Sunday 21 August 2011

صومالیہ کی قحط سالی اور اس کے پیچے چھپے بیرونی اسباب


صومالیہ کی قحط سالی اور اس کے پیچھے چھپے بیرونی اسباب


یہ بات قابل ذکر ہے کہ صومالیہ ہمیشہ سے ایسا نہ تھا۔ صومالیہ کی سرزمین مشرقی افریقہ کی بڑی منڈی رہی ہے۔ اس کی صحرائی پٹی دنیا کی دوسری بڑی صحرائی پٹی ہے۔ اس سرزمین پر پائے جانے والے تیل، یورینیم، گیس اور سونے کے ذخائر جو ہنوز نکالے جانے کے منتظر ہیں اس کے باسیوں کی بربادی کا سامان بنے۔ مغربی طاقتیں ان ذخائر پر وحشی درندوں کی مانند نظریں جمائے بیٹھی ہیں۔ 

حال ہی میں منظر عام پر آنے والی صومالی باشندوں کی قحط زدہ تصاویر دیکھ کر دل پھٹنے کو آتا تھا۔ کوئی ماں کیسے برداشت کر سکتی ہے کہ اس کا لخت جگر بھوک کے سبب جاں بہ لب ہو، اور وہ اس قابل نہ ہو کہ اس کو گندم کا ایک دانہ یا دودھ کا ایک قطرہ دے سکے۔ انہی تصاویر میں سے ایک تصویر میں، ہڈیوں کے ڈھانچے پر چڑھی جلد کی دبیز سی تہ میں لپٹا بچہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دنیا کے مقتدر انسانوں سے سوال کر رہا ہے کہ آیا خدا کی زمین پر میرا اتنا بھی حق نہیں کہ اس سے حاصل ہونے والا رزق میری زندگی میں کچھ لمحوں کا اضافہ کر سکے۔ یہ تصاویر دیکھ کر اقبال کی معروف نظم ” اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو “ کا یہ شعر بار بار ذہن کے بام و در پر دستک دیتا ہے

میں ناخوش و بیزار ہوں مر مر کی سلوں سے
میرے لیے مٹی کا حرم اور بنا دو 

اربوں ڈالر کی لاگت سے بننے والی مساجد اور سونے سے مزین گنبد ہم مسلمانوں کو پکار پکار کر کہہ رہے ہیں، اے اہل ایمان! بہتر تھا کہ تم ہم کو کچے مٹی کے گھروندے ہی رہنے دیتے مگر انسان کو اس قدر بےتوقیر اور بے بس نہ ہونے دیتے۔ 

صومالیہ کے باسی مسلمان ہیں یا کسی اور دین کے پیروکار، انتہائی بھونڈا سوال ہے۔ خدائے واحد پر ایمان رکھنے والا انسان جو محمد عربی کے دین کو اپنا اوڑھنا بچھونا قرار دیتا ہے، رمضان کے اس ماہ احساس میں بھی اگر ان قحط زدہ انسانوں کی بھوک اور پیاس کو محسوس کر کے ان کی مدد کے لیے کوئی اقدام نہ کر سکے تو حسین ابن علی رضی اللہ عنہ کا یہ جملہ السلام علی الاسلام ہی میرے جذبات کی صحیح عکاسی کر سکتا ہے۔ 

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ صومالیہ ہمیشہ سے ایسا نہ تھا۔ صومالیہ کی سرزمین مشرقی افریقہ کی بڑی منڈی رہی ہے۔ اس کی صحرائی پٹی دنیا کی دوسری بڑی صحرائی پٹی ہے۔ اس سرزمین پر پائے جانے والے تیل، یورینیم، گیس اور سونے کے ذخائر جو ہنوز نکالے جانے کے منتظر ہیں اس کے باسیوں کی بربادی کا سامان بنے۔ مغربی طاقتیں ان ذخائر پر وحشی درندوں کی مانند نظریں جمائے بیٹھی ہیں۔ ان تمام وسائل کے ساتھ ساتھ صومالیہ ایک زرعی ملک بھی ہے۔ اس ملک کی 64 فیصد آبادی زراعت سے متمسک تھی۔ اس زرخیز ملک کے باسیوں کو کیسے گندم کے ایک ایک دانے کا محتاج کیا گیا؟ یہ سوال اپنے اندر حقائق کا ایک سمندر لیے ہوئے ہے۔ جس کا عندیہ اقبال نے بہت پہلے ہی دے دیا تھا۔ 

برفتند تا روش رزم در این بزم کہن
دردمندان جہاں طرح نو انداختہ اند
من از ایں بیش نہ دانم کہ کفن دزدی چند
بھر تقسیم قبور انجمنی ساختہ اند 

صومالیہ ہی وہ سرزمین ہے جس نے اسلام کے پہلے مہاجرین کو اپنی آغوش میں پناہ دی۔ حبشہ کا ساحل جو آج صومالیہ کے ساحلی شہر زیلہ کا حصہ ہے، یہی وہ مقام تھا جو جعفر طیار اور ان کے انصار کی پناہ گاہ بنا۔ صومالیہ کا دارلخلافہ موگا دیشو مشرقی افریقا میں اسلام کا اہم مرکز بنا۔ مسلمان تاجروں نے موگا دیشو اور موزمبیک میں اپنی تجارتی منڈیاں قائم کیں اور اسی دور میں موزمبیک کی کانوں سے سونے کی تلاش کا کام شروع کیا گیا۔ 

استعمار جب وسائل کی تلاش کے لیے دنیا پر تسلط کی غرض سے نکلا تو مشرقی افریقہ کے اس ملک نے اسے ناکوں چنے جبوائے۔ درویشوں کے سربراہ محمد عبداللہ حسن نے صومالی قوم کو استعماری تسلط کے خلاف مجتمع کیا اور کالونیلیزم کے خلاف لڑی جانے والی جنگوں میں سب سے بڑی جنگ لڑی۔ درویشوں کی حکومت نے بہت جلد صومالیہ کے تمام علاقوں پر اپنا کنڑول قائم کیا۔ تاہم برطانوی ہوائی حملوں کے سبب درویشوں کو حزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر صومالیہ استعماری افواج کا میدان جنگ بن گیا۔ ایک حصہ برطانوی صومالی لینڈ جبکہ دوسرا اطالوی صومالی لینڈ اور تیسرا حصہ فرانسیسی صومالی لینڈ قرار پایا۔ 

جنگ عظیم دوئم کے بعد برطانیہ نے اٹلی کو یہ علاقہ چھوڑنے پر مجبور کر دیا اور وہ خود 1960ء تک ان دونوں علاقوں پر مسلط رہا۔ جاتے ہوئے برطانیہ نے صومالیہ کے ساتھ بھی وہی کام کیا جو اس نے برصغیر کے مسلمانوں سے کیا تھا۔ برطانوی افواج نے صومالیہ کے دو اہم علاقے ایتھوپیا اور کینیا کو دے دیے، جن کا تصفیہ ہنوز باقی ہے۔

استعمار کے جانے کے بعد یہ خطہ کیمونسٹوں کی چراگاہ بنا۔ فوج اور پولیس کے سربراہوں نے مل کر سیاسی حکومت کا خاتمہ کیا اور سوشلسٹ پارٹی کے تحت کیمونسٹ حکومت کی بنیاد رکھی۔ اس حکومت نے صومالیہ میں بہت سے اہم ترقیاتی کام کیے۔ 

1977ء میں ایتھوپیا اور صومالیہ کے مابین متنازعہ علاقے پر جنگ چھڑ گئی، جس میں روس نے ایتھوپیا کا ساتھ دیا، جس کے سبب اس وقت کے صومالی صدر باری نے مغرب میں نئے اتحادیوں کی تلاش شروع کی۔ اسی اور نوے کی دہائی میں صومالیہ داخلی انتشار کی جانب چل پڑا۔ 

خانہ جنگی کا یہ سلسلہ آج بھی صومالیہ کی معیشت کو اپنے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہے اور اس ملک کی ترقی میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ باری صومالیہ کے جنوبی علاقوں میں اپنے مسلح حواریوں کے ہمراہ اپنے تئیں صدر تھا جبکہ شمالی علاقے پر شمالی اور جنوبی قبائل کی حکومت تھی، جس کا سربراہ علی مہدی محمد کو بنایا گیا۔ 

اسی اثناء میں 1992ء میں صومالیہ میں پہلا قحط آیا، جس کے سبب تین لاکھ افراد لقمہ اجل بنے۔ جبکہ عالمی برادری نے امداد اور امنیت کے نام پر صومالیہ میں اپنی افواج داخل کر دیں۔

unitaf امریکی افواج اور اس کے اتحادیوں کا پہلا دستہ تھا جو صومالیہ کے قحط زدہ جنوبی علاقوں میں امداد کے لیے پہنچا۔ 1993ء میں یہ ذمہ داری اقوام متحدہ کے سپرد کر دی گئی، جو unosom ii کے عنوان سے صومالیہ میں سرگرم ہوئی۔ 

صومالیہ کے جنرل محمد فرح آیدید نے اس اتحاد کو اپنے اقتدار کی راہ میں رکاوٹ جانتے ہوئے ان پر متعدد حملے کیے، جس کے سبب 1995ء میں اقوام متحدہ نے بھاری نقصان اٹھانے کے بعد اپنے مشن کو ادھورا چھوڑتے ہوئے فرار کی راہ اختیار کی۔ 

آج صومالیہ کے جنوبی علاقوں پر القاعدہ سے متمسک جماعت الشباب کا کنٹرول ہے۔

جنوبی صومالیہ میں گزشتہ دو ماہ میں پیدا ہونے والی قحط کی نئی صورتحال نے عالمی امدادی اداروں اور مغربی ذرائع ابلاغ میں کھلبلی کی سی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اگر اگلے دو ماہ میں امدادی کام کا آغاز نہ کیا گیا تو یہ قحط پورے جنوبی صومالیہ کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ عالمی امدادی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق اس سال کی خشک سالی اور قحط کو گزشتہ نصف صدی کی سب سے بڑی آفت قرار دیا جا رہا ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ اگر فی الفور اقدامات نہ کیے گیے تو ممکن ہے کہ یہ صورتحال کسی بڑے انسانی المیے کو جنم دے دے۔ 

دوسری جانب مغربی میڈیا اور امدادی ادارے صومالیہ میں الشباب کی جانب سے امدادی سرگرمیوں پر لگائی جانے والی 2009ء کی پابندیوں کا واویلا کر رہے ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ الشباب امدادی کاموں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے،

کوئی بھی عالمی ادارہ ملک کی سیکورٹی صورتحال کے مدنظر اپنے وسائل کو داﺅ پر لگانے کے لیے تیار نہیں۔ اس کے برعکس الشباب نے عالمی امدادی اداروں کے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم کسی کو بھی امداد کرنے سے نہیں روک رہے، نہ ہی ہم نے دریاﺅں کے رخ بدلے ہیں اور نہ ہی ہم جنوبی صومالیہ کے باسیوں کو علاقہ چھوڑنے سے روک رہے ہیں۔

شنید یہ ہے کہ الشباب نے بھی جنوبی علاقوں کو خالی کرنا شروع کر دیا ہے اور ان کی جگہ وفاقی حکومت کی 
افواج لے رہی ہیں، تاہم ابھی کئی علاقے ایسے بھی ہیں جہاں الشباب کا مکمل کنٹرول ہے۔

صومالیہ کا تجربہ یہ ثابت کرتا ہے کہ قحط خوراک کی کمی نہیں بلکہ خوراک کی سپلائی کی زیادتی کے سبب آتا
 ہے۔ خوراک کی اندھا دھند ترسیل ملکی زراعت کے لیے زہر قاتل کا کام کرتی ہے، نیز گلوبلائزیشن کے اس دور میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے اصلاحاتی پروگرام قحط سازی کے اس عمل میں براہ راست ملوث ہیں چونکہ یہ پروگرام انتہائی منظم انداز سے دیہی اور شہری علاقوں کی ان معاشی سرگرمیوں کا استحصال کرتے ہیں جن کا عالمی نظام معیشت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ 

ہمارا سوال اب بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ ایک زرعی ملک کیسے قحط کے دہانے پر پہنچا؟

عالمی برادری اس بدحالی کو ملک میں خانہ جنگی اور خشک سالی کا شاخسانہ قرار دیتی ہے جو کسی حد تک درست ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ یہ خانہ جنگی شروع کیسے ہوئی؟

وسائل سے مالا مال ساحلی پٹی پر بسنے والے صومالیوں نے کیونکر ویران صحرائی علاقوں کا رخ کیا؟

زرعی شعبے کے ساتھ کیا بیتی؟

عالمی امدادی تنظیمیں اس سلسلے میں کس کردار کی حامل ہیں؟

صومالی معیشت کو اس نہج پر پہنچانے والا کون ہے؟ 


1990 کی دہائی سے صومالیہ عالمی سطح پر ایک ناکام ریاست تصور کی جاتی ہے۔ یہاں کوئی مرکزی حکومت نہیں۔ پنٹا لینڈ اور صومال لینڈ صومالیہ کے دو خود مختار خطے ہیں جب کہ جنوبی صومالیہ جس کا ذکر قبل ازیں کیا گیا مختلف مسلح گروہوں کے مابین منقسم ہے۔

1980ء کی دہائی میں صومالیہ معاشی طور پر عدم استحکام کا شکار ہونا شروع ہوا اور اس ملک کا خوراک و زراعت کا شعبہ مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔

دا ٹائمز میگزین کے مطابق صومالی صدر محمد صیاد باری نے صومالیہ کا دو تہائی علاقہ تیل تلاش کرنے والی چار امریکی کمپنیوں Conoco، Amoco، Chevron and Phillips کو دے دیا۔

امریکی انتظامیہ ہمیشہ سے صومالیہ میں اپنی سرگرمیوں کو انسانی بنیادوں پر استوار قرار دیتی آئی ہے جبکہ امریکی تیل کی صنعت کے لوگ جن میں سابق امریکی صدر جارج بش بھی شامل ہیں کے صومالیہ میں مفادات ہر صاحب نظر کے لیے واضح اور آشکار ہیں۔

اسی طرح ورلڈ فوڈ پروگرام کی پالیسیاں بھی اس قحط میں ایک اہم عامل ہیں۔

2006ء سے صومالیہ کے شہر اریٹیریا میں مقیم واحد آزاد مغربی صحافی تھامس سی ماونٹین صومالیہ کے قحط میں ورلڈ فوڈ پروگرام کے کردار کے بارے میں لکھتے ہیں۔

صومالیہ میں ورلڈ فوڈ پروگرام ایک مکروہ اور گھناﺅنی تاریخ کا حامل ہے۔

2006ء میں جب صومالی کسان اپنی گندم بیچنے کے لیے بازار میں لائے تو ورلڈ فوڈ پروگرام نے پورے صومالیہ میں سال بھر کی امدادی گندم کی تقسیم کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اس امدادی گندم کی موجودگی میں صومالی کسانوں کے لیے اپنی گندم فروخت کرنا ناممکن ہو گیا۔ صومالی کسانوں نے ورلڈ فوڈ پروگرام کے دفاتر کا گھیراﺅ کیا، جس پر ان دفاتر کی جانب سے باقاعدہ معافی مانگی گئی اور آئندہ ایسی حرکت نہ کرنے کا وعدہ کیا گیا، تاہم اگلے سال یعنی 2007ء میں دوبارہ وہی عمل دہرایا گیا۔

اس بار ورلڈ فوڈ پروگرام کو ایتھوپیا کی افواج کا تعاون حاصل تھا۔ اسی بنا پر صومالیہ کی مسلم عسکری تنظیم الشباب نے ورلڈ فوڈ پروگرام اور تمام تر مغربی امددی اداروں کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی۔

The Globalization of Poverty جیسی معرکة الاراء کتاب کے مصنف مائیکل چوسو ڈوسکی (Michel Chossudovsky) نے صومالیہ کے ابتر حالات کے اسباب کا ذرا مفصل تجزیہ کیا ہے ان کا یہ تجزیہ 1993 ء میں شائع ہوا۔ اس مقالے کے چند اقتباسات پیش قارئین ہیں


آئی ایم ایف 

صومالی معیشت کا دارومدار گلہ بانوں اور چھوٹے کسانوں کے مابین اشیاء کے تبادلے پر تھا۔

1983ء تک مویشیوں کی برآمد سے حاصل ہونے والا زرمبادلہ ملک کے کل زرمبادلہ کا 80 فیصد تھا۔ 80 کی دہائی میں آئی ایم ایف کی آمد کے سبب صومالی معیشت گراوٹ کا شکار ہوئی۔

آئی ایم ایف کی افریقی ممالک کے لیے زرعی اصلاحات نے اس پورے خطے بالخصوص صومالیہ کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ حکومت پر پیرس کلب کے قرضہ جات ادا کرنے کے لیے انتہائی سخت پابندیاں عائد کی گئیں، تاکہ زیادہ سے زیادہ رقم ان قرضوں کی ادائیگی کے لیے مہیا کی جا سکے۔


شعبہ خوراک و زراعت کی تباہی

SAP اسٹرکچل ایڈجیسمنٹ پلین کے ذریعے صومالیہ کی حکومت کو مجبور کر دیا گیا کہ وہ درآمد شدہ گندم پر انحصار کرے۔ اسی کی دہائی میں خوراک کی مد میں ملنے والی امداد پندرہ گنا بڑھا دی گئی۔ اس سستی درآمد نے مقامی پیداوار کو بری طرح متاثر کیا۔ ملک میں کرنسی کی قیمت گرتی گئی، جس کے سبب تیل، فرٹیلائزر اور زرعی اشیاء کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے سامنے آئے۔ اسی عرصے میں بہت سا زرعی علاقہ بیوروکریسی، فوجی افسران اور حکومت کے کاسہ لیس کاروباری حضرات کو عنایت کیا گیا۔ اپنی غذائی ضروریات کے لیے پیداوار کے بجائے برآمد کی جانے والی مصنوعات جیسا کہ پھل، سبزی اور کپاس کی کاشت کی حوصلہ افزائی کی گئی۔


شعبہ پرورش حیوانات کی تباہی

ورلڈ بنک کی ایما پر جانوروں کی ویکسی نیشن کے شعبہ کو نجی ملکیت میں دے دیا گیا۔ ویکسی نیشن کی بہت سی نجی کمپنیاں بنائی گئیں۔ حکومت کے پرورش حیوانات کے شعبہ کو مکمل طور پر ورلڈ بینک کا باج گزار کر دیا گیا۔ جس کے سبب حیوانات کی صحت پر ان عالمی اداروں کا مکمل کنٹرول ہو گیا۔ خشک سالی کے سالوں میں جانوروں کے لیے خوراک کی کمی اور ویکسی نیشن کی عدم دستیابی کے سبب صومالیہ کی معیشت کا یہ اہم حصہ زبوں حالی کا شکار ہوتا چلا گیا۔ اس زبوں حالی کا بالواسطہ فائدہ مغربی ممالک کو بھی پہنچا۔ صومالیہ سے گوشت درآمد کرنے والے ممالک نے آسٹریلیا اور یورپی منڈیوں کا رخ کرنا شروع کیا۔


ریاست کی تباہی

بریٹن ووڈ انسٹی ٹیوٹ کی سرپرستی میں صومالی حکومت کے اخراجات کی از سرنو تشکیل نے بھی صومالیہ کے شعبہ زراعت کی تباہی میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ آئی ایم ایف نے صومالی حکومت کو زراعت کے شعبے کی از سرنو بحالی کے عمل کے لیے مقامی وسائل کو بروئے کار لانے سے سختی سے روک دیا۔ بجٹ کے خسارے کو دور کرنے کے لیے انتہائی سخت شرائط رکھ دی گئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ عالمی امدادی اداروں نے خوراک کی صورت میں امداد میں اضافہ کر دیا۔ جسے حکومت مقامی مارکیٹ میں فروخت کر کے اپنے ترقیاتی منصوبے چلاتی رہی۔ اسی کی دہائی میں اس امدادی خوراک کی فروخت ہی حکومت کی آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ تھی، جس کے سبب امدادی اداروں کو حکومت کے بجٹ پر مکمل تصرف حاصل ہو گیا۔ صحت اور تعلیم کی مد میں خرچ کی جانے والی رقم بہت کم کر دی گئی۔

آئی ایم ایف نے صومالیہ کی معیشت کو ایک نہ ختم ہونے والے گھناﺅنے مدار میں داخل کر دیا۔ حیوانات کی بڑے پیمانے پر ہلاکت نے صومالی گلہ بانوں کو فاقوں پر مجبور کر دیا۔ جس کے اثرات گندم کے کاشتکاروں پر پڑے جو اپنی گندم کے تبادلے میں جانور خریدا کرتے تھے۔ صومالی معیشت کا مکمل نظام تباہ ہو گیا۔

امریکا کی جانب سے آنے والی رعایتی گندم اور کھیت کی تیاری کے لیے ضروری اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کے سبب مقامی کسان بے روزگار ہونے لگے۔ شہری علاقوں میں آمدن کی کمی کے سبب خوراک کی ضرورت میں بھی کمی واقع ہونے لگی، جس کے سبب حکومت نے زراعت کے شعبے پر توجہ کم کر دی۔ حکومتی فارمز کو آنے والے سالوں میں ورلڈ بینک کی سرکردگی میں نجی ملکیت میں دے دیا گیا۔

ورلڈ بینک کے 1989ء کے ایک تخمینے کے مطابق صومالیہ کے نجی شعبے میں ایک فرد کی اوسط آمدن 3 ڈالر ماہانہ ہو چکی تھی جو کہ 1970ء کی نسبت 90 فیصد کم تھی۔ حکومتی شعبے میں تنخواہیں ورلڈ بینک ادا کر رہا تھا۔ اسی ورلڈ بینک کے احکامات پر ملازمین کی تعداد میں کمی کرائی گئی۔

1989ء میں صومالیہ کے بڑی مقدار میں واجب الادا قرضوں کے سبب آئی ایم ایف کی امداد روک دی گئی۔

ورلڈ بینک نے 1989ء میں صومالیہ کے لیے 70 ملین ڈالر کے قرضے کی منظوری دی، جس کی ادائیگی کچھ ہی ماہ بعد روک دی گئی۔

مائیکل چوسو ڈوسکی کے مطابق اس وقت فقط صومالیہ ہی نہیں بلکہ تیسری دنیا کے سو سے زیادہ ممالک میں انہی پالیسیوں پر عمل درآمد جاری ہے۔

اس کے نزدیک تیسری دنیا میں بہت سے صومالیہ ہیں جو اپنے اپنے وقت پر خشک سالی اور قحط کا شکار ہو جائیں گے۔ صومالیہ کا تجربہ یہ ثابت کرتا ہے کہ قحط خوراک کی کمی نہیں بلکہ خوراک کی سپلائی کی زیادتی کے سبب آتا ہے۔ خوراک کی اندھا دھند ترسیل ملکی زراعت کے لیے زہر قاتل کا کام کرتی ہے، نیز گلوبلائزیشن کے اس دور میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے اصلاحاتی پروگرام قحط سازی کے اس عمل میں براہ راست ملوث ہیں چونکہ یہ پروگرام انتہائی منظم انداز سے دیہی اور شہری علاقوں کی ان معاشی سرگرمیوں کا استحصال کرتے ہیں جن کا عالمی نظام معیشت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

ان تمام حقائق کے مدنظر جب ہم پاکستان میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی سرگرمیوں کا جائزہ لیتے ہیں تو زبان پر قائداعظم کے وہ آخری الفاظ آ جاتے ہیں جو انھوں نے یہ دنیا چھوڑنے سے قبل کہے تھے۔ 
اللہ! پاکستان 

Friday 12 August 2011

دہشت گرد خارجیوں (تحریک طالبان پاکستان) کی علامات


دہشت گرد خارجیوں (تحریک طالبان پاکستان) کی علامات







Tuesday 9 August 2011

ماہ رمضان میں خواتین کے مسائل


ماہ رمضان میں خواتین کے مسائل



مرتب : شیخ اصغر علی سلفی


(١) کنو اری اور دو شیزہ کا روزہ

کنواری لڑکی پر روزہ اس وقت واجب ہوگا جب وہ بالغ ہو جائے یعنی اس کے اندر چار چیزوں میں سے کوئی ایک چیز پائی جائے :

١۔ اپنی عمر کے پندرہ سال مکمل ہو کرلے .

٢۔ xxxx نکل آئیں .

٣۔احتلام یعنی xxxx ہو.

٤ ۔ حیض شروع ہوجائے .

جب ان چار چیزوں میں سے کوئی چیز ظاہر ہو جائے تو لڑکی بالغہ شمارہوتی ہے اوراس پر شرعی احکام لاگو ہوں گے ، اس پر روزہ واجب ہے خواہ اس کی عمر دس سال ہی کیوں نہ ہو اسی طرح دیگر عبادات کی ادائیگی بھی اس پر واجب ہوگی جس طرح بڑی عمر کی عورت پر واجب ہوتی ہے .

(٢) حیض ونفاس والی عورتیں 
١۔حیض ونفاس والی عورتوں کیلئے روزہ رکھنا حرام ہے اگر کوئی رکھ بھی لے تو اس کا روزہ نہیں ہو گا .
عن ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ قال:............ قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم : "الیس ذا حاضت لم تصل ولم تصم ؟قلن بلی ، قال: فذلک من نقصان دینہا ،،
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ....... نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"کیا ایسا نہیں ہے ( یعنی ایسا ہے ) کہ عورت جب حائضہ ہوتی ہے تو نہ نماز پڑھ سکتی ہے نہ روزہ رکھ سکتی ہے،، عورتوں نے کہا: ہاں،

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"یہی ان کے دین کی کمی ہے ،،

( صحیح بخاری کتاب الحیض باب: ٦حدیث :٣٠٤) . 

اسی طرح صحیح مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہےکہ انہوں نے کہا:
"کان ذا یصیبنا ذلک فنؤمر بقضاء الصوم ولا نؤمر بقضاء الصلاۃ ،،
"یعنی جب ہمیں حیض لاحق ہوتا تو ہمیں روزہ کی قضا کا حکم دیا جاتا تھا لیکن نماز کی قضا کا حکم نہ دیا جاتا تھا ، ، 

( صحیح مسلم کتاب الحیض باب : ١٥حدیث:٦٩)
معلوم ہوا عورتیں حالت حیض ونفاس میں روزہ نہیں رکھیں گی، البتہ بعد میں ان ایام کی قضا کریں گی ۔

٢۔اگر کوئی عورت روزہ سے ہو اور سورج ڈوبنے سے کچھ لمحہ پہلے اسے حیض یا نفاس کا خون آجائے تو اس کا اس دن کا روزہ باطل ہوجائیگا اور اس پر اس کی قضا واجب ہوگی.

٣۔ اگر عورت رات میں فجر سے کچھ پہلے پاک ہوجائے تو اس پر روزہ واجب ہوگا گرچہ وہ غسل فجر کے بعد کرے .

٤۔ اگر کوئی عورت بحالت روزہ حیض آنے کا احساس کرے یا درد اور تکلیف محسوس کرے مگر حیض کا خون سورج ڈوبنے کے بعد ظاہر ہوا تو اس دن کا روزہ صحیح ہوگا، اور اس پر اس کی قضا لازم نہیں .
٥۔ اگر کوئی نفاس والی عورت چالیس دنوں کے اندر پاک ہوجائے مثلا بچہ کی پیدائش کے ایک ہفتہ بعد نفاس کا خون بند ہوگیا اور پاکی کی علامت ظاہر ہوگئی تو وہ روزہ رکھے گی اور اس کا روزہ صحیح ہوگا، البتہ پھر دوبارہ اگر خون آجائے تو روزہ ترک کر دے گی یہاں تک کہ پھر پاک ہوجائیں یا چالیس دن پورے کرلیں کیونکہ نفاس کی آخری مدت چالیس دن ہے ، اور چالیس دن کے بعد آنے والا خون ،اگرعورت کی عادت ِحیض سے مطابقت کر جائے تو وہ نماز اور روزہ ترک کر دے گی اور اس کو حیض سمجھے گی.

(٣) روزہ کیلئے مانع حیض گولیوں کا استعمال

شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
" مجھے ڈاکٹروں کے ذریعہ مانع حیض گولیوں کے نقصانات پرآگاہی ہوئی ہے اور یہ بات میرے نزدیک پایئہ ثبوت کو پہونچی ہے کہ مانع حیض گولیاں عورتوں کی صحت اور بچہ دانی پر اثر ڈالتی ہیں اس لئے ہم عورتوں سے کہتے ہیں کہ جو حیض اسے آیاہے وہ من جانب اللہ بنات آدم پر مقدر ہےاس لئے انہیں چاہئے کہ وہ صبر کریں اور اپنے آپ کو خطرہ میں نہ ڈالیں . یعنی مانع حیض گولیاں استعمال کرنا درست نہیں .

(٤) حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتیں 

١۔ جب حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتیں روزہ کی وجہ سے اپنی ذات پر یا اپنے بچہ پر خوف محسوس کریں تو وہ روزہ چھوڑ دے اور خوف زائل ہونے کے بعد جب ممکن ہو اپنے فوت شدہ روزوں کی قضا کرلیں .

٢۔ اگر کسی حاملہ عورت کو بحالت روزہ خون یا پانی آجائے تو اس کا روزہ صحیح ہوگا اس کے روزے پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑ ے گا .

(٥) وہ بوڑھی عورت جو روزہ رکھنے پر قادر نہ ہو 

اگر کسی بوڑھی عورت کیلئے روزہ رکھنا نقصان دہ ہو تو اسے روزہ نہیں رکھنا چاہئے ارشا دباری تعالی ہے:
" وعلی الذین یطیقونہ فدیۃ طعام مسکین ،،
اور ایسے لوگوں پر جن کیلئے روزہ باعث مشقت ہو ایک مسکین کو کھانا دینا ( روزہ کا ) فدیہ ہے
( سورہ بقرہ : ١٨٤). 
مفسر قرآن عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

" ہو الشیخ الکبیر والمراۃ الکبیرۃ لا یستطیعان ان یصوما فلیطعمان مکان کل یوم مسکینا ،،
"یہ آیت عمر دراز بوڑھے مرد اور بوڑھی عورت کیلئے رخصت کے طور پر اتری ہے جو روزے نہ رکھ سکتے ہوں تو ہر دن کے عوض ایک مسکین کو کھانا دے دیں،،
(صحیح بخاری کتاب التفسیر باب:٢٥حدیث:٤٥٠٥)

(٦) ماہ رمضان میں بیوی سے مجامعت 

١۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالی نے دیگر مہینوں کی طرح ماہ رمضان میں بھی بیوی سے مجامعت کو حلال قرار دیا ہے مگر اس کیلئے کچھ حد بندی کر دی ہے چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے :

"احل لکم لیلۃ الصیام الرفث ۃ لی نسائکم ، ہن لباس لکم وانتم لباس لہن علم اللہ انکم کنتم تختانون انفسکم فتاب علیکم وعفا عنکم ، فالآن باشروہن وابتغوا ما کتب اللہ لکم ،،

روزے کی راتوں میں اپنی بیویوں سے ملنا تمہارے لئے حلال کیا گیا ، وہ تمہار الباس ہیں اور تم ان کے لباس ہو ، تمہاری پوشیدہ خیانتوں کا اللہ تعالی کو علم ہے ، اس نے تمہاری توبہ قبول فرما کر تم سے در گذر فرمالیااب تمہیں ان سے مباشرت کی اور اللہ تعالی کی لکھی ہوئی چیز کو تلاش کرنے کی اجازت ہے،،
(سورہ بقرہ:١٨٧) 
اس آیت سے معلوم ہوا کہ ایک مسلمان کوماہ رمضان میں افطار سے لے کر صبح صادق تک اپنی بیوی سے مباشرت کی اجازت دی گئی ہے

حالت روزہ میں بوس وکنار : 

٢۔ کیا مرد وعورت رمضان کے دنوں میں بوس کنار اور ہنسی مذاق کر سکتے ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بحالت روزہ میاں بیوی کا ایک دوسرے سے بوس کنار اور ہنسی مذاق کرنا ، مجامعت کے بغیر ایک دوسرے سے چمٹنا درست اور جائز ہے بشرطیکہ دونوں کو صحبت اور جماع میں پڑنے کا خوف نہ ہو.اور اگر بوس وکنار کے سبب منی خارج ہو جائے تو اس کا روزہ فاسد ہوجائےگا اور اس دن کے روزے کی قضا واجب ہوگی .

٣۔ اگر کوئی مرد بحالت روزہ اپنی بیو ی سے جماع کرلے تو اس پر پانچ احکام مرتب ہوتے ہیں : 

1. اس نے بڑے گناہ کاارتکاب کیا ۔

2. اس کا روزہ فاسد ہوگیا ۔ 
3. دن کا باقی حصہ کھانے پینے سے رکا رہے ۔ 
4. رمضان گزرنے کے بعد اس دن کی قضا کرے ۔ 
5. کفارہ مغلظہ ادا کرے ۔

کفارہ یہ ہے ایک غلام آزاد کرنا ۔اگر اس کی طاقت نہ ہو تو لگاتار دوماہ روزے رکھنا ۔ اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مسکین کو کھانا کھلانا . عورت بھی اس معاملہ میں مرد کی طرح ہے بشرطیکہ وہ جماع پرراضی رہی ہو، اگر وہ جماع کیلئے مجبور کی گئی ہو تو اس پرکچھ بھی لازم نہیں .

(٧) بحالت روزہ عورتوں کیلئے زیب وزینت کی چیزوں کا استعمال 

وہ چیزیں جن کے استعمال سے عورت کے چہرہ پر حسن وجمال پیدا ہوتا ہے مثلا صابون ،کریم ، پاؤڈر ، تیل اور سرمہ وغیرہ تو ان چیزوں کے استعمال سے روزہ پر کو ئی اثر نہیں پڑے گا اسی طرح مہندی ، پالش اور زینک وغیرہ استعمال کرسکتی ہیں .

(٨) رمضان کے روزوں کی قضا

مرد وعورت ہر ایک پر لازم ہے کہ جتنی جلدی ہو سکے رمضان کے روزوں کی قضا کر لیں، اگر کسی کے ذمہ رمضان کے روزوں کی قضا تھی اور اس نے تاخیر کی یہاں تک کہ دوسرا رمضان آگیا اور تاخیر کیلئے اس کے پاس کوئی عذر بھی نہیں تھا تواب اس پر قضا کے ساتھ بہت سے علماء کے نزدیک ہر دن کے عوض ایک مسکین کو کھانا کھلانا بھی واجب ہے اور اگر تاخیر کسی عذر کی وجہ سے ہو تو اس پر صرف قضا واجب ہے .

(٩) ہنڈیا کا ذائقہ چکھنا 

بعض عورتوں کو کھانا بناتے وقت نمک وغیرہ کا اندازہ نہیں ہو پاتا ہے, ایسی صورت میں وہ سالن کا کچھ حصہ زبان پر رکھ کر اس کا ذائقہ معلوم کرسکتی ہیں . عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں
" لا باس ان یتطعم القدر او الش،،
"روزہ دار ہنڈیا یا کسی دوسری چیز کا ذائقہ چکھ لے تو کوئی حرج نہیں،،
(صحیح بخاری کتاب الصوم باب:٢٥).

(١٠) خاتون اور مسجد 

خواتین مسجدوں میں دو اغراض ومقاصد کیلئے آسکتی ہیں :
(١) نماز میں شریک ہونے کیلئے خواہ فرض نماز ہو یاکہ تراویح .
(٢) مسجد میں آکر اللہ تعالی کی تسبیح وتہلیل اور اس کی حمد وثنا بیا ن کر نے کیلئے 


. نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے
٫٫ ذا استاذنت احدکم مراتہ لی المسجد فلا یمنعہا ،،
٫٫اگر تم میں سے کسی کی بیو ی اس سے مسجد جانے کیلئے اجازت طلب کرے تو وہ اسے مت روکے ،،
(صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب: ٣٠حدیث:١٣٤) .

ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

٫٫لا تمنعوا ماء اللہ مساجد اللہ ،،
" اللہ کی باندیوں کو اللہ کی مسجدوں میں آنے سے نہ روکو ،،
(صحیح مسلم باب:٣٠حدیث:١٣٦).

بلکہ شرعی حدود و قیود کو مد نظر رکھتے ہوئے عورتوں کو نماز تراویح کے لئے مسجد میں آنے کی ترغیب دینی چاہئے ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عمل سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اس کا خصوصی اہتمام کرتے تھے حتی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عورتوں کے لئے مسجد میں الگ جماعت کا اہتمام کیا اور ان کے لئے مرد امام متعین فرمائے ۔
[ مصنف عبد الرزاق، رمضان لابن نصر ، السنن الکبری للبیہقی ]

لیکن یاد رہے مسجد کے چند آداب ہیں جن کا پاس ولحاظ رکھنا ہرخاتون کیلئے از حد ضروری ہے مثلا دخول مسجد کی دعا۔ تحیۃ المسجدکی دو رکعتیں ۔ مسجدکا احترام ۔ اپنی آوازوں کو پست رکھنا ۔ خوشبو لگاکر نہ جانا ۔ زیب وزینت کی چیزوں کو ظاہر نہ کرناوغیرہ .


Saturday 6 August 2011

صلوۃ التراویح کے حوالے سے چند ضعیف روایات کا تذکرہ

صلوۃ التراویح کے حوالے سے چند ضعیف روایات کا تذکرہ
(ماخوذ:استاذ الحدیث محمد یحیی گوندلوی کی تصنیف‘‘ضعیف اور موضوع روایات’’سے)


1:کان یصلی فی شھر رمضان عشرین رکعتہ(ابن عباسؓ)۔۱
رمضان میں بیس رکعت نماز پڑھتے تھے

منکر باطل ہے(روای ابراہیم بن عثمان ثقہ نہیں(ابن معین)ضعیف
 ہے(احمد)اس سے سکوت ہے،سخت مجروح ہے(بخاری) متروک الحدیث(نسائی) شعبہ نے اس کی تکذیب کی ہے۔ذہبی فرماتے ہیں اس کی یہ روایت منکر ہے(میزان ص۴۰ج۱) من گھٹرت ہے(سلسلہ ضعیفہ ص۲۳۶ج۱)

2:فصلی اربع و عشرین رکعتہ و اوتر بثلاث۔(جابرؓ)۔۲
چوبیس رکعت اور تین وتر پڑھے۔
من گھڑت ہے اس کی سند کے دو روای مجہول ہیں اور دو متہم بالکذب ہیں جن میں ایک روای محمد بن حمید رازی ہے(میزان ص۵۳۰ج۳) 
اور دوسرا راوی محمد کا استاذ عمر بن ہارون کذاب اور خبیث ہے(میزان ص۲۲۸ج۳)

3:کان الناس فی زمن عمر یقومون فی رمضان بثلاث وعشرین رکعتہ۔(یزید بن رومانؒ)۔۳
لوگ حضرت عمرؓ کے زمانے میں(23) رکعتوں کو قیام کیا کرتے تھے۔
منقطع ہے یزید نے حضرت عمرؓ کا زمانہ نہیں پایا(نصب الرایہ ص۱۵۴ج۲
4:حضرت علیؓ نے حکم دیا کہ امام لوگوں کو پانچ ترویحے(بیس رکعت) پڑھائیں۔۴
ضعیف ہے روای ابو الحسنا مجہول ہے(تحفۃ الاحوذی ص۷۴ج۲)۔اس کی سند ضعیف ہے(بیہقی ص۴۹۷ج۲)
5:حضرت علیؓ نے قاریوں کو بلایا اور ایک قاری کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کوبیس رکعت پڑھائے۔۵
ایک راوی حماد بن شعبہ ضعیف ہے(ابنِ معین) اس میں نظر ہے قابل حجت نہیں (بخاری) اس کی اکثر روایات پر متابعت نہیں(تحفۃ 
الاحوذی ص۷۵ج۲) اس کا استادسائب مختلط ہے(تقریب ص۲۳۹)

6:حضرت عمرؓ نے ایک آدمی کو حکم دیا کہ وہ بیس رکعت پڑھائے۔۶
منقطع ہے ،یحی نے حضرت عمرؓ کو نہیں پایا(تحفۃ الاحوذی ص۷۵ج۲)
7:لوگ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں رمضان میں بیس رکعت قیام کرتے تھے۔(سائب بن یزیدؓ)۔۷
شاذہے راوی یزید بن خصیفہ ثقہ ہے لیکن جب اپنے سے زیادہ ثقہ کی مخالفت کرے تو اس کی روایت شاذ ہوتی ہے۔امام احمد فرماتے ہیں منکر الحدیث ہے(تہذیب ص۳۴۰ج۱۱)حالانکہ امام احمد نے انہیں ثقہ بھی کہا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جب یہ متفرد ہویا اپنے ثقہ کی مخالفت کرے تو اس وقت یہ منکر الحدیث ہوتا ہے اس نے محمد بن یوسف کی مخالفت کی ہے جن کی روایات میں گیارہ کا ذکر ملتا ہے اور وہ اس سے زیادہ ثقہ ثبت ہے،لہذا اس مخالفت کی بنا پر اس کی روایت شاذ ہے۔
8:ہم حضرت عمرؓ کے زمانہ میں بیس رکعت اور وتر پڑھتے تھے۔۸
اس کا روای ابو عثمان بصری نا معلوم ہے(تحفۃ الاحوذی ص۷۵ج۱)
9:لوگ حضرت عمر،عثمان اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنھم کے زمانے میں بیس رکعت کا قیام کیا کرتے تھے۔۹
مدرج ہے،بعض حضرات اس کی نسبت امام بیہقی کی طرف کی ہے جو غلط ہے۔علامہ نیموی حنفی اور علامہ عبد الرحمن مبارکفوری فرماتے ہیں کہ عثمان اور علی والے الفاظ مدرج ہیں جو امام بیہقی کی تصانیف میں نہیں پائے جاتے(آثار السنن ص۲۵۲وتحفۃ الاحوذی ص۷۲ج۲)
10:حضرت عمرؓ نے لوگوں کو ابی بن کعب ؓکی امامت پر جمع کیا اور وہ ان کو بیس رکعت پڑھاتے تھے۔۱۰
منقطع ہے ،حضرت حسن بصری ؒ کی حضرت عمرؓ سے ملاقات ثابت نہیں ہے،حسن حضرت عمرؓ کی خلافت کے آخری دو سالوں میں پیدا 
ہوئے(تہذیب ص۲۶۴ج۲)۔

حواشی:

۱:بیہقی ص ۴۹۶ ج۲،أ رواءالغلیل ص۱۹۰ج۲،تاریخ بغداد ص۱۱۳ج۶،ص۴۵ج۱۲،ضعیفہ ص۳۵ج۲
۲:ضعیفۃ ص۳۶ج۲
۳:نصب الرایہ ص۱۵۳ج۲،بیہقی ص۴۹۶ج۲،موطا امام مالک ص۹۱
۴:بیہقی ص۴۹۷ج۲
۵:موطا ص۷۱، بیہقی ص۴۹۷ج۲
۶:ابن ابی شیبہ ص۱۶۳ ج۲ح۷۶۸۲
۷: ابن ابی شیبہ ص۱۶۳ ج۲ح۷۶۸۴
۸: بیہقی ص۴۹۶ج۲
۹: بیہقی ص۴۹۷ج۲
۱۰: آثار السنن ص۲۵۲وتحفۃ الاحوذی ص۷۲ج۲

Tuesday 2 August 2011

رمضان مبارک











Monday 1 August 2011

روزہ افطارکرانے کی فضیلت میں ایک ضعیف روایت

روزہ افطارکرانے کی فضیلت میں ایک ضعیف روایت !

صحابی رسول سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے رمضان میں حلال کمائی سے کسی کو افطار کرایا تو رمضان کی ساری رات فرشتے اس کے لئے دعاء کریں گے، اورشب قدر میں جبرئیل علیہ السلام اس سے مصافحہ کریں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


یہ روایت سخت ضعیف ہے تفصلیل ملاحظہ ہو:

امام ابن ابی الدنیا رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْجُشَمِيُّ، قَالَ: ثنا حَكِيمُ بْنُ حِزَامٍ أَبُو سُمَيْرٍ، وَكَانَ مِنَ الْعَابِدِينَ، قَالَ: ثنا عَلِيُّ بْنُ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا فِي رَمَضَانَ مِنْ كَسْبٍ حَلَالٍ، صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَلَائِكَةُ لَيَالِيَ رَمَضَانَ كُلَّهَا، وَصَافَحَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ لَيْلَةَ الْقَدْرِ، وَمَنْ صَافَحَهُ جِبْرِيلُ يَرِقَّ قَلْبُهُ، وَتَكْثُرْ دُمُوعُهُ» فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ يَكُنْ ذَاكَ عِنْدَهُ؟ قَالَ: «بِقَبْضَةٍ مِنْ طَعَامٍ» قَالَ: أَفَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ يَكُنْ ذَاكَ عِنْدَهُ؟ قَالَ: «فَفَلْقَةُ خُبْزٍ» قَالَ: أَفَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ يَكُنْ ذَاكَ عِنْدَهُ؟ قَالَ: «فَمَذْقَةٌ مِنْ لَبَنٍ» قَالَ: أَفَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ يَكُنْ ذَاكَ عِنْدَهُ؟ قَالَ: «فَشَرْبَةٌ مِنْ مَاءٍ» [فضائل رمضان لابن أبي الدنيا ص: 88]۔

امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ثنا محمد بن إبراهيم بن ميمون ثنا عبيد الله بن عمر ثنا حكيم بن خذام العبدي أنا علي بن زيد عن سعيد بن المسيب عن سلمان الفارسي قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم من فطر صائما في رمضان من كسب حلال صلت عليه الملائكة ليالي رمضان كلها وصافحه جبريل ومن يصافحه جبريل يرق قلبه وتكثر دموعه قال رجل يا رسول الله فان لم يكن ذاك عنده قال قبضة من طعام قال أرأيت من لم يكن ذاك عنده قال ففلقة خبز قال أفرأيت ان لم يكن ذاك عنده قال فمذقة من لبن قال أفرأيت من لم يكن ذاك عنده قال فشربة من ماء[الكامل في الضعفاء 2/ 220]۔

امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْخَلِيلِ الْمَالِينِيُّ، أَنْبَأَنَا أَبُو أَحْمَدَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَدِيٍّ الْحَافِظُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ [ص:199] إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْمُونٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ يَعْنِي الْجُشْمِيَّ، حَدَّثَنَا حَكِيمُ بْنُ حِزَامٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ سَلْمَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا فِي رَمَضَانَ أَيْ مِنْ كَسْبٍ حَلَالٍ صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَلَائِكَةُ فِي لَيَالِي رَمَضَانَ كُلِّهَا، وَصَافَحَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَمَنْ يُصَافِحْهُ جِبْرِيلُ يَرِقَّ قَلْبُهُ وَتَكْثُرْ دُمُوعُهُ» قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ ذَاكَ عِنْدَهُ؟ قَالَ: «قُرْصَةٌ مِنْ طَعَامٍ» قَالَ: أَرَأَيْتَ مَنْ لَمْ يَكُنْ ذَاكَ عِنْدَهُ؟ قَالَ: «فَلَعْقَةُ خُبْزٍ» قَالَ: أَفَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ يَكُنْ ذَاكَ عِنْدَهُ؟ قَالَ: «فَمَذْقَةُ لَبَنٍ» قَالَ: أَفَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ يَكُنْ ذَاكَ عِنْدَهُ؟ قَالَ: «فَشَرْبَةٌ مِنْ مَاءٍ» [فضائل الأوقات للبيهقي ص: 198]۔

امام طبرانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْحَاقَ التُّسْتَرِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، ثنا حَكِيمُ بْنُ حِزَامٍ، ثنا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ سَلْمَانَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا فِي رَمَضَانَ مِنْ كَسْبٍ حَلَالٍ صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَلَائِكَةُ» [المعجم الكبير للطبراني 6/ 261]۔

امام علی بن عمر الحربی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أَخْبَرَنَا عَلِيٌّ قَالَ: ثنا أَبُو خُبَيْبٍ , ثنا ابْنُ أَبِي الشَّوَارِبِ , ثنا حَكِيمُ بْنُ خِذَامٍ أَبُو سُمَيْرٍ , ثنا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ , عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا فِي رَمَضَانَ مِنْ كَسْبٍ حَلَالٍ صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَلَائِكَةُ أَيَّامَ رَمَضَانَ كُلَّهَا , وَصَافَحَهُ جِبْرِيلُ لَيْلَةَ الْقَدْرِ , وَمَنْ يُصَافِحْهُ جِبْرِيلُ تَكْثُرْ دُمُوعُهُ وَيَرِقَّ قَلْبُهُ ". قَالَ: أَفَرَأَيْتَ مَنْ لَمْ يَكُنْ ذَلِكَ عِنْدَهُ؟ فَقَالَ: " فَقَبْضَةً مِنْ طَعَامٍ ". قَالَ: أَفَرَأَيْتَ مَنْ لَمْ يَكُنْ ذَلِكَ عِنْدَهُ؟ قَالَ: " فَمَذْقَةً مِنْ لَبَنٍ " قَالَ: أَفَرَأَيْتَ مَنْ لَمْ يَكُنْ ذَلِكَ عِنْدَهُ؟ قَالَ: " فَشَرْبَةً مِنْ مَاءٍ " [الفوائد المنتقاة عن الشيوخ العوالي لعلي بن عمر الحربي ص: 96، بترقيم الشاملة آليا]۔

امام طبرانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، ثني مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ حَبِيبٍ الْأَسَدِيُّ الْمِصِّيصِيُّ، ثنا حَكِيمُ بْنُ خِذَامٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا مِنْ كَسْبٍ حَلَالٍ صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَلَائِكَةُ بَقِيَّةَ شَهْرِ رَمَضَانَ كُلِّهِ، وَصَافَحَهُ جِبْرِيلُ لَيْلَةَ الْقَدْرِ، وَمَنْ صَافَحَهُ جِبْرِيلُ رَقَّ قَلْبُهُ، وَكَثُرَتْ دُمُوعُهُ» ، فَقَالَ رَجُلٌ: أَلَمْ تَرَ إِنْ لَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ ذَلِكَ؟ قَالَ: «لُقْمَةٌ أَوْ كِسْرَةُ خُبْزٍ» ، فَقَالَ آخَرُ: أَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ ذَلِكَ؟ قَالَ: «فَمَذْقَةٌ مِنْ لَبَنٍ» قَالَ: فَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ؟ قَالَ: «فَشَرْبَةُ مَاءٍ» [مكارم الأخلاق للطبراني ص: 366]۔

امام بیھقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ الْمُقْرِئُ بْنُ النَّجَّارِ، بِالْكُوفَةِ، حَدَّثَنَا أَبُو الْحَسَنِ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرٍ أَحْمَدُ بْنُ عِيسَى بْنِ هَارُونَ الْعِجْلِيُّ الْقَطَّانُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ حَبِيبٍ الْمِصِّيصِيُّ لُوَيْنٌ، حَدَّثَنَا حَكِيمُ بْنُ حِزَامٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ زَيْدَ بْنِ جُدْعَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا فِي رَمَضَانَ مَنْ كَسَبَ حَلَالًا صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَلَائِكَةُ لَيَالِي رَمَضَانَ كُلِّهَا، وَصَافَحَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ لَيْلَةَ الْقَدْرِ، وَمَنْ صَافَحَهُ جِبْرِيلُ تَكْثُرُ دُمُوعُهُ، وَيَرِقُّ قَلْبُهُ "، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللهِ أَرَأَيْتَ مَنْ لَمْ يَكُنْ ذَاكَ عِنْدَهُ؟، قَالَ: " فَلُقْمَةُ خُبْزٍ أَوْ كِسْرَةُ خُبْزٍ ". الشَّكُّ مِنْ حَكِيمٍ، قَالَ: أَفَرَأَيْتَ مَنْ لَمْ يَكُنْ ذَاكَ عِنْدَهُ؟، قَالَ: " فَقَبْضَةٌ مِنْ طَعَامٍ "، قَالَ: أَفَرَأَيْتَ مَنْ لَمْ يَكُنْ ذَاكَ عِنْدَهُ؟، قَالَ: " فَمَذْقَةٌ مِنْ لَبَنٍ "، قَالَ: أَفَرَأَيْتَ مَنْ لَمْ يَكُنْ ذَاكَ عِنْدَهُ؟، قَالَ: " فَشَرِبَةٌ مِنْ مَاءٍ ". [شعب الإيمان 5/ 428]۔

امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الله بن قَحْطَبَةَ ثَنَا بن أَبِي الشَّوَارِبِ ثَنَا حَكِيمُ بْنُ خدام بْنِ سُمَيْرٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ زَيْدٍ عَنْ سَعِيدِ بن السميب عَن سُلَيْمَان الْفَارِسِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا فِي رَمَضَانَ مِنْ كَسْبٍ حَلالٍ صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَلائِكَةَ أَيَّامَ رَمَضَانَ كُلَّهَا وَصَافَحَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلامُ لَيْلَةَ الْقَدْرِ وَمَنْ يُصَافِحُهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلامُ تَكْثُرْ دُمُوعُهُ وَيَرِقّ قَلْبُهُ فَقُلْتُ أَفَرَأَيْتَ مَنْ لَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ قَالَ فَمُذْقَةٌ مِنْ لَبَنٍ قَالَ أَفَرَأَيْتَ مَنْ لَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ قَالَ فَشَرْبَةٌ مِنْ مَاءٍ [المجروحين لابن حبان 1/ 247]۔


درجہ روایت:
مذکور سند میں دو بنیادی راوی ضعیف ہیں :

پہلا راوی : علي بن زيد بن عبد الله بن زهير بن عبد الله بن جدعان:

امام ابوحاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ليس بقوي يكتب حديثه ولا يحتج به[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم 6/ 186]۔

امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ليس هو بالقوي [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم 6/ 186 وسندہ صحیح]۔

امام علی ابن مدینی فرماتے ہیں:
ضَعِيف عندنَا [سؤالات ابن أبي شيبة لابن المديني ص: 57]۔

امام یحیی بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ليس بذاك القوي [تاريخ ابن معين - رواية الدارمي ص: 141]۔

امام ابن سعد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فيه ضعف ولا يحتج به [الطبقات الكبرى لابن سعد 7/ 252]

امام دارقطنی فرماتے ہیں:
فيه لين [سؤالات البرقاني ص: 52]۔

ابواحمد الحاکم فرماتے ہیں:
ليس بالمتين عندهم [الأسامي والكنى لأبي أحمد الحاكم 3/ 96]

امام بیھقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ليس بالقوي[السنن الكبرى 1/ 449]۔

امام ابن حبان فرماتے ہیں:
كَانَ يهم فِي الْأَخْبَار ويخطء فِي الْآثَار حَتَّى كثر ذَلِك فِي أخباره وَتبين فِيهَا الْمَنَاكِير الَّتِي يَرْوِيهَا عَن الْمَشَاهِير فَاسْتحقَّ ترك الِاحْتِجَاج بِهِ[المجروحين لابن حبان 2/ 103]۔



دوسرا راوی :حكيم بن خذام أبو سمير:

امام ابوحاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
متروك الحديث [الجرح والتعديل: 3/ 203]۔

امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
منكر الحديث [التاريخ الكبير 3/ 18]۔

امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حكيم بن خذام ضعيف [الضعفاء والمتروكين ص: 30]۔

ابن ماکولا فرماتے ہیں:
قال لي بعض الحفاظ في حديثه نكرة[الإكمال لابن ماكولا 2/ 419]۔
.بعض روایت میں حکیم کی متابعت بھی کی گئی ہے لیکن یہ متابعت بھی ساقط الاعتبار ہے کما یاتی

حسن بن أبي جعفر کی متابعت


امام بزار فرماتے ہیں:
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ قُرَّةَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَبِي جَعْفَرٍ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم : مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا عَلَى طَعَامٍ وَشَرَابٍ مِنْ حَلالٍ ، صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَلائِكَةُ فِي سَاعَاتِ شَهْرِ رَمَضَانَ ، وَصَافَحَهُ جِبْرِيلُ صلى الله عليه وسلم لَيْلَةَ الْقَدْرِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِ ، وَمَنْ صَافَحَهُ جِبْرِيلُ لَيْلَةَ الْقَدْرِ ، رُزِقَ دُمُوعًا وَرِقَّةً ، قَالَ سَلْمَانُ : إِنْ كَانَ لاَ يَقْدِرُ عَلَى قُوتِهِ ، قَالَ : عَلَى كِسْرَةِ خُبْزٍ ، أَوْ مَذْقَةِ لَبَنٍ ، أَوْ شَرْبَةِ مَاءٍ ، كَانَ لَهُ هَذَا.[مسند البزار 1/ 388]۔

تنبیہ:
علامہ البانی رحمہ اللہ نے کہا:
أخرجه الطبراني مختصرا، والبزار نحوه كما في " مجمع الزوائد" (3/156) قلت: في عزوه للبزار نظر لأسباب أهمها أنه ليس في " كشف الأستار عن زوائدالبزار " للهيثمي أيضا، وهو أصل ما يعزوه للبزار في " المجمع " وكذلك ليس هوفي " زوائد البزار " للحافظ ابن حجر.[ الضعيفة : 3/ 504]۔

یعنی علامہ البانی رحمہ اللہ امام ہیثمی رحمہ اللہ سے اختلاف کرتے ہیں ہوئے کہا ہے کہ مذکورہ روایت بزار میں نہیں ہے ، حالانکہ بات صحیح نہیں ہے اوردرست بات وہی ہے جو امام ہیثمی نے کہی ہے یعنی یہ روایت بزارمیں موجودہے جیساکہ اوپربزارکے حوالہ سے یہ روایت مع سند ومتن پیش کی گئی۔

امام ابن عدی فرماتے ہیں:
انا بكر بن عبد الوهاب ثنا عمرو بن علي ثنا أبو قرة الفضل بن قرة بن أخي الحسن بن أبي جعفر حدثني عمي عن علي بن زيد بن جدعان عن سعيد بن المسيب عن سلمان قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم من فطر صائما على طعام وشراب من حلال صلت عليه الملائكة في ساعات شهر رمضان وصافحه جبريل ليلة القدر وصلى عليه ورزق دعاء ورقة قال سلمان ان كان لا يقدر الا على قوته فقال ان فطر على كسرة خبز أو مزقة لبن أو
شربة ماء
[الكامل في الضعفاء 2/ 307]۔

امام طبرانی فرماتے ہیں:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بن يَحْيَى بن مَنْدَهِ الأَصْبَهَانِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بن عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بن قُرَّةَ، عَنِ الْحَسَنِ بن أَبِي جَعْفَرٍ، عَنْ عَلِيِّ بن زَيْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بن الْمُسَيِّبِ، عَنْ سَلْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا عَلَى طَعَامٍ، وَشَرَابٍ مِنْ حَلالٍ، صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَلائِكَةُ فِي سَاعَاتِ شَهْرِ رَمَضَانَ، وَصَلَّى جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلامُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ" . [المعجم الكبير 6/ 262]

امام ابوالقاسم ،قوام السنہ فرماتے ہیں:
أخبرنا عمر بن أحمد الفقيه، أنبأ علي بن محمد الفقيه، ثنا أبو عمرو بن حكيم، ثنا أبو أمية الطرسوسي، ثنا عمرو بن سفيان القطعي، ثنا الحسن بن أبي جعفر، عن علي بن يزيد، عن سعيد، عن سلمان -رضي الله عنه- عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:((من فطر صائماً على طعام أو شراب من حلال في شهر رمضان صلت عليه الملائكة في ساعات رمضان، وصافحه جبريل -عليه السلام- ليلة القدر، وسلم عليه ودعا له، ومن صافحه جبريل -عليه السلام- رزق دموعاً ورقة، قال سلمان: يا رسول الله من لم يكن معه إلا فضل عشاء؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا سلمان من فطر على كسرة خبز أو شربة لبن أو شربة ماء أجزأ ذلك عنه)) .[الترغيب والترهيب لقوام السنة 2/ 355]۔

درجہ روایت:

یہ متابعت بھی بے کارہے کیونکہ :
اولا:
اس میں بھی مرکزی راوی ’’علي بن يزيد‘‘ موجود ہے جس کے بارے میں تفصیل پیش کی جاچکی ہے۔
ثانیا:
یہ ’’ الحسن بن أبي جعفر‘‘ بذات خود مجروح ہے۔

امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
منكر الحديث [التاريخ الكبير للبخاري 2/ 288]۔

امام ابوحاتم فرماتے ہیں:
ليس بقوي في الحديث[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم 3/ 29]۔

امام ابن حبان فرماتے ہیں:
وهم فيما يروي ويقلب الأسانيد وهو لا يعلم حتى صار ممن لا يحتج به[المجروحين لابن حبان 1/ 237]۔

امام ابونعیم اصبہانی فرماتے ہیں:
منكر الحديث [الضعفاء للأصبهاني ص: 73]۔

امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الحسن بن أبي جعفر ضعيف [سنن الدارقطني 3/ 73]۔

امام علی بن المدینی فرماتے ہیں:
ضَعِيْفٌ ضَعِيْفٌ [سؤالات محمد بن عثمان بن أبي شيبة لعلي بن المديني ص: 34]۔

امام ابن معین فرماتے ہیں:
لا شيء[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم 3/ 29 وسندہ صحیح]۔