Sunday 4 December 2011
قرآن و حدیث میں جوڑا جہیز سے کہاں منع کیا گیا ہے ؟
قرآن و حدیث میں جوڑا جہیز سے کہاں منع کیا گیا ہے ؟
لوگ اکثر یہ سوال کرتے ہیں کہ قرآن یا حدیث میں جوڑا جہیز وغیرہ کے بارے میں صراحتاً کہاں بیان ہواہے؟
جواب یہ ہیکہ نہ صرف قرآن و حدیث بلکہ سیرت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)، سیرت صحابہ اور سیرتِ اسلاف کا اگر مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتاہیکہ نہ صرف جہیز بلکہ وہ تمام اخراجات جن کا بوجھ لڑکی کے والدین کو اُٹھانا پڑتا ہے وہ ان کے نزدیک حرام تھیں۔ اس سے پہلے کہ ہم ان تفصیلات میں جائیں پہلے اس بات کی تحقیق کرلیں کہ لوگوں کے ذہن میں اس کے حرام یا ناجائز ہونے کے بارے میں شک کی نفسیات کیا ہے ؟ گویا خون
اور سور کے گوشت کی طرح اگر ’ جوڑا جہیز ‘ کے بارے میں بھی واضح الفاظ میں قرآن میں حکم ہوتا تو وہ فوری مان لیتے اور ہرگز بحث نہ کرتے ۔
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق
جوڑا جہیز کو حلال کرنے والوں کی نفسیات سمجھنے کے لیے ہمیں یہود و نصریٰ اور مشرکین کے اس مزاج کا مطالعہ کرنا ہوگا جس کا قرآن نے تذکرہ کیا
ہے ۔
یہود و مشرکین کی تاویلیں
یہودیوں کے جرائم Crimes کا قرآن میں جگہ جگہ تذکرہ کیا گیا ہے ۔ ان جرائم میں سے ایک جرم یہ بھی تھا کہ جب کوئی حکم ان کی مرضی کے خلاف ہوتا تو اس سے فرار حاصل کرنے وہ اُلٹے سوالات کرنا شروع کردیتے تاکہ کوئی تاویل نکل آئے ۔جیسے:
» اللہ تعالیٰ نظر کیوں نہیں آتا ؟
وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَى لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً // البقرة:55
اللہ کو چاہئے تھا کہ بادلوں کی شکل میں نمودار ہوتا تاکہ سب اُس پر بلا چوں و چرا ایمان لالیتے ۔
هَلْ يَنظُرُونَ إِلاَّ أَن يَأْتِيَهُمُ اللّهُ فِي ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ // البقرة:210
اللہ کو چاہئے تھا کہ قوم کے جو اعلیٰ سردار یا اہم افراد ہیں ان میں سے کسی کو نبی یا بادشاہ بناکر بھیجتا یہ معمولی آدمیوں کو نبی ہم کیسے تسلیم کریں ۔ہر قوم نے یہ اعتراض کیا۔ مثال کے طور پر ایک واقعہ پر غور کیجیئے
أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلإِ مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ ........... // البقرة:246-247
اگر ہم غلط ہوتے ، شرک یا حرام کے مرتکب ہوتے تو اللہ ہم کو مٹانہ دیتا ؟ اللہ اور اسکے رسول کا صدقہ ہے کہ ہمارا عمل صحیح ہے ورنہ ہم سوسائٹی میں اتنے باعزت نہ ہوتے اور نہ ہمارے کاروبار میں اتنی برکت ہوتی۔ وغیرہ وغیرہ۔
سَيَقُولُ الَّذِينَ أَشْرَكُواْ لَوْ شَاء اللّهُ مَا أَشْرَكْنَا وَلاَ آبَاؤُنَا وَلاَ حَرَّمْنَا مِن شَيْءٍ // الأنعام:148
کیا ہمارے باپ دادا بے علم تھے جو تم ہم کو علم سکھانے آئے ہو۔
قَالُواْ أَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءنَا وَتَكُونَ لَكُمَا الْكِبْرِيَاء فِي الأَرْضِ وَمَا نَحْنُ لَكُمَا بِمُؤْمِنِين // يونس:78
جب ان سے کہا جاتا کہ ایمان لاو اُس پر جو اللہ نے نازل کی ہے تو کہتے ہم تو اُسی طریقے کی اتباع کرینگے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے
وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللّهُ قَالُواْ بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لاَ يَعْقِلُونَ شَيْئاً وَلاَ يَهْتَدُون // البقرة:170
اور جب کھلے الفاظ میں بصراحت کوئی حکم آجاتا توپھرحیلے تراشنے لگتے اور ایسے ایسے سوالات کرتے جنکا مقصد یہ ہوتا کہ بچنے کا کوئی جواز نکل آئے ۔ مثال کے طور پر جب اللہ تعالیٰ نے انہیں اسی زرد رنگ کی گائے کو ذبج کرنے کا حکم دیا جس کی انہوں نے پرستش شروع کردی تھی تو موسیٰ (علیہ السلام) سے سوالات کرنے لگے کہااللہ سے پوچھو کہ اسکا رنگ کیسا ہو، حالت کیسی ہو ۔ اسکی مزید تفصیلات کیا ہیں۔
وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُواْ بَقَرَةً قَالُواْ أَتَتَّخِذُنَا هُزُواً قَالَ أَعُوذُ بِاللّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِين ......... (البقرة:67-70)
اسی طرح جب انہیں سنیچر کے روز مچھلیاں پکڑنے سے منع کردیاگیا تو انہوں نے نئی نئی ترکیبیں ڈھونڈیں تاکہ اللہ کا حکم بھی پور ا ہو جائے اور مچھلیاں بھی زیادہ سے زیادہ ہاتھ آئیں۔
واَسْأَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي ......... // الأعراف:163
یہ وہی چال تھی جو آج جوڑا جہیز لینے والے اور دینے والے دونوں انتہائی معصوم بن کر چلتے ہیں۔
اور جب موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے کہا کہ اللہ تم کو حکم دیتا ہیکہ وادی کے دوسری طرف جو قوم آباد ہے اس سے آگے بڑھ کر جہاد کرو تو کہنے لگے کہ وہ تو بہت طاقتور قوم ہے ہماری اور ان کی طاقت کا مقابلہ نہیں ہو سکتا۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اصرار کیا تو کہنے لگے تم اور تمہارا خدا جاو اور مِل کر لڑو ہم تو یہیں رہیں گے۔
وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ اذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنبِيَاء وَجَعَلَكُم مُّلُوكًا ...........
