں کو، کھانے کو، خشبو کو، اور دنیا کی لذیذ چیزوں کو اپنے اوپر حرام کرنے لگے ہیں؟ مں تمہیں صوفی اور درویش اور راہب و تارک دنیا بننے کا حکم دینے نہیں آیا کیونکہ گوشت کو اور عورتوں کو چھوڑدینا اور خاقاہوں میں بیٹھ جانا میرے دین میں نہیں ہے-
میری امت کی سیاحت روزہ ہے- ان کی رہبانیت جہاد ہے- اللہ کی عبادت کرتے رہو، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھراؤ، حج اور عمرہ ادا کرتے رہو، نماز، روزہ اور زکواۃ کی ادائگی اور پابندی کرو- اور استقامت دکھاؤ تاکہ تمہارے معاملات بھی درست کردیے جائيں-
تم سے اگلے لوگ انہی سختیوں کی وجہ سے تباہ ہوگئے- جوں جوں وہ اپنے اوپر سختی کرتے گئے اللہ تعالی بھی ان پر سختی کرتا گیا- ان کے بچے کھچے اب گرجوں اور عبادت گاہوں میں باقی رہ گئے ہیں-"


اس خطبے کے بعد یہ آیت نازل ہوئی:

" اے ایمان والو! جو پاک چيزيں اللہ نے تم پر حلال کی ہیں انہیں حرام نہ کرو- "

Sunday 13 June 2010

صلاۃ غوثیہ کی حقیقت

یہاں اس غلط فہمی کو دور کرنا بھی ضروری ہے جو بعض عقیدت مندوں نے پیدا کر رکھی ہے کہ:
"خود شیخ جیلانی نے یہ تعلیم دی تھی کہ مشکلات کے وقت مجھے پکارا کرو میں زندگی میں بھی اور بعد از حیات بھی تا قیامت تمہاری سنتا اور مدد کرتا رہوں گا"-

اس سلسلہ میں آپ کی طرف جو جھوٹی باتیں منسوب کی جاتی ہیں، ان میں سے بطور نمونہ ایک جھوٹ ملاحضہ فرمائيں:

"شیخ نے فرمایا کہ جو کوئی مصیبت میں مجھ سے مدد چاہے یا مجھ کو پکارے تو میں اس کی مصیبت کو دور کروں کا اور جو کوئی میرے توسل سے خدائے تعالی سے اپنی حاجت روائی چاہے گا تو خدا تعالی اس کی حاجت کو پورا کرے گا- جو کوئی دو رکعت نماز پرھے اور ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد گارہ مرتبہ سورۃ اخلاص یعنی "قل ھو اللہ احد" پڑھے اور سلام پھرینے کے بعد گیارہ مرتبہ درود شریف پڑھے اور مجھ پر بھی سلام بھیجے اور اس وقت اپنی حاجت کا نام بھی لے تو ان شاءاللہ تعالی اس کی حاجت پوری ہوگی- بعض نے بیان کیا ہے کہ دس پانچ قدم جانب میرے مزار کی طرف جل کر میرا نام لے اور اپنی حاجت کو بیان کرے اور بغض کہتے ہیں مندرجہ ذیل دو شعروں کو بھی پڑھے:
(ترجمہ اشعار: کیا مجھ کو کچھ تنگدستی پہنچ سکتی ہے جبکہ آپ میرا ذخیرہ ہیں اور کیا دنیا میں مجھ پر ظلم ہوسکتا ہے جبکہ آپ میرے مددگار ہیں- بھیڑ کے محافظ پر خصوصا جبکہ وہ میرا گار ہو، ننگ و ناموس کی بات ہے کہ بیابان میں میرے اونٹ کی رسی گم ہوجائے"-
(قلائد الجواہر، مترجم: ص 192)

"پھر عراق (بغداد) کی سمت میرا نام لیتا ہوا گیارہ قدم چلے"
(بھجۃ الاسرار۔ ص:102)

نقد و تبصرہ:

٭ اول تو یہ واقعہ ان کتابوں سے ماخوذ ہے جن کی استنادی حیثیت کے حوالہ سے ہم یہ ثابت کر چکے ہیں کہ وہ قابل اعتماد نہیں ہیں-
٭ اگر بالفرص شیخ نے یہ بات خود فرمائی بھی ہو تو تب بھی اس پر عمل اس لئے نہیں کیا جاسکتا کہ یہ قرآن و سنت کے صریح خلاف ہے-
٭ فی الحقیقت یہ بات خود شیخ کی موحدانہ تعلیمات کے منافی ہے کیونکہ شیخ تو یہ فرماتے ہیں کہ:
"اخلاص پیدا کرو اور شرک نہ کرو، حق تعالی کی توحید کا پرچار کرو اور اس کے درواوے سے منہ نہ موڑو- اسی اللہ سے سوال کرو، کسی اور سے سوال نہ کرو، اسی سے مدد مانگو، کسی اور سے مدد نہ مانگو، اسی پر توکل و اعتماد کرو اور کسی پر توکل نہ کرو"-
(الفتح الربانی: مجلس 48، ص 151)

Saturday 12 June 2010

عسر کے بعد یسر ہے

اے انسان!
بھوک کے بعد شکم سیری، پیاس کے بعد سیرابی، جاگنے کے بعد نیند، مرض کے بعد صحت ہے-
گم کردہ منزل پائے گا، مشقت اٹھانے والا آسانی حاصل کرے گا- اندھرے چھٹ جائيں گے

"قریب ہے کہ اللہ تعالی اپنی فتح یا اور کسی بات کو لے آئے"

