Saturday 16 July 2011

ماہر القادری رح کا دین خانقاہی پر تبصرہ


ماہر القادری رح کا دین خانقاہی پر تبصرہ


ہر طرف خیمے لگے ہیں دور تک بازار ہے
یہ نمائش ہے کوئی میلہ ہے یا تہوار ہے


کوئی بارات اس جگہ اتری ہے باصد کر و فر
میں یہ سمجھا شامیانوں کی قطاریں دیکھ کر


یہ نفیری کی صدائيں یا کٹوروں کی کھنک
یہ دھویں کے پیچ یہ پھولوں کے گجروں کی مہک


نیم وا برقعے نگاہوں پر فسوں کرتے ہوئے
شوق نظارا کو ہر لخط فووں کرتے ہوئے


ہے یہ تقریب عقدت عرس ہے اک پیر کا
کام کرتی ہے یہان کی خاک بھی اکثیر کا

اک طوائف گارہی ہے سامنے درگاہ کے
کیا مزے ہیں خوب حضرت سہاگن شاہ کے


ساز پر کچھ چھوکرے قوالیاں گاتے ہوئے
گٹکری لیتے ہوئے ہاتھوں کو پچکاتے ہوئے


رقص فرمانے لگے کجھ صاحبان وجد و حال
یہ کرامت شیخ کی ہے یا ہے نغمے کا کمال


عورتوں کی بھیڑ میں نظارہ ٹھوکر کھائے ہے
اس ہجوم رنگ و بو میں کب خدا یاد آئے ہے


مقبرے کی جالیوں میں عرضیان لٹکی ہوئيں
یہ وہ منزل ہے جہاں نیکیاں بھٹکی ہوئيں


ان میں لکھا ہے ہماری جھولیاں بھردے
درد دل سن لیجیے مشکل کشائی کیجیے


پھول ہٹتے ہیں کہیں اور دیگ لٹتی ہے کہیں
دل مچلتا ہے کہیں اور سانس گھٹتی ہے کہیں

یہ چراغوں کی قطاریں جگ مگاتے بام و در
جس طرف بھی دیکھنے سامان تفریح نظر


چادریں چڑھتی ہوئيں ڈھولک بھی ہے بجتی ہوئی
یہ مجاور ہیں جو پوجا کررہے ہیں قبر کی


کوئی سجدے میں جھکا ہے کوئی مصروف طواف
تھام رکھا ہے کسی نے دونوں ہاتھوں سے غلاف


رو رہا ہے کوئی چوکھٹ ہی پہ سر رکھے ہوئے
ہیں کسی کے ہاتھ بہر التجا اٹھتے ہوئے


دیکھتا ہی رہ تماشائی زباں سے کجھ نہ بول
چادروں کی دھجیاں بکتی ہیں یاں سونے کے مول


ھن برستا ہے یہان چاندی اگلتی ہے زمین
آخرت کی یاد اس جا پاؤں رکھ سکتی نہیں


زائروں کے خود مجاور ہی جھکادیتے ہیں سر
مو رکے پنکھوں کے سائے میں کلاوے باندھ کر


ہے یہی تعلیم تعلیم نبی ۖ فرمان قرآن کی
ہر ایک بدعت ضلالت شرک ہے ظلم عظیم


مدعی توحید کے اور شرک سے یہ ساز باز
ایک طرف قبروں پہ سجدے دوسری جانب جائے نماز


تابکے یہ کھیل دنیا کو دکھایا جائے گا
مضحکہ توحید کا کب تک اڑایا جائے گا
------------------------------------------------------------------------------------
اقتباس: اہل حرم کے سومنات
تالیف: زاہد حسین مرزا

0 تبصرہ جات:

تبصرہ کیجئے