Friday 12 July 2013

بی بی سی ڈاکومینٹری- الطاف حسین اور منی لانڈرنگ


بی بی سی ڈاکومینٹری- الطاف حسین اور منی لانڈرنگ



16 ستمبر 2010 کو ایم کیو ایم کے رہنما عمران فاروق کو لندن میں ان کے گھر کے باہر قتل کر دیا گیا تھا۔ قتل کی تحقیقات کا معاملہ شروعات  آہستہ آہستہ آگے بڑھتا رہا لیکن اب کچھ عرصے سے نت نئے انکشافات سامنے آ رہے ہیں- ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے سلسلے میں کی گئی پوچھ تاچھ کے دوران آٹھ افراد ایسے بھی ہیں جن کے نام سامنے نہیں آ سکے (بتایا جاتا ہے کہ ان میں سے ایک ایم کیو ایم ہی کے 70 سالہ ایم انور ہیں جنہیں الطاف حسین کا دایاں ہاتھ سمجھا جاتا ہے)۔ لیکن لندن پولیس کا کہنا ہے کہ ان سے استفسارات اندڑ کوئسچین رکھ کر کی گئی۔ یہ تفتیش الطاف حسین سے وابستہ ان آٹھ افراد سے کی گئی جو ان کے زیادہ قریب مانے جاتے تھے مگر اب براہ راست الطاف حسین سے تفتیش شروع ہو چکی ہے۔
واضح رہے کہ 2005 میں لندن پولیس میں دھمکی پر مبنی ایک شکایت درج کروائی گئی تھی کہ عمران فاروق کے ساتھ الطاف حسین کا رویہ اب ٹھیک نہیں رہا۔ گو کہ شکایت درج کروانے والے کا نام ظاہر نہیں کیا گیا تھا مگر بعد ازاں پتا چلا کہ شکایت کنندہ خود عمران فاروق تھے جنہیں اپنی جان کے خطرہ کا خدشہ پیدا ہو گیا تھا اور اسی پانچ سالہ پرانی شکایت کے مطابق لندن پولیس نے 2010 میں عمران فاروق کے قتل کی تحقیقات ایم کیو ایم سے شروع کر کے اب اپنی تفتیش کے دائرے میں الطاف حسین کو بھی شامل کر لیا ہے۔ 

نجم سیٹھی کے بقول اسی قتل کے سلسلے میں ایم کیو ایم کے لندن میں واقع دفتر پر بھی چھاپا مارا گیا۔ لندن پولیس کا کہنا ہے کہ تحقیقات میں اس امکان کو بھی مد نظر رکھا جا رہا ہے کہ شاید عمران فاروق ایم کیو ایم سے الگ ہو کر کوئی علیحدہ سیاسی پارٹی بنانے جا رہے تھے۔ 
گذشتہ دنوں لندن پولیس نے دو مکانات پر چھاپہ مارا اور وہاں سے بڑی تعداد میں رقومات برآمد کرتے ہوئے منی لانڈرنگ کی تحقیقات شرو ع کر دی ہے ۔ ان دونوں رہائش گاہوں میں سے ایک کا تعلق ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین اور دوسرے کا تعلق الطاف حسین کے کزن افتخار حسین سے ہے جس کو پولیس نے باقاعدہ گرفتار کرتے ہوئے ستمبر تک ضمانت پر رہا کیا ہے۔ 
اسی چھاپہ کی تحقیقات کے ضمن میں لندن پولیس نے الطاف حسین سے تقریبا سات گھنٹے تک منی لانڈرنگ کے بارے میں تفشیش کی۔ واضح رہے کہ لندن پولیس کا کاؤنٹر ٹیررازم شعبہ اس کیس کی تفتیش کر رہا ہے کیونکہ منی لانڈرنگ ٹیررازم ایکٹ کے زمرے میں آتا ہے ۔ 
لندن پولیس نے الطاف حسین کے جن دو اکاؤنٹس کی تفصیلات حاصل کی ہیں ان میں سے ایک اکاؤنٹ میں تین سال کے اندر 4 ملین پاؤنڈز (تقریبا 60 کروڑ پاکستانی روپے) کی رقم منتقل ہوئی ہے۔ اور جب الطاف حسین کے جائیداد کی معلومات حاصل کی گئی تو انکشاف ہوا کہ لندن میں 30 ملین پاؤنڈز (تقریبا 4 ارب روپے) کی جائیداد ان کی ملکیت میں شامل ہے۔ یہ جائیداد 10 سال پہلے خریدی گئی تھیں اور اب ان کی قیمت تقریباً 4 گنا زیادہ ہے۔ 

واضح رہے کہ منی لانڈرنگ دو قسم کی ہوتی ہے۔
نمبر ایک - ٹیکس چوری: کسی کاروبار میں اگر حکومتی ٹیکس ادا نہیں کیا گیا اور اس کاروبار کے منافع کی رقم سے دیگر پراپرٹیز یا کاروبار خرید لیا جائے تو یہ بلیک منی کو وہائٹ منی میں تبدیل کرنے کے مترادف ہے۔
نمبر دو - کرمنل پروسیجر: اگر کسی بڑے جرم (مثلاً : بنک ڈاکہ، قتل ، اغوا وغیرہ) کے ارتکاب کے ذریعے معاوضہ حاصل کیا جائے اور اس رقم سے کوئی جائیداد یا کاروبار خرید لیا جائے ، پھر اسے دوبارہ سہ بارہ فروخت کر کے یہ ظاہر کیا جائے کہ جائیدادوں کی خرید و فروخت کے ذریعے دولت جمع کی گئی ہے تو یہ درحقیقت "کریمنل منی لانڈرنگ" ہے جو ایک معنوں میں منی لانڈرنگ کا سب سے بڑا جرم باور کیا جاتا ہے۔

لندن میٹروپولیٹن پولیس، سکارٹ لینڈ یارڈ اور کاؤنٹر ٹیررازم یونٹ الطاف حسین سے اسی کرمنل منی لانڈرنگ کی تفتیش کر رہی ہیں۔

اس تفتیش کے دوران جب الطاف حسین سے اس دولت کے منبع سے متعلق سوالات کیے گئے تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ پیسہ کارکنان نے چندہ جمع کر کے پارٹی امور چلانے کے لیے بھیجا ہے اور اس کا اعتراف الطاف حسین نے خود میڈیا میں تقریر کے ذریعے کیا ہے۔
برطانوی قانون کے مطابق چیرٹی کا جتنا بھی پیسہ ہوتا ہے وہ ظاہر کیا جاتا ہے اور اس کے باقاعدہ اکاؤنٹس ہوتے ہیں کہ کتنا پیسہ کہاں سے آیا ہے اور جن لوگوں نے ڈونیشن دیا ان لوگوں کی تفصیلات بمع رسیدوں کے ظاہر کرنا ہوتی ہیں۔ جبکہ الطاف حسین نے ان رقومات کو نہ صرف چھپایا بلکہ ان کے ذریعے ذاتی جائیدادیں بھی خریدی ہیں۔ 
ہر چند کہ عمران فاروق قتل کیس میں الطاف حسین کے بالواسطہ ملوث ہونے کی تحقیقات ہو رہی ہیں مگر منی لانڈرنگ کیس میں ان کے براہ راست ملوث ہونے کی تفشیش جاری ہے اور منی لانڈرنگ کا معاملہ عمران فاروق قتل کیس کے ذریعے ہی منظر عام پر آیا ہے۔

واضح رہے کہ الطاف حسین اور ان کے کزن افتخار حسین کے گھروں پر جب پولیس نے چھاپہ مارا تو پولیس کے پاس باقاعدہ سرچ وارنٹ تھے جو انہوں نے عدالت سے حاصل کیے تھے اور عدالت صرف اسی وقت سرچ وارنٹ جاری کرتی ہے جب اس کے سامنے ان افراد سے متعلق کچھ واضح ثبوت پیش کیے جائيں جن کے گھروں پر پولیس کو ریڈ کرنے کی اجازت درکار ہو۔ اس سلسلے میں پولیس کے پاس ٹھوس ثبوت ہوتے ہیں کہ چھاپہ کے ذریعے انہیں مطلوبہ چيز دستیاب ہو جائے گی۔ 
چھاپہ کے بعد الطاف حسین کے گھر سے پولیس کو ایک ملین پاؤنڈز (تقریبا 16 کروڑ روپے) نقد حاصل ہوئے جن کے جائز حصول کا کوئی بھی ثبوت الطاف حسین کے پاس موجود نہیں تھا۔ لندن پولیس نے پہلے بنک اکاؤنٹس کی معلومات حاصل کی تھیں اور اس کے بعد چھاپہ مار کر متذکرہ رقم کو بھی برآمد کر لیا جو کہ الطاف حسین کے خلاف منی لانڈرنگ کیس شروع کرنے میں ایک بڑا ثبوت مانا جا رہا ہے۔

اسی تفتیش کے بعد الطاف حسین نے بوکھلاہٹ میں نائن زیرو میں اپنے کارکنوں کو بلا کر پارٹی سے استعفی پیش کر دیا اور یوں پارٹی پر اپنا اخلاقی دباؤ ڈالنے کی کوشش کی کہ پارٹی اور کارکنان اس کٹھن وقت میں ان کا بھرپور ساتھ دیں۔ 
اب اگر الطاف حسین کے بقول پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے لےکر برطانوی اسٹیبلیشمنٹ تک ان کے خلاف سینہ سپر ہو چکی ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کون سی طاقت ہے جس کے سہارے ایم کیو ایم اپنے لیڈر الطاف حسین کو اس طاقتور (برطانوی) اسٹیبلشمینٹ سے بچالے گی اور جس کی امید پر الطاف حسین نے برطانوی اداروں کو دھمکی تک دے ڈالی ہے؟

کہا جا رہا ہے کہ اس ساری تفتیش میں ایک اور مہرے نے بھی لندن پولیس کا بھرپور ساتھ دیا ہے اور وہ مہرہ ہے برٹش میڈیا۔ برٹش میڈیا کو عرصہ قبل سے ایم کیو ایم اور الطاف حسین کی بھتہ پایسی، کراچی میں قتل عام اور اغوا برائے تاوان جیسی حرکتوں کا بخوبی علم تھا مگر وہ مناسب وقت کا انتظار کر رہی تھی اور جب انہیں پولیس کی طرف سے منی لانڈرنگ کیس کی کاروائی کا علم ہوا تو انہوں نے اس کیس کے بارے میں مضامین لکھنا شرو ع کر دیے جو انڈپینڈنٹ ، گارجین جیسے مقبول اخبارات اور بی بی سی میں شائع ہوئے۔ حتیٰ کہ چینل 4 نے اس کیس سے متعلق 10 تا 15 منٹ کی ڈاکومینٹری فلم بھی بنائی۔ یوں برٹش میڈیا نے اپنی حکومت پر اس سلسلے میں دباؤ ڈالا ہوا ہے اور وہ دباؤ دن بدن بڑھ رہا ہے۔ برٹش پارلیمنٹ کے کچھ ممبران بھی الطاف حسین کے خلاف انکؤاری کرانے کا مطالبہ تک کرچکے ہیں۔ 

یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ برٹش میڈیا نےاچانک الطاف حسین میں دلچسپی لینا کیسے شروع کیا جبکہ بیشمار پاکستانی سیاستدانوں کی جائیدادیں برطانیہ میں موجود ہیں بشمول بے نظیر، زرداری اور شریف برادران۔۔۔ تو پھر برٹش میڈیا پر وہ کون سا دباؤ ہے جس نے الطاف حسین کے کیس میں دلچسپی لینے پر مجبور کیا اور نہ صرف دلچسپی بلکہ اس کے خلاف تحقیقات کے لیے بھی دباؤ ڈالا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس دباؤ کے تانے بانے عمران خان اور ان کی پارٹی پی ٹی آئی کی طرف جاتے ہیں۔

تین تلوار پر پی ٹی آئی کے دھرنے کے خلاف الطاف حسین جو نے تقریر کی تھی اس تقریر نے پاکستان اور برطانیہ میں موجود پی ٹی آئی کے حامیوں کو مشتعل کیا اور اسی تقریر کے خلاف لندن پولیس کو تقریباً 15 ہزار سے زائد درخواستیں الطاف حسین کے خلاف موصول ہوئیں اور لندن پولیس کو لوگوں کو مزید درخواستیں دائر کرنے سے روکنے کی آفیشیلی اپیل کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ لہذا الطاف حسین کے خلاف انکواری شروع کردی گئی۔ آخر کار برطانیہ ایک طاقتور جمہوری ملک ہے اور اس کی حکومتیں اور ادارے عوام کے سامنے جوابدہ ہیں۔ 

چند اراکین برٹش پارلیمنٹ بھی عمران خان کے حامیوں میں شامل ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ حمایت کرنے والوں میں میں سب سے مضبوط شخصیت عمران خان کے سابقہ برادر نسبتی یعنی جما‏ئما خان کے بھائی زیگ گولڈ سمتھ ہیں جو کہ برسر اقتدار کنزرویٹو پارٹی میں کافی اثر ورسوخ رکھتے ہیں۔ ان کی الیکش مہم خود عمران خان نے لندن میں ان کے جلسوں میں تقاریر کر کے چلائی تھی اور انہی جلسوں کی بنیاد پر برطانیہ کے امیر ترین خاندان سے تعلق رکھنے والے زیک گولڈ سمتھ پارلیمنٹ تک پہنچے تھے۔ 

کراچی میں پی ٹی آئی کی رہمنا کو قتل کیا گیا اور اس قتل سے عمران خان اور ان کے برطانوی حامیوں میں اشتعال پھیل گیا اور انہوں نے برٹش میڈیا پر اپنا بھرپور اثر و رسوخ استعمال کر کے دباؤ ڈالا اور اسی برٹش میڈیا کے دباؤ اور پولیس کی انکؤاری کے مدنظر الطاف حسین کے گرد گھیرا تنگ ہو گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ الطاف حسین نے جو سب سے بڑی غلطی کی وہ دراصل عمران خان کی مخالفت ہے ، ان کے خلاف بیانات اور بقول عمران خان کے، ان کی رہنما کا قتل۔ شاید الطاف حسین یہ حقیقت فراموش کر گئے تھے کہ عمران خان برطانیہ میں ہاٹ فیوریٹ ہیں اور برطانیہ میں کوئی بھی عمران خان کے خلاف لن ترانی نہیں کر سکتا۔ ریاست ہائے متحدہ برطانیہ کا سارا میڈیا ، عوام اور پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے اراکین عمران خان کو پسند کرتے ہیں۔ 

طلعت حسین کے بقول ۔۔۔ پتہ نہیں آپ میں سے کتنوں نے حال ہی میں بی بی سی پر چلنے والی ڈاکیومینٹری دیکھی ہو؟ ڈاکومینٹری 2 حصوں پر مبنی ہے – ایک حصہ فاروق ستار کا انٹرویو اور دوسرا وہ تحقیقات جن کے گھیرے میں اس وقت الطاف حسین پھنسے ہوئے ہیں- پاکستان میں اس ڈاکومینٹری کی کوئی خاص تشہیر نہیں ہوئی- اس کی بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ اس کا مرکزی کردار الطاف حسین کی ذات ہے۔ ہاں اگر یہ ڈاکومینٹری عمران خان، نواز شریف، آصف علی زرداری یا جنرل پرویز مشرف کے بارے میں ہوتی تو شاید سینکڑوں ٹی۔وی چینل اسے "ہاٹ بریکنگ نیوز" جتانے میں رطب اللسان بنے ہوئے ہوتے۔
مگر اس عدم تشہیر کے باوجود بی بی سی پر پیش کی جانے والی فلم کی سیاسی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کالا دھن سفید کرنے کا مقدمہ اور ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس اب اخباروں کی رپورٹوں سے پھلانگ کر تصاویر کے ذریعے جستیں لگاتے ہوئے دنیا بھر میں پھیل گیا ہے۔ لاکھوں پاؤنڈز، غیر معمولی اختیارات، دھمکی آمیز تقاریر اور برطانوی اداروں کے ساتھ مل کر پاکستان کے ریاستی اداروں کو نتھ ڈالنے کے تمام قصے اب بی بی سی نے ریکارڈز کے حصے بنا دیے ہیں- 
یہ ڈاکومینٹری ان معاملات میں ہونے والی تقتیش کی رفتار کے پیش نظر بنائی گئی ہے- ایم کیو ایم کی قیادت اپنے تمام تر اثر رسوخ کے باوجود برطانیہ کے فرنٹ میں ہونے والی جنگ میں بری طرح پھنس چکی ہے- خدشہ ہے کہ اس جنگ کے نتائج کہیں کراچی میں نہ نکلیں، جس کے امکانات بہت قوی ہیں۔ شاید اسی سبب پہلی مرتبہ اسلام آباد ، راولپنڈی اور لندن الطاف حسین کے بارے میں ہم خیال ہو گئے ہیں۔ 