رات کو بشارت دو صبح صادق کی جو اس کو پہاڑوں کی طرف دھکیل دے گی وادیوں کی جانب بھگادے گی، غمزدہ کو بشارت دو روشنی کی طرح تیزی سے آنے والی آسانی کی، مصیبت زدہ کو مڑدہ سنادو محفی لطف و کرم اور مہربان ہاتھوں کا، جب آپ دیکھین کا صحرا دراز سے دراز ہوتا جاتا ہے تو جان لیں کہ اس کے بعد سرسبز شاداب نخلستان ہے، رسی لمبی پہ لمبی ہوتی جاتی ہے تو یاد رکھیے کہ جلد ہی ٹوٹ جائے گی-

آنسو کے ساتھ مسکراہٹ ہے، خوف کے بعد امن، گھبراہٹ کے بعد سکون، آگ نے ابراہیم خلیل اللہ کو نہیں جلایا کیونکہ حکم ربانی سے وہ "ابراہیم علیہ السلام کے لئے ٹھنڈک اور سلامتی بن گئی" سمندر نے موسی کلیم اللہ علیہ السلام کو نہیں ڈبویا کیونکہ انہوں نے بلند اور سچی آواز میں کہا کہ " میرا رب میرے ساتھ ہے اور مجھے راستہ دکھلادے گا-
"
محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یار غار ڈھارس بندھائی کہ ہمارے ساتھ اللہ ہے- لہذا امن و سکینت اور نصرت نازل ہوئی- موجودہ برے حالات کے شکار، مایوس کن صورت حال کے گرفاتار صرف تنگی، عبرت اور بدبختی ہی کا احساس کرتے ہیں ان کی نظر کمرہ کی دیوار اور دروازے تک ہوتی ہے، اس کے آگے ان کی رسائی نہیں-

کاش وہ پردہ کے پیچھے بھی دیکھتے ان کی فکر و رائے پس پردہ دیوار تک پہنچ جاتی- لہذا تنگ دل نہ ہوں ہمیشہ یکساں حالت نہیں رہے گی، بہترین عبادت اللہ کی رحمت و آسانی کا انتظار ہے، زمانہ الٹتا پلٹتا ہے، گردش دوراں جاری رہتی ہے- غیب مستور ہے، اور مدبر عالم کی ہر روز نئی شان ہے- امید ہے کہ اللہ اس کے بعد کوئی معاملہ پیدا کرے گا۔

عسر کے بعد یسر ہے
تنگی کے بعد آسانی ہے-

Friday 11 June 2010

قاتلِ حسین (رضی اللہ عنہ) کا انجام

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

لا رَیب ۔۔۔ حضرت حسین (رضی اللہ عنہ) کی شہادت ، اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معصیت اور نافرمانی ہے ۔
اس سے وہ تمام لوگ آلودہ ہیں ، جنہوں نے آپ (رضی اللہ عنہ) کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا یا قتل میں مدد کی یا قتل کو پسند کیا !!
سیدنا حضرت حسین (رضی اللہ عنہ) کی شہادت عظیم ترین گناہوں میں سے ایک گناہ تھا ۔
جنہوں نے یہ فعل کیا ، جنہوں نے اس میں مدد کی ، جو اس سے خوش ہوئے ۔۔۔ وہ سب کے سب اُس عتابِ الٰہی کے سزاوار ہیں جو ایسے لوگوں کے لئے شریعت میں وارد ہے !

حضرت حسین رضی اللہ عنہ ، آپ کے بیٹوں ، بھتیجوں اور ساتھیوں کی شہادت کا المیہ ۔۔۔

عراق کے گورنر عبیداللہ بن زیاد کے براہ راست حکم سے وقع پذیر ہوا تھا۔ خانوادۂ نبوت پر روا رکھے گئے اس ظلم عظیم کی جو سزا اللہ تعالیٰ نے اسے دی ، اس نے عبیداللہ بن زیاد کو دنیا کے لیے نشانِ عبرت بنا دیا۔

جامع ترمذی میں مشہور تابعی حضرت عمارہ بن عمیر تیمی رحمة اللہ علیہ سے روایت ہے :

عن عمارة بن عمير، قال لما جيء برأس عبيد الله بن زياد وأصحابه نضدت في المسجد في الرحبة فانتهيت إليهم وهم يقولون قد جاءت قد جاءت ‏.‏ فإذا حية قد جاءت تخلل الرءوس حتى دخلت في منخرى عبيد الله بن زياد فمكثت هنيهة ثم خرجت فذهبت حتى تغيبت ثم قالوا قد جاءت قد جاءت ‏.‏ ففعلت ذلك مرتين أو ثلاثا ‏.‏

جب عبیداللہ بن زیاد اور اس کے سپاہیوں کو قتل کرنے کے بعد ان کے سر کوفہ لائے گئے تو کوفہ کے "رحبہ" نامی محلے کی ایک مسجد میں ایک دوسرے پر رکھ دئے گئے۔
عمارہ کہتے ہیں :
میں وہاں گیا تو لوگ کہہ رہے تھے : وہ آیا ، وہ آیا
اتنے میں وہاں ایک سانپ نمودار ہوا اور ان سروں کے درمیان گھس گیا۔ پھر وہ عبیداللہ بن زیاد کے نتھنے سے اس کے سر میں گھس گیا اور تھوڑی دیر تک سر میں رہنے کے بعد باہر آ گیا اور نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
اس کے بعد پھر لوگوں نے کہا : وہ آیا ، وہ آیا
اور جس طرح وہ سانپ پہلے اس کے نتھنوں کے راستے اس کے سر میں گھسا تھا اسی طرح دو یا تین بار کیا۔


امام ترمذی نے اس حدیث کو " حسن صحیح " قرار دیا ہے۔

Thursday 10 June 2010

دور اندیشی

علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ " کتاب الاذکیاء" میں لکھتے ہیں:

یہ امام ابو الفرج عبدالرحمن بن علی بن الجوزی ہیں- آپ کی ولادت 510ھ میں بغداد میں ہوئی اور وہیں 597ھ میں وفات پائی- آپ کی پرورش و پرداخت حالت یتیمی میں چچی کے زیر تربیت ہوئی اور اپنے ماموں شیخ ابوالفضل بن عامر سے ابتدائی تعلیم حاصل کی- آپ علم کے شیدائی تھے- علوم اسلامیہ میں اجھی طرح دسترس کے بعد وعظ و نصیحت کی مجلسیں قائم کیں اور درس حدیث میں تشنگاں علوم نبویہ کا مرکز بن گئے' چنانچہ آپ کی شہرت کا ڈنکا چہار سو بجنے لگا اور آپ "حافظ" کے لقب سے ملقب ہوئے
-

دو آدمی ایک قریشی خاتون کی حدمت میں حاضر ہوئے اور کے پاس 100 دینا بطور امانت رکھ کر کہا:
" جب تک ہم دونوں اکھٹے ہوکر اپنا مال طلب نہ کریں، تب تک آپ یہ امانت واپس نہیں کریں گی- ہم دونوں کی موجودگی امانت واپس کرتے وقت ضروری ہے-"
اس عورت نے ان کی امانت رکھ لی اور اس پر ایک سال کا وقفہ گذر گیا- ایک سال کے بعد ان دونوں میں سے ایک شخص اس خاتون کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ :

"میرے ساتھی کا انتقال ہوگیا ہے، اس لیے جو 100 دینار ہم نے تمہارے پاس امانت رکھے ہیں، مجھے دےدو-"

خاتون نے امانت حوالے کرنے سے انکار کردیا اور کہنے لگی:

" تم دونوں ساتھیوں نے میرے امانت رکھتے ہوئے یہ شرط رکھی تھی کہ میں تم میں سے ایک کی غیر موجودگی میں مال دوسرے کے حوالے نہ کروں، اس لیے میں امانت تیرے سپرد نہیں کرسکتی"

اس آدمی نے خاتون کے اہل خانہ اور پڑوسیوں سے مدد طلب کی- ان لوگوں نے اس خاتون سے سفارش کی کہ اس کو امانت دے دو کیونکہ اس کے ساتھی کا انتقال ہوگیا ہے-
لوگوں کےبےحد اصرار اور سفارش پر اس عورت نے امانت اس شخص کو دے دی-
ادھر اس بات کو ایک سال اور گذر گیا تو دوسرا شخص جس کو اس کے دوست نے مرا ہوا ظاہر کیا تھا، اس عورت کے پاس آیا اور آکر امانت طلب کی- خاتون نے بتایا:

"تمہارا دوسرا ساتھی آیا تھا اور اس نے بتایا کہ تمہاری وفات ہوچکی ہے، اس لیے میں نے امانت اس کےحوالے کردی۔"

وہ شخص اس عورت سے جھگڑنے لگا اور کہا کہ میں تو زندہ سلامت ہوں- میری امانت واپس کرو-
عورت نے کہا کہ میں تو رقم تمہارے ساتھی کو دے چکی ہوں۔
اب اس عورت کے خلاف مقدمہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی عدالت میں پیش کردیا- عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے دونوں کا مقدمہ سنا اور چاہا کہ اس کا فیصلہ اس آدمی کے حق میں کردیں-
اچانک انہوں نے کچھ سوچا اور پھر فرمایا:

" اس مقدمہ کو ہم علی بن ابی طالب کے سپرد کرتے ہیں اور ایک روایت کے مطابق خود دونوں کو لے کر علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے-"

حضرت علی رضی اللہ عنہ دونوں کے بیانات سنے اور معاملہ کو بھانپ گئے کہ اس عورت کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے، چنانچہ فرمایا:

"کیا تم اس خاتون سے یہ شرط نہیں رکھی تھی کہ مال ایک کی غیر موجودگی میں دوسرے کے حوالے مت کرنا؟"

اس آدمی نے جواب دیا:
"ہاں یہ شرط تو رکھی گئی تھی"

علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"تمہارا مال ہمارے پاس موجود ہے، اپنے ساتھی کو بلا لاؤ، تاکہ میں تم دونوں کا مال تمہارے سپرد کردوں-"

(کتاب الاذکیاء ، ابن جوزی رحمہ اللہ)

Wednesday 9 June 2010

امیر معاویہ رض کی ذہانت کا امتحان

شاہ روم ہرقل نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو چند سوالات لکھ بھیجے کہ ان کا جواب دو:

1/ وہ کون سے شے ہے جس سے ہر شے ہے، اور وہ کون سی شے ہے جو لا شے (کچھ نہیں) ہے؟
2/ چار چيزيں ہیں جن میں روح تو ہے لیکن ان چاروں کا وجود ماں کے رحم اور باپ کی پیٹھ میں نہیں تھا؟
3/ وہ کون تھے جن کی پیدائش بغیر باپ کے ہوئي؟
4/ اس آدمی کا کیا نام ہے جس کی پیدائش بغیر ماں کے ہوئی؟
5/ قوس قزح کیا چيز ہے؟ (قوس قزح = ست رنگی کمان جو برسات کے دنوں میں آسمان پر دکھائی دیتی ہے)
6/ وہ کون سا درخت ہے جو بغیر پانی کے اگتا ہے؟
7/ وہ کون سے چيز ہے جو سانس لیتی ہے لیکن اس کے اندر روح نہیں ہوتی؟
8/ آج، گزشتہ کل، آئندہ کل، اور آئندہ کل کے بعد؟

حضرت معاویہ رض نے ان سوالات پر عبداللہ بن عباس رض کا جواب پاکر ہرقل کو لکھا:

1/ وہ شے جس سے ہر شے ہے، "پانی" ہے- اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
[ وجعلنا من المآء کلّ شی حیّ] "اور ہم نے پانی سے ہرزندہ چيز پیدا کی-" (الانبیاء:21/30]
اور وہ شے جو لا شے (کچھ بھی نہیں ہے)، وہ "دنیا" ہے جو ختم ہونے والی اور زوال پذیر ہے-

2/ وہ چار چيزيں جن میں روح تو ہے لیکن ان چاروں کا وجود ماں کے رحم اور باپ کی پیٹھ میں نہیں تھا، یہ ہیں:
(1) آدم علیہ السلام (2) حوا علیہ السلام (3) صالح علیہ السلام کی اونٹنی (4) اسماعیل علیہ السلام کا مینڈھا-

3/ حضرت مسیح علیہ السلام کی پیدائش بغیر باپ کے ہوئی

4/ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش بغیر ماں کے ہوئی

5/ قوس قزح اللہ تعالی کی طرف سے بندوں کو غرقاب ہونے سے "امان" ہے-

6/ بغیر پانی کے اگنے والا درخت "یقطین" ہے جسے اللہ تعالی نے یونس علیہ السلام کے اوپر اگایا تھا- اللہ تعالی کا ارشاد ہے: [ و انبتنا علیہ شجرۃ مّن یّقطین] "اور ہم نے یونس پر سایا کرنے والا ایک بیل دار درخت اگایا"- (الصافات: 37 /146)

7/ وہ چيز جو سانس لیتی ہے لیکن اس کے اندر روح نہیں ہے، وہ "صبح " ہے- اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
[ والصّبح اذا تنفّس] " اور قسم ہے صبح کی جب کہ اس نے سانس لیا-" ( التکویر: 81/18)

8/ جہاں تک آٹھویں سوال کا تعلق ہے توآج "عمل" ہے، گزشتہ کل "مثال" ہے، آئندہ "موت" ہے اور آئندہ کل کے بعد "مشکل الحصول آرزو اور امید ہے"-

Tuesday 8 June 2010

آئینہ جمال نبوت

{ آئینہ جمال نبوت}


حسن و جمال کی ایک جھلک:

حضرت براءبن عازب رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قد میانہ تھا، کندھوں کا درمیانی فاصلہ عام پیمانے سے زیادہ، بال کانوں کی لو تک لمبے، سرخ جورا زیب تن کيے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ خوب رو میں نے کسی کو نہیں دیکھا-
(صحیح بخاری، المناقب، باب صفت النبی صلی اللہ علیہ وسلم، حدیث 3549)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس فرحاں و شاداں آئے- آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کی دھاریاں چمک رہی تھیں۔
(صحیح بخاری، حوالہ سابق، حدیث: 3555)

Sunday 6 June 2010

محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کرسکتے ہیں؟؟

السلام علیکم!
ہفتے میں ایک دفعہ ہم کچھ دوست ایک اہل حدیث شیخ سے قرآنی عربی سیکھتے ہیں۔
وہ شیخ ہیں تو اہل حدیث مگر انہوں نے ساری زندگی دیوبندیوں کے مدارس میں تعلیم حاصل کی ہے اور وہ ساری زندگی اہل دیوبندی رہے ہیں۔
حافظ قران بھی ہیں اور قاری بھی ہیں اور ایم اے عربی بھی کیا ہوا ہے۔
اب تک ان کی کتنی باتوں کو میں اللہ کے فصل سے رد کرچکا ہوں صحیح احادیث کی روشنی میں۔
پچھلے اتوار کو بھی کلاس تھی اور میں کلاس ختم کرکے فوری طور پر گھر چلا گیا طبیعت کی ناسازگی کی وجہ سے۔
پیجھے شیخ صاحب دین کی باتیں کرنے لگے۔
میرے ایک اسٹیٹ ایجنٹ دوست نے ان سے سوال کیا۔

شیخ! ہم اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارک جائيں تو کیا کیا کریں؟

شیخ نے جواب دیا: آپ ادھر پہنچ کر الصلاۃ والسلام علیک یا رسول اللہ پڑھیں اور اس کے بعد ادب و احترام کو ملحوظ خاطر لا کر درود شریف پڑھیں اور اس کے بعد آپ ان سے جو چاہیں باتیں کرسکتے ہیں مگر آپ ان سے کچھ مانگ نہیں سکتے صرف اپنی باتیں ان تک پہنچا سکتے ہیں۔

میرے دوست نے سوال کیا کہ پھر والدین کی قبر کے بارے میں آپ کا کیا تاثر ہے؟شیخ نے فرمایا: ان کی قبر پر جاکر آپ ان سے بات کرسکتے ہیں۔

دوسرے دن میرے دوست نے میری آفس میں آکر ساری باتیں بتائيں اور کہا کہ شیخ کی باتوں سے تو شرک کا چور دروازہ کھلتا ہے اور بریلویں کی باتوں کو صحیح مانا جائے۔
یہ بات ذھن نشین رہے کہ میرے علاوہ اس ساری کلاس کے شاگر بریلوی ہیں اور میں ان پر کافی سالوں سے محنت کررہا ہوں، اب الحمداللہ انہوں نے بدعات و شریکہ عقائد سے ہٹ گئے ہیں۔
مگر شیخ کی باتوں کے دیوانے ہیں اور ہفتہ شیخ کی باتوں کا رد کرنے کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے اور ان کے سوالوں کا جواب دینا پڑتا ہے۔

