Wednesday 8 June 2011

بلیک واٹر

picture        










طارق اسماعیل ساگر کا ایک اور لا زوال شاہکار ناول جس میں پاکستان میں مصروف کار صیعونی طاقتوں کو بے نقاب کیا گیا ہے ۔
مصنف : طارق اسماعیل ساگر 
تشکیل ای بک : این اے فخری 
بشکریہ : طارق اسماعیل

پیش لفظ

’’بلیک واٹر‘‘ نے عراق کے بعد پاکستان کا رخ کیا تو پاکستان کے آزاد اور بیدار معزز صحافیوں نے حکومت کی پراسرار خاموشی کو توڑتے ہوئے نعرہ حق بلند کیا اور بلیک واٹر کی گھناؤنی کارروائیوں سے پاکستانیوں کو آگاہ کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ جن صحافیوں نے یہ نعرہ مستانہ بلند کیا۔ ان میں نمایاں نام طارق اسماعیل ساگر کا ہے جو اپنی جرأت مندی کے لئے پاکستان اور بیرون ملک ایک خصوصی مقام رکھتے ہیں ۔ ان کی خصوصاً ساؤتھ ایشیا کے حوالے سے لکھی تحریروں کو سند سمجھا جاتا ہے۔سائوتھ ایشیاء میں بھارتی بالادستی کے لئے سرگرم بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی RAWاور اُس کے پُشت پناہی کرنے والی ایجنسیوں کے حوالے سے اُن کی تحریروں کو خصوصی توجہ سے پڑھا جاتاہے ۔
فاضل مصنف نے اس انتہائی اہم کتاب میں نہ صرف بلیک واٹر بلکہ سوات، فاٹا اور بلوچستان میں غیر ملکی مداخلت کیوں، کب، کیسے شروع ہوئی؟ اس خطے میں امریکہ، اسرائیل، بھارت کے مفادات اور عزائم کیا ہیں؟ ’’را، موساد، سی آئی اے‘‘ اور دیگر انٹیلی جنس ادارے یہاں کیا کر رہے ہیں؟ ان کے ٹارگٹس کیا ہیں؟ پاکستانی بیورو کریسی میں ان پاکستان دشمن طاقتوں کے لئے سافٹ کارنر رکھنے والوں کے بھیانک عزائم کیا ہیں؟ ’’سی آئی اے‘‘ اور ’’را‘‘ نے قیام پاکستان کے بعد سے آج تک الگ الگ اور مشترکہ پاکستان کے خلاف کون کون سے آپریشن کئے اور اب تک کر رہے ہیں؟ پاکستان کو دولخت کرنے سے موجودہ صورتِ حال تک پہنچانے میں سی آئی اے، را، موساد اور دیگر پاکستان دشمن انٹیلی جنس ایجنسیوں کا کیا کردار رہا ہے؟ مذہبی شدت پسندی کے جذبات کو کیسے، کب، کس نے اور کیوں ہوا دی؟ پاکستان کے انتہائی محب وطن اور اسلام کے شیدائی عوام کو غیر ملکی ایجنسیوں کی معاونت سے بہکانے، بھڑکانے اور حکومت سے ٹکرانے کے بعد اپنا اُلو سیدھا کرنے والے مذہبی راسپوٹین کون ہیں؟ پاکستان کو دہشت گردی کی آگ کا ایندھن بنانے والوں کی اصلیت کیا ہے؟ اور ملکی و غیر ملکی شخصیات، ادارے، ایجنسیاں، میڈیا آخر ’’آئی ایس آئی‘‘ پر ہی کیوں بار بار حملہ آور ہوتے ہیں۔ ممتاز مصنف صحافی بین الاقوامی اور ملکی امور پر اتھارٹی سمجھے جانے والے ’’طارق اسماعیل ساگر‘‘ نے اپنی مایہ ناز تصنیف میں ان سوالات کے جوابات دئیے ہیں جو ساری قوم کی آنکھیں کھول دیں گے۔

پروفیسر ڈاکٹر احمد حسن شاہ
آکسفورڈ یونیورسٹی (برطانیہ)
-------------------------------------------------------------------------

بلیک واٹر سے XE زی تک:

یہ اسلام آباد کی ایک مصروف شاہراہ ہے، جس پر معمول کے مطابق دفتری اوقات کار کے مصروف لمحات میں ٹریفک کی رفتار بہت سست پڑ گئی ہے، جس کی وجہ گاڑیوں کی وہ لمبی قطاریں ہیں جنہیں روزانہ سیکیورٹی کے کئی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ ان حالات میں ویسے ہی ہر ڈرائیور ٹینشن کا شکار ہوتا ہے، ٹریفک کی لمبی لمبی قطاریں الگ مسائل پیدا کرتی ہیں۔ یہی منظر یہاں بھی دکھائی دے رہا ہے۔ ایک نوجوان اپنی کار میں ٹریفک اشارہ کھلنے کا منتظر ہے کہ سگنل گرین ہونے پر آگے بڑھے جبکہ اس کے پیچھے لمبی قطار حد نگاہ تک دکھائی دے رہی ہے۔
لیکن۔۔۔اچانک ایک سیاہ شیشوں والی بڑی گاڑی اس کے پیچھے لگی قطار کو قریباً روندتے ہوئے ٹریفک اصولوں کی دھجیاں بکھیرتے اس کے پیچھے آکر رکتی ہے اور گاڑی کا ڈرائیور مسلسل ہارن بجانے لگتا ہے، نوجوان کیلئے یہ بڑی پریشان کن صورتحال ہے کہ سگنل ابھی تک ریڈ
RED ہے اور یہ شخص اسے چلنے کیلئے کہہ رہا ہے، اسے راستہ چاہیے جس کیلئے نوجوان کو ٹریفک سگنل توڑنا پڑے گا جو اس کو گوارہ نہیں جب نوجوان مسلسل ہارن بجانے پر بھی پیچھے نہیں ہٹتا تو اس گاڑی میں سے ایک امریکی جس نے کالے شیشوں کی عینک چڑھا رکھی ہے ہاتھ میں جدید ترین آٹو میٹک گن لئے نوجوان کے نزدیک آتا ہے اپنی گن سے اس کے دروازے کا شیشہ کھٹکھٹا کر اسے پرے ہٹنے کا دھمکی آمیز اشارہ کرتا ہے۔ نوجوان کا خون گرم ہے، وہ بھی اس بے ہودگی پر غصے میں آکر اپنے ڈیش بورڈ سے پستول نکال کر اسے دکھاتا اور اپنی گود میں رکھ لیتا ہے۔
امریکی سورما فوراً واپس پلٹتا ہے اپنے ساتھیوں کے ساتھ دوبارہ آتا ہے، وہ سب مل کر نوجوان کو زبردستی باہر نکالتے ہیں اور اسے اپنے ساتھ لے جانے پر بضد ہیں لیکن وہاں موجود غیرت مند پولیس آفیسر اور کچھ لوگ اس کا ساتھ دیتے ہیں۔ معاملہ بڑھتا ہے، امریکی اپنی مخصوص زبان میں اسے ڈانٹتے وہاں سے چلے جاتے ہیں۔
یہ خوش قسمت نوجوان چونکہ برسراقتدار پارٹی کے ایک سینٹر کا بھانجا تھا، اس لئے اس کی بچت ہو گئی ورنہ آئے روز ان امریکیوں کے ہاتھوں کسی نہ کسی پاکستانی کے پٹنے کی خبر بھی آتی رہتی ہے اور اب یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں رہی۔
یہ امریکی ’’بلیک واٹر فورس‘‘ کے مادر پدر آزاد کرائے کے سپاہی ہیں جو عراق کے بعد اب پاکستان میں گھس آئے ہیں۔ بلیک واٹر جو اب’’زی (
XE) کہلاتی ہے۔ امریکی فوج کے بدمعاش، بھگوڑے، سزا یافتہ فوجیوں کا ایک مادر پدر آزاد گروہ ہے جسے امریکی حکومت دنیا کے کئی ممالک میں اپنے سفارتکاروں اور دیگر سرگرمیوں میں مصروف شہریوں کی حفاظت کیلئے بظاہر استعمال کرتی ہے اس پرائیویٹ فورس کو سی آئی اے کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔
پرائیویٹ آرمی کے تصور سے قائم امریکی سیکیورٹی ایجنسی بلیک واٹر جس کا نام اب تبدیل کر کے زی رکھ دیا گیا ہے۔ 2007ء میں قائم ہوئی اور اس کا دعویٰ ہے کہ یہ دنیا کی سب سے بڑی ملٹری تربیت گاہ ہے، ان کے پاس ایک لاکھ سے زیادہ سیکیورٹی گارڈز ہیں جن کو یہ پرائیویٹ آرمی کا نام دیتے ہیں۔ اس کمپنی کے مالکان ایرک پرنس اور ایل کلارک ہیں جو اس وقت کے امریکی صدر کے قریبی دوستوں میں شمار ہوتے تھے، وہ مذہب کے لحاظ سے عیسائی ہیں اور دنیا میں کام کرنے والے عیسائی مشینری اداروں کی مالی امداد کرتے رہے ہیں۔ یہ کمپنی نائن الیون سے چند سال قبل قائم ہوئی، اس کے اہم عہدیداروں میں امریکی سی آئی اے کے ایک سابق سربراہ بھی شامل ہیں، اس پرائیویٹ کمپنی میں کام کرنے والے ایک گارڈ کی سالانہ تنخواہ چار لاکھ ڈالر سے زائد ہے جو اس امریکی جرنیل کی تنخواہ کے برابر ہے۔ جس کی 26 سال سروس ہو یعنی اس کے ایک گارڈ کی تنخواہ امریکی ریگولر فوجی کے مقابلے میں چھ گنا زیادہ ہے۔ بلیک واٹر کا ٹریننگ سنٹر امریکہ میں نارتھ کیرولائنا میں ساٹھ ہزار ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے۔ اس ٹریننگ سنٹر میں دیگر سہولیات کے علاوہ ایک مصنوعی دریا بھی بنایا گیا ہے اس کمپنی کے پاس بیس لڑاکا طیارے اور متعدد جنگی ہیلی کاپٹر بھی ہیں۔ اس کا دعویٰ ہے کہ یہ کمپنی سالانہ ساٹھ ہزار فوجیوں کی تربیت کرتی ہے جن میں امریکہ کی مختلف ایجنسیوں اور فورسز سے تعلق رکھنے والوں کے علاوہ اس کے اپنے گارڈز بھی شامل ہیں۔ اس کمپنی کو زیادہ تر گورنمنٹ کنٹریکٹ ملتے ہیں۔ اس کے ریکارڈ کے مطابق اس کی نوے فیصد آمدن گورنمنٹ کنٹریکٹ سے حاصل ہوتی ہے۔ بلیک واٹر لامحدود اختیارات کی حامل کمپنی ہے۔ عراق میں تعینات اس کمپنی کے اہلکاروں پر عراقی قانون نافذ ہی نہیں ، وہ جب اور جہاں چاہیں کسی کو ہلاک کر دیں یا کوئی اور غیر قانونی اقدامات کریں انہیں روکنے والا کوئی نہیں۔ 30 مئی 2007ء کو اس کمپنی کے گارڈ نے ایک شخص کو صرف اس لئے گولی ماری کہ اس کی گاڑی امریکی حکام کے قافلے کے قریب سے گزر رہی تھی۔ 16 دسمبر 2007ء میں اس کمپنی کے گارڈز نے بیس عراقیوں پر گولیاں چلائیں جن میں گیارہ افراد ہلاک ہوئے۔ اس واقعہ کے بعد امریکی حکام نے ایک آرڈر پاس کیا تھا، جس کے تحت بلیک واٹر کے کسی بھی گارڈ پر عراقی قانون لاگو نہیں ہوتا اور وہ صرف امریکی حکام کو جوابدہ ہیں۔ یہ کمپنی عراق، افغانستان، جاپان، آذربائیجان اور دیگر ممالک میں کام کر رہی ہے۔ پاکستانی وزارت داخلہ ماضی میں چاروں صوبوں کو بلیک واٹر کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کی ہدایت کر چکی ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مصنف محمد انیس الرحمن

مصنف محمد انیس الرحمن

محمد انیس الرحمن کا شمار پاکستان  میں موجود ان دانشوروں میں ہوتا ہے جو بین الاقوامی  سازشوں اور مکاریوں جیسےموضوعات پر اتھارٹی سمجھے جاتے ہیں۔ محمد انیس الرحمن ایک اچھے صحافی بھی ہین، ان کا شمار ان اچھے صحافیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے مشاہدے اور مطالعے کی عادت ترک نہ کی ہو- ان کا مشاہدہ اس لیے وسیع  ہے کیونکہ انہوں نے اسلامی دنیا کے علاوہ دنیا کے کئی ممالک کا دورہ کرکے اپنی ریسیرچ پر کام کیا ہے، کئی نامور شخصیات اور دانشوروں سے ملاقاتیں کیں اور بین الاقوامی تعلیمی اور تحقیقی اداروں اور لائبریریوں میں عرق ریزی بھی کی ہے۔
انیس الرحمن  کے اندر مزید اچھی عادت یہ بھی دیکھی گئی ہے کہ حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں وہ غم روزگار سے فرصت پاتے ہی کتابوں اور جرائد کے مطالعہ کو روزمرہ کے معمولات سے خارج نہیں ہونے دیتے- اس کے علاوہ وہ جدید دور کی ایجادات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انٹرنیٹ کو بھی استعمال میں لاتے ہیں اور اپنی دلچسپی کے موضوعات کے بارے میں دنیا بھر کے اخبارات اور جرائد کے تازہ ترین اشوز کو بھی پڑھتے ہیں- یہی تمام خوبیاں انہیں ایک اچھا رائٹر ثابت کررہی ہیں۔
ان کی کتاب پڑھنے کے بعد جب کوئی قاری انہیں ملتا ہے تو اسے یقین نہیں آتا کہ یہ کتابیں اس نوجوان نے لکھی ہیں، کیونکہ وہ دیکھنے میں ایک کھلنڈر ا سا کلین شیو نوجوان نضر آتا ہے مگر اندر سے وہ باریش ہے- محمد انیس الرحمن ایسا پاکستانی نوجوان ہے جس کے اندر کوئی 80 سالہ بزرگ عرب سکالر چھپا بیٹھا ہے۔ عرب اسکالر  کا لفظ صرف اصطلاحا استعمال نہیں کیا بلکہ ان کا شمار اچھی عربی پڑھنے، لکھنے اور بولنے والوں میں ہوتا ہے- ایک ایسے وقت میں جب لوگ اپنے بچوں کو امریکا اور يورپ کے خواب دکھایا کرتے تھے اور انگریزی زبان سکھانے کو اسٹیٹس سمجھا جاتا تھا، محمد انیس الرحمن کے والد محترم محمد امین الرحمن نے انہیں عربی کے چند بول سکھا کر مکہ اور مدینہ  سے متعارف کرادیا- پھر محمد 
انیس الرحمن سے بھی اپنے والد کی اس خواہش کی لاج رکھی- نہ صرف عربی زبان پر عبور حاصل کیا بلکہ عالم عرب سے اپنا رشتہ جوڑدیا-

محمد انیس الرحمن کون ہیں؟

اس کی تفصیل بیان کرنے سے پہلے میں یہ اعتراف کرنے میں عذر محسوس نہیں کرتا کہ نہ صرف اس کی باتوں میں بلا کی تاثیر ہے، اس کا لہجہ فکر اور درد سے بھرا ہوتا ہے اور اس کے قلم سے میں اسلام اور مشن کی خاطر آنسو ٹپکتے دیکھے ہیں۔۔۔۔محمد انیس الرحمن  اپنے والد محمد امین الرحمن کے ادارے "اخبار العرب" کی کوکھ سے جنم لیا۔
اخبار العرب پڑھنے وانے عرب دنیا کے قارئین محمد انیس الرحمن کی تحریریں پڑھ کر یہ سمجھتے  تھے کہ یہ کوئی باریش بزرگ ہوں گے لیکن جب وہ انہیں ملتے تو یہ حیرت میں مبتلا ہوجاتے کہ یہ تواسکو ل اور کالج کا ایک نوجوان ہے، ممکن ہے وہ یہ یقین نہ کرتے  کہ اخبار العرب میں شائع ہونے والی عربی تحریریں اس نوجوان کی ہیں لیکن جب وہ اس سے مختلف موضوعات پر گھنٹوں گفتگو کرتے تو یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے کہ اس نوجوان کے اندر کوئی ساٹھ سالہ بزرگ اسکالر چھپا بیٹھا ہے او ریہ حقیقت بھی تھی، ان کے اندر اپنے والد کی تربیت اور مشن سے لگاؤ کم عمری میں ہی حلول کرگیا تھا-
محمد انیس الرحمن  کا یہ کمال عربوں پر اثر کرگیا، پھر وہ پاکستان کے شہر لاہور میں بیٹھے ہوئے اس نوجوان کو اس وقت عرب دنیا میں لے گئے جب اس کے ابھی گلی محلے میں کرکٹ کھیلنے کے دن تھے- انیس الرحمن نے جیسے ہی عرب سرزمین پر قدم رکھا، اس کی تخلیقی صلاحیت کو مزید جلا ملی۔ انہیں عرب کے ان نامور اداروں اور نامور شخصیات اور اسلامی اسکالروں سے ملنے کا موقع ملا، جہاں جانے کے لیے اور جن سے ملنے کے لیے دیگر دنیا کے کئی علماء اور اسکالر صرف خواب ہی دیکھ سکتے ہیں- محمد انیس الرحمن  نے بھی ان مواقع کی قدر کی، ان کی اس لگن کو دیکھتے ہوئے اور ان کی علمی پیاس بھجانے کے  لئے ان کے لیے دنیا کے راستے کھول دیے گئے، پھر نہ صرف وہ عرب دنیا کے  قریہ قریہ گھومے بلکہ سنٹرل ایشیا سے یورپ اور پھر افریقہ تک کا سفر کیا-
محمد انیس الرحمن کے یہ سفر  صرف سیاحت کی خاطر نہیں تھے بلکہ مشاہدے سے بھرپور ہیں، انہوں نے دنیا کی ان لائبریریوں میں کئی کئی ماہ تک شب و روز عرق ریزی کی، جن کتب خانوں کے باہر لوگ صرف تصویر بنوانا بھی اعزاز سمجھتے ہیں۔ محمد انیس الرحمن کے دنیا غیر کے سفر، علم اور مشاہدے کی تفصیل بڑی طویل ہے مگر یہ ان کا مختصر ذکر کیا گیا ہے۔  (انوار حسین ہاشمی، نوائے وفت لاہور)

صحافی وابستگی:

روزنامہ "نوائے وقت" کے جریدے ہفت روزہ "ندائے ملت" سےوابستہ ہیں۔ بین الاقوامی اور خصوصا عالم اسلام سے متعلق موضوعات، اسلامی تحریکیں، بین الاقوامی سازشیں اور اینٹی اسلامی ورلڈ کی خفیہ تنظیموں کی پس پردہ سرگرمیاں ان کے خاص موضوعات ہیں، محمد انیس 
الرحمن اس سے قبل پاکستان سے شائی ہونے والے بین الاقوامی جریدے" اخبار العرب" کے چار سال تک ایڈیٹر رہ چکے ہیں۔

تعلیم و تحقیقی کام:

ابتدائی تعلیم لاہور میں حاصل کی، پنجاب یونیورسٹی  لاہور سے عربی ادر اور اسلامک اسٹڈیز میں ایم اے کی ڈگریاں حاصل کی، عربی زبان و بیان پر مکمل عبور رکھتے ہیں- نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز اسلام آباد سے عربی زبان میں ڈپلومہ کیا- پاکستان میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد بیرون ملک چلے گئے- جامعہ الامام محمد بن سعود  السلامیہ یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف ہائر ایجوکیشن مدینہ منورہ سے استشراق کے موضوع پر ڈپلومہ حاصل کیا- لائڈن یونیورسٹی ہالینڈ سے بھی انہوں نے استشراق اور ڈچ زبان میں ڈپلومہ حاصل کیا- بعد ازاں انہیں سوربون یونیورسٹی پیرس فرانس جانے کا موقع ملا جہاں سے انہوں نے فرانسیسی زبان اور ڈپارٹمنٹ آف مڈل ایسٹ افیئرز میں تحقیقی کام مکمل کرکے ڈپلومہ حاصل کیا اور آج کل قانون کی ڈگری حاصل کی ہے۔

زبانیں:

عربی اور انگریزی زبانوں پر عبور رکھنے کے علاوہ ڈچ اور فرانسیسی زبانوں پر بھی مہارت رکھتے ہیں-

بیرونی ممالک کے تحقیقی سفر:

محمد انیس الرحمن کو  علمی و تحقیقی کام کے علاوہ صحافتی ذمہ داریوں کیلیے دنیا کے جن حصوں میں جانے کا موقع ملا ان میں خلیج، شرق الاوسط کے ممالک، شمالی افریقہ، جنوبی افریقہ اور يورپی ممالک شامل ہیں-

تصانیف:

٭ درپردہ حقائق – اسلامی دنیا اور مغرب کی فکری کشمکش

٭ مدینہ سے وائٹ ہاؤس تک- مسلمانوں اور مغربی خفیہ ایجنسیوں کی زیر زمین پنجہ آزمائی

٭ بین الاقوامی مافیا

٭ اسلام اور صیہونی نیٹ ورک

٭ تاریخ استشراق

٭  تاریخ آثار مدینہ

٭ ابو انضال اور کارلوس

٭ نیپولین اور اسلام




مصنف کی  ان درج ذیل تحریروں کو پڑھنے کے لیے نیچے کلک کریں۔ 



Friday 3 June 2011

تشہد میں شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنا،اوراسے مسلسل حرکت دینا

تشہد میں شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنا،اوراسے مسلسل حرکت دینا


تشہد میں شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنا،اوراسے مسلسل حرکت دینا
نمازکاپہلاتشہد ہویادوسرا اس میں سنت یہ ہے کہ پورے تشہد میں مسلسل شہادت کی انگلی سے اشارہ کیاجائے اورساتھ ہی ساتھ اسے مسلسل حرکت بھی دیا جائے،یہ دونوں عمل احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں ،دلائل ملاحظہ ہوں:
انگلی سے مسلسل اشا رہ کرنے کی دلیل:
عَن نُمَیْرٍرضی اللہ عنہ قَالَ : رَأَیْتُ رَسُولَ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَاضِعًا یَدَہُ الْیُمْنَی عَلَی فَخِذِہِ الْیُمْنَی فِی الصَّلاَةِ ، وَیُشِیرُ بِأُصْبُعِہِ. 
صحابی رسول نمیررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:''میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازمیں اپنے داہنے ہاتھ کواپنی دا ہنی ران پررکھے ہوئے تھے اورانگلی سے اشارہ کررہے تھے۔(نسائی:ـکتاب السھو:باب الاشارة فی التشھد،رقم1271،و ابن ماجہ :ـکتاب اقامة الصلاة والسنة فیھا،رقم 911 والحدیث صحیح)۔

اس حدیث میں ''یشیر''(یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اشارہ کرہے تھے)فعل مضارع استعمال ہواہے جوہمیشگی اورتسلسل کامعنی دیتاہے،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اشارہ کایہ عمل پور ے تشہد میں کرتے تھے۔
اورصحیح ابن خزیمہ کی ایک حدیث میں یہ الفاظ ہیں :''ثم حلق وجعل یشیر بالسباحة یدعو'' یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشہد میں بیٹھنے کے بعدشہادت کی انگلی سے اشارہ کرنے لگے،(صحیح ابن خزیمة :ج 1ص353حدیث نمبر713)۔
اس حدیث میں ''یشیر'' فعل مضارع پر''جعل'' داخل ہے اوریہ کسی عمل کوشروع سے مسلسل کرنے پردلالت کرتاہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشہد میں بیٹھنے کے بعد اس عمل کوشروع سے لیکرتشہد کے اختتام تک مسلسل کرتے رہے۔
نیزابن خزیمہ کی اسی حدیث میں آگے ''یدعو''ہے،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم شہادت کی انگلی کے ذریعہ دعاکرنے لگے اورتشہد، پوراکا پورا دعاؤں پرمشتمل ہے، چنانچہ پہلے ''التحیات ''کی دعاء پھر''درود'' کی دعاء پھردیگر دعائیں ہیں ،اور اوپرکی حدیث سے معلوم ہواکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعائیں شہادت کی انگلی کے اشارہ کے ساتھ ساتھ پڑھتے تھے،لہٰذا ثابت ہواکہ جس طرح پورے تشہد میں دعائیں پڑھی جاتی ہیں ایسے ہی پورے تشہد میں اشارہ بھی کیاجائے گا،کیونکہ یہ عمل (اشارہ) دعاؤں سے جڑا ہوا ہے،لہٰذاجب پورے تشہد میں دعاء ہے توپورے تشہد میں یہ عمل (اشارہ کرنا)بھی ہے۔

تشہدمیں انگلی سے مسلسل اشارہ کاثبوت ملاحظہ کرنے کے بعدمعلوم ہوناچاہے،اس اشارہ کے ساتھ ساتھ اسے مسلسل حرکت دینے کاثبوت بھی احادیث صحیحہ میں موجودہے،ملاحظہ ہو:
انگلی کومسلسل حرکت دینے کی دلیل:
عَنْ وَائِلَ بْنَ حُجْرصٍ قَالَ: قُلْتُ:لأَنْظُرَنَّ ا ِلَی صَلاَةِ رَسُولِ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم کَیْفَ یُصَلِّی ؟ فَنَظَرْتُ ِلَیْہِ فَوَصَفَ ، قَالَ : ثُمَّ قَعَدَ وَافْتَرَشَ رِجْلَہُ الْیُسْرَی ، وَوَضَعَ کَفَّہُ الْیُسْرَی عَلَی فَخِذِہِ وَرُکْبَتِہِ الْیُسْرَی ، وَجَعَلَ حَدَّ مِرْفَقِہِ الأَیْمَنِ عَلَی فَخِذِہِ الْیُمْنَی ، ثُمَّ قَبَضَ اثْنَتَیْنِ مِنْ أَصَابِعِہِ ، وَحَلَّقَ حَلْقَةً ، ثُمَّ رَفَعَ أُصْبُعَہُ فَرَأَیْتُہُ یُحَرِّکُہَا یَدْعُو بِہَا،
صحابی رسول وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے کہاکہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازکوضروردیکھوں گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح نمازپڑھتے ہیں ،چنانچہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازکودیکھا،پھرصحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازکاطریقہ بیان فرمایااورکہاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے اوربایاں پاؤں بچھایا،اوربائیں ہتھیلی بائیں ران اورگھٹنے پررکھی اوردائیں ہاتھ کی کہنی دائیں طرف کی ران کے برابرکی ،پھردوانگلی بند کرلی،اورایک حلقہ باندھ لیا،پھرانگلی اٹھائی تومیں میں نے دیکھاآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کوہلاتے تھے اوراس سے دعاء کرتے تھے۔(نسائی :ـکتاب السھو:باب قبض الثنتین من أصابع الیدالیمنی وعقد الوسطی،رقم1268،صحیح ابن خزیمہ ،رقم714، صحیح ابن حبان،رقم1860،المعجم الکبیر:2235واسنادہ صحیح)۔

اس حدیث میں شہادت کی انگلی کے ساتھ دوعمل کاذکرہے،ایک اشارہ کرنے کا،چنانچہ اس کے لئے کہاگیا:'' ثُمَّ رَفَعَ أُصْبُعَہُ''یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت کی انگلی کواٹھایایعنی مسلسل اشارہ کرنے کے لئے جیساکہ آگے کے الفاظ اور اوپرکی احادیث سے اس کی وضاحت ہوتی ہے، اب اشارہ کاعمل ذکرہونے کے بعدآگے ایک اورعمل ذکرہے''فَرَأَیْتُہُ یُحَرِّکُہَا یَدْعُو بِہَا''یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم انگلی سے اشارہ کرنے کے ساتھ ساتھ اسے (مسلسل) حرکت بھی دے رہے تھے،اس حدیث سے ثابت ہواکہ تشہد میں انگلی سے مسلسل اشارہ کرنے کے ساتھ ساتھ،اسے مسلسل حرکت دینابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے۔
واضح رہے کہ اس حدیث میں بھی'' یُحَرِّکُہَا''(یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم حرکت دے رہے تھے)فعل مضارع استعمال ہواہے جوہمیشگی اورتسلسل کامعنی دیتا ہے،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم حرکت دینے کایہ عمل پور ے تشہد میں کرتے تھے۔
اوراسی حدیث میں آگے '' یَدْعُو بِہَا'' ہے،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم شہادت کی انگلی کوحرکت دے دے کر دعاکرنے لگے اورتشہد پوراکاپورادعاؤں پرمشتمل ہے،چنانچہ پہلے ''التحیات ''کی دعاء پھر''درود'' کی دعاء پھردیگر دعائیں ہیں ،لہٰذا ثابت ہواکہ جس طرح پورے تشہد میں دعائیں پڑھی جاتی ہیں ایسے ہی پورے تشہد میں انگلی کوحرکت بھی دیاجائے گا،کیونکہ یہ عمل دعاؤں سے جڑاہوہے،لہٰذاجب پورے تشہد میں دعاء ہے توپورے تشہد میں یہ عمل(انگلی کوحرکت دینا) بھی ہے۔

غلط فہمیوں کاازالہ:
بعض حضرات کویہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ انگلی کوحرکت دینااس حدیث کے خلاف ہے جس میں اشارہ کرنے کی بات ہے۔
عرض ہے کہ حرکت دینااشارہ کرنے کے خلاف ہرگزنہیں ہے،بلکہ یہ اشارہ کے ساتھ ساتھ ایک دوسراعمل ہے،اوریہ دوسراعمل کرنے سے پہلے عمل کوچھوڑنالازم نہیں آتاکیونکہ یہ دونوں عمل ساتھ ساتھ ہورہاہے۔اوردیگرکئی ایسی مثالیں ہیں ،کہ اشارہ وحرکت پرساتھ ساتھ عمل ہوتاہے،مثلاہم روزمرہ کی زندگی میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ جب کوئی شخص کسی دورکھڑے ہوئے دوسرے شخص کوہاتھ کے اشارے سے بلاتاہے ہے تواس کی طرف انگلیاں اٹھاتاہے ہے یہ'' اشارہ'' ہے اورساتھ ہی ساتھ پنجہ کی انگلیوں کوہلاتابھی ہے یہ '' حرکت'' ہے۔
معلوم ہواکہ اشارہ اورحرکت یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد نہیں ہیں ،بلکہ دونوں پربیک وقت عمل ممکن ہے،اوراحادیث میں دونوں کاثبوت ہے لہٰذادونوں پرعمل کریں گے،چنانچہ جولوگ انگلی کوحرکت دیتے ہیں وہ دونوں پرعمل کرتے ہیں ،اشارہ بھی کرتے ہیں اورحرکت بھی دیتے ہیں ،لہٰذایہ کہنادرست نہیں کہ حرکت دینے والے اشارہ پرعمل نہیں کرتے ،کیونکہ بغیراشارہ کئے حرکت دیناممکن ہی نہیں ہے۔پس اہل توحید الحمدللہ دونوں پرعمل کرتے ہیں ،کیونکہ دونوں احادیث سے ثابت ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ مذکورہ حدیث کی روایت کرنے والے امام نسائی رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں ایک مقام پرتشہدمیں انگلی سے اشارہ وحرکت ساتھ ساتھ کرنے کایہ باب قائم کیاہے:''باب موضع البصرعندالاشارة وتحریک السبابة''یعنی انگلی کواشارہ وحرکت دیتے وقت نگاہ کی جگہ کابیان، (سنن نسائی:کتاب السھو:باب39 قبل الرقم 1275)
اورامام احمدرحمہ اللہ کابھی یہی فتوی ہے کہ تشہد میں اشارہ وحرکت دونو ں پرعمل کیاجائے گا چنانچہ امام احمدرحمہ اللہ سے اس سلسلے میں پوچھاگیاتوآپ نے فرمایا ''شدیدا''شدت کے ساتھ اشارہ کیاجائے ،اورشدت کے ساتھ تبھی اشارہ ہوسکتاہے جب اسے حرکت بھی دیاجائے،(ملاحظہ ہو:مسائل ابن ہانی:ص80)۔
امام احمد رحمہ اللہ کایہ فتوی سامنے آجانے کے بعدان لوگوں کواپنی زبان بندکرلینی چاہئے،جویہ دعوی کرتے ہیں کہ چاروں اماموں کی تمام باتیں حق ہیں ،کیونکہ امام احمدرحمہ اللہ کاشماربھی انہیں چاروں میں سے ہوتاہے۔
بعض حضرات ایک روایت پیش کرتے ہیں جس میں ہے ''لایحرکہا'' یعنی آپ حرکت نہیں دیتے تھے(ابوداؤد :رقم989) ۔
عرض ہے کہ اس کی سندمیں ابن عجلان مدلس ہے (طبقات المدلسین :ص149المرتبة الثالثہ) اور روایت عن سے ہے لہٰذا مردود ہے اس کے برخلاف صحیح حدیث میں حرکت دیناثابت ہے جیساکہ اوپرمذکورہے۔
بعض حضرات کہتے ہیں کہ تشہد میں انگلی کومسلسل حرکت دینے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
عرض ہے کہ تشہدمیں انگلی کوحرکت دینے کی دلیل توہم پیش کرچکے ،لیکن مخالفین کاجویہ کہناہے کہ ''أشھدأن لاالہ ''پراٹھاناچاہئے ،اور ''الااللہ'' پرگرالینا چاہئے ، یہ کہاں سے ثابت ہے، کیااس قوم میں کوئی ایک بھی ذمہ دارشخص نہیں ہے جواپنے علماء کوپکڑکوپوچھے کہ ہمارے عمل کی دلیل کس حدیث میں ہے؟ہمارادعوی ہے کہ کہ کسی صحیح تو درکنار کسی ضعیف اورمردود حدیث میں بھی اس کانام ونشان نہیں ہے۔
بعض حضرات تشہد میں حرکت سبابہ کی سنت کامذاق اڑاتے ہیں ۔
عرض ہے کہ ہم نے اس کاسنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوناتوثابت کردیامگرجوحضرات وضوکے بعد،کھلاڑیوں کے آؤٹ ہونے پرکرکٹ کے امپائرو ں کے طرح انگلی اٹھاتے ہیں ،اس کاثبوت کون سی صحیح حدیث میں ہے،ان حضرات کی خدمت میں مؤدبانہ عرض ہے کہ تشہد میں حرکت سبابہ کامذاق اڑاناچھوڑیں پہلے وضو کے بعد اپنی بے موقع ومحل امپائرنگ کاثبوت تلاش کریں ،اوراچھی طرح معلوم کرلیں کہ یہ کس کی سنت ہے....؟
واضح رہے کہ تشہدمیں انگلی ہلانے کی سنت سے چڑنایہ مردوداورلعین شیطان کاکام ہے، عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ اس سنت پرعمل کرتے اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان نقل کرتے ''لَہِیَ أَشَدُّ عَلَی الشَّیْطَانِ مِنَ الْحَدِیدِ یَعْنِی السَّبَّابَةَ''یعنی انگلی کایہ عمل شیطان کے لئے لوہے سے بھی زیادہ سخت ہے،دیکھئے:مسندأحمد:ج2119رقم 6000۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو شیطانی کاموں سے بچائے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سنتوں 
پرعمل کرنے کی توفیق دے ،آمین۔

Wednesday 1 June 2011

بيوى سے حسن معاشرت كيے بغير ہم بسترى كا مطالبہ كرے تو كيا بيوى انكار كر سكتى ہے؟

بيوى سے حسن معاشرت كيے بغير ہم بسترى كا مطالبہ كرے تو كيا بيوى انكار كر سكتى ہے؟

الحمد للہ ميں دينى احكام كا التزام كرتى ہوں اور شادى شدہ ہوں ميرے دو بچے بھى ہيں، اور اسى طرح ميرا خاوند بھى اللہ كے سامنے ميں اپنا تزكيہ نہيں كرتى، ہمارى شادى محبت كى تھى، شادى كے تقريبا دو برس بعد ہم نے دين ك التزام شروع كيا، اب ہم ايك دوسرے سے تعارف كے اسلوب پر نادم ہيں.
ميں اميد ركھتى ہوں كہ آپ پورے شرح صدر كے ساتھ ميرى حالت سنيں گے: ہمارے مابين چھوٹى چھوٹى بہت سارى مشكلات پيدا ہوتى رہتى ہيں، ہر حالت ميں چاہے ميں غلطى پر ہوں يا ميرا خاوند ميں ہى صلح كرنے ميں ابتدا كرتى ہوں.
ميں اپنى ازدواجى زندگى كے خاتمہ سے ڈرتى رہتى ہوں اور مجھے اپنى اولاد كا بھى خطرہ رہتا ہے، ميرا خاوند ہميشہ ميرى بلند آواز كى شكايت كرتا ہے، اور وہ اس معاملہ ميں حق پر ہے، ميں اپنى اصلاح كرنے كى كوشش بھى كرتى ہوں.
اب ہمارے مابين ايك اور مشكل پيدا ہوگئى ہے وہ يہ كہ: ميرے بچے بيمار تھے اور ميں انہيں ڈاكٹر كے پاس لے جانا چاہتى تھى اور خاوند عشاء كى نماز كے ليے گيا ہوا تھا، اس ليے ميں نے جلدى جلدى تيارى كى تا كہ نماز كے بعد خاوند واپس آئے تو جانے ميں دير نہ ہو جائے كيونكہ ڈاكٹر جلد كلينك جلد بند كر ديتا ہے.
خاوند جب نماز ادا كر كے تاخير سے آيا تو ميں تيار ہو چكى تھى جب اس نے ہميں تيار ديكھا تو صرف اس بات پر ناراض ہوا كہ تم نے ميرى اجازت كے بغير ہى تيارى كيوں كى ہے، اور اجازت كے بغير ہى تيارى كيوں كى ہے.
اس ليے اس نے جانے سے انكار كر ديا اور جا كر ويسے ہى دوائى لے آيا، ميں نے بہت منتيں كيں ليكن وہ نہ مانا اور پھر دوبارہ جا كر ايك اور دوائى لے آيا، اس طرح ڈاكٹر كے پاس جانے كا وقت بھى ختم ہو گيا، ميں بہت روئى اور شام كو بچے كا ٹمپريچر چاليس تك پہنچ گيا.
اس سارے واقع ميں وہ يہ ماننے اور اعتراف كرنے پر تيار نہيں كہ اس نے ڈاكٹر كے پاس نہ جانے كا فيصلہ كر كے غلطى كى ہے، اور اب تك مجھ سے ناراض ہے اور مجھے حاكمانہ انداز ميں حكم ديتا ہے،
چار دن سے يہ سلسلہ چل رہا ہے، ليكن اس كے باوجود وہ مجھے حق مجامعت كى ادائيگى كا مطالبہ كرتا ہے.
مجھے علم ہے كہ اگر بيوى خاوند كے مطالبہ پر مجامعت سے انكار كر دے تو اس كے ہاں اس كى سزا بہت شديد ہے، ميں اس سے صرف يہى چاہتى ہوں كہ ميرے ساتھ اچھا معاملہ كرے تا كہ ميں اس كے مطالبہ پورا كرنے پر موافقت كروں ليكن وہ ايسا كرنے سے انكار كرتا ہے.
بلكہ وہ مجھے كہتا ہے كہ: ميں تجھے اپنى انگلى ميں انگوٹھى كى طرح ديكھنا چاہتا ہوں جيسے مرضى گھما لوں، اور وہ مجھ سے چاہتا ہے كہ ميں اس كى اندھى اطاعت كروں اور اس كے ليے وہ احاديث سے استدلال كرتا ہوئے كہتا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا اگر سجدہ كسى كو جائز ہوتا تو ميں بيوى كو حكم ديتا كہ وہ اپنے خاوند كو سجدہ كرے، اس كے علاوہ دوسرى احاديث سے بھى استدلال كرتا ہے.
ميں بھى اس سے چاہتى ہوں كہ وہ ميرے ساتھ بہتر طريقہ سے پيش آئے اور ميرے ساتھ حسن معاشرت كرے، ليكن اس كا جواب يہ ہے كہ:
خاوند كے مجامعت كے مطالبہ ميں كوئى شرط نہيں.
ميں اس كى منت كرتى ہوں كہ ميرے ساتھ اچھا معاملہ كرے ليكن وہ جواب ديتا ہے كہ:
" اب نہ تو ميں تجھے مارتا ہوں، اور نہ ہى تيرى توہين كرتا ہوں، اور ابھى تك تو تم نے كوئى برا معاملہ ديكھا ہى نہيں ہے "
بالفعل ميں اللہ كى لعنت كے ڈر سے مجامعت پر موافق ہو گئى اور اثنائے مجامعت روتى رہى ليكن اس كے باوجود اس پر كوئى اثر تك نہيں ہوا، اور ابھى تك وہ اپنے موقف پر قائم ہے، ميں نے اسے آخرى بار يہ بات كہى كہ:
اگر تم ميرے ساتھ حسن معاشرت سے پيش نہيں آؤ گے تو ميں تيرى مجامعت كى خواہش پورى نہيں كرونگى، ليكن وہ اس سے انكار كرتا اور جو چاہے وہى كريگا.
اب ميں چاہتى ہوں كہ اپنى ساس كے سامنے اپنى شكايت پيش كروں اور وہ جو فيصلہ كرے اسے تسليم كروں، ليكن اس نے اس سے بھى انكار كر ديا ہے، وہ كہتا ہے كہ اگر تم نے ايسا كيا تو تم خاوند كى اطاعت سے خارج ہو جاؤگى، اور اس كى اللہ كے ہاں شديد سزا ملےگى.
جناب والا اللہ كے ليے آپ مجھے بتائيں كہ اس سلسلہ ميں شرعى حكم كيا ہے ؟
ميرے ساتھ وہ اس طرح كا معاملہ كر رہا ہے تو كيا ميں پھر بھى اس كى بات تسليم كر لوں، يا كہ مجھے انكار كرنے كا حق حاصل ہے ؟
اور اگر ميں انكار كر دوں تو كيا اللہ كے ہاں سزا كى مستحق ٹھروں گى ؟
يا پھر مجھے كيا كرنا چاہيے، كيا ميں اس كى والدہ يا اپنى والدہ يا پھر اپنے يا اس كے والد كو شكايت لگاؤں ؟
يہ علم ميں رہے كہ اس نے اس سے انكار كيا ہے، اور اس اسلوب ميں ميں اس كے ساتھ زندگى نہيں گزار سكتى، برائے مہربانى مجھے كچھ بتائيں اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے ؟
الحمد للہ:
اول:
خاوند اور بيوى دونوں كو واجبات اور حقوق كى ادائيگى كى حرص ركھنى چاہيے، اور وہ آپس ميں ايك دوسرے سے حسن معاشرت اختيار كريں، اور فضل واحسان اور نيكى كريں اور آپس كى مشكلات كو محبت و مودت كى فضا ميں افہام و تفہيم سے حل كريں.
تا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كے اس فرمان پر عمل ہو سكے:
{ اور ان ( بيويوں ) كے ساتھ حسن معاشرت اختيار كرو }
النساء ( 19 )
اور اس فرمان پر بھى:
{ اور ان ( عورتوں ) كے بھى ويسے ہى حقوق ہيں جيسے ان پر ہيں اچھے طريقہ كے ساتھ، اور مردوں كو ان عورتوں پر فضيلت حاصل ہے، اور اللہ تعالى عزيز و غالب ہے }
البقرۃ ( 228 )
اور اس ميں درج ذيل امور پر عمل كر كے معاونت حاصل ہو سكتى ہے: اختلافات كے وقت اپنے آپ كو شريعت كے حكم كا تابع بنانے كى عادت بنائى جائے، تا كہ واضح ہو سكے كہ كون غلطى پر ہے اور كون صحيح ہے.
اگر خاوند اور بيوى دونوں ہى اس پر عمل كريں تو اس ميں خير عظيم ہوگى، كيونكہ ازدواجى زندگى ميں يہ اختلافات ضرور ہوتے ہيں يہ زندگى خالى نہيں ہو سكتى اس ليے اگر ہر ايك دوسرے سے اعراض كرے اور يہ انتظار كرے كہ صلح ميں دوسرا پہل كرے تو اس طرح اختلافات اور زيادہ ہو جائينگے، اور اس ميں طوالت پيدا ہو جائيگى، اور شيطان بغض و عداوت ڈالنے كى راہ حاصل كر لےگا.
اس ليے ہمارى تو يہى نصيحت ہے كہ آپ اپنے خاوند كے ساتھ شرعى فيصلہ پر متفق ہو جائيں، اور جس كى بھى غلطى ہو وہ اپنى غلطى كو جلد تسليم كرے چاہے غلطى كوئى بھى ہو اور كتنى بھى بڑى ہو.
دوم:
اگر خاوند اور بيوى ميں سے كوئى ايك اپنے واجب ميں كمى و كوتاہى سے كام ليتا ہے تو اس كے مقابلہ ميں دوسرا بھى ايسے ہى نہ كرے، بلكہ اسے جس طرح حكم ديا گيا ہے اسى طرح حق كى ادائيگى كرنى چاہيے، تا كہ اللہ سبحانہ و تعالى اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت و فرمانبردارى كر سكے.
كيونكہ ايسا كرنے ميں ہى خير و بھلائى ہے اور اس كا انجام بھى اچھا ہے، اس ليے اگر خاوند اپنى بيوى كے ساتھ نان و نفقہ يا لباس وغيرہ كے حقوق ميں كوتاہى سے ليتا ہے، يا پھر اس كے ساتھ معاملات ميں سختى كرتا ہے، يا اس سے بدزبانى يا عملى طور پر اچھا پيش نہيں آتا تو بيوى كے ليے يہ مباح نہيں ہے كہ وہ بھى اس كے جواب ميں خاوند كے مطالبہ پر حق مجامعت كى ادائيگى ميں كوتاہى كرے؛ كيونكہ يہ ايسا معاملہ ہے جس كا شريعت نے حكم ديا ہے، اور اس پر عمل نہ كرنے والى عورت كے ليے بہت شديد وعيد آئى ہے، اور پھر خاوند كا گناہ كرنے سے بيوى كے ليے بھى اسى طرح گناہ كرنے كو جائز نہيں كر ديتا.

امام بخارى اور امام مسلم نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب مرد اپنى بيوى كو اپنے بستر پر ( مجامعت كے ليے ) بلائے اور بيوى انكار كر دے اور خاوند اس پر ناراض ہو كر رات بسر كرے تو صبح ہونے تك فرشتے بيوى پر لعنت كرتے رہتے ہيں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 3237 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1736 )

اس ليے آپ اپنے خاوند كى اطاعت و فرمانبردارى ميں جلدى كريں، اور برے سلوك كا جواب برا سلوك كر كے نہ ديں، بلكہ آپ اس كے مقابلہ ميں اس سے اچھائى سے پيش آئيں جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

{ نيكى اور بدى برابر نہيں ہوتى، برائى كو بھلائى سے دور كرو پھر وہى جس كے اور تمہارے درميان دشمنى ہے ايسا ہو جائيگا جيسے جگرى دوست }
{ اور يہ بات انہيں كو نصيب ہوتى ہے جو صبر كريں اور اسے سوائے بڑے نصيبے والوں كے كوئى نہيں پا سكتا }
حم السجدۃ ( 34 - 35 )

رہا مسئلہ يہ كہ آپ اپنے اس معاملہ كى اپنى ساس يا پھر اپنى والدہ سے شكايت كريں، اصلا اس ميں كوئى حرج والى بات نہيں، كيونكہ ھند بنت عتبہ نے اپنے خاوند ابو سفيان رضى اللہ تعالى عنہ كى شكايت رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كى تھى.
بلكہ كچھ عورتيں تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس اپنے خاوندوں كى سوء معاشرت كى شكايت لے كر گئى تھيں ۔

چنانچہ اسى كا ذكر كرتے ہوئے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" بہت سارى عورتيں آل محمد ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كے گھر آ كر اپنے خاوندوں كى شكايت كرتى ہيں، يہ لوگ تم ميں اچھے نہيں ہيں "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2146 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح قرار ديا ہے.

ليكن جب آپ نے اپنے خاوند كے سامنے يہ تجويز ركھى اور اس نے شدت كے ساتھ ايسا كرنے سے انكار كيا ہے تو اس صورت ميں ہم آپ كو نصيحت كرتے ہيں كہ آپ ايسا مت كريں، كيونكہ اس سے آپ كا خاوند اور زيادہ عناد اختيار كر جائيگا، اور اس كے منفى اثرات مرتب ہونگے.
اس ليے آپ اسے مؤخر كر ديں، اور ايك بار پھر نرم رويہ كے ساتھ افہام و تفہيم اور محبت و مودت كى كوشش كريں اور اگر آپ يہ سمجھتى ہوں كہ وہ يہاں اس ويب سائٹ پر اپنى مشكل پڑھ كر ہمارى نصيحت قبول كرےگا تو پھر آپ اسے ضرور پڑھائيں، اميد ہے اللہ سبحانہ و تعالى آپ كے مابين صلح كرا دے، اور آپ دونوں كو خير و بھلائى پر جمع كر دے.

دوم:

خاوند سے كہا جائيگا كہ: تم اللہ سبحانہ و تعالى كا تقوى اور ڈر اختيار كرو اور اپنے ذمہ حقوق كى ادائيگى كرو، اور تم دھمكياں اور ڈراوے مت دو، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ اور ان عورتوں كے بھى ويسے ہى حقوق ہيں جيسے ان پر ہيں اچھے طريقہ كے ساتھ، اور مردوں كو عورتوں پر فضيلت حاصل ہے، اور اللہ تعالى عزيز و غالب ہے }
البقرۃ ( 228 )

ضحاك رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

" جب عورتيں اللہ سبحانہ و تعالى اور اپنے خاوندوں كى اطاعت و فرمانبردارى كريں تو خاوند كو بھى چاہيے كہ وہ بيوى كے ساتھ حسن معاشرت كرے، اور اسے تكليف و اذيت نہ دے، اور اپنى وسعت و استطاعت كے مطابق بيوى پر خرچ كرے.

اور ابن زيد رحمہ اللہ كہتے ہيں:

خاوند كو چاہيے كہ وہ بيوى كے معاملہ ميں اللہ كا تقوى اختيار كرتے ہوئے اللہ سے ڈرے، اور اسى طرح بيويوں كو بھى اپنے خاوندوں كے معاملہ ميں اللہ كا ڈر اور تقوى اختيار كرنا چاہيے.

اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنھما فرماتے ہيں:

" ميں يہ پسند كرتا ہوں كہ اپنى بيوى كے ليے خوبصورتى اور تزيين اختيار كروں، جس طرح يہ پسند كرتا ہوں كہ وہ بھى ميرے ليے زيبائش اختيار كرے؛
 كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

{ اور ان عورتوں كے ليے بھى ويسے ہى حقوق ہيں جس طرح ان پر ہيں اچھے طريقہ كے ساتھ }.
اور اللہ سبحانہ و تعالى كا يہ فرمان بھى ہے:
{ اور ان عورتوں كے ساتھ حسن معاشرت كرو، اور اگر تم انہيں ناپسند كرو تو ہو سكتا ہے تم كسى چيز كو ناپسند كرو اور اللہ تعالى اس ميں خير كثير پيدا كر دے }
النساء ( 19 )

ابن كثير رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ان عورتوں كو اچھى بات كہو، اور ان كے ساتھ اعمال بھى اچھے كرو، اور حسب استطاعت اپنى شكل و ہيئت بھى اچھى بناؤ، جس طرح تم يہ چاہتے ہو كہ وہ بھى تمہارے ساتھ بہتر سلوك كريں تو تم بھى ويسے ہى كرو كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ اور ان عورتوں كے ليے بھى ايسے ہى حقوق ہيں جيسے ان پر ہيں اچھے طريقہ كے ساتھ }
 البقرۃ ( 228 )

اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تم ميں سب سے بہتر اور اچھا وہ ہے جو اپنے گھر والوں كے ليے اچھا ہے، اور ميں تم سب ميں سے اپنے گھر والوں كے ليے اچھا ہوں "
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اخلاق كريمہ ميں يہ شامل تھا كہ: آپ حسن معاشرت والے تھے، اور ہميشہ خوش رہتے، اور اپنى بيويوں كے ساتھ خوش گپياں كرتے، اور ان كے ساتھ نرم رويہ اختيار كرتے، اور ان پر وسيع خرچ كرتے، اور اپنى بيويوں كو ہنساتے، حتى كہ ام المومنين عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے دوڑ ميں مقابلہ بھى فرمايا كرتے تھے جس سے ان ميں محبت پيدا ہوتى.
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ: ايك بار رسول كريم صلى اللہ عليہ نے ميرے ساتھ دوڑ ميں مقابلہ كيا تو ميں آگے نكل گئى، يہ اس وقت كى بات ہے جب ابھى ميں دبلى پتلى تھى، اور پھر جب ميں موٹاپے كا شكار ہو گئى اور ميرا وزن بڑھ گيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ميرے ساتھ دوڑ لگائى تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم آگے نكل گئے اور فرمانے لگے: يہ ا سكا بدلہ ہے "
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سارى بيوياں اس گھر ميں اكٹھى ہوتيں جس گھر ميں آپ نے رات بسر كرنا ہوتى تھى، اور بعض اوقات تو آپ سب كے ساتھ رات كا كھانا تناول كيا كرتے اور پھر ہر بيوى اپنے گھر چلى جاتى، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنى بيوى كے ساتھ ايك ہى كپڑے ميں سويا كرتے، آپ اپنى اوپر والى چادر اتار ديتے اور صرف تہہ بند ميں آرام فرماتے.
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم جب عشاء كى نماز ادا فرما كر اپنے گھر تشريف لاتے تو سونے سے قبل اپنى بيوى سے بات چيت كيا كرتے، جس سے وہ بيوى ميں انس و محبت پيدا كرتے تھے.

اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ يقينا تمہارے ليے رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم ميں بہترين نمونہ ہے }
الاحزاب ( 21 ). انتھى

ديكھيں: تفسير ابن كثير ( 2 / 242 )

اور پھر آپ ذرا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اس فرمان پر غور تو كريں كہ:
" تم ميں كوئى ايك اٹھ كر اپنى بيوى كو ايسے مارتا ہے جيسے نوكر و غلام كو مارا جاتا ہے، اور پھر ہو سكتا ہے وہ دن كے اخر ميں اسى بيوى كے ساتھ مجامعت بھى كرنا شروع كر دے !! "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4942 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2855 ).

آپ كو علم ہونا چاہيے كہ يہ فطرتى طور پر بھى بہت شنيع و قبيح اور برى بات ہے كہ آپ سے اپنى بيوى سے برا سلوك كريں، اور پھر يہ سوء معاشرت بھى كہلاتى ہے كہ آپ بيوى كو تو اس كا حق نہ ديں، ليكن آپ اس سے اپنے حقوق كا مطالبہ كريں كہ وہ آپ كو عفت مہيا كرے، اور آپ كى حقوق كى ادائيگى كرتى رہے.
حالانكہ حق مجامعت تو بيوى اور خاوند كا مشتركہ حق ہے، جس طرح بيوى پر واجب ہے كہ وہ اپنے خاوند كے حقوق كى ادائيگى كرے اور ان كا خيال ركھے، اسى طرح آپ پر بھى واجب اور ضرورى ہے كہ آپ بھى بيوى كے حقوق كى ادائيگى كا خيال ركھيں، اور اس سلسلہ ميں آپ پر واجب ہے كہ آپ ہر اس چيز اور كام سے اجتناب كريں جس سے وہ نفرت كرتى ہے چاہے وہ فعل ہو يا قول.

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس كے سياق ميں كسى عقل و دانش ركھنے والے شخص سے ان دونوں امور كا وقوع ہونا دور كى بات ہے كہ: وہ اپنى بيوى كو زدكوب كرنے ميں بھى مبالغہ سے كام ليتا ہو، اور پھر باقى دن كے حصہ يا رات ميں ميں بيوى سے مجامعت و مباشرت كرتا پھرے.
حالانكہ مجامعت و مضاجعت اور مباشرت تو اسى وقت اچھى ہوتى ہے جب اس ميں نفس رغبت ركھتا ہو اور ميلان نفس بھى پايا جائے، اور جب كسى كو زدكوب كيا جائے تو وہ زدكوب كرنے والے شخص سے نفرت كرتا ہے.
اس ليے يہاں اس كى مذمت كى طرف اشارہ كيا گيا ہے اور اگر اس كے بغير كوئى چارہ نہ ہو تو پھر ہلكى سى ضرب لگانى چاہيے، وہ اس طرح كہ جس سے مكمل نفرت حاصل نہ ہوتى ہو، اور نہ تو وہ زدكوب كرنے ميں افراط سے كام لے اور نہ ہى ادب سكھانے ميں " انتہى
ديكھيں: فتح البارى ( 9 / 303 )

اور اس سلسلہ ميں آپ كے ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ميں بہترين نمونہ پايا جاتا ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے گھر والوں كے ليے سب لوگوں سے بہتر تھے، حالانكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى بيوى بعض اوقات انہيں ناراض بھى كرتيں اور انہيں چھوڑ بھى ديتيں ليكن پھر بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم صبر كرتے ہوئے انہيں معاف و درگزر فرماتے تھے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" تم ميں سے سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں كے ليے بہتر ہے اور ميں تم ميں سے اپنے گھر والوں كے ليے سب سے بہتر ہوں "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 3895 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1977 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور ايك حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" عورتوں كے ساتھ اچھائى كا معاملہ كيا كرو "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 3331 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1468 ).

عمر رضى اللہ تعالى عنہ فرماتے ہيں كہ:
" ہم قريش والے عورتوں پر غالب رہتے تھے، اور جب ہم مدينہ ميں آئے تو ہم نے ايسے لوگ پائے جن پر ان كى عورتيں حاوى تھيں، تو ہمارى عورتوں نے بھى ان كى عورتوں سے سيكھنا شروع كر ديا.
ميرا گھر عوالى ميں بنو اميہ بن زيد كے علاقے تھا ميں ايك دن اپنى بيوى پر ناراض ہوا تو وہ ميرے آگے بولنے لگى اور جواب دينے لگى تو ميں نے اسے اپنے آگے بولنے سے منع كيا تو وہ كہنے لگى: تم مجھے اپنے سامنے بولنے اور جواب دينے سے روك رہے ہو؛
اللہ كى قسم نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى بيوياں بھى آپ سے بات چيت كرتى اور جواب ديتى ہيں، اور ان ميں سے كوئى ايك تو صبح سے لے كر رات تك نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے بولتى بھى نہيں!!
تو ميں اپنى بيٹى حفصہ كے پاس گيا اور جا كر اسے كہنے لگا:
كيا تم رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے بولتى اور ان كا جواب بھى ديتى ہو ؟
اس نے جواب ديا: جى ہاں!!
ميں نے اس سے كہا: كيا تم ميں سے كوئى ايك صبح سے لے كر رات تك نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے بولنا بھى چھوڑ ديتى ہے !!
جو اس نے جواب ديا: جى ہاں!!
ميں نے كہا: تم ميں سے جس نے بھى ايسا كيا وہ ذليل و رسوا ہوئى اور خسارہ اٹھايا؛ كيا تمہيں اس بات كا ڈر نہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اس پر ناراض ہونے كى وجہ سے اللہ ناراض ہو جائے، اور وہ تباہ و برباد ہو جائے؟!
تم نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سامنے مت بولا كرو اور ان سے كچھ بھى طلب مت كرو، تمہيں جو ضرورت ہو مجھ سے مانگا كرو "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2468 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1479 ) يہ الفاظ مسلم كے ہيں.

اس ليے آدمى كو اپنى بيوى بچوں كے ساتھ آسانى برتنے اور نرمى كرنے والا ہونا چاہيے، اور بيوى كے ليے اپنى رائے كا اظہار كرنے ميں كوئى حرج محسوس نہيں كرنا چاہيے، يا كہ كہ وہ كسى ايسى چيز كى طرف سبقت لے جائے جس ميں كوئى گناہ نہ ہو تو اس ميں حرج محسوس نہ كرے بلكہ وہ خوش ہو كہ اس كى بيوى نے كيا ہے.
كيونكہ عورتيں تو مردوں كى طرح ہى ہيں اور كتنى ہى عورتيں ہيں جن كى رائے صحيح اور سليم ہوتى ہے، اور ان كا موقف بھى صحيح ہوتا ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ ہميں اور آپ كو سيدھى راہ كى توفيق نصيب فرمائے.
واللہ اعلم .