لندن میٹروپولٹن پولیس اس وقت الطاف حسین کے خلاف تین الزامات پر انویسٹی گیشن کر رہی ہے۔ ایک عمران فاروق قتل کیس، دوسرا منی لانڈرنگ اور تیسرا وہ تقریر جو الطاف حسین نے الیکشن کے بعد تین تلوار پر کی تھی۔ 
بی بی سی جیسے معتبر ادارہ نے بھی الطاف حسین کے خلاف محاذ سنبھالا ہے اور اس موضوع پر ڈاکومینٹری فلم بنانا بھی شروع کر دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق آدھے گھنٹے دورانیہ کی ایک اور فلم الطاف حسین کے خلاف بن رہی ہے اور بہت جلد منظر عام پر آنے والی ہے۔ امکان ہے کہ 
وہ فلم الطاف حسین کے لیے آخری کیل ثابت ہوگی۔


بی بی سی ڈاکومینٹری - الطاف حسین اور منی لانڈرنگ

Tuesday 9 July 2013

میرا سر نہیں رہے گا ، مجھے اس کا غم نہیں ہے

"میرا سر نہیں رہے گا ، مجھے اس کا غم نہیں ہے"

ایک انتہائی غریب گھرانے کے نوجوان ضیاء الحق کو جب 2009ء میں زبردست جدوجہد اور محنت کے بعد یو۔پی پولیس کی ملازمت ملی تھی تو اس کے گاؤں میں جشن کا ماحول تھا کیونکہ وہ اس عہدے تک پہنچنے والا اپنے گاوں کا پہلا نوجوان تھا لیکن گذشتہ اتوار [3/مارچ] کو جب گولیوں سے چھلنی اس کی لاش تجہیز و تکفین کیلئے گاوں میں لائی گئی تو ہر طرف ماتم چھایا ہوا تھا۔ ہر چہرے پر غم و غصے کی لکیریں تھیں لیکن ضیاء الحق کی نوجوان بیوہ رنج و الم کا پہاڑ ٹوٹنے کے باوجود ان ظالموں سے لوہا لینے کا حوصلہ دکھا رہی تھی، جنہوں نے اس کے شوہر کو نہایت بے رحمی سے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ 

یہ کہانی ایک ایسے جراءت مند مسلم نوجوان کی ہے جس نے ایک معمولی خاندان میں جنم لے کر اپنا کیرئیر بنانے کی انتھک جدوجہد کی اور وہ پی پی ایس (پرونشل پولیس سروسز - Provincial Police Services) کے لئے منتخب کر لیا گیا۔
ضیاء الحق کے سامنے تابناک مستقبل تھا اور کچھ ایسے خواب بھی تھے جو وہ پولیس کی ملازمت میں رہ کر تعبیر کرنا چاہتا تھا لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ 
ضیاء الحق کا قصور یہ تھا کہ اس نے بے ایمانی، دغا بازی، فریب اور غنڈہ گردی کے اس دور میں ایمانداری، وفا شعاری اور شرافت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ ضیاء الحق نے اپنی جان دے کر زندگی کے سنہرے اصولوں کی لاج بچائی ہے تو بے جانہ ہو گا۔ 
ضیاء الحق جیسے جراءت مند ہونہار اور ایماندار پولیس آفیسر کو آدم خور اور وحشی سیاست داں "راجہ بھیا" کے علاقے میں تعینات کرنے کا فیصلہ کس نے لیا تھا یہ تو ہمیں نہیں معلوم لیکن اتنا ضرور ہے کہ راجہ بھیا کے حلقہ انتخاب میں بطور پولیس آفیسر اپنی پوسٹنگ کے دوران ضیاء الحق نے کبھی اس کے دربار میں حاضری نہیں دی اور نہ ہی راجہ بھیا کے ناپاک قدموں کو چھونے کی دوسرے افسران کی روایت پر عمل کیا۔ 

ضیاء الحق کو یہ بات اچھی طرح معلوم تھی کہ پرتاب گڑھ میں وہی افسر صحیح سالم اپنے گھر کو واپس جا سکتا ہے جو روزانہ صبح کو راجہ بھیا کا آشیرواد حاصل کرے اور خود کو اس کے رحم کرم کا محتاج سمجھے ۔ 
ضیاء الحق کی مجبوری یہ بھی تھی کہ اس کے غریب باپ نے اس کا نام "ضیاء الحق" رکھا تھا جس کا مفہوم ہے "حق کی روشنی"۔ اگر یہ کہا جائے کہ ضیاء الحق اپنے نام کی طرح اپنے کام کو بھی حق کی روشنی سے تابناک بنانا چاہتا تھا تو بے جانہ ہو گا۔ 
لیکن ضیاء الحق کو یہ بات معلوم نہیں تھی کہ اس زمانہ میں جو لوگ سچائی کو پھیلانے اور حق کا پرچم بلند کرنے کی ہمت دکھاتے ہیں وہ اسی طرح گھناؤنی سیاست اور عداوت کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں ۔ 

ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کا اقتدار اس وقت مسلمانوں کی ہمدرد کہلائی جانے والی سماج وادی پارٹی کے ہاتھوں میں ہے ۔ وزیراعلیٰ کی کرسی پر اکھلیش یادو موجود ہیں لیکن حکومت کی اصل کمان ان کے والد ملائم سنگھ یادو کے ہاتھوں میں ہے ۔ جنہیں ماضی میں ان کی مسلم نوازی کی وجہہ سے "مولانا ملائم" کے خطاب سے سرفراز کیا جا چکا ہے ۔ ایک زمانہ تھا کہ لوگ ملائم سنگھ کو مسلمانوں کا مسیحا قرار دیتے تھے ۔ ایک سال قبل جب اکھلیش یادو کی تاج پوشی ہوئی تھی تو اس تقریب کا دعوت نامہ مجھے بھی ملا تھا۔ وزیروں کی اجتماعی حلف برداری کے دوران جب راجہ بھیا نام پکارا گیا تو میری طرح کئی سنجیدہ لوگوں کی پیشانی پر تشویش کی لہریں ابھریں ۔ زیادہ حیرت اس وقت ہوئی جب راجہ بھیا کو جیل کے معاملات کی وزارت سونپی گئی۔ یہ الگ بات ہے کہ مایاوتی کے دور اقتدار میں راجہ بھیا نے بیشتر حصہ جیل ہی میں گذارا تھا۔ ظاہر ہے کہ جیل کے امور کی جانکاری راجہ بھیا سے زیادہ اور کسے ہو سکتی تھی۔
پرتاب گڑھ کے کنڈہ اسمبلی حلقہ سے پانچ بار چنے گئے راجہ بھیا کے بارے میں یہ بتانا صروری ہے کہ ان کے خلاف لوٹ مار، ڈکیتی، قتل، ناجائز وصولی اور دہشت گردی جیسے الزامات کے تحت 50 مقدمات درج ہیں ۔ انہوں نے اپنے قلعے نما مکان میں ایک تالاب بنا رکھا تھا جس میں مگر مچھ پالے ہوئے تھے ۔ مایاوتی انتظامیہ نے راجہ بھیا کو گرفتار کر کے جب اس تالاب کی تلاشی لی تو اس میں انسانی جسموں کے ان گنت ڈھانچے برآمد ہوئے تھے ۔ کہا جاتا ہے کہ راجہ بھیا جس سے ناراض ہو جاتے تھے اسے ٹھکانے لگا کر مگر مچھوں کی غذا بنا دیتے تھے ۔

یہ دہشت، بربریت اور درندگی کی ایسی کہانی ہے جو آج کی سیاست کو بہت راس آتی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ یوپی کابینہ میں اس وقت تقریباً آدھے وزیر مجرمانہ ریکارڈ کے حامل ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ یوپی نظم و نسق کی صورتحال پچھلے ایک سال میں جتنی بگڑی ہے اتنی شائد پچھلے 10برسوں میں بھی نہیں بگڑی تھی۔ 

سی بی آئی نے ضیاء الحق قتل کیس میں راجہ بھیا کوکلیدی ملزم کے طورپر نامزد کیا ہے ۔ جس واقعے میں پرتاب گڑھ کے ڈی ایس پی ضیاء الحق کا قتل ہوا ہے وہ بھی نظم و نسق کی بدترین صورتحال کی گواہی دیتا ہے ۔ راجہ بھیا کے حلقہ انتخاب میں ایک گاؤں کے سرپنچ کا قتل کر دیا گیا۔ الزام ہے کہ سرپنچ اور اس کے بھائی کو راجہ بھیا کے آدمیوں نے زمین کے تنازعہ میں قتل کیا تھا۔ 
ڈی ایس پی ضیاء الحق اپنی پوری ٹیم لے کر اس معاملے کی چھان بین کرنے وہاں گئے تھے ۔ راجہ بھیا کے آدمیوں نے اس پولیس ٹیم پر جان لیوا حملہ کیا۔ 
ضیاء الحق نے اپنی فرض شناسی کا ثبوت دیتے ہوئے ان غنڈوں کا دیوانہ وار مقابلہ کیا، جب کہ ان کی ٹیم کے باقی ساتھی جان بچا کر بھاگ کھڑے ہوئے ۔ ان میں ضیاء الحق کا ذاتی محافظ بھی شامل تھا۔ راجہ بھیا کے غنڈوں نے پہلے تو ضیاء الحق کو لاٹھیوں ، سلاخوں اور دیگر تیز دھار والے ہتھیاروں سے بری طرح زخمی کر دیا اور پھر ان کا ریوالور چھین کر انہیں گولیوں سے بھون ڈالا۔ 

اس طرح ضیاء الحق کی جرأت مندی اور فرض شناسی کی قیمت اپنی جان دے کر چکانی پڑی۔ 

ضیاء الحق کی نوجوان بیوہ پروین آزاد نے اپنی شوہر کے قتل کیلئے براہ راست راجہ بھیا پر انگلی اٹھائی۔ جس کے نتیجے میں راجہ بھیا کو یو۔پی کابینہ سے استعفیٰ دینا پڑا اور اب وہ اس معاملے سے اپنی جان بچانے کیلئے طرح طرح کے ہتھکنڈے اختیار کر رہے ہیں ۔
راجہ بھیا اپنے علاقے میں غریب اور پسماندہ طبقات کے علاوہ مسلمانوں کو خوف و ہراس کی زندگی جینے پر مجبور کرتے رہے ہیں ۔ یوپی کی ایک غیر سرکاری تنظیم "رہائی منچ" کا کہنا ہے کہ گذشتہ دنوں استھان کے واقعہ میں بھی راجہ بھیا کے آدمیوں کا ہاتھ تھا، جس میں 40 مسلمانوں کے گھر نذر آتش کر دئیے گئے تھے۔ اس کے بعد مقامی مسلمانوں کو دہشت زدہ کرنے کیلئے وشوا ہندو پریشد کے لیڈر پروین توگڑیا کو بلا کر کھلے اسٹیج سے دھمکیاں دلوائی گئی تھیں ۔ اس واقعہ میں راجہ بھیا اور ان کے والد کا نام سامنے آیا تھا۔ 

قابل ذکر بات یہ ہے کہ ڈی ایس پی ضیاء الحق ان فسادات کی رپورٹ تیار کر رہے تھے جو عنقریب حکومت کو پیش کی جانے والی تھی۔ 
ضیاء الحق کی بیوہ پروین آزاد نے ایک ایسے مرحلے میں جب کہ مضبوط ترین خواتین بھی اندر سے ٹوٹ جاتی ہیں ، مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا بیڑا اٹھایا ہے ۔ وہ کہتی ہیں میں ہار نہیں مانوں گی!!
21 سالہ پروین آزاد کا کہنا ہیکہ میں اپنے لئے نہیں بلکہ اس لئے سنگھرش کر رہی ہوں تاکہ مستقبل میں کسی اور ضیاء الحق کے ساتھ ایسا نہ ہو۔ ایمانداری سے کام کرنے والے افسروں کا حوصلہ نہیں ٹوٹنا چاہئے ۔ پروین سیاست دانوں اور جرائم پیشہ لوگوں کے گٹھ جوڑ کا سوال اٹھاتے ہوئے کہتی ہیں :
"مجھے جو کچھ کھونا تھا وہ میں کھوچکی ہوں ، اب اس کی تلافی زندگی بھر نہیں ہو گی لیکن یہ سلسلہ کب رکے گا؟ کون اس کیلئے لڑے گا؟"
قابل غور بات یہ ہے کہ پروین کا لہجہ المناک ضرور ہے لیکن اس کے حوصلوں میں کوئی کمی نہیں ہے ۔ پروین بہار کے سیوان ضلع کی رہنے والی ہیں ۔

ضیاء الحق کا تعلق ایک بہت غریب گھرانے سے تھا۔ ان کے والد شمس الحق معمولی نوکری کرتے تھے ۔ ضیاء الحق نے دیوریا ضلع کے شیواجی انٹر کالج میں اسکولی تعلیم حاصل کی تھی۔ ان کے جنازے میں اس کالج کے پرنسپل آلوک رائے بھی موجود تھے ۔ انہوں نے اپنے ایک ہونہار طالب علم کی موت پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے یاد دلایا کہ ضیاء الحق اپنے گاؤں میں ایک اسپتال قائم کرنا چاہتے تھے ۔ انہوں نے اپنے اس منصوبے کا تذکرہ ان سے کیا تھا اور وہ اپنی اہلیہ پروین آزاد کی میڈیکل تعلیم مکمل ہونے کے بعد اسپتال قائم کرنے کے خواہش مند تھے ۔ لیکن ان کا یہ خواب کبھی پورا نہیں ہو گا۔ 
ضیاء الحق نے اعلیٰ تعلیم کیلے الہ آباد یونیورسٹی کا رخ کیا۔ انہوں نے ٹیوشن پڑھا کر اپنی تعلیم کے اخراجات پورے کئے ۔ وہ پی پی ایس کی ملازمت میں شامل ہونے کے بعد نہایت سادہ زندگی گزارتے تھے ۔ ضیاء الحق کی تمام تر توجہ اپنی ذمہ داریوں پر تھی۔ 

پروین آزاد ان اسباب کو بیان کرتی ہیں کہ کیوں ضیاء الحق نے کبھی راجہ بھیا کے دربار میں حاضری نہیں تھی۔ پروین کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر دیانت داری کے ساتھ اپنے فرائض منصبی ادا کر رہے تھے ۔ انہیں کسی کا خوف نہیں تھا اور وہ بے خوف ہو کر قانون کی حکمرانی قائم کرنے کے 
اپنے عزم پر عمل پیرا تھے ۔ انہوں نے اسی مشن کی تکمیل کرتے ہوئے اپنی جان ہاردی لیکن ظالم اور باطل قوتوں کے آگے سرنگوں نہیں کیا۔

میرا سر نہیں رہے گا ، مجھے اس کا غم نہیں ہے


مکہ میٹرو پراجکٹ کا 2014 میں افتتاح

مکہ میٹرو پراجکٹ کا 2014 میں افتتاح


مکہ میں 62 بلین ریال مالیتی عوامی ٹرانسپورٹ نظام شہریوں کے علاوہ عازمین حج و عمرہ کے ٹرانسپورٹ میں ڈرامائی ارتقاء کا وسیلہ بنے گا۔ اس نظام 
میں 4 لائنوں پر مشتمل میٹرو ریل اور 88 اسٹیشن اور ایک تیز رو بس خدمات نٹ ورک بھی شامل ہوگا۔
مکہ کے مئیر اسامہ البر نے یہ اطلاع دیتے ہوئے بتایاکہ پراجکٹ کے پہلے مرحلہ کا کام آئندہ سال کے وسط میں شروع ہوگا۔ پراجکٹ کا یہ حصہ 25.5 بلین ریال کے مصارف سے مکمل ہوگا اور اس کی تکمیل میں 3برس لگ جائیں گے۔ مسجد الحرام کے ارد گرد کے علاقوں میں زیر زمین لائنیں بچھائی جائیں گی۔ یہ سلسلہ تیسرے رنگ روڈ کی تعمیر تک جاری رہے گا۔ اس علاقہ سے باہر لائینیں متعلق پلوں پر سے گذریں گے۔
 پراجکٹ کے پہلے مرحلہ میں ام القراء یونیورسٹی سے سیدہ عائشہ مسجد تک 30 کیلو میٹر لائن بچھانے کا عمل مکمل ہوگا۔ ام القراء یونیورسٹی عابدیہ میں قائم ہے۔ مکہ مئیر الٹی کی زیر ملکیت کمپنی البلاد الامین میٹرو ریل پراجکٹ کا تکنیکی جائزہ لیا ہے جس کا نفاذ مکہ ریلوے کمپنی کی جانب سے عمل میں آئے گا۔ اس پراجکٹ پر ایک فرانسیسی مشاورتی کمپنی سستر اور جرمن کمپنی بی ڈبلیو انجینئرس بھی کام کریں گی۔ بس خدمات کو میٹرو نظام سے مربوط کیا جائے گا۔ البر نے مزید وضاحت کی کہ تیز رفتار بس خدمات شہر کے مختلف علاقوں کو ایک دوسرے سے مربوط کریں گی۔ 60 کیلو میٹر کے فاصلہ 160 اسٹیشنوں پر قیام سے طئے ہوگا۔ ان علاقوں میں مقامی بس خدمات کا انتظام ہوگا جہاں میٹرو ریل اسپیڈ بس نٹ ورک نہیں ہوگا۔ مقامی بسیں مسجد الحرام اور ارد گرد کے رہائشی اضلاع تک 65کیلو میٹر کا فاصلہ طے کرے گی۔
 انہوں نے یہ بھی بتایاکہ پبلک ٹرانسپورٹ اسکیم 3مرحلوں میں اور 10سال میں مکمل ہوگی۔ میٹرو نظام کیلئے فیڈر بس خدمات کا آغاز ہوگا۔ مکہ کے گورنر پرنس خالد الفیصل جدہ ہلٹن میں آج پراجکٹ پر 2روزہ ورکشاپ کا افتتاح کریں گے۔ پراجکٹ کے انتظام کی ذمہ دارایاں ایک برطانوی مشاورتی کمپنی انجام دے گی جس کے ساتھ معاہدہ پر دستخط ہوگا۔
گورنر نے اپنے نائب عبدالعزیز الخضائر کی زیر صدارت11 رکنی ایک کمیٹی تشکیل دی ہے اور پراجکٹ کی نگہداری اسی کے ذمہ ہوگی۔ البر نے 
مشائر ریلوے اور حرمین ریلوے اسٹیشن کو مربوط کرنے کے ایک پراجکٹ کے نفاذ کے پلان سے بھی آگاہ کیا۔

Wednesday 3 July 2013

الطاف حسین بھائی - برطانوی پولیس شکنجے میں

 الطاف حسین بھائی - برطانوی پولیس شکنجے میں

عمران فاروق قتل کیس کی تفتیش نتیجہ خیز مراحل میں داخل ہو چکی ہے۔ 
اسی سلسلے میں لندن کی میٹروپولیٹن پولیس نے ایم کیو ایم کے بانی رہنما الطاف حسین سے تفتیش شروع کردی ہے ۔ دو ہفتوں کے اندر الطاف حسین اور ان کی  پارٹی کے دو   رہنماؤں کے گھروں پر پولیس نے چھاپہ مارتے ہوئے بہت سارا مواد حاصل کیا ہے جو عمران فاروق قتل کی تفتیش میں ممکنہ مدد دے گا۔ لندن پولیس الطاف حسین کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزام کی بھی تفتیش کررہی ہے اور اس سلسلے میں ان کے گھر سے بھاری مقدار میں رقوم بھی برآمد کرچکی ہے۔ اس ضمن میں لطاف حسین او ر دوسرے پارٹی رہنماؤں کے بینک اکاؤنٹ کی تفتیش بھی شروع ہو گئی ہے ۔  عمران فاروق قتل کے سلسلے میں گزشتہ ہفتے ایم کیو ایم کے پارٹی رہنما  اور الطاف حسین کے کزن افتخار حسین کو لندن پولیس نے کینیڈا سے  لندن آتے ہوئے ائرپورٹ پر گرفتار کیا اور ان سے تفتیش کا سلسلہ جاری ہے۔

درج بالا وجوہات کی بنا پر الطاف حسین پچھلے ہفتے سے اپنے خلاف ہونی والی تفتیش سے  دل برداشتہ ہیں اور برطانوی پولیس  اور اسکاٹ لینڈ یارڈ کے خلاف بیانات کا سلسلہ شروع کر چکے ہیں اور ان کی پارٹی کے اراکین بھی برطانیہ کے خلاف بیان دینے میں اب نہیں ہچکچا رہے ہیں۔   کہا جا رہا ہے کہ قتل کے سارے  ثبوت گھوم پھر کر ایم کیو ایم اور الطاف حسین کے گرد جمع ہو رہے ہیں اور اگر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب الطاف حسین پر لندن پولیس کے طرف سے باقاعدہ فرد جرم عائد کردیا جائے گا۔

پچھلے کئی دنوں سے الطاف حسین اور پارٹی رہنماؤں کے جو بیانات سامنے آ رہے ہیں وہ کسی لطیفے سے کم نہیں ہیں، ایک تازہ بیان میں الطاف حسین نے اپنی ایک  تقریر میں یہ تک کہدیا کہ  " مجھے عمران فاروق قتل کیس میں  پھنسانا بند کردیا جائے اسی میں برطانیہ کے بہتری ہے"-
اس بیان کو یا تو ایک لطیفہ سمجھنا چاہیے یا پھر پاگل پن کی ایک حد کہ اس طرح کے بیان کے ذریعے دراصل حکومت برطانیہ کو ایک کھلے اور اوچھے انداز میں دھمکی دی گئی ہے۔ یا پھر پاکستان میں بیٹھے ہوئے اپنے لوگوں کو اپنی طاقت کا غلط اندازہ کروانے کی ناکام کوشش کی گئی ہے۔
اوپر سے پارٹی  کے کچھ  رہنماؤں کا یہ بیان بھی سمجھ سے بالا تر ہے جس میں انہوں نے یہ فرمایا ہے کہ " الطاف حسین کے خلاف یہ انٹرنیشنل سازش اس لیے کی جارہی ہے کہ الطاف حسین جاگیردارانہ نظام کے خلاف ہیں"۔
اب کوئی تو بندہ اٹھے اور ان سے پوچھے کہ بھائیو برطانوی پولیس کا آپ کے ملک کے جاگیردارانہ نظام سے کیا لینا دینا ہے ؟!!!!!

لندن پولیس کو تو درحقیقت بغیر کسی دباؤ کے اپنے ایک شہری کے قتل کی تفتیش کرنی ہے کیونکہ یہ کوئی پاکستانی پولیس نہیں ہے جو کسی ایم پی اے کے کہنے پر قتل کی تفشیش کا رخ کہیں اور موڑ دے بلکہ یہ تو وہ پولیس ہے جس کے لیے ایک آفیشلی مثال آج بھی موجود ہے کہ  " یہ دنیا کے پولیس کی ماں ہے" جو اپنے ہی وزیر اعظم (ٹونی بلیئر) سے تفشیش کر چکی ہے اور جس کے سبب ٹونی بلیئر کے پسینے چھوٹ گئے تھے۔

برطانوی پولیس کے متعلق مشہور ہے کہ کوئی بھی کیس تب تک عدالت میں پیش نہیں کرتی جب تک اس کیس سے متعلق تمام ثبوت حاصل نہ ہو جائیں چاہے اس کیس کے پیچھے 10 سال جتنا طویل عرصہ کیوں نہ بیت جائے۔ اس قسم کی کئی مثالیں پہلے سے موجود ہیں کہ کس طرح 25-30 سالہ  پرانے مقدمات کو بھی عدالت میں پیش کر کے مجرمین کو لمبی لمبی سزائیں دلوائی گئی ہیں؟

لندن  پولیس کے خلاف پارٹی کارکنان کا یہ بیان کہ وہ الطاف حسین (بھائی) کے خلاف بین الاقوامی سازش کر رہی ہے ایک بودہ الزام کے علاوہ نہایت بے معنی سی بات لگتی ہے۔  اگر الطاف حسین کے خلاف کوئی بھی ایسا ثبوت حاصل کیا گیا  جوکہ عدالت میں انہیں مجرم ثابت کرنے کے لیے کافی ہے تو دنیا کا کوئی بھی بیرونی دباؤ  الطاف حسین کو برطانوی عدالت سے نہیں بچا سکتا۔ 
منی لانڈرنگ کیس اگر ثابت ہوجائے تو 10 سے 15 سال تک بھی ایم کیو ایم پوری کراچی کو بند کروا کر الطاف حسین کو نہیں بچا سکے گی۔ ایک ڈیڑھ سال قبل برطانوی پولیس نے اسی قتل کے سلسلے میں ایم کیو ایم کے دو گرفتار شدہ قاتلوں کو برطانیہ کے حوالے کرنے کی درخواست دی تھی جو جنوبی افریقہ سے کراچی پہنچتے ہوئے گرفتار ہوئے تھے اور انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ پارٹی کے حکم پر لندن کے ویزے لگاواکر ادھر بلایا گیا تھا اور عمران فاروق کو قتل کیا گیا۔  مگر اس وقت کی حکومت نے ان دونوں قاتلوں کو برطانوی حکام کے حوالے کرنے سے انکار کردیا تھا۔ اب اگر موجودہ حکومت  ان قاتلوں کو برطانوی حکام کے حوالے کر دیتی ہے تو معاملہ اسی وقت حل ہوجائے گا وگرنہ تھوڑی دیر ضرور ہوگی مگر عمران فاروق کے قاتلوں کو کیفر کردار تک ضرور پہنچادیا جائے گا۔

گذشتہ زرداری حکومت اسی مضبوط نکتے کے سبب ایم کیو ایم کو بلیک میل کر کے واپس اپنی حکومت میں شامل کر لیتی تھی کہ عمران فاروق کے قاتل اس کے پاس موجود تھے مگر کیا موجودہ نواز حکومت بھی ایسا ہی کھیل کھیلے گی یا مجرموں کو برطانیہ کے حوالے کردے گی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ بہرطور یہ بات طے ہے کہ لندن پولیس ان قاتلوں کے علاوہ مزید دیگر ثبوتوں کی بنیاد پر یہ کیس حل کرنا چاہتی ہے جس کے لیے انہوں نے  ڈی این اے اور فورینسک  ذرائع کا استعمال کیا ہے اور دیگر انٹیلی جنس طریقوں سے وہ اس کیس کو حل کرنے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔

الطاف حسین برطانیہ کے ایک عام شہری ہیں اور ان سے برتاؤ بھی ایک عام شہری کی طرح ہوگا نہ کہ پاکستانی سیاستدان  کی طرح اور اگر ان پرجرم ثابت ہو جاتا ہے تو ان کو قید تنہائی بھی اسی طرح کاٹنی ہوگی جس طرح ایک عام برطانوی مجرم برطانیہ کے جیل میں کاٹتا ہے۔  لہذا الطاف حسین کے لیے سب سے بہتر مشورہ یہی ہوگا کہ وہ برطانوی قانون کی پاسداری کریں اور  اس قتل کے سلسلے میں قانون کی ہر ممکن مدد کریں  اسی میں ان کی اور انکی پارٹی کی بہتری ہے ورنہ برطانوی قانون سب کے لیے یکساں  ہے اس میں کوئی بھی چھوٹا اور بڑا نہیں  ہے اور نہ کوئی سیاستدان یا حکومتی عہدیدار اپنے عہدے یا مقبولیت کی بنا پر کوئی معنی  رکھتا ہے جبکہ الطاف حسین تو ویسے بھی مملکت برطانیہ کے ایک عام شہری ہیں۔



ایم کیو ایم بانی الطاف حسین بھائی - برطانوی پولیس شکنجے میں