اب شیخ رفیق طاہر، شیخ بشیر یا اور کوئی بھائی یا بہن بتلائے کہ شیخ کی بات میں کتنا وزن ہے؟

یاد رہے کہ اگلے اتوار کو میں ان سب کے سامنے شیخ سے ان کی باتوں کی دلیل مانگوں گا۔
اچ شیخ کو ای میل کروں گا کہ اپنی بات کے دفاع میں تیار ہوکر آئيے گا اور دلائل سے اس کو ثابت کرنے کی کوشش کیجيے گا۔
آپ کا اس کے بارے میں کیا جواب ہے؟

والسلام علیکم



جواب

انکی مذکورہ بالا دونوں باتیں قرآن وسنت کے خلاف ہیں
اللہ رب العالمین نے فرمایا ہے
 :
ومن ورائہم برزخ إلى یوم یبعثون [المؤمنون : 100]
ان (فوت شدگان اور دنیا ومافیہا) کے درمیان قیامت تک آڑ (پردہ ) ہے

نیز فرمایا
 :
إنک لا تسمع الموتى [النمل : 80]
یقینا‌ آپ صلى اللہ علیہ وسلم مردوں‌ کو نہیں‌ سنا سکتے

نیز فرمایا

وما أنت بمسمع من فی القبور [فاطر : 22]
قبر والوں‌کو آپ نہیں‌ سنا سکتے

نیز فرمایا

أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بہا [الأعراف : 195]
کیا ان (جن انسانوں کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو ) کے کان ہیں‌ جن سے وہ سنتے ہیں

والسلام علیکم

خبر بیان کرنے کا مسئلہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"کفی بالمرء کذبا ان یحدث بکل ما سمع"
آدمی کے لیے جھوٹا ہونے میں (یہ بات) کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو (بغیر تحقیق کے) بیان کرے"-
(رواہ مسلم)

تشریح:
مطلب یہ ہے یہ اگر کوئی شخص یہ عادت رکھتا ہو کہ جو کچھ سنے بغیر تحقیق کےروایت بیان کرے تو اس کے جھوٹ بولنے میں اسی قدر کافی ہے- کیونکہ جو کچھ وہ سنتا ہے، سب سچ نہیں ہوسکتا بلکہ سنی سنائی باتیں اکثر جھوٹ ہوتی ہیں- اس لیے جب تک کسی بات یا خبر کا سچ ہونا متحقق نہ ہو اسے ہرگز آگے بیان نہیں کرنا چاہیے- معلوم ہوا کہ خبروں کا بیان کرنا ایک ذمہ داری کی چيز ہے اور مسائل دین میں سے ہے-
خبردار! کسی سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق و تفتیش کے کبھی آگے نہ پہنچاؤ-

آئیے دعا مانگیں

السلام علیکم
آئیے ۔۔۔ روزانہ اچھی اچھی دعائیں مانگا کریں ۔۔۔
انشاءاللہ

سب سے پہلے میں امت مسلمہ کے حق میں دعا کرونگا کہ "یا اللہ امت مسلمہ کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ آمین

Saturday 5 June 2010

زبان کے ساتھ وضو کی نیت کی بدعت اور سنت سے اس کا رد

بدعتی کہتا ہے
" میں فلاں نماز کے لیے وضو کی نیت کرتا ہوں"

یہ ایسی منکر بدعت ہے جس پر کتاب اور سنت سے کوئی دلیل نہیں اور نہ ہی عقل مند لوگوں کا کام ہے بلکہ اس فعل کا مرتکب صرف وسوسہ پرست، پاگل شخص اور بیمار ذھن ہی ہوتا ہے۔

میں اللہ کی قسم دیتے ہوئے آپ سے پوچھتا ہوں کہ آپ جب کھانے کا ارادہ کرتے ہیں تو کیا زبان سے نیت کرتے ہیں کہ میں فلاں فلاں قسم کے صبح کے کھانے کی نیت کرتا ہوں؟!
یا جب آپ قضائے حاجت کے لیے بیت الخلاء میں داخل ہوتے ہیں تو کیا یہ کہتے ہیں کہ میں پیشاب یا پاخانہ کرنے کی نیت کرتا ہوں؟
يا جب آپ اپنی بیوی سے جماع کا کرادہ کرتے ہیں تو تو کیا یہ کہتے ہیں کہ میں اپنی بیوی فلاں بنت فلاں سے نکاح کے بعد جائز شرعی جماع کرتا ہوں؟

ایسا کرنے والا شخص یقینا پاگل اور مجنون ہی ہوسکتا ہے-
تمام عقل مند انسانوں اس پر اجماع ہے کہ نیت کا مقام دل ہے نہ کہ زبان، کسی چيز کے بارے میں میں آپ کے ارادے کور نیت کہتے ہیں جس کے لیے آپ کو زبان کے ساتھ نیت کے تکلف کی ضرورت نہیں اور نہ ہی ایسے الفاظ کہنے کی ضرورت ہے جو آپ کے ہونے والے عمل کو ماضح کریں-
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

(( انما الااعمال بالنیات و انما لکل امری مانوی۔۔۔۔۔۔۔۔))
"اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر آدمی کو (مثلا ثواب وعذاب) اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا"-
[ صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب ماجاء ان الاعمال بالنیۃ والحسبۃ (54)]

یعنی اعمال وہی معتبر ہیں جن کی نیت اور عمل کے ساتھ تصدیق کی جائے- حدیث بالا کے باقی الفاط اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ زبان کے ساتھ (رٹے رٹائے) الفاظ کہنے کو نیت نہیں کہتے، رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا:

(( فمن کانت ھجرۃ الی اللہ ورسولہ فھجرۃ الی اللہ و رسولہ ومن کانت ھجرۃ الی دنیا یصیبھا او امراۃ ینکحھا فھجرۃ ماھاجر الیہ))
" پس جس نے اللہ اور اس کے رسولۖ کےلیے ھجرت کی تو اس ھجرت اللہ اور اس کے رسولۖ کے لیے ہی ہوگی اور جس نے دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لیے ھجرت کی ہوگی تو اس کی ھجرت اسی مقصد کے لیے ہوگی (نہ کہ اللہ اور رسولۖ کے لیے)۔
[ صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب ماجاء ان الاعمال بالنیۃ والحسبۃ (54)]


کسی شخص نے بھی یہ بات نہیں کی کہ نکاح یا حصول دنیا مثلا خرید و فروخت یا تجارت کے لیے کپا گھر بار چھوڑے تو کس پر زبان سے نیت کرنا لازم ہے' بلکہ کی نیت اس کے طرز عمل سے معلوم ہوتی ہے- اگر وہ شخص ان چيزوں میں زبان سے نیت کرنک شروع کردے تو عقل مند لوگ اسے پاگل اور مجنون ہی قرار دیں گے-
یہ بھی یاد رہے کہ عبادات میں اصل حرمت ہے یعنی کوئی عبادت بغیر شرعی دلیل کے جائز نہیں بلکہ حرام ہے، اللہ آپ کو اور مجھے اتباع سنت پر قائم رکھے-
عبادات میں یہ حرمت بغیر کسی شرعی دلیل کے جواز نہیں بن جاتی- زبان سے نیت کرنے والا شخص اگر اسے عبادت نہیں سمجھتا تو اس کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اسے عبادت سے منسلک کردے اور اگر وہ رٹے رٹائے الفاظ بطور عبادت کہتا ہے تو اس پر یہ لازم ہے کہ اس فعل کے جواز پر شرعی دلیل پیش کرے اور حالانکہ اس کے پاس اس فعل پر سرے سے کوئی دلیل ہے ہی نہیں۔
امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم وضو کے شروع میں " میں نیت کرتا ہوں رفع حدث کے لیے يا نماز پڑھنے کے لیے " وغیرہ الفاظ بلکل نہیں کہتے تھے اور نہ آپ کے اصحابہ کرام سے یہ بات ثابت ہے اور اس سلسلہ میں ایک حرف بھی آپ سے مروی نہیں' نہ صحیح سند سے اور نہ ہی ضعیف سند سے-
( ذادالمعاد: 1/196)

اس بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے علماء کے اقوال تفصیل سے ذکر کیے ہیں، علم کے ساتھ نیت انتہائی آسان ہے، یہ وسوسوں، خود ساختہ بندشوں اور نام نہاد زنجیرون کی محتاج نہیں ہے اور اسی لیے بعض علماء کہتے ہیں کہ آدمی کو وسوسہ اس وقت آتا ہے جب وہ فاتر العقل يا شریعت کے بارے میں جاہل ہوتا ہے-
لوگوں نے اس بات کے بارے میں اختلاف کیا ہے کہ کیا زبان سے نیت کرنا مستحب ہے؟

امام ابو حنیفہ، امام شافعی اور امام احمد کے ساتھیوں میں سے بعض کہتے ہیں کہ ایسا کہنا مستحب ہے کیونکہ اس طرح بات زیادہ واضح ہوجاتی ہے-
اما مالک اور امام احمد کے ساتھیوں میں سے ایک گروھ کا یہ کہنا ہے کہ ایسا کرنا مستحب نہیں بلکہ نیت سے زبان سے الفاظ ادا کرنا بدعت ہے، کیونکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم، آپ کے صحابہ کرام اور تابعین سے نماز اور وضو یا روزوں میں یہ چيز بلکل جائز نہیں ہے-

علماء یہ کہتے ہیں کہ کسی فعل کے بارے میں علم کے ساتھ ہی نیت حاصل ہوجاتی ہے- لہاذا زبان کے ساتھ رٹے رٹائے الفاظ پڑھنا ہوس پرستی، فضول اور ہذیان ہے۔
نیت انسان کے دل میں ہوتی ہے اور زبان کے ساتھ نیت کرنے والا یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ نیت کا تعلق دل سے نہیں، اسی لیے وہ اپنی زبان سے نیت حاصل کرنا چاہتا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ حاصل شدہ چيز کے حصول کی ہوس تحصیل حاصل کے زمرے میں آتی ہے- اس مذکورہ غلط عقیدہ کی وجہ سے بہت سارے لوگ ان وسوسوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں-
 (مجموع الفتاوی: 18/263،264)

امام ابن رجب الحمبلی رحم اللہ علیہ اپنی کتاب" جامع العلوم (ص40)" میں فرماتے ہیں کہ " ان مسائل میں کوئی حوالہ ہم نہ سلف صالحین سے پاتے ہیں اور نہ کسی اور امام سے-
ان سطور کے تحریر کرنے کے بعد مجھے گمراھ بدعتوں کے ایک سردار اور سقاف اردن کے باری میں معلوم ہوا کہ یہ خبیث شخص ام المومنین حضرت عائشہ رصی اللہ عنہ کی حدیث سے نیت کے تلفظ پر استدلال کرتا ہے، جس میں آیا ہے کہ" جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہ سے کھانے کے بارے میں میں پوچھا اور انہوں نے کہا کہ کھانا موجود نہیں ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمايا میں روزا رکھتا ہوں"-
(صحیح مسلم، کتاب الحج، باب جواز صوم النافلۃ بنیۃ من النھار قبل زوال [1154])

سقاف نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایام حج میں اس قول سے بھی استدلال کیا ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا تھا کہ:

(( لبیک بعمرۃوالحج))
اے اللہ میں حج و عمرہ کے ساتھ لبیک کہ رہا ہوں-
[ صحیح مسلم، کتاب الحج، باب احلال نبی صلی اللہ علیہ وسلم وھدیۃ: 1251]

اور حالانکہ اس کا یہ استدلال مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور ہے-
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے نیت کے تلفظ پر استدلال غلط ہے کیونکہ اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حال اور کیفیت کی خبر دی ہے نہ کہ نیت کی، اگر آپ لفظی نیت کرتے تو اس طرح کہتے کہ" میں روزے کی نیت کرتا ہوں" یا اس کے مشابہ کوئی بات فرماتے-
تلبیہ کے وقت آپ کا (( لبیک بعمرۃ والحج)) کہنا بھی لفظی نیت سے کوئی تعلق نہیں رکھتا، ورنہ آپ یوں کہتے کہ" میں عمرہ اور حج کا ارادہ کرتا ہوں" یا " میں حج و عمرہ کی نیت کرتا ہوں"۔ ان الفاظ کا تعلق اس سنت نبوی سے ہے جو تلبیہ ( لبیک کہنے) سے ہے نہ کہ لفظی نیت سے-
حج اور عمرہ میں لفظی نیت کے بری اور مذموم بدعت ہونے پر دلیل حافظ ابن رجب کا وہ قول بھی ہے جو انہوں نے " جامع العلوم (ص20)" پر لکھا ہے:
" ابن عمر رضی اللہ عنہ سے یہ صحیح سند سے ثابت ہے کہ انہوں نے ایک آدمی کو احرام کے وقت یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں حج اور عمرہ کا ارادہ کرتا ہوں تو انہوں نے (ناراض ہوکر) اسے کہا کہ کیا تو لوگوں کو (اپنی نیت و ارادہ کے بارے میں) بتانا چہتا ہے (کہ تو نیکی کا بڑا کام کررہا ہے)؟ کیا اللہ تعالی تیرے دل کے بھیدوں سے (بھی) واقف نہیں ہے؟"
تو ابن عمر کا یہ قول اس بات کی دلیل ہے کہ زبان کے ساتھ نیت کرنا مستحب نہیں ہے اور نہ ہی اصلاحن جائز ہے۔
واللہ الموفق

اقتسابات: " عبادات میں بدعات اور سنت نبوی سے ان کا رد
ترجمہ و تحقیق: حافظ زبیر علی زئی"

Friday 4 June 2010

روایت حدیث میں احتیاط

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا جھوٹ کے قریب جانا تو ابعد الابعاد تھا وہ تو اس حدیث کی روایت میں بھی بڑی احتیاط کرتے تھے جو انہوں نے رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست سنی تھی کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان :

"من کذب علی متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار"
(جو مجھ پر جھوٹ باندھتا ہے اس کا ٹھکانہ جہنم ہے)

ان کی آنکھوں کے سامنے تھا جس کا خوف انہیں بسا اوقات اصل حدیث کی روایت میں بھی محتاط کردیتا تھا ۔
انس رضی اللہ عنہ جو اصحاب مکثرین میں سے ہیں روایت حدیث میں اپنی احتیاط بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"انہ لیمنعنی ان احدثکم حدیثا کثیرا ان محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال من تعمد علی کذبا فلیتبوأ مقعدہ من النار"
(مجھے تم سے بکثرت حدیثیں بیان کرنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان روکتا ہے کہ جس نے مجھ پر عمدا جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانہ آگ میں بنالے)
صحیح بخاری، ج 1، ص:21، صحیح مسلم، ج 1، ص:7

حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اپنے والد محترم جناب زبیر رضی اللہ عنہ سے عرض کرتے ہیں کہ:

" انی لا اسمعک تحدث عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کما یحدث فلاں و فلاں قال اما انی لم افارقہ ولکن سمعتہ یقول: من کذب علی فلیتبوأ مقعدہ من النار"
(میں نہیں سنتا کہ آپ بھی "اتنی کثرت سے" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں بیان کرتے ہوں جیسا کہ فلان اور فلاں بیان کرتا ہے ، وہ فرمانے لگے: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا تو نہیں ہوا لیکن میں نے سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: "جو مجھ پر جھوٹ باندھتا ہے اس کا ٹھکانہ آگ ہے"
صحیح بخاری، ج 1، ص:12

معروف تابعی عبدالرحمن بن ابی لیلی اپنا مشاہدہ بیان فرماتے ہیں کہ:

" ادرکت فی ھذا المسجد عشرین ومائۃ من الانصار وما منھم من یحدث بحدیث الا ود ان اخاہ کفاہ"
( میں نے اس مسجد میں ایک سو بیس (120) صحابہ کو پایا ہے ان میں سے کوئی ایک بھی حدیث بیان کرنے کو تیار نہ ہوتا بلکہ ہر ایک کی خواہش ہوتی تھی کہ کوئی دوسرا بھائی بیان کرے-"
دارمی

صحابہ کرام حیسا کہ خود حدیث روایت کرنے میں احتیاط سے کام لیتے اسی طرح کسی دوسرے سے یعنی روایت لینے میں پوری احتیاط کرتے تھے جیسا کہ علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

"کنت اذا سمعت من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیثا نفعنی اللہ بما شاء ان ینفعنی بہ وکان اذا حدثنی غیرہ استحلفتہ فاذا حلف صدقتہ"
(میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست کوئی حدیث سنتا تو اللہ مجھے ا س حدیث سے جو نفع پہنچانا چاہتا پہنچا دیتا اور جب کوئی غیر مجھ سے حدیث بیان کرتا تو میں اس سے قسم اٹھواتا اگر وہ قسم اٹھالیتا تو میں اس کی تصدیق کرتا)
مسند احمد، ج 1، ص:2

Thursday 3 June 2010

مسلمانوں کے عیوب کے چھپانے کا بیان

اللہ تعالی نے فرمایا:
 " بلاشبہ وہ لوگ جو اہل ایمان میں بے حیائی پھیلانا پسند کرتے ہیں، ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے"-
(سورۃ نور، 19)

حضرت ابوہریرہ رض سے روایت ہے کہ، نبی کریم ۖ نے فرمایا:
جو بندہ کسی بندے کی دنیا میں ستر پوشی کرتا ہے تو اللہ تعالی قیامت والے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا
(مسلم)


تخریج: صحیح مسلم، کتاب البر، باب بشارت من ستر اللہ تعالی عیبہ فی الدنیا بان یستر علیہ فی الاخرۃ-

فوائد:
لوگوں کے عیوب اور ان کی کوتاہیوں کی پردہ پوشی، مکارم اخلاق میں سے ہے اور اللہ کی صفت ستاری کی مظہر ہے، اس لیے اللہ کو یہ خوبی بہت پسند ہے اور قیامت والے دن وہ بھی اس شخص کواسی قسم کی جزا دے گا- جس کا مطلب یہ ہے کہ یا اللہ تعالی اس کے گناہوں کو معاف فرما دے گا، تاکہ کسی اور کے سامنے اسے شرمندگی نہ ہو، پھر چاہے گا تو معاف فرمادے گا یا کچھ عرصے کے لیے اسے بطور سزا جہنم میں بھیج دے گا-

Wednesday 2 June 2010

قرآن مجید کو غنا سے نہ پڑھنے والا ہم میں سے نہیں

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

"لیس منا من لمیتغن بالقرآن"
(قرآن کو غنا سے نہ پڑھنے والا ہم میں سے نہیں)
صحیح بخاری، کتاب التوحید، باب قول اللہ واسرو واقولکم 13/623 حدیث 7527

غنا کا مفہوم:-

قرآن مجید کو غنا کے ساتھ پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی آواز سنوار کر پڑھے اور فطری آوازز کو اچھا، سوہنا اور خوبصورت بنا کر تلاوت کرے، تلاوت قرآن کے وقت ایسی بے توجہگی نہ ہو کہ بے رخی اور سستی کے انداز میں قراءت کرے اور دل روحانیت کے بجائے بوریت محسوس کرے- سامعین سن کر فورا اکتا جائيں بلکہ ذوق و شوق کے ساتھ، ٹھہر ٹھہر کر، تلفظ کی درستگی اور آواز کی خوبصورتی اور صفائی کے ساتھ تلاوت کرے تاکہ صحیح معنوں میں تلاوت قرآن کے فیوض و برکات اور تجلیات اپنے دامن میں سمیٹا جاسکے-

براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:-

"زینواالقرآن باصواتکم فان الصوت الحسن یزید القرآن حسنا"
اپنی آواز سے قرآن کو مزین کرو، بے شک اچھی آواز قرآن مجید کے حسن میں اضافہ کرتی ہے
سنن الدارمی، کتاب فضائل القرآن، باب التغنی بالقرآن، مستدرک الحاکم 1/575، السلسلۃ الاحادیث صحیحہ 2/401 حدیث 771

علقمہ بن قیس رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالی نے بہت خوبصورت آواز دی تھی او ربالخصوص قرآن مجید انتہائی پر وقار لہجے اور بہترین انداز میں پڑھتے تھے، عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ خصوصی طور پر بلواکر ان سے قرآن مجید کی تلاوت سنتے، جب علقمہ تلاوت ختم کرتے تو آپ فرماتے:

میرے ماں باپ تجھ پر قربان ہوں اور قراءت کرو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے:-

" حسن الصوت زینتہ القرآن"
(اچھی آواز قرآن کی زینت ہے)
سلسلتہ الاادیث صحیحہ 4/429، حدیث 1815

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چھہ چيزیں واقع ہونے سے پہلے پہلے نیک اعمال کرنے میں جلدی کرو، ان چھہ اعمال میں سے ایک عمل جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ یہ ہے:-

" ونشوا یتخذون القرآن مزامیر یقدمون الرجل بافقھھم ولا اعلمھم ما یقدمونہ الا لیغنیھم"
(اور ایسی نئی نسل پیدا ہوگی جو قرآن مجید کو موسیقی بنالیں گے وہ ایک ایسے آدمی کو امامت کے لیے آگے کریں گے جو ان میں سے زیادہ فقیہ ہوگا اور نا زیادہ علم والا اس کو صرف اس لیے آگے کریں گے کہ وہ موسیقی کے انداز میں قرآن سنائے)
مسند احمد 3/494، حدیث علیم عن عبس رضی اللہ عنہ، سلسلتہ الاحادیث صحیحہ 2/672، حدیث 979

آخر میں دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو سنت رسول اصلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق قرآن پاک پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے- آمین

Tuesday 1 June 2010

خوش آمدید

بلاگ پر آپ کو دل سے خوش آمدید !!