Saturday 2 July 2011

رفع بلاء اور دفع مصائب کے لیے چھلے پہننا اور دھاگے وغیرہ باندھنا شرک ہے۔

رفع بلاء اور دفع مصائب کے لیے چھلے پہننا اور دھاگے وغیرہ باندھنا شرک ہے۔
اللہ تعالی کا ارشادہے:
(قُلْ أَفَرَأَيْتُمْ مَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ أَرَادَنِيَ اللَّهُ بِضُرٍّ هَلْ هُنَّ كَاشِفَاتُ ضُرِّهِ أَوْ أَرَادَنِي بِرَحْمَةٍ هَلْ هُنَّ مُمْسِكَاتُ رَحْمَتِهِ قُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكِّلُونَ (سورة الزمر39: 38))
“(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم)آپ ان سے کہہ دیجئے:تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر اللہ تعالی مجھے کوئی ضرر پہنچانا چاہے تو اللہ کے علاوہ تم جن کو پکارتے ہو کیا وہ اس ضرر کو ہٹا سکتے ہیں؟ یا اللہ مجھ پر مہربانی کرنا چاہے تو کیا یہ اسکی رحمت کو روک سکتے ہیں؟آپ کہہ دیجیے: مجھے تو اللہ ہی کافی ہے۔ بھروسہ کرنے والے اسی پر بھروسہ کرتے ہیں۔”(2)

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
(أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " رَأَى رَجُلًا فِي يَدِهِ حَلْقَةٌ مِنْ صُفْرٍ فَقَالَ: مَا هَذِهِ؟ قَالَ: مِنَ الْوَاهِنَةِ. فَقَالَ: انْزِعْهَا فَإِنَّهَا لَا تَزِيدُكَ إِلَّا وَهْنًا, فَإِنَّكَ لَوْ مُتَّ وَهِيَ عَلَيْكَ، مَا أَفْلَحْتَ أَبَداً)(مسند احمد :4 / 445 و سنن ابن ماجہ، الطب، باب تعلق التمائم ، ح:3531)
“نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کے ہاتھ میں پیتل کا چھلا دیکھا تو پوچھا: “یہ کیا ہے؟” اس نے کہا یہ واھنہ(ایک مرض) کی وجہ سے پہنا ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا: “اسے اتاردو۔(اس لیے کہ یہ تمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا) تمہاری بیماری میں مزید اضافہ ہی کرےگا۔ اگر تمہیں یہ چھلا پہنے ہوئے موت آگئی تو کبھی نجات نہ پاسکو گے۔”(3)

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(مَنْ تَعَلَّقَ تَمِيْمَةً فَلَا أَتَمَّ الله ُلَهُ، وَمَنْ تَعَلَّقَ وَدَعَةً فَلَا وَدَعَ الله ُلَهُ)(مسند احمد :4 / 153)
“جس نے (بیماری سے تحفظ کے لیے)کوئی تمیمہ(تعویذ، منکاوغیرہ)لٹکایا، اللہ تعالی اس کی مراد پوری نہ کرے۔ اور جس نے سیپ باندھی اللہ تعالی اسے بھی آرام اور سکون نہ دے۔”(4)
ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:
(مَنْ تَعَلَّقَ تَمِيْمَةً فَقَدْ أَشْرَكَ)(مسند احمد :4 / 156)
“جس نے (بیماری سے تحفظ کی نیت سے)تمیمہ(تعویذ، منکا وغیرہ)لٹکایا اس نے شرک کیا۔”
ابن ابی حاتم نے حذیفہ رضی اللہ عنہ کے متعلق بیان کیا ہے:
(أَنَّهُ رَأى رَجُلاً فِي يَدِهِ خَيْطٌ مِّنَ الْحُمَّى فَقَطَعَهُ)“نہوں نے ایک شخض کے ہاتھ میں بخار سے تحفظ کے لیے دھاگا بندھا ہوا دیکھا تو انہوں نے اسے کاٹ ڈالا اور یہ آیت تلاوت فرمائی:
(وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ (سورة يوسف12: 106))
“اور ان میں سے اکثرلوگ اللہ تعالی پر ایمان لانے کے باوجود مشرک ہیں۔”(5)
(تفسیر ابن ابی حاتم:7 / 12040)

مسائل
1)(بیماری سے تحفظ کی نیت سے )چھلا پہننا اوردھاگہ وغیرہ باندھنا سخت منع ہے۔
2) اگر صحابی بھی اس نیت سے کوئی چیز پہنے، باندھے یا لٹکائے اور اسی حال میں مرجائے تو وہ بھی کبھی فلاح نہیں پا سکتا۔ حدیث میں صحابہ کی اس ٹھوس بات کے لیے شاہد بھی موجود ہے کہ شرک اصغر ، کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔
3) جہالت کے سبب بھی ان اعمال کے مرتکب کو معذور نہیں سمجھا جائے گا۔
4) یہ چیزیں دنیا میں بھی مفید نہیں بلکہ مضر ہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “یہ تیری بیماری کو مزید بڑھائے گا”
5) ایسی چیزیں استعمال کرنے والے کو سختی سے روکنا چاہئے۔
6) جو شخص، کوئی چیز باندھے یا لٹکائے تو اسے اسی کے سپرد کردیا جاتا ہے۔
7) تمیمہ (تعویذ ، منکا وغیرہ)لٹکانا بھی شرک ہے۔
8) بخار کی وجہ سے دھاگہ وغیرہ باندھنا بھی شرک ہے۔
9) حذیفہ رضی اللہ عنہ کا اس موقع پر سورۂ یوسف کی آیت تلاوت کرنایہ دلیل ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شرک اکبر کی آیات کو شرک اصغر کی تردید میں پیش کیا کرتے تھے جیسا کہ سورۂ بقرہ کی آیت کی تفسیر میں ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ذکر کیا ہے۔
10) نظربد سے بچاؤکے لیے سیپ باندھنا بھی شرک ہے۔
11) (بیماریوں سے تحفظ کے لیے)تمیمہ (تعویذ، منکا وغیرہ)لٹکانے والے اور سیپ وغیرہ باندھنے والے کے لیے بد دعا کی جاسکتی ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “اللہ تعالی اس کی مراد پوری نہ کرے اور اسے آرام نہ دے۔”
نوٹ:-
(1) شرک کی توضیح کرتے ہوئے یہاں سے توحید کا بیان شروع ہو رہا ہے۔ اور یہ بات طے شدہ ہے کہ کسی چیز کی معرفت اور پہچان دو طرح سے حاصل ہوتی ہے۔اپنی حقیقت کی معرفت اور اس کی ضد کی معرفت۔
یہاں سے امام(محمد بن عبد الوہاب)اپنی گفتگو کا آغاز، توحید کے متضاد یعنی شرک اکبر کے بیان سے کر رہے ہیں۔ کیونکہ شرک اکبر کے ارتکاب سے توحید مکمل طور پر ختم ہو کر رہ جاتی ہے اور اس کا مرتکب ملت اسلامیہ سے یکسر خارج ہو جاتا ہے۔ شرک کی بعض اقسام ایسی ہیں جو توحید کے اعلی درجہ کے منافی ہیں اور وہ اقسام شرک اصغر سے ہیں۔ ان کے ارتکاب سے توحید کے اعلی درجہ میں کمی آجاتی ہے۔ اس لیے توحید کا اعلی ترین درجہ تویہ ہے کہ انسان شرک کی جملہ انواع و اقسام سے بچ کر رہے۔
شیخ(محمد بن عبد الوہاب رحمتہ اللہ علیہ)نے شرک کی تفصیل بیان کرتے ہوئے ابتدا میں شرک اصغر کی بعض ایسی منتقل ہونے کے اصول پر عمل کرتے ہوئے اولا شرک اصغر کا اور بعد ازاں شرک اکبر کا ذکر کیا ہے۔
اس باب کے عنوان سے واضح ہوا کہ چھلے پہننے اور دھاگے باندھنے کے علاوہ منکے، تعویذات، لوہا، چاندی وغیرہ اور دیگر مختلف اشیاء جو گلے میں باندھی یا لٹکائی جاتی ہیں یا گھروں میں، گاڑیوں پر چھوٹے بچوں کے گلے میں کسی مخصوص مقصد، نظریہ یا عقیدہ کے تحت پہنی ، باندھی یا لٹکائی جاتی ہیں، یہ سب شرک ہے۔
چھلے اور دھاگے اور اسی طرح تعویذات وغیرہ کی بابت عربوں کا عقیدہ تھا کہ یہ اشیاء آئی ہوئی مصیبت کو رفع کردیتی یا آنے والی مصیبت کو روک دیتی ہیں۔ ایسی حقیر اشیاء کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا کہ یہ چیزیں اللہ تعالی کی تقدیر کو روک سکتی ہیں، یہ شرک اصغر کیسے ہو سکتا ہے؟ (بلکہ یہ تو شرک اکبر ہے۔)کیونکہ ایسا کرنے والے کے دل میں ان اشیاء کی محبت موجود ہوتی ہے اور وہ ان اشیاء کی مصائب روکنے اور ان سے بچانے کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ یہی شرک ہے۔ اصل اصول یہ ہے کہ صرف انہی اشیاء اور اسباب کی تاثیر کا عقیدہ رکھنا جائز ہے جن کی شریعت نے اجازت دی ہے یا تجربہ سے ثابت ہو کہ یہ اسباب واقعی ظاہری طور پر مؤثر ہیں۔ مثلا طبیب کا دوا دینا، یا جیسے وہ اسباب ، جن سے نفع حاصل ہوتا ہے جیسے آگ سے حرارت اور پانی سے ٹھنڈک کا حاصل ہونا وغیرہ۔ یہ ایسے اسباب ہیں جن کی تاثیر ظاہر اور واضح ہے۔
شرک اصغر کی جملہ اقسام بعض اوقات نیتوں کی بنیاد پر شرک اکبر بن جاتی ہیں۔ مثلا کوئی شخص چھلے اور دھاگے وغیرہ کو سبب سمجھنے کی بجائے یہ عقیدہ رکھے کہ یہ بذات خود مؤثر ہے تو اس کا یہ عمل شرک اکبر ہوگا کیونکہ اس نے یہ عقیدہ رکھا کہ اس کا ئنات میں اللہ تعالی کے علاوہ بھی کوئی چیز تصرف کرنے کی قدرت رکھتی ہے۔ گویا اس مسئلے کا اصل تعلق دل کے ساتھ ہے۔
(2) اس آیت میں اللہ تعالی نے اپنے نبی سے فرمایا کہ آپ ان لوگوں سے کہہ دیجئے کہ کیا اس بات کا اقرار کرلینے کے باوجود کہ صرف اللہ تعالی ہی آسمانوں اور زمینوں کا خالق ہے، تم اس کے ساتھ ساتھ غیر اللہ کی بھی عبادت کرتے ہو؟ قرآن مجید کا یہی انداز ہے کہ مشرکین جس توحید ربوبیت کا اقرار کرتےہیں ، وہ ان کے اسی اقرار کو ان کے خلاف پیش کرکے اس توحید الوہیت کا اثبات کرتا ہے جس سے وہ انکار کرتے ہیں۔
“تَدْعُوْنَ”تم پکارتے ہو۔ یہ پکارنا بطور سوال اور طلب ہو یا محض بطور عبادت ۔ مشرکین میں غیر اللہ کو پکارنے کی یہ دونوں صورتیں پائی جاتی ہیں۔ اور اللہ کے علاوہ جنہیں پکارا جاتا ہے ان کی کئی قسمیں ہیں مثلا بعض مشرک تو مصیبت، دکھ یا پریشانی کے موقع پر انبیاء ، رسل اور صالحین کو پکارتے ہیں، بعض اللہ تعالی کے فرشتوں کو پکار کے لائق سمجھتے ہیں اور بعض ستاروں کی طرف، بعض اشجار و احجار کی طرف اور بعض بتوں اور مٹی کی ڈھیریوں کی طرف لپکتے اور جھکتے ہیں۔ یہ سب شرک کی صورتیں ہیں۔ پیش نظر آیت میں اللہ تعالی نے ثابت کیا ہے کہ یہ تمام معبودان باطلہ کسی کو نفع یا نقصان پہنچانے پر قادر نہیں۔ اب ان اشیاء اور شخصیات کے متعلق مشرکین کا یہ عقیدہ، کہ اللہ تعالی کے ہاں ان کے بلند مراتب ہیں جن کی وجہ سے یہ اس کے ہاں سفارش کرسکیں گے، باطل اور بے بنیاد ہوا۔ قرآن مجید میں جو آیات شرک اکبر کی تردید میں آئی ہیں، اہل علم انہی آیات کو شرک اصغر کے ابطال اور تردید میں بھی پیش کرتے ہیں کیونکہ دونوں قسم کے شرک(اکبر اور اصغر)میں انسان اللہ تعالی کو چھوڑ کر غیراللہ کے ساتھ اپنا تعلق جولیتا ہے۔ لہذا جب بڑی صورت (شرک اکبر)میں غیر اللہ کے ساتھ تعلق جوڑنا باطل اور بے حقیقت ہے تو چھوٹی صورت(شرک اصغر)میں تو بالاولی باطل ہوا۔
نیز اس آیت میں یہ بیان ہے کہ اللہ تعالی کے علاوہ کسی کو یہ قدرت حاصل نہیں کہ وہ کسی کو کچھ ضرر یا نقصان پہنچا سکے۔ اسی طرح یہ بھی کہ جب اللہ تعالی کسی کو کوئی ضرر پہنچائے تو اس کے حکم کے بغیر کوئی بھی شخص یا چیز اس ضرر کو ہٹانے پر قادر نہیں۔ اللہ تعالی کے علاوہ، کسی کو نفع دینے یا ضرر پہنچانےکے لائق سمجھنے کا یہی وہ مفہوم ہے جس کے پیش نظر مشرک لوگ چھلے پہنتے یا دھاگے باندھتے ہیں، اسی لیے ان کاموں کو شرک کہا گیا ہے۔
(3) آپ کا “مَاهذِه”کہہ کر اس چھلے کے متعلق دریافت کرنے کا یہ انداز اس کے اس عمل پر شدید ناراضی، ناپسندیدگی، اور انکار کے لیے تھا۔
واھنہ: ایک بیماری ہے جو جسم کو کمزور کر ڈالتی ہے۔
(امام ابن الاثیر الجزری فرماتے ہیں کہ “واھنہ” ایک ایسی بیماری ہے جس سے کندھے یا پورے بازوکی رگ پھول جاتی ہے۔ اس تکلیف سے نجات کے لیے دم بھی کرتے ہیں۔ بعض اہل علم کا قول ہے کہ کہنی اور کندھے کے درمیانی حصہ میں بعض اوقات تکلیف ہوجایا کرتی ہے۔ یہ تکلیف مردوں کو ہوتی ہے۔ عورتوں کو نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو وہ چھلا پہننے سے اس لیے منع فرمایا تھا کہ اس نے اس خیال سے پہنا تھا کہ وہ اسے مرض سے محفوظ رکھے گا۔ حالانکہ چھلے کا بیماری سے نجات سے کوئی واسطہ یا تعلق نہیں۔ مترجم)
“انْزِعْهَا”اسے اتار دو۔ یہ حکم تھا اور جس شخص کوکوئی حکم دیا جائے، اگر انسان جانتا ہو کہ وہ حکم اطاعت سے انکار نہیں کرے گا تو اسے ہاتھ سے منع کرنے کی بحائے زبان سے کہہ دینا ہی کافی ہوتا ہے۔
“فَإِنَّهَا لَا تَزِيدُكَ إِلَّا وَهْنًا”یہ تمہاری بیماری میں مزید اضافہ ہی کرے گا”۔
یعنی اگر تمہارے عقیدہ کے مطابق اس کی کوئی تاثیر ہے تو یہ نہ صرف تمہارے جسم کو نقصان پہنچائے گا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ تمہاری روح اور نفس کو بھی نقصان پہنچائے گا اور وہ یہ کہ تمہاری روح اور نفس کمزور ہوجائیں گے۔
مشرک کی عقل کام نہیں کرتی۔ وہ چھوٹے نقصان سے بچنے کی خاطر کوئی ایسا کام کر بیٹھتا ہے جو پہلے سے بھی بڑے نقصان پر منتج ہوتا ہے۔ مگروہ عقل کی کمی کی وجہ سے نقصان کو نفع پر محمول کرتا رہتا ہے۔
“ فَإِنَّكَ لَوْ مُتَّ وَهِيَ عَلَيْكَ، مَا أَفْلَحْتَ أَبَداً” “اگر تمہیں یہ چھلا پہنے ہوئے موت آگئی تو کبھی نجات نہ پاسکو گے”۔
اس نفی میں دو معنوں کا احتمال ہے۔ ایک تو یہ کہ ایسا کرنے والے کو شرک اکبر کا ارتکاب کرنے والے کی مانند کبھی جنت میں داخلہ اور جہنم سے نجات نہ مل سکے گی کیونکہ اس نے یہ عقیدہ رکھا کہ یہ چھلا بذات خود نفع بخش اور مفید ہے اور دوسرا معنی ہے کہ ایسا کرنے والے کو مکمل نجات نہ مل سکے گی کیونکہ اللہ تعالی نے شرعی یا قدرتی طور پر جس چیز کو شفا کا سبب قرار نہیں دیا اس نے اسی کو شفا دہندہ سمجھ لیا۔ اس لیے اس مفہوم کے لحاظ سے اس کا شرک ، شرک اصغر ہوگا۔
(مَنْ تَعَلَّقَ تَمِيْمَةً فَلَا أَتَمَّ الله ُلَهُ)جس نے تمیمہ لٹکایا اللہ تعالی اس کی مراد پوری نہ کرے” “تَعَلَّقَ”کا معنی جہاں لٹکانے کا ہے وہاں اس کا معنی دلی لگاؤ اور قلبی میلان کا بھی ہے۔ گویا کوئی چیز(بیماری سے تحفظ کے لیے)لٹکانے والے کا دلی لگاؤ اور قلبی میلان اس کی طرف ہوتا ہے۔
“تَمِيْمَةً”.....نظربد سے تحفظ، نقصان سے بچاؤ اور کسی کے حسد سے حفاظت کی خاطر، منکے یا کوئی دوسری چیز جو گلے میں پہنی اور سینے پر لٹکائی جائے اسے “تَمِيْمَةً”کہا جاتا ہے۔ ایسا کرنے والے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بددعا فرمائی ہے کہ اللہ تعالی اس کی مراد پوری نہ کرے۔ “تَمِيْمَةً”کو تمیمہ کہنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ اس کے بارے میں انسان کا یہ اعتقاد ہوتا ہے کہ میرا کام یہی (منکے وغیرہ)مکمل اور تمام کریں گے۔ تو آپ نے اسی بد اعتقادی کی بنا پر بد دعا فرمائی کہ اللہ تعالی اس کا کام مکمل اور پورا ہی نہ کرے۔
“ وَمَنْ تَعَلَّقَ وَدَعَةً فَلَا وَدَعَ الله ُلَهُ” (اور جس نے سیپ (گلے میں) لٹکائی اللہ تعالی اسے آرام اور سکون نہ دے)
“وَدَعَةً”سیپیوں یا منکوں کی ایک قسم ہے جسے لوگ (گلے میں پہن کر)سینے پر کھتے ہیں یا پھر نظربد سے بچنے کے لیے بازو پر باندھتے ہیں۔ ایسا کرنے والے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بد دعا فرمائی کہ اللہ تعالی ایسے شخص کو آرام و سکون اور راحت میں نہ رہنے دے۔ کیونکہ اس نے اللہ عزوجل کے ساتھ شرک کیا۔
(4) “مِّنَ الْحُمَّى”میں لفظ “مِّنَ”تعلیل کا ہے ۔ یعنی اس نے وہ دھاگہ بخار کو دور کرنے اور اس سے بچنے کے لیے باندھا تھا۔ “فَقَطَعَهُ” “تو انہوں نے اسے کاٹ ڈالا”اس سے ثابت ہوا کہ کسی بیماری سے تحفظ اور شفا کے لیے دھاگہ وغیرہ باندھنا ایسا کبیرہ گناہ ہے جس پر ناپسندیدگی کا اظہار کرنا واجب اور اسے کاٹ ڈالنا ضروری ہے۔
نیز ثابت ہوا کہ جہنم سے نجات کے لیے صرف توحید ربوبیت پر ایمان رکھنا کہ ہمارا پروردگار، رازق، اور ہماری زندگی اور موت کا مالک اللہ ہے۔ یہی بات کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ توحید فی العبادت بھی نجات کے لیے شرط ہے۔ اس آیت میں شرک سے مراد شرک اکبر ہے۔ مصنف (امام محمد بن عبد الوہاب رحمتہ اللہ علیہ )یہی بتانا چاہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شرک اکبر کے بارے میں نازل شدہ آیات سے شرک اصغر بھی مراد لیا کرتے تھے۔
لنک

0 تبصرہ جات:

تبصرہ کیجئے