(المائدة:20-24)
جب مدینے میں دین کی دعوت پھیلنی شروع ہوئی تو یہودی جنکو اہلِ علم کے طور پر عزت کی نظروں سے دیکھا جاتا تھا انکی وقعت کم ہونے لگی تو انہوں نے اسیطرح کے سوالات معصوم مسلمانوں کو سکھا کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس بھیجنے لگے جیسے روح کیاہے، تقدیر کیاہے، اصحابِ کہف اور ذولقرنین کون تھے وغیرہ۔ ان سوالات کا مقصد یہ ہوتا کہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے جواب نہ دیا تو لوگوں کو یہ تاثر دیا جاسکے کہ محمّد (صلی اللہ علیہ وسلم) ایک اچھے نیک دل اور عبادت گزار انسان ہیں لیکن مذہب ، تاریخ، فلسفہ وغیرہ کے علم سے ناواقف ہیں۔ ورنہ روح، تقدیر وغیرہ جیسے سوالات کے جوابات صریحتاً بیان کردیتے۔
آج بھی لوگوں نے یہودیوں کی طرح اس تاویل سے اپنے آپ کو مطمئن کر رکھا ہے کہ اگر جوڑا جہیز اور دوسری رسمیں واقعی غلط ہوتیں تو اللہ تعالیٰ قرآن میں یا اللہ کے رسول حدیثوں میں صاف الفاظ میں نام لے کر بیان کردیتے ۔ایسے لوگوں سے اگر یہ سوال کیاجائے کہ مہر کے بارے میں تو صراحتاًقرآن اور حدیث میں بیان کردیاگیاہے پھر کتنے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے نقد مہر ادا کردیاہے تو پتہ چلے گا کہ مشکل سے دس فیصد ایسے لوگ ہیں جنہوں نے نقد مہر ادا کیاہے۔ کئی تو ایسے ہیں جن پر اس حدیث کا اطلاق ہوتا ہے کہ فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کہ جس نے مہر ادا کرنے کا (ٹھوس) ارادہ نہ کیا وہ زانی کی موت مرا۔ ۔
آج کے خوشحال لوگوں کی تاویلیں
غریب اور متوسط طبقے کے افراد بات تو پھر بھی مان لیتے ہیں لیکن صاحبِ ثروت افراد کا رویہ وہی منافقانہ ہوتا ہے جس کا ذکر قرآن میں یوں آ تا ہے کہ
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لاَ تُفْسِدُواْ فِي الأَرْضِ قَالُواْ إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُون
أَلا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَـكِن لاَّ يَشْعُرُون
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُواْ كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُواْ أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاء أَلا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاء وَلَـكِن لاَّ يَعْلَمُون
( البقرة:11-13 )
ترجمہ : جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد مت پھیلاو تو کہتے ہیں ہم تو اصلاح کرنے والے لوگ ہیں اور جب ان سے کہا جاتا ہیکہ ایمان لاؤ جیسے دوسرے لوگوں نے ایمان لایا ہے تو کہتے ہیں کیا ہم بھی بے وقوفوں کیطرح ایمان لے آئیں؟
بالکل اسی طرح یہ حضرات کی سوچ یہ ہوتی ہیکہ زکوٰة خیرات بھرادا کرتے رہو۔ نہ علماء کو ناراض کرو نہ جماعتوں کو، ان کی بھی مالی امداد کرتے رہو لیکن جہاں بات بڑی سوسائٹی میں اپنے نام کو باقی رکھنے کی ہووہاں اللہ یا رسول کی باتیں مناسب نہیں ہوتیں اس لئے وہی عمل کرو جو بڑی سوسائٹی کو پسند ہے۔نہ یہ جہیز کے محتاج ہوتے ہیں نہ دعوت کے۔ پھر بھی جب ان سے اللہ اور اس کے رسول کے طریقے پر چلنے کیلئے کہا جائے تو ان کا رویہ وہی منافقانہ ہوتا ہے جیسے کہہ رہے ہوں میاں کیا ہم معمولی درجے کو لوگ ہیں جو اپنی بیٹی یا بیٹے کی شادی بغیر کسی دھوم دھام کے کردیں ہم تو صاحبِ عزت لوگ ہیں۔ہم کو سوسائٹی کے تقاضوں کا پتہ ہے۔ آپ چونکہ سوسائٹی سے واقف نہیں اسلئے ایسی بیوقوفی کی باتیں کرتے ہیں۔بخدا یہ ایسے لوگ ہوتے ہیں کہ جن پاس خود رسول بھی چل کر آئیں تو یہ ان کی پوری پوری خاطر و مدارت کرینگے اور کچھ اعانت دے کر رخصت کرنے کی کوشش کرینگے لیکن اپنے شادی بیاہ میں ان کے طریقے پر ہرگز نہیں چلیں گے کوئی نہ کوئی جواز پیدا کر ہی لیں گے۔
دلچسپ بات یہ ہیکہ ایسے لوگوں کو ایسے مولوی اور ملّا مل بھی جاتے ہیں جو ان کے ہر عمل کو جائز کرنے والی دلیلیں فراہم بھی کردیتے ہیں۔
وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللّهَ أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالإِثْمِ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ وَلَبِئْسَ الْمِهَاد // البقرة:206
ترجمہ : اور جب اس سے کہا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈرو توغرور اسکو گناہ میں پھنسا دیتا ہے سو ایسے کو جہنم سزاوار ہے جو بہت ہی برا ٹھکانہ ہے۔
یہ آیت ایسے ہی لوگوں کے رویّہ کی نشاندھی کرتی ہے۔
ایسا نہیں ہیکہ یہ نماز نہیں پڑھتے یا روزوں کا انکار کرتے ہیں۔ ہر وہ عبادت جسمیں انہیں مزا آئے جو ان کے موڈ اور سہولت کے مطابق ہو وہ برابر کرتے ہیں۔ ہر سال نفل عمرے ادا کرتے ہیں۔ لیکن جہاں شادی بیاہ کو موقعوں پر ہندو رسموں اور اسراف جیسے حرام سے بچنے کا سوال آئے یہ تاویلیں پیش کرتے ہیں اور اپنے ضمیر کی تسلی کے لیے کچھ خیر خرات میں اضافہ کرجاتے ہیں۔
قیامت آئے گی تو دیکھا جائے گا
جس کے پاس پیسہ ہوتا ہے اسکی سوچ بدل جاتی ہے۔ پیسہ جتنا زیادہ ہوتاجاتاہے آخرت کے بارے میں وہ اتنا ہی جواز تلاش کرنے والا ہوتا جاتاہے۔ جسطرح شہر کے بڑے لوگوں کی سوسائٹی میں اسکی آو بھگت ہوتی جاتی ہے اسکا رویّہ ایسے ہوجاتا ہے جیسے پہلے تو قیامت آئیگی نہیں۔ اور اگر ہوگی بھی تو اللہ اسکو اس سے بھی بڑی عزت سے نوازے گا۔ اس سوچ کا سورہ کہف میں یوں نقشہ کھینچا گیا ہے۔
وَاضْرِبْ لَهُم مَّثَلاً رَّجُلَيْنِ جَعَلْنَا لأَحَدِهِمَا جَنَّتَيْنِ مِنْ أَعْنَابٍ وَحَفَفْنَاهُمَا بِنَخْلٍ وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمَا زَرْعًا
كِلْتَا الْجَنَّتَيْنِ آتَتْ أُكُلَهَا وَلَمْ تَظْلِمْ مِنْهُ شَيْئًا وَفَجَّرْنَا خِلاَلَهُمَا نَهَرًا
وَكَانَ لَهُ ثَمَرٌ فَقَالَ لِصَاحِبِهِ وَهُوَ يُحَاوِرُهُ أَنَا أَكْثَرُ مِنكَ مَالاً وَأَعَزُّ نَفَرًا
وَدَخَلَ جَنَّتَهُ وَهُوَ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ قَالَ مَا أَظُنُّ أَن تَبِيدَ هَذِهِ أَبَدًا
وَمَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَلَئِن رُّدِدتُّ إِلَى رَبِّي لأَجِدَنَّ خَيْرًا مِّنْهَا مُنقَلَبًا
( الكهف:32-36 )
ترجمہ : اور ان سے دو شخصوں کا حال بیان کروجنمیں سے ایک کے لیے ہم انگور کے باغ کئے تھے۔ اور ان کے اطراف کھجور کے درخت لگائے تھے۔ اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی۔ دونوں باغ (کثرت سے) پھل لاتے۔ اور اس میں کسی طرح کی کمی نہ ہوتی۔ اور دونوں میں ہم نے ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی۔ اور اسکو فائدہ ملتا رہتا۔ ایک دن جب وہ اپنے دوست سے باتیں کررہاتھا کہنے لگا کہ میں تم سے مال و دولت میں زیادہ ہوں اور جتھے (سوسائٹی) کے لحاظ سے بھی زیادہ عزت والا ہوں۔ اور اپنے آپ پر (ان شیخیوں کے ذریعے) ظلم کرتا ہوا اپنے باغ میں داخل ہوا۔ کہنے لگا کہ میں نہیں سمجھتا کہ یہ باغ کبھی تباہ ہونگے۔ اور نہ یہ سمجھتا ہوں کہ قیامت برپا ہوگی۔ اور اگر میں رب کی طرف لوٹایا بھی جاوں تو (وہاں) ضرور اس سے اچھی جگہ پاوں گا۔
یہ تھا فرار کا پہلا فلسفہ کہ لوگ ثبوت میں قرآن اور حدیث میں جوڑا جہیز کے راست الفاظ سننا چاہتے ہیں۔۔
زمرہ جات :
اسلامی متفرق موضوعات
جہیز- محض ایک سماجی برائی یا حلال و حرام کا مسئلہ؟
جہیز- محض ایک سماجی برائی یا حلال و حرام کا مسئلہ؟
اگر دوسری قومیں جہیز کے لین دین کو ایک سماجی برائی Social evil کہتی ہیں توٹھیک ہے لیکن ایک مسلمان کیلئے یہ محض ایک سماجی برائی نہیں بلکہ اس سے آگے بہت کچھ ہے۔یہ ایک حلال و حرام کا سنگین مسئلہ ہے ۔ اسے سگریٹ یا سینما بینی کے برابر کی ایک برائی قرار دینا ایک نادانی ہے۔ یہ نادانی نادانستہ نہیں بلکہ دانستہ ہے ۔ چونکہ پورا نظام عورتوں کے ہاتھوں چل رہاہے جس پر مرد کنٹرول نہیں رکھتا جس کی وجہ سے یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ حلال و حرام کا مسئلہ ہے مرد مجبوریوں، مصلحتوں اور مفادات کا شکار رہتے ہیں۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ گھر کے باہر مسجدوں میں غیر اہم فروعی مسائل پر بھی ایک دوسرے کی تکفیر ہی نہیں بلکہ قتال تک کے لئے آمادہ ہوجانے والی قوم کے افراد گھر کے اندر حلال و حرام کے اتنے بڑے مسئلے پر جانتے بوجھتے خاموشی برتتے ہیں؟
اور جہاں عورتیں قصوروار نہیں وہاں مردوں کی انانیت، حرص، سوسائٹی میں جو دوسرے کر رہے ہیں ویسا یا اس سے زیادہ کرنے کی خواہش، تفاخر اور سب سے بڑھ کر یہ کہ شریعت کے احکام کو جانتے بوجھتے اپنی طرف سے کوئی نہ کوئی جواز پیدا کرکے مطمئن ہوجانے کی خود فریبی یہ تمام اسباب اس بڑھتی ہوئی لعنت کے ذمہ دار ہیں۔
کوئی تو ملے جو کہے ہاں میں خود دار نہیں
آج تک بے شمار لوگوں سے اس موضوع پر گفتگو ہوئی ۔ کوئی ایسا نہ ملا جس نے یہ کہا ہو کہ
”ہاں ہم نے جہیز کا مطالبہ یا فرمائش کی تھی“ ۔
جتنے ملے سب شرفاء ملے ۔ ہر ایک نے یہی کہا بلکہ فرمایا کہ
”الحمدلله ہم نے ایک پیسہ بھی نہیں لیا ، ہمارے ہاں اس چیز کو سخت معیوب سمجھاجاتا ہے “ ۔
جب دور دور تک کوئی ایسا شخص نہیں جس نے جہیز مانگا ہو تو پھر کیا وجہ ہے کہ معاشرہ کا ہر باپ اور ہر بھائی اپنی بیٹی یا بہن کی شادی کے لیے پریشان ہے ؟
آج تک بے شمار لوگوں سے اس موضوع پر گفتگو ہوئی ۔ کوئی ایسا نہ ملا جس نے یہ کہا ہو کہ
”ہاں ہم نے جہیز کا مطالبہ یا فرمائش کی تھی“ ۔
جتنے ملے سب شرفاء ملے ۔ ہر ایک نے یہی کہا بلکہ فرمایا کہ
”الحمدلله ہم نے ایک پیسہ بھی نہیں لیا ، ہمارے ہاں اس چیز کو سخت معیوب سمجھاجاتا ہے “ ۔
جب دور دور تک کوئی ایسا شخص نہیں جس نے جہیز مانگا ہو تو پھر کیا وجہ ہے کہ معاشرہ کا ہر باپ اور ہر بھائی اپنی بیٹی یا بہن کی شادی کے لیے پریشان ہے ؟
قاضی صاحب اور پنڈت جی میں فرق کیا ہے؟
اب آپ ذرا تحقیق کریں کہ جب سوسائٹی میں ہر شخص جہیز اور بے جا رسومات کا مخالف ہے تو ایک مسلمان کی شادی اور ایک غیر مسلم کی شادی میں فرق کیوں کر ختم ہوگیا ہے ؟ سوائے اس کے کہ اُن کے ہاں پنڈت آکر کسی کی سمجھ میں نہ آنے والے کچھ اشلوک پڑھتا ہے اور یہاں قاضی صاحب کسی کی سمجھ میں نہ آنے والی کچھ عربی آیتیں پڑھ جاتے ہیں۔ وہاں آگ کے پھیرے ہوتے ہیں اور یہاں کچھ دیر کے لیے سروں پر ٹوپیاں یا دستیاں ڈال کر کچھ افراد دلہا دلہن سے ایجاب و قبول کی رسم پوری کروا کر بغیر وضو کے دعاء و فاتحہ پڑھ کر مصری بادام کے لوٹنے لٹانے کی چھینا جھپٹی پر ”النکاح من سنتی“ والے ڈرامے کا The End کرتے ہیں ۔
پنڈت جی وہاں اپنی دکھشنا لے کر ہاتھ جوڑتے نمسکار کرتے ہوئے رخصت ہوجاتے ہیں اور اِدھر قاضی صاحب اپنی فیس اور Tip وصول کر کے خوشی خوشی آداب بجا لاتے ہوئے نکل جاتے ہیں ۔ باقی سب کچھ تو وہی ہوتا ہے یعنے جہیز ، رسمیں ، لڑکی کے سرپرست کے خرچے پر اپنے سارے مہمان باراتیوں کی ضیافت وغیرہ ۔ نوٹوں کی گڈیاں تو دونوں طرف شادی سے پہلے ہی وصول کرلی جاتی ہیں ۔ جو لوگ ذرا غیرت مند اور خود دار ہوتے ہیں وہ بجائے نقد وصول کرنے کے کچھ اور معاملہ deal طئے کرلیتے ہیں ۔
یہ کافری تو نہیں کافری سے کم بھی نہیں
کہ مردِ حق ہو گرفتارِ حاضر و موجود
اب آپ ذرا تحقیق کریں کہ جب سوسائٹی میں ہر شخص جہیز اور بے جا رسومات کا مخالف ہے تو ایک مسلمان کی شادی اور ایک غیر مسلم کی شادی میں فرق کیوں کر ختم ہوگیا ہے ؟ سوائے اس کے کہ اُن کے ہاں پنڈت آکر کسی کی سمجھ میں نہ آنے والے کچھ اشلوک پڑھتا ہے اور یہاں قاضی صاحب کسی کی سمجھ میں نہ آنے والی کچھ عربی آیتیں پڑھ جاتے ہیں۔ وہاں آگ کے پھیرے ہوتے ہیں اور یہاں کچھ دیر کے لیے سروں پر ٹوپیاں یا دستیاں ڈال کر کچھ افراد دلہا دلہن سے ایجاب و قبول کی رسم پوری کروا کر بغیر وضو کے دعاء و فاتحہ پڑھ کر مصری بادام کے لوٹنے لٹانے کی چھینا جھپٹی پر ”النکاح من سنتی“ والے ڈرامے کا The End کرتے ہیں ۔
پنڈت جی وہاں اپنی دکھشنا لے کر ہاتھ جوڑتے نمسکار کرتے ہوئے رخصت ہوجاتے ہیں اور اِدھر قاضی صاحب اپنی فیس اور Tip وصول کر کے خوشی خوشی آداب بجا لاتے ہوئے نکل جاتے ہیں ۔ باقی سب کچھ تو وہی ہوتا ہے یعنے جہیز ، رسمیں ، لڑکی کے سرپرست کے خرچے پر اپنے سارے مہمان باراتیوں کی ضیافت وغیرہ ۔ نوٹوں کی گڈیاں تو دونوں طرف شادی سے پہلے ہی وصول کرلی جاتی ہیں ۔ جو لوگ ذرا غیرت مند اور خود دار ہوتے ہیں وہ بجائے نقد وصول کرنے کے کچھ اور معاملہ deal طئے کرلیتے ہیں ۔
یہ کافری تو نہیں کافری سے کم بھی نہیں
کہ مردِ حق ہو گرفتارِ حاضر و موجود
آئیے ! پھر اسی سوال کی طرف کہ جب نوشہ اور اُن کا سارا گھرانہ ان تمام ہندوانہ رسموں کو نا پسند کرتا ہے تو پھر یہ سب کیونکر ہوا ؟ پوچھئے تو انتہائی شرافت اور فخر سے فرماتے ہیں :
”ہم نے تو صاف صاف کہہ دیا تھا کہ ہمیں سوائے لڑکی کے اور کچھ نہیں چاہئے ۔ جو بھی دینا ہے وہ اپنی بیٹی کو دے دیجئے ۔۔۔وہ بھی خوشی سے“۔
دراصل یہی وہ اصل کھیل ہے جسے لوگ شرافت و خوداری کا لبادہ اوڑھ کر تہذیب ، رواج یا سسٹم کے نام پر کھیلتے ہیں ۔
”ہم نے تو صاف صاف کہہ دیا تھا کہ ہمیں سوائے لڑکی کے اور کچھ نہیں چاہئے ۔ جو بھی دینا ہے وہ اپنی بیٹی کو دے دیجئے ۔۔۔وہ بھی خوشی سے“۔
دراصل یہی وہ اصل کھیل ہے جسے لوگ شرافت و خوداری کا لبادہ اوڑھ کر تہذیب ، رواج یا سسٹم کے نام پر کھیلتے ہیں ۔
میاں بیوی کا رشتہ صرف دو افراد کا میل نہیں بلکہ ایک خاندان اور پورے معاشرے کی بنیاد ہے ۔ اگر بنیاد میں غلطی رہ جائے ، چاہے دانستہ ہو یا نا دانستہ، نہ کوئی دیوار سلامت رہتی ہے نہ چھت ، نہ کھڑکی نہ دروازہ ۔ تو پھر ایسی عمارت کے انجام کا آپ خود اندازہ کرسکتے ہیں۔ اسی طرح اگر میاں بیوی کا رشتہ غلط بنیادوں پر کھڑا ہو تو خاندان ہی نہیں بلکہ آنے والی نسلوں تک اس کے غلط اثرات پڑتے ہیں ۔ جس بنیاد کو ڈالنے کے لیے لڑکی کے سرپرست کو خوشی سے یا مجبوری و مصلحت کی وجہ سے لڑکے پر خرچ کرنا پڑا ہو۔ اس کے لیے لڑکی کے باپ اور بھائی کو ہوسکتا ہے گھر بیچنا پڑا ہو ، چندہ ، خیرات یا زکوٰة مانگنی پڑی ہو۔ ہوسکتا ہے جھوٹ ، رشوت ، چوری اور بے ایمانی کرنی پڑی ہو۔ اب آپ ہی اندازہ لگائیے کہ ایسی غلط کاریوں کے ساتھ قائم ہونے والی بنیاد کیا معاشرے میں ایک پاک خاندان کی مضبوط عمارت کھڑی کرپائے گی ؟ جس طرح جام کے پیڑ سے آم نہیں اُگتے اسی طرح اسلام کو پامال کرنے والے طریقے کی بنیاد پر شروع ہونے والے رشتے نیک اور دیندار نسلیں نہیں پیدا کرسکتے ۔ یہ منطق Logic کے خلاف ہے ۔
عورت بغاوت پر کیوں اتر آئی ہے؟
کسی بھی دین یا مذہب کے حق ہونے یا نہ ہونے کی دو کسوٹیاں Criteria ہیں ایک تو یہ کہ عقائد ، عبادات یا رسومات کے علاوہ وہ دین انسان کو زندگی گزارنے کا طریقہ System of Life کیا دیتا ہے ؟
دوسرے یہ کہ اس کے ماننے والے اُسے کس طرح پیش کرتے ہیں ؟
