Sunday 24 October 2010

موسمی تبدیلیاں زلزلے اور دجالین

موسمی تبدیلیاں زلزلے اور دجالین

خادم الاسلام و المسلمین ڈاکٹر عصمت حیات علوی



بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

دنیا میں موسموں کی تبدیلی اور عالمی درجہ حرارت یعنی گلوبل وارمنگ کا ذکر ہم اکثر اخبارات اور رسائل میں پڑھتے رہتے ہیں اور الیکٹرانک میڈیا پر بھی اس کے بارے میں سنتے ہی رہتے ہیں دنیا کے سبھی سائنسدان اور موسمیاتی ماہرین اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ موسموں کایہ منفی رد عمل دراصل مختلف طرح کے کارخانوں اور دیگر صنعتوں سے دھواں اور دیگر کثافتوں کے خارج ہونے کے نتیجے میں ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔
اچانک آنے والے طوفانوں بارشوں اور یہاں تک کہ زلزلوں کو بھی اسی گلوبل وارمنگ کے ردعمل کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔اب حج کے دن ہمارے مقامات مقدسہ پر جو غیر متوقع اور غیر معمولی بارش ہوئی ہے اسے بھی گلوبل ورمنگ کی کارستانی قرار دے کر بھلا دیا جائے گا ۔ مگر کچھ اہل نظر اس غیر متوقع وغیر معمولی بارش کو اور چند برس قبل کشمیر اور اس سے ملحقہ علاقوں میں آنے والے زلزلے کو قدرتی یا حقیقی قرار نہیں دے رہے ہیں بلکہ ان کے پیچھے بھی کسی انسانی ہاتھ کو دیکھ رہے ہیں بلکہ ڈھکے چھپے لفظوں میں ان دونوں واقعات کوانسانی شرارت قرار دے رہے ہیں۔
قارئین کرام یاد کریں کہ گذشتہ برس جب چین کے دارلحکومت بیجنگ میں اگست کے مہینے میں اولمپکس گیمزکھیلی گئیں تھیں تب وہ مون سون کا موسم تھا اور اس مہینے میں اس علاقے میں بارشیں ہوا ہی کرتی ہیں ۔مگر چین نے ایسا مکمل انتظام کر رکھا تھا کہ جب بادل بیجنگ کا رخ کریں تو ان کو راستے میں ہی برسا دیا جائے اور یوں بادلوں کو بیجنگ تک پہنچنے ہی نہ دیا جائے ۔
ہم بچپن میں پڑھا کرتے تھے کہ مون سون کے موسم میں بحیرہ بنگال سے نمی کے بخارات اٹھتے ہیں اور نمی سے لدے ہوئے بادل بن جاتے ہیں پھر یہ نمی سے لدے ہوئے بادل ہواﺅں کے دوش پر پورے ہندوستان پر برسے بغیرگذر جاتے ہیں اس کے بعد وہ ہمارے ملک کے شمال میں واقع بلند وبالا پہاڑوں سے ٹکرا کر رک جاتے ہیں اورواپس پلٹ کر آنے والے مزید بادلوں سے مل جاتے ہیں اس طرح سے ہمارے میدانی علاقوں کے اوپر ہوا میں نمی کا تناسب اس قدر زیادہ ہوجاتا ہے کہ ہوا اس تناسب کو سنبھال نہیں سکتی یوں نمی قطرے بن کر برسنا شروع ہو جاتی ہے۔اس عمل کو بارش کہتے ہیں۔
جس طرح سے نمی سے لدے ہوئے بادل ہندوستان کے اوپر سے برسے بغیر سینکڑوں میل کا سفر کرتے ہوئے گذر جاتے ہیں اسی طرح سے بحیرہ عرب سے اٹھنے والے نمی سے لدے ہوئے بادل بھی عرب ممالک کے اوپر اوپر سے بہت ہی زیادہ بلندی پر گذرتے ہیں مگر چونکہ ان کے راستے میں کوئی بلندوبالا پہاڑ نہیں آتے اس لئے نمی کا تناسب زیادہ نہیں ہو پاتا یوں وہ بادل عرب ممالک پر برسے بغیر آگے نکل جاتے ہیں کبھی کبھار جب ہوا میں نمی بڑھ جاتی ہے تب عرب کے ریگذاروں پر بارش ہو جایا کرتی ہے ۔
جیسے سمندروں جھیلوں اور گھنے جنگلوں کے اوپر ہوا میں نمی کی مقدار ہمیشہ ہی زیادہ ہوتی ہے اس لئے سمندروں جھیلوں اور گھنے جنگلوں پر بارشیں زیادہ ہی ہوتی ہیں یعنی کہ بارش ہونے کا عمل پہاڑوں سے بادلوں کے ٹکرائے بغیر بھی ہو سکتا ہے بشرطِ کہ ہوا میں نمی زیادہ کردی جائے اور اس عمل کا مظاہرہ یورپ کے کئی سائنسدان پچھلی صدی میں کئی مرتبہ کر چکے ہیں۔اب تو سائنس اچھی خاصی ترقی کرچکی ہے جبھی تو جