Saturday 16 July 2011


امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی عظمت


مغربی الحاد:

اس وقت برصغیر میں ہر طرف مغربی الحاد کا رونا رویا جارہا ہے اور اس سیلاب میں اسلام کے بہ جانے کا خطرہ محسوس کیا جارہا ہے، لیکن کیا واقعی اسلام کو آج بھی مغربی خیالات سے وکئی خطرہ لاحق ہے؟ میرے خیال میں باکل نہیں- اسلام کو آج تک بیرونی قوتوں سے، خواہ وہ مادی ہوں یا ذھنی، نقصان نہیں پہنچا اور نہ آئندہ پہنچ سکتاہے کیونکہ وہ دین فطرت ہے اور اس کی بنیادیں حق کی ٹھوس چٹان پر قائم ہیں- البتہ جو کچھ نقصان پہنچ چکا ہے اور جس کا آغندہ اندیشہ ہے، وہ اندرونی فساد ہے نہ کہ بیرونی حملہ- تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان ہمیشہ خود ہی اسلام کے دشمن بنے اور اپنےہی ہاتھوں اس کی عمارت ڈھاتے رہے ہیں- خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بدنصیبی کی پیشین گوئی کردی تھی جو امام مسلم اور اصحاب سنن نے روایت کی ہے- آپ نے فرمایا:
" اللہ تعالی نے میرے لیے زمین سمیٹ دی اور میں نے اس کا مشرق و مغرب سب دیکھ لیا- میری امت کی سلطنت وہاں تک پہنچے گی جہاں تک زمین مجھے دکھائی گئی ہے مجھے سرخ اور سفید (سونا چاندی) دونوں خزانے بخش دیے گئے- میں نے اللہ تعالی سے التجا کی کہ میری امت کو قحط سے ہلاک نہ کرے اور اس پر خود اپنے سوا، کسی اور کو مسلط نہ کرے جو اس کا ملک اس سے چھین لے-"
اللہ تعالی نے جواب دیا: " اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)! جب میں فیصلہ کردیتا ہوں تو وہ ٹالا نہیں جاسکتا- میں نے تیری التجا منطور کرلی کہ تیری امت قحط سے ہلاک نہیں کروں گا اور اس پر خود اس کے اپنے سوا کسی کو مسلط نہیں کروں کا جو اس کا ملک اس سے چھین لے، اگرچہ ساری دنیا بھی اس ارادے سے اس کے خلاف جمع ہوجائے یہاں تک کہ تیری امت خود باہم ایک دوسرے کو ہلاک اور قید کرنے لگ جائے-"
( صحیح مسلم، الفتن، باب ھلاک ھذہ الامۃ بعضھم بعض، حدیث:2889)

علمائے سوء اور مدعیان تصوف:

علمائے سوء کا جمود، تقلید اور دین فروشی اور داعیان تصوف کا شرک و بدعت اور نفس پرستی-
یہی وہ جراثیم ہیں جنہوں نےاسلام کو اس اس حال میں کردیا ہے کہ اسے پہچانا مشکل ہوگیا ہے اور مسلمانوں کی حالت ایسی بنادی ہے کہ ننگ انسانیت و شرافت اور مضحکہ اقوام و ملل ہوگئے ہیں-

اصل خطرہ:

