Wednesday 20 October 2010

" تبدیلی اور انقلاب بغیر قیمت دیے نہیں آتے "

" تبدیلی اور انقلاب بغیر قیمت دیے نہیں آتے "

شیخ عبدالعزیز بن باز کے فرزند شیخ احمد عبدالعزیز بن باز




نمازوں کے لئے مجبورکرنا کیا جائز ہے؟

شیخ احمد نے محکمہ امر بالمعروف کو چیلنج کیا ہے کہ وہ شریعت سے اس بات کا ثبوت پیش کریں جس کے ذریعے (بازار اور آفس زبردستی بند کروا کر) وہ عوام کو مخصوص وقت میں ہی نماز پڑھنے کا پابند کرتے ہیں۔ شیخ احمد کہتے ہیں کہ نماز کیلئے لوگوں کو تلقین کرنا ایک اچھی بات ہے تاکہ لوگ غفلت سے خبردار رہیں۔ لیکن پہلے تو یہ مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں پر زبردستی کی جائے اور نماز اُسی وقت پر نہ پڑھنے والوں کو سزا دی جائے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ میں نے سات سال کے عرصے میں امر بالمعروف والوں کو کئی بار تحریری طور پر توجہ دلائی یہ پہلی بار نہیں ہو رہا ہیکہ مجھ پر ٹکراؤ کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ ایسا کر کے امربالمعروف کے بعض لوگ لوگوں کی عزت اور آزادی کو ٹھیس پہنچاتے ہیں۔ یہ مسئلہ ہر موقع پر زیر بحث آنا چاہیے۔ تیسری بات یہ ہیکہ مجھ پر شہرت پسندی کا الزام دراصل ایسا تیار حربہ ہے جسکے ذریعے وہ اُن حقیقی مسائل اور نظریات کو نظر انداز کر ڈالتے ہیں جن پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ چوتھی بات یہ ہیکہ یہ مسائل آج تک حل نہیں کئے گئے شاید اسلئے کہ ان پر ابھی تک کسی نے توجہ نہیں دلائی۔
فتویٰ وحی نہیں ہوتا
شیخ احمد بن باز پران کے والد کے فتوؤں کے خلاف رائے دینے کا الزام ہے ۔ اس الزام کو انہوں نے ردّ کرتے ہوئے کہا کہ ان کے والدِ مرحوم کے فتوے مخصوص حالات اور وقت کے تقاضے کے مطابق تھے۔ کسی بھی چیز کو اس کی حقیقت یا حقیقی واقعہ کی روشنی میں دیکھا جاتا ہے۔ چونکہ ہر واقعہ وقتی ہوتا ہے اور اس کی نوعیت، وقت ماحول اور افراد کے ساتھ ہی بدل جاتی ہے اس لئے حالات بدلتے ہی فتوے بھی مختلف ہو جاتے ہیں۔

امام احمد بن حنبل (رحمۃ اللہ علیہ) کے ایک ہی عنوان پر نو مختلف فتوے موجود ہیں۔ امام شافعی (رحمۃ اللہ علیہ) کے بھی ایک ہی چیز کے بارے میں نئے اور پرانے مختلف فتوے موجود ہیں اور دوسرے اماموں کے ایسے کئی فتوے موجود ہیں جو ایک ہی مسئلہ پر ہوتے ہوئے ایک دوسرے سے مختلف ہیں اورکئی ائمہ سلف نے اپنی راے سے رجوع بھی کیا ہے۔ لہذا حالات کی نوعیت کے ساتھ ہی فتوے کا اطلاق بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔ خود میرے والد کے ایک ہی مسئلہ پر دو مختلف نئی اور پرانی رائیں موجود ہیں جیسے کے ٹیلیویژن کے بارے میں انہوں نے پہلے یہ فتویٰ دیا کہ یہ حرام ہے، بعد میں رائے بدلی اور یہ فتوی دیا کہ ٹی-وی ایک مشین کی طرح ہے جس کا حلال یا حرام ہونا اس کے استعمال پر منحصر ہے۔ میرے والد کے وہ فتوے جن میں اختلاف ہے کسی مخصوص شخص اور مخصوص حالات یا مخصوص اسباب کی روشنی میں تھے جو ضروری نہیں کہ وہی کسی دوسرے شخص کیلئے قابل اتباع ہوں۔ان فتوؤں کو عمومی قرار نہیں دیا جا سکتا۔
کیا ہر غیر مسلم کافر ہے؟

لفظ کافر کو عمومی طور پر ہر اہل کتاب کیلئے استعمال کرنا غلط ہے۔ قرآن و حدیث میں کہیں بھی اہلِ کتاب کو کافر نہیں قرار دیا گیا۔ کافر اس شخص کیلئے لاگو ہوتا ہے جس کو اسلام کی حقیقت پہنچا دی جائے اور وہ سچ کو پانے کے بعد بھی ردّ کردے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آج دنیا کو واقعی وہی اسلام پہنچ رہا ہے جو حقیقتاََ اسلام ہے یا اس کی مسخ شدہ شکل پہنچ رہی ہے؟

عورتوں کا کار چلانا

جہاں تک عورتوں کے کار چلانے کا تعلق ہے میرے والد نے جس وقت اس کے حرام ہونے کا فتویٰ دیا تھا اُس وقت کے حالات اور تھے آج وہ حالات نہیں رہے۔ آج اس فتوے پر پھر سے نظرِ ثانی کی ضرورت ہے۔ جس وقت اسے حرام قرار دیا گیا تھا اس وقت کے حالات شاید بہت سارے لوگوں کے علم میں نہیں ہیں۔ 1990ء کا وہ دور دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے زیادہ نازک دور تھا۔ صدام کے کویت پر قبضے اور امریکی فوجوں کی خلیج میں آمد نے ایک غیر یقینی تشویشناک صورت حال سے دوچار کر دیا تھا۔اور ٹیلیویژن بھی اسی زمانے میں غیر معمولی ترقی کر رہا تھا۔ ایسے پیچیدہ حالات میں اچانک کچھ عورتوں کا سڑک پر کار چلا کر احتجاج کرنا ایک اچنبھے میں ڈالنے والی حرکت تھی۔ اپنے مسائل کو پیش کرنے اور احتجاج کرنے کا یہ نیا طریقہ غیر اخلاقی اور نا قابل قبول تھا اور ہماری سماجی اقدار کے خلاف بھی ۔ ایسے وقت میں جبکہ سیاسی صورت حال دھماکو تھی اور جنگ سر پر منڈلا رہی تھی ، بم کے خوف سے لوگوں میں ماسک تقسیم کئے جارہے تھے، یہ اندیشہ بڑھتا جارہا تھا کہ کہیں ایک خارجی دشمن کی وجہہ سے ہم لوگ داخلی طور پر تقسیم نہ ہو جائیں ایسے وقت میں بے شمار ایسے لوگ بھی دارالافتاء پر احتجاج کیلئے جمع ہو گئے تھے جن کو متوع کہتے ہیں۔ اس وقت دارالافتاء کے اندر چند علماء تھے جن میں میرے والد بھی تھے۔ ایسے وقت میں میرے والد عبدالعزیز بن باز نے عورت کا کار چلانا حرام قرار دیا ۔ اس فتوے کو ان حالات کے پس منظر کے بغیر نہیں دیکھا جا سکتا۔
فتوؤں کا کھیل

آج کل فتوؤں کا دنیا میں ایک کھیل بن گیا ہے جس پر روک لگانے کی ضرورت ہے۔ ہمارے اسلاف کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ نہ تو وہ اس قدر سوالات کیا کرتے تھے اور نہ اس طرح فتوے دیا کرتے تھے۔ یہ ہم ہی ہیں جنہوں نے فتوؤں کو کھیل بنا دیا ہے۔ ہر شخص نے انفرادی طور پر فتوے دینا شروع کر دیا ہے۔ کچھ فروعی مسائل ایسے ہیں جن کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دے دی گئی ہے اور ان کی حیثیت ایسے فرض یا واجب کی طرح کر دی گئی ہے جن کو تبدیل کیا ہی نہیں جا سکتا حالانکہ انکی حیثیت فروعی ہے جن پر علماء کا مدت دراز سے اختلاف ہے۔ جن مسائل پر آج ہم کثرت سے گفتگو کرتے ہیں ان مسائل کی اکثریت اسی قسم کے فروعی مسائل سے ہے جن کو اتنی ہی اہمیت یا وزن دینا چاہیے جو ان کی واقعتاً ہے۔
کیا آج تجدید فقہ کی ضرورت ہے؟

جی ہاں! آج ضرورت ہے ایسے مدارس کی جہاں شریعت کے وسیع ترمقاصد کی تکمیل کیلئے فقہی تحقیق کی ضرورت ہے۔ جہاں مسائل کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے۔
مذہبی شدّت پسندی

آج کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لوگ اپنے دینی اور فقہی عقائد پر انتہا پسندی پر اُترآئے ہیں۔ دوسروں پر اپنا اصول مسلّط کرنا چاہتے ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں دنیا آج بھی وہی ہے جوآج سے ساٹھ ستّر سال پہلے تھی۔ اصلاح اور دعوت کے کام کیلئے افہام و تفہیم کے راستے کھولنے اور ذہن و دل کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ تحمل اور ضبط کے بغیر یہ کام نہیں ہوگا ۔ یہ سعی کئی قربانیاں اور وقت چاہتی ہے۔ ان امور پر توجہ کرنے کی زیادہ ضرورت ہے جو اہمیت کے اعتبار سے زیادہ اہم ہیں۔ (شیخ احمد یہ تمام باتیں اس سوال کے جواب میں کہہ رہے تھے کہ: کیا ان مسائل پر بھی فتوے دینا ضروری ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے محض رحم کی بنیاد پر ذکر کرنا مناسب نہ سمجھا، یعنی کئی ایسے مسائل جن پر شریعت نے تو خاموشی اختیار کی لیکن لوگوں نے ان پر حلال و حرام کی بحث شروع کر دی)۔
لوگ لکیر کے فقیر ہوتے ہیں

شیخ احمد کی جن لوگوں نے کردارکشی کرنے کی کوشش کی ، ان کا نام یا حوالہ دیئے بغیر کہا کہ : “اصل مسائل پر توجہ دلانے والے پر باغی ، آزاد اور سیکولر وغیرہ ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ لیکن یہ طئے ہے کہ کوئی تبدیلی اور ریفارم قیمت دئیے بغیر نہیں آتی۔ جو ریفارم کیلئے اُٹھے اُسے یہ تہمتیں اور الزامات قیمت کے طور پرسہنے ہی ہیں۔ اور جو لوگ ایسے الزامات دھرتے ہیں وہ سطحی عقل کے لوگ ہوتے ہیں۔ نہ اُن کا تعلیمی معیار ہوتا ہے اور نہ ان میں اتنی ذہانت ہوتی ہے کہ وہ تعمیری تنقید کے عمل کو سیکھیں اور برتیں۔ اور نہ ان میں افہام و تفہیم کی صلاحیت ہوتی ہے۔ اسلئے یہ لوگ اختلاف الرائے رکھنے والے کی فوری طور پر کافر ، باغی ، ایجنٹ وغیرہ کی درجہ بندی کر دیتے ہیں اور اس طرح کی اصطلاحات تراش لیتے ہیں۔ یہ بہت پرانی روش ہے۔ لیکن آج حالات بدل رہے ہیں اب لوگ پڑھتے بھی ہیں اور گفتگو بھی کرتے ہیں ہیں۔ اندھی تقلید کرنے کی روش اب بدل رہی ہے۔
دار الکفر اور دار الاسلام کی بحث

سعودی عرب ہی کے ایک عالم نے شیخ احمد بن عبدالعزیز بن باز کے 2003ء میں شائع شدہ الشرق الاوسط کے ایک مضمون کے جواب میں اپنا سخت موقف اختیار کرتے ہوئے مذہب اور سیکولرزم کے نازک فرق کو نظرانداز کرتے ہوئے یہ لکھا کہ :

” جسطرح رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ہجرت کے بعد مکہ مکرمہ میں مشرکین کی حکومت رہی اور مسلمانوں کو ان کے دین کی دعوت کے حق سے محروم کر دیا گیا۔ اسی طرح کی جہاں بھی ایسی ریاست جس میں شرک اور کفر کی حکومت ہوگی وہ دارالکفر کہلائے گا اور موصوف نے لکھا تھا کہ دارالکفر یا دارالاسلام محض اصطلاحات نہیں بلکہ نص سے ثابت ہیں”۔

اس کے جواب میں شیخ احمد بن باز نے کہا کہ” دارالاسلام یا دارالکفر کی درجہ بندی دراصل ایسی اصطلاحات ہیں جو اجتہادی ہیں ۔ جن لوگوں نے بھی ان اصطلاحات کو رائج کیا وہ ان کی ذاتی سوچ و فکر یا ذاتی رائے ہے۔ آج کے عہد میں ان فقہی اصطلاحات کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ درحقیقت صدیاں گزرجانے کے بعد آج بھی ہم کئی ایسے خیالات اور اصطلاحات کو برت رہے ہیں جن کا نہ قرآن سے کوئی ثبوت ہے اور نہ وہ آج کے حالات سے کسی قسم کی مطابقت رکھتے ہیں۔ جس دور میں مسلمانوں کی حکومت کو دارالاسلام اور غیر مسلموں کی حکومت کو دارالکفر کہا جاتا تھا آج وہ دور باقی نہیں رہا اب کسی کو دارالاسلام یا دار الکفر قرار دینا مشکل ہے۔ ان اصطلاحات کو اسلئے بھی منطبق نہیں کیا جا سکتا کہ اب حکومت کا تصور الگ ہے۔ اس میں ریاست ، قوم، شہری، مختلف طرزِحکومت ، طریقہ انتخاب ، پارلیمنٹ، مجالس نمائندگان، ملکی اور عالمی تنظیمیں ایک ریاست کے تصور میں شامل ہیں۔ مثال کے طور پر لبنان کو لیجئے جہاں صدر اگرا یک مذہب کا ہو تو وزیر اعظم دوسرے مذہب کا ہوتا ہے۔ اسپیکر تیسرے مذہب کا ہوتا ہے۔ (وہاں مسلمان کرسچین اور یہودی سارے مل کر رہتے ہیں مسلمانوں میں بھی شیعہ سنی بڑی تعداد میں ہیں اس لئے قانون یہ بنا دیا گیا کہ صدر ، وزیراعظم اور اسپیکر مختلف مذاہب کے ہوں گے تا کہ تمام مذاہب کا حکومت کی تشکیل میں برابر کا حصہ رہے)۔ اسلئے اب لبنان کو قدیم اصطلاحات کی بنیاد پر کیا درجہ دیا جائے گا؟ دارالکفر یا دار الاسلام؟۔

آج ہم کو نئی فقہی نظریات کی تخلیق کرنے کی ضرورت ہے، جوحکومت، قوم، وطن سے وفاداری، عالمی تعلقات اور عالمی تنظیموں کا صحیح تصور پیش کریں، ایسا تصورجسے سماجی، سیاسی اور دانشوری کے زاویہ سے دیکھا جائے۔

آج ہمیں انتفادہ کی ضرورت ہے (جس طرح فلسطینیوں نے میدان کارزار میں انتفادہ کیا اسی طرح کا ) ایسا انتفادہ جو دانشورانہ اور علمی ہو۔ اس کے لئے ورکشاپس، یونیورسٹیوں میں تحقیق اور نئی فقہی تالیف کی ضرورت ہے جس کے ذریعے آج کی تیزی سے تغیر پذیر تہذیبی نشیب و فراز کا جائزہ لیا جائے۔ ہمیشہ کی طرح (پرانی کتابوں اور پرانے اصولوں کو) کاپی پیسٹ نہ کیا جائے جسطرح کہ اسلامی معاشیات کی کتابوں میں کیا جاتا ہے۔ آج کی دنیا نے کئی اہم تہذیبی اورانسانی کارنامے انجام دئیے ہیں ، صنعتی انقلاب سے لے کر آج کے ڈیجیٹل انقلاب تک وہ وہ تبدیلیاں آچکی ہیں جو پہلے ہزاروں سال میں نہیں آئی تھیں۔

ہم کو ایک لمحے کے لئے رک کر سوچنا ہوگا اور کئی چیزوں پر از سرِنو غور کرنا ہوگا،اور ایسے نئے اصول وضوابط وضع کرنے ہونگے جو شریعت کی کسوٹی اور مقصد کی عکاسی کریں۔ ہم محض خاموش تماشائی یا ان ترقیوں کے محض خریدنے والے بن کر نہ رہیں بلکہ آگے بڑھیں اور مستقبل کیلئے خود بھی کچھ اقدام کریں ۔ ہم ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کیلئے جیتے ہیں ، ہمارے ایجنڈے میں وہی مسائل ہوتے ہیں جو فوری طور پر پیش آتے ہیں (مستقبل کی منصوبہ بندی ہمارے لائحہ عمل میں شامل نہیں ہوتی)۔



شیخ احمد بن باز نے ایک اور اچھی خبر سنائی کہ سعودی عرب کے موجودہ فرمانروا مَلِک عبداللہ بن عبدالعزیز خود ایک تبدیلی اور انقلاب کے خواہاں ہیں اور اس کے لئے انہوں نے انقلابی اقدامات شروع کر دیئے ہیں۔ شیخ احمد نے یہ اقرار کیا کہ ان کی دعوتی اور اصلاحی کوششوں میں مَلِک عبداللہ بن عبدالعزیز ہی کی ہمت
افزائی کے نتیجے میں اضافہ ہوا ہے۔




1 تبصرہ جات:

میری سوچ، میرا نظریہ نے کہا :

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
یہ اصطلاحات کا منتازعہ بیان کوئی ایک سال پہلے منظر عامہ پر آیا تھا ۔ شیخ احمد کی طرف اس کی نسبت صحیح نہیں کیونکہ سعودیہ کی میڈیا میں‌کچھ ایسے اسلام دشمن چینلز اور اخبارات ہیں‌جو کہ علماء کے بیان کوتوڑ موڑ کر پیش کرتے رہتے ہیں‌۔ شیخ احمد نے اس کی تصدیق نہیں کی ۔

فرض کریں کہ انھوں‌نے ایسا کہا ہے تو یقننا یہ منہج سلف نہیں بلکہ یہ منہج مغرب پر بات کی ہے ۔ ان متنازعہ اصطلاحات کی کوئی حیثیت نہیں‌۔ انھوں نے خود قرآن وحدیث کی بات تو کی لیکن کہیں ثابت نہیں‌ کیا ۔ اور نہ ہی ان کی اتنی علمی حیثیت ہے کہ ان کی بات کو مان لیا جائے ۔ یہی وجہ کہ جید علماء‌نے اس کی طرف اتنی وجہ نہیں‌ کی ۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ صراط مستقیم پر رکھے ۔

تبصرہ کیجئے