یہاں ہماری ناکامی کی اصل وجہ کا پتہ چلتاہے ۔ اگرچہ کہ ہر شخص یہ اعتراف کرتا ہے حتٰی کہ مخالفینِ اسلام خود تسلیم کرتے ہیں کہ سوائے اسلام کے کوئی اور مذہب ایسا نہیں ہے جو اتنا مکمل اور شاندار نظام حیات System of Life دیتا ہو ۔ لیکن اسکے پیش کرنے والوں نے اِسے دنیا کی نظروں میں نہ صرف مشکوک کردیا بلکہ دور کردیا۔اسلام کی صحیح تعلیمات جن پر عمل پیرا ہونے سے یہ زمین بھی جنّت نما بن جاتی ہے وہ تعلیمات خود مسلمانوں کی زندگی میں دور دور تک نظر نہیں آتیں ۔ہر شخص نماز ، روزے ، داڑھی ، ٹوپی وغیرہ کے بارے میں پوچھئے تو وہ ہر ضروری اور غیر ضروری تفصیل کے ساتھ خوب بحث کر سکتا ہے لیکن اسلام کے معاشی ، سیاسی ، سماجی ، عدل ، یا تعلیمی نظام اور بنکنگ، انشورنس یا ٹریڈنگ کے بارے میں پوچھئے تووہ سوائے چند مبہم فتوؤں کے کچھ نہیں بتا پائے گا ۔
اسی طرح عورتوں کے حقوق کے بارے میں پوچھئے ، سوائے اسکے کہ طلاق کس طرح دی جائے ، کب دی جائے ، عورت کی کون سی غلطی پراُسے کیا سزا دی جائے ؟ اس کے علاوہ اسے کچھ نہیں معلوم۔ دوسرے الفاظ میں اگر عورت غلطی کرے تو اسلام مرد کو کیا اختیار دیتا ہے وہ یہ تو بہت اچھی طرح جانتا ہے لیکن اگر مرد کمینہ پن کرے تو اسلام عورت کو کیا حق دیتا ہے وہ اس بارے میں کچھ نہیں بتاتا ۔
یہی وجہ ہے کہ آج مسلمان عورتیں بغاوت کررہی ہیں۔ ابھی حال ہی میں ٹامل ناڈو میں عورتوں نے اپنی مسجد علٰہدہ بنانے کا اعلان کردیا اسکے علاوہ بھی کئی مقامات سے خبریں پڑھنے میں آئیں کہ عورتوں نے خود نماز کی امامت، جمعہ کا خطبہ اور قاضی کے فرائض ادا کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ کئی عورتیں غیر مسلموں سے شادیاں بھی کررہی ہیں۔ اسکی مزید تفصیل آگے باب ”نقصانات “میں ملاحظہ ہو۔
اور اسی طرح کی بغاوت اور سرکشی کی کئی خبریں دنیا کے دوسرے ممالک سے بھی ملتی رہتی ہیں۔ اسکے اسباب تو کئی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہیکہ عورتیں اس نظام کے خلاف اب کھڑی ہوچکی ہیں جو نظام قاضیوں، دارالقضاة، مفتیوں اور علماء نے قائم کیا جسمیں مرد کی جانب سے طلاق دئیے جانے پر تو فوری سرٹیفکٹ دے دیا جاتا ہے لیکن اگر عورت خلع حاصل کرنا چاہے تو اسے مہینوں اور برسوں لٹکا کر رکھا جاتا ہے۔
کسی بھی دین یا مذہب کے حق ہونے یا نہ ہونے کی دو کسوٹیاں Criteria ہیں ایک تو یہ کہ عقائد ، عبادات یا رسومات کے علاوہ وہ دین انسان کو زندگی گزارنے کا طریقہ System of Life کیا دیتا ہے ؟
دوسرے یہ کہ اس کے ماننے والے اُسے کس طرح پیش کرتے ہیں ؟
یہاں ہماری ناکامی کی اصل وجہ کا پتہ چلتاہے ۔ اگرچہ کہ ہر شخص یہ اعتراف کرتا ہے حتٰی کہ مخالفینِ اسلام خود تسلیم کرتے ہیں کہ سوائے اسلام کے کوئی اور مذہب ایسا نہیں ہے جو اتنا مکمل اور شاندار نظام حیات System of Life دیتا ہو ۔ لیکن اسکے پیش کرنے والوں نے اِسے دنیا کی نظروں میں نہ صرف مشکوک کردیا بلکہ دور کردیا۔اسلام کی صحیح تعلیمات جن پر عمل پیرا ہونے سے یہ زمین بھی جنّت نما بن جاتی ہے وہ تعلیمات خود مسلمانوں کی زندگی میں دور دور تک نظر نہیں آتیں ۔ہر شخص نماز ، روزے ، داڑھی ، ٹوپی وغیرہ کے بارے میں پوچھئے تو وہ ہر ضروری اور غیر ضروری تفصیل کے ساتھ خوب بحث کر سکتا ہے لیکن اسلام کے معاشی ، سیاسی ، سماجی ، عدل ، یا تعلیمی نظام اور بنکنگ، انشورنس یا ٹریڈنگ کے بارے میں پوچھئے تووہ سوائے چند مبہم فتوؤں کے کچھ نہیں بتا پائے گا ۔
اسی طرح عورتوں کے حقوق کے بارے میں پوچھئے ، سوائے اسکے کہ طلاق کس طرح دی جائے ، کب دی جائے ، عورت کی کون سی غلطی پراُسے کیا سزا دی جائے ؟ اس کے علاوہ اسے کچھ نہیں معلوم۔ دوسرے الفاظ میں اگر عورت غلطی کرے تو اسلام مرد کو کیا اختیار دیتا ہے وہ یہ تو بہت اچھی طرح جانتا ہے لیکن اگر مرد کمینہ پن کرے تو اسلام عورت کو کیا حق دیتا ہے وہ اس بارے میں کچھ نہیں بتاتا ۔
یہی وجہ ہے کہ آج مسلمان عورتیں بغاوت کررہی ہیں۔ ابھی حال ہی میں ٹامل ناڈو میں عورتوں نے اپنی مسجد علٰہدہ بنانے کا اعلان کردیا اسکے علاوہ بھی کئی مقامات سے خبریں پڑھنے میں آئیں کہ عورتوں نے خود نماز کی امامت، جمعہ کا خطبہ اور قاضی کے فرائض ادا کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ کئی عورتیں غیر مسلموں سے شادیاں بھی کررہی ہیں۔ اسکی مزید تفصیل آگے باب ”نقصانات “میں ملاحظہ ہو۔
اور اسی طرح کی بغاوت اور سرکشی کی کئی خبریں دنیا کے دوسرے ممالک سے بھی ملتی رہتی ہیں۔ اسکے اسباب تو کئی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہیکہ عورتیں اس نظام کے خلاف اب کھڑی ہوچکی ہیں جو نظام قاضیوں، دارالقضاة، مفتیوں اور علماء نے قائم کیا جسمیں مرد کی جانب سے طلاق دئیے جانے پر تو فوری سرٹیفکٹ دے دیا جاتا ہے لیکن اگر عورت خلع حاصل کرنا چاہے تو اسے مہینوں اور برسوں لٹکا کر رکھا جاتا ہے۔
عہد نبوی میں حضرت ثابت بن قیس (رضی اللہ عنہ) کی دو بیویوں حبیبہ بنت سہیل (رضی اللہ عنہا) اور جمیلہ (رضی اللہ عنہا) نے جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے خلع کی درخواست کی اور وجوہات بتائیں تو آپ نے انہیں فوری طلاق حاصل کرلینے کی اجازت دے دی ۔
لیکن ہمارے عہد میں بے چاریاں دفترقضاء ت یا پھر کورٹ کے چکر لگاتی رہتی ہیں ۔مرد نہ مہر ادا کرنے راضی ہوتا ہے اور نہ لیا ہوا جہیز اور جوڑے کی رقم وغیرہ واپس کرنے تیار ہوتاہے۔ برسوں نہیں صدیوں عورت نے مرد کے ہاتھوں یہ ظلم سہا ہے شائد یہ انہی کی بددعا کا نتیجہ ہیکہ ہندوستان میں Anti Dowry Act Section 498A نافذ ہوا ۔ اس قانون کا جائز استعمال کم اور ناجائز زیادہ ہوا اور نتیجہ یہ نکلا کہ ہر مرد عورت کے آگے ڈرنے لگا۔
اُدھر پاکستان میں بھی ایک اسلامی مملکت ہونے کے باوجود مرد سے دوسری شادی کی آزادی چھین لی گئی۔مرد شریعت کی آڑ لینا بھول گیا۔ ایسا ہونا بھی چاہئیے تھا کیونکہ انصاف کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ جو فریق منگنی، نکاح کے دن کی دعوت ، جہیز وغیرہ پر خرچ کرے اُسی کی مرضی اور اسی کا فیصلہ چلنا بھی چاہئے۔
لیکن ہمارے عہد میں بے چاریاں دفترقضاء ت یا پھر کورٹ کے چکر لگاتی رہتی ہیں ۔مرد نہ مہر ادا کرنے راضی ہوتا ہے اور نہ لیا ہوا جہیز اور جوڑے کی رقم وغیرہ واپس کرنے تیار ہوتاہے۔ برسوں نہیں صدیوں عورت نے مرد کے ہاتھوں یہ ظلم سہا ہے شائد یہ انہی کی بددعا کا نتیجہ ہیکہ ہندوستان میں Anti Dowry Act Section 498A نافذ ہوا ۔ اس قانون کا جائز استعمال کم اور ناجائز زیادہ ہوا اور نتیجہ یہ نکلا کہ ہر مرد عورت کے آگے ڈرنے لگا۔
اُدھر پاکستان میں بھی ایک اسلامی مملکت ہونے کے باوجود مرد سے دوسری شادی کی آزادی چھین لی گئی۔مرد شریعت کی آڑ لینا بھول گیا۔ ایسا ہونا بھی چاہئیے تھا کیونکہ انصاف کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ جو فریق منگنی، نکاح کے دن کی دعوت ، جہیز وغیرہ پر خرچ کرے اُسی کی مرضی اور اسی کا فیصلہ چلنا بھی چاہئے۔
پہلا ذمہ دار طبقہ … دین و شریعت کے علمبردار
اس پورے فساد میں اصل قصور دینی امور کے ذمہ داروں اور شریعت کے نام نہاد علمبرداروں کا ہے ۔ ہمارے واعظ اور مقرر جس شدت کے ساتھ عقائد ، ایمانیات ، بدعات و شرکیات پر اپنا پورا زورِ بیان صرف کرتے ہیں اس شدت کے ساتھ کبھی جوڑے جہیز کے بارے میں بیان نہیں کرتے ۔ مسلکی اختلافات پر فریقین جسطرح ایک دوسرے کے خلاف دندناتے ہوئے جلوسوں اور جلسوں میں مظاہرے کرتے ہیں ، گرجدار شعلہ بیان تقریروں کے ذریعے ایک دوسرے پر کفر ، شرک اور نہ جانے کیا کیا فتوے لگاتے ہیں وہی جوہرِ شعلہ بیانی کبھی جہیز کی لعنتوں کے خلاف نہیں صرف کرتے۔ جن فروعی مسائل پر یہ لوگ زور دیتے ہیں ان موضوعات کا تعلق نہ ایک غریب گھر کی روٹی سے ہے نہ اس کے معاشی مسائل سے، نہ ان موضوعات میں کوئی دعوت، تقویٰ و تزکیہ کا پہلو ہے اورنہ غیر مسلموں کے لیے ان میں کوئی کشش ۔ جب کہ جوڑا جہیز کا موضوع ایک ایسا سماجی موضوع ہے جس کا تعلق نہ صرف ہر مسلمان کے معاش ، اخلاق و کردار سے ہے بلکہ کروڑوں غیر مسلمین کے لیے اس میں اسلام کی دعوت پوشیدہ ہے۔جسمیں مسلمان اور غیر مسلمین دونوں کی معاشی راحت کا سامان ہے ہمارے مقرر اور واعظ اس موضوع کو چھوتے بھی نہیں۔ اگر کچھ کہتے بھی ہیں تو نہ وہ گرج ہوتی ہے نہ مخالفین پر فائرنگ کا انداز ہوتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے جیسے ابا جان شریر بچے کو چمکار تے ہوئے کہہ رہے ہوں :
” بیٹا بُری بات ہے اچھے بچے اس طرح شرارت نہیں کرتے “۔
اور نہ قاضی صاحبان خطبے میں ان چیزوں کی ممانعت کرتے ہیں ۔
ہوس بالائے ممبر ہے تجھے رنگیں بیانی کی
نصیحت بھی تری صورت ہے اک افسانہ خوانی کی
اس پورے فساد میں اصل قصور دینی امور کے ذمہ داروں اور شریعت کے نام نہاد علمبرداروں کا ہے ۔ ہمارے واعظ اور مقرر جس شدت کے ساتھ عقائد ، ایمانیات ، بدعات و شرکیات پر اپنا پورا زورِ بیان صرف کرتے ہیں اس شدت کے ساتھ کبھی جوڑے جہیز کے بارے میں بیان نہیں کرتے ۔ مسلکی اختلافات پر فریقین جسطرح ایک دوسرے کے خلاف دندناتے ہوئے جلوسوں اور جلسوں میں مظاہرے کرتے ہیں ، گرجدار شعلہ بیان تقریروں کے ذریعے ایک دوسرے پر کفر ، شرک اور نہ جانے کیا کیا فتوے لگاتے ہیں وہی جوہرِ شعلہ بیانی کبھی جہیز کی لعنتوں کے خلاف نہیں صرف کرتے۔ جن فروعی مسائل پر یہ لوگ زور دیتے ہیں ان موضوعات کا تعلق نہ ایک غریب گھر کی روٹی سے ہے نہ اس کے معاشی مسائل سے، نہ ان موضوعات میں کوئی دعوت، تقویٰ و تزکیہ کا پہلو ہے اورنہ غیر مسلموں کے لیے ان میں کوئی کشش ۔ جب کہ جوڑا جہیز کا موضوع ایک ایسا سماجی موضوع ہے جس کا تعلق نہ صرف ہر مسلمان کے معاش ، اخلاق و کردار سے ہے بلکہ کروڑوں غیر مسلمین کے لیے اس میں اسلام کی دعوت پوشیدہ ہے۔جسمیں مسلمان اور غیر مسلمین دونوں کی معاشی راحت کا سامان ہے ہمارے مقرر اور واعظ اس موضوع کو چھوتے بھی نہیں۔ اگر کچھ کہتے بھی ہیں تو نہ وہ گرج ہوتی ہے نہ مخالفین پر فائرنگ کا انداز ہوتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے جیسے ابا جان شریر بچے کو چمکار تے ہوئے کہہ رہے ہوں :
” بیٹا بُری بات ہے اچھے بچے اس طرح شرارت نہیں کرتے “۔
اور نہ قاضی صاحبان خطبے میں ان چیزوں کی ممانعت کرتے ہیں ۔
ہوس بالائے ممبر ہے تجھے رنگیں بیانی کی
نصیحت بھی تری صورت ہے اک افسانہ خوانی کی
اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ خود بھی اور ان کے اہل خاندان اور ان کے ساتھ ساتھ وہ تمام لوگ بھی جن کے چندوں سے مدرسے اور مسجدوں کی انتظامی کمیٹیاں چلتی ہیں اس جرم میں کسی نہ کسی حد تک شریک ہیں ۔ ظاہر ہے جب کہنے والے کے ہاتھ خود خون میں رنگے ہوں وہ دوسروں پر انگلی کیسے اٹھا سکتا ہے ۔
اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جوڑا جہیز ہی دراصل آج مسلمانوں کی ذلت و رسوائی کا اصل سبب ہے ۔اسکی ذمہ داری سب سے پہلے دین کی نمائندگی کرنے والے طبقے پر ہے، اسکے بعد تعلیم یافتہ خوشحال مسلمانوں پر۔
اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جوڑا جہیز ہی دراصل آج مسلمانوں کی ذلت و رسوائی کا اصل سبب ہے ۔اسکی ذمہ داری سب سے پہلے دین کی نمائندگی کرنے والے طبقے پر ہے، اسکے بعد تعلیم یافتہ خوشحال مسلمانوں پر۔
زمرہ جات :
اسلامی متفرق موضوعات