طویل غور و فکر کے بعد دیانت داری اور ذمہ داری کے ساتھ میں اپنے اس یقین کا بے خوف و حطر اعلان کرتا ہوں کہ مغربی افکار سے اسلام کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا، البتہ اسلام اور مسلمانوں کی بربادی جس چيز سے مکمل ہورہی ہے وہ صرف علماء سوء اور نام نہاد صوفیون کے فتنے ہیں- بدقسمتی سے ہم میں اخلاص کی بہت کمی واقع ہوگئی ہے اس لیے سرداری کے بھوکے چالاک لوگ، مغربی افکار کے موہوم خطرات سے مصنوعی جنگ میں مصروف ہوگئے ہیں، حالانکہ اس فرضی جنگ سے اسلام کو مطلقا کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا البتہ ان اشخاص کو اس سے ذاتی فوائد ضرور حاصل ہورہے ہیں- اگر ان لوگوں میں اسلام اور مسلمانوں کا درد ہوتا تو اس بازی گری کو چھوڑ کر جمود و تقلید اور شرک و بدعت کے خلاف اعلان جنگ کردیتے، جس سے واقعتا اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت ہوسکتی، مگر وہ ایسا نہیں کرتے- 
جھوٹی سرداری کے طلب گاروں سے مجھے کوئی سروکار نہین، لیکن جو لوگ سچا اسلامی درد رکھتے ہیں اور حقیقی اصلاح چاہتے ہیں، ان سے میں مکمل نا صحانہ اور خیر خوانہ انداز کے ساتھ کہتا ہوں کہ وہ خود غرصوں کے شور و غل سے دھوکہ نہ کھائيں- اسلام اور مسلمانوں کے لیے بیرونی مہلک خطرہ درپیش نہیں ہے، البتہ وہ اندرونی خطرہ ہے جو تمام سابقہ بربادیوں کا اصل سر چشمہ ہے اور اگر اسے اب بھی رفع نہ کیا گیا تو عنقریب یہ مکمل تباہی اور بربادی کا باعث بنے گا-

بہترین تدبیر:

میرے علم و دانست میں اس اندرونی خطرے کا مقابلہ جن ہتھیاروں سے کیا جاسکتا ہے ان میں ایک نہایت کارگر ہتھیار شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے علوم و معارف مسلمانوں میں اشاعت ہے- اسلام کی پوری علمی و اصلاحی تاریخ میں ان کے مانند دلیری و کامیابی سے کسی شخص نے شرک و بدعت کا مقابلہ نہیں کیا- وہ صحیح معنوں میں مجدّد تھے اور بلامبالغہ انھوں نے اسلام کی گرتی ہوئی عمارت از سر نو قائم کردی-

ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی عظمت:

اس حقیقیت کا اعتراف مسلمان مؤرخین ہی نہیں، یورپین مستشرقین نے بھی کیا ہے-
جرمن اسکالر لکھتا ہے:
" اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جو عظیم الشان تحریک امام ابن تیمیہ (رحمہ اللہ) سے شروع ہوئی اور جس میں اسلام کے اصلی و حقیقی اجحانات پوری طاقت سے ظاہر ہوئے، اس نے کثیر اندرونی و بیرونی خطروں کے مقابلے میں اسلام کی خود اعتمادی کا زبردست ثبوت پیش کیا ہے جو تیرہویں صدی عیسوی میں اسلام کے وجود کو لاحق تھے- صلیبی جنگوں اور ان سے بھی زیادہ تاتاری یلغاروں نے مسلمانوں کی قوت کو مفلوج اور ان کی خود اعتمادی کو بہت مضمحل کردیا تھا- اشعری اصول و عقائد کارآمد نہیں ہوسکتے تھے- صوفیوں کا عقیدہ ہر لحاظ سے مسلمانوں کے اخلاق کو کمزورکرنے والا ثابت ہوا تھا- اسلامی دنیا میں ولی پرستی، محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)کی تعلیمات کے ساتھ لگاتار متصادم تھی- ابن تیمیہ (رحمہ اللہ) اور ان کے تلامذہ اپنی دعوت کی ذمہ داریاں اٹھانے کی پوری اہلیت رکھتے تھے- وہ بڑے ہی پرجوش و سرکرم تھے- انھوں نے بڑی مردانگی کے ساتھ اپنے عقائد کا اعلان کیا، ایسا اعلان جو عطیم حیالات کے زیر اثر انسان ہی سے ممکن ہے-"
یہی اسکالم ایک دوسری جگہ لکھتا ہے:
" اسلام، رومن کیتھولک مسیحیت کی طرح ہوگیا تھا مگر ابن تیمیہ (رحمہ اللہ) نے اس کی ازسرنو تحدید کردی-"
"Book: Contribution to the History of civilization
Writer: Von Kremer Alfred
انگلش ترجہ: صلاح الدین بخش بیرسٹر
مسلمان مصنفین میں خصوصیت کے اعتبار سے جو امتياز شیخ الاسلام کو حاصل تھا وہ یہ ہے کہ ان کے مباحث جدّت اور زندگی سے لبریز ہیں- طریق استدلال از حددل نشین اور معقول ہے- دل و دماغ کو بیک وقت متاٹر کرتا ہے، چونکہ وہ علم کا بحرزخار ہیں اس لیے ہر مسئلے پر قیصلہ کن بحث کرتے ہیں اور مخاطب قائل ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا-

ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی اصلاحی تحریک:

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی اصلاحی تحریک کا اصل مقصد یہی تھا کہ اسلام اور مسلمانوں کو علمائے سوء کے جمود و تقلید اور مدعیان تصوف کے شرک و بدعت سے نجات دلائی جائے- یہی وجہ ہے کہ ان کی بیشتر تصانیف کا موصوع یہی چيز ہیں اور حق یہ ہےکہ انھوں نے دونوں فتنوں پر بہت ہی زبردست ضربیں لگائی ہیں- افسوس! ان کی زندگی کا زیادہ عرصہ قید خانے میں گزرا، ورنہ قوی امید تھی کہ وہ ان فتنوں کا بالیل قلع قمع کرڈالتے- اس سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ان کے بعد کوئی ان جیسا صاحب عزم پیدا نہ ہوا جو توحید کا پرچم برابر بلند رکھتا- نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان بتدریج ان کی تعلیمات سے غافل ہوگئے، حتی کہ ان کی متعدد تصانیف بھی ضائع ہوگئيں جن میں سب سے اہم تفسیر القرآن تھی- یہی نہیں بلکہ عاقبت نا اندیشہ لوگوں نے خود اس علمبدار توحید اور دشمن شرک و بدعت کی قبر پر پرستش شروع کردی- 



امید کی کرن:

لیکن یہ واقعہ مسلمانوں کی مایوس کن حالت میں کسی خوشگوار تبدیلی کی امید دلا رہا ہے کہ صدیوں گمنام رہنے کے بعد جب سے شیخ الاسلام کی تصانیف شایع ہونا شروع ہوئي ہیں، تمام اسلامی ممالک میں ان کا گرم جوشی سے استقبال کیا جارہا ہے- یہ خیر مقدم زیادہ تر اس جدید طبقے کی طرف سے کیا جاتا ہے جو مغربی افکار سے متاثر ہوکر جمود و تقلید کے چنگل سے اواد ہوچکا ہے- اس لحاظ سے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مغربی خیالات مسلمانوں کے لیے فتنہ ثابت ہونے نے زیادہ رحمت ثابت ہورہے ہیں- کتنی ہی قباحتیں اور مفاسد بیان کیے جائين، مگر ان کے اس فائدے سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ عقل کو جمود و تقلید کے بندشوں سے آزاد کردیتے ہین اور یہ بات واضح ہے کہ عقل کی آزادی ہی اصلاح کی اولین شرط ہے-بلاشبہ یہ خیالات علمائے سوء اور بدعتی صوفیوں کے اسلام کے لیے حطرہ ہیں، یعنی اس اسلام کے لیے جو صرف تقلید و جہل کی ظلمتوں ہی میں زندہ رہ سکتا ہے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علکیہ وسلم کے اسلام کو ان سے کوئی خطرہ نہیں بشرطیکہ اسے اس کے حقیقی صورت میں نئی نسلوں کے سامنے پیش کیا جائے-
امام تیمیہ رحمہ اللہ کی تصانیف کی اشاعت سے یہ مقصد بھی پورا ہوسکتا ہے-

اہل حدیث:

بعض مسلمان اس طرح کی گمراہیوں اور بے راہ روی میں مبتلا ہیں- صرف ایک جماعت اہل حدیث ہی صحیح اسلام پر استوار ہے، مگر بدقسمتی سے اس میں بھی فساد آگیا ہے- یہ جماعت صحیح عقائد بھی رکھتی ہے اور صحیح اعمال بھی، لیکن ایک طرف افراط و تفریط میں مبتلا ہوگئی ہے اور دوسری طرف ایک اہم فریضہ دین سے غافل ہوچکی ہے-
اہم ترین فریضہ دین جس سے یہ جماعت غافل ہوگئی ہے، وہ جہاد فی سبیل اللہ ہے- ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک جہاد نہ کیا جائے یا کم از کم اس کا پختہ عزم نہ رکھا جائے-
حدیث میں ہے کہ:
" بارہ ھزار سچے مسلمانوں پردنیا کی کوئی قوت غالب نہیں آسکتی"
(سنن ابی داؤد، الجہاد، باب فی ما یستحب من الجیوش والرفقاء والیسرا، حدیث:2611-)
اس حدیث کو امام حاکم نے صحیح قرار دیا ہے، امام ذھبی نے ان کی تائید کی ہے اور امام ترمذی نے بھی اسے حسن کہا ہے-

لیکن لاکھوں کی تعداد میں اہل حدیث موجود ہین مگر کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتے- وجہ یہی ہے کہ فریصہ جہاد کے عمل و ارادے سے ان کے دل غافل ہوگئے ہیں-
میں پھر کہتا ہوں کہ صرف جماعت اہل حدیث ہی حقیقی اسلام پر قائم ہے- اور اگر یہ دونوں فساد دور کردیے جائيں تو اسلام کو پھر سے عروج حاصل ہوسکتا ہے- بلاشبہ اہل حدیث نجد، فریصہ جہاد ادا کرہے ہیں-
شیخ الاسلام رحمہ اللہ اپنے عہد کے بہت بڑے مجاہد تھے- مصر میں تاتاری یلغار صرف انھی کی اولواعزمی سے ناکام رہی- ان کی تصانیف مجاہدانہ روح سے لبریز ہیں اور ان کی اشاعت سے مسلمانوں کے دلوں میں گرمی پیدا کی جاسکتی ہے-
یہی وہ اسباب ہین جن کی بنیاد پر میں نے شیح الاسلام کی تصانیف کے اردو ترجمے کا کام اپنے ذمے لیا ہے-

صراط مستقیم:

"صراط مستقیم" شیخ الاسلام رحمہ اللہ کی جلیل قدر کتاب "اقتضاء الصارط المستقیم مخالفتہ اصحاب الجحیم" کا اختصار ہے- اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ مذکورہ جرمن اسکالر بھی، جو بالکل غیر جانبدار ہے، اس کی تعریف کرتے ہوئے لکھتا ہے:
" ابن تیمیہ (رحمہ اللہ) کی یہ کتاب مسلمانوں کی زندگی کے وہ تمام پہلو بڑی خوبی سے روز روشن کی طرح ظاہر کردیتی ہے جو مشرکانہ و بت پرستانہ ہیں-"
(Contribution to the History of the Civilization)

کفار کی عیدیں:

شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے ثابت کردیا ہے کہ کفار کی عیدوں، تہواروں، اور میلوں میں مسلمانوں کی شرکت کسی حیثیت سے بھی روا اور جائز نہین مکر اس سے غلط فہمی میں نہیں پڑنا چاہیے- اس حکم میں وہ تقریبات داخل نہین ہے جو مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے مشترک وطنی مصائب یا مسرتوں کی یادگار کو طور پر منائی جاتی ہین- ان تقریبات کور محافل کا دینی عقائد سے کوئی تعلق نہیں ہوتا- بلکہ وہ سراسر دنیاوی معاملات سے تعلق رکھتی ہیں- اسلام میں دین اور دنیا کی کوئی تفریق ہے نہ انسانی زندگی کا کوئی مسئلہ اسلامی حدود سے تجاوز ہے فرق صرف رہنمائی کا ہے- عبادت مین حرمت اصل ہے (یعنی جس کا شریعت میں حکم موجود نہ ہو کام نہین کرسکتے-) معاملات میں اباحت (جواز) اصل ہے یعنی جس کام پر شریعت نے پابندی نہیں لگائی ہو وہ کرسکتے ہیں- ایسے ایام اور ان پر ہونے والے امور کا اسی اصول کے تحت جائزہ لیں گے کہ وہ اسلامی منہیات 

سے متصادم تو نہیں ہیں-


عبدالرزاق ملیح آبادی (کلکتہ)
    مترجم: اقتضاء صراط مستقیم از امام تیمیہ 

0 تبصرہ جات:

تبصرہ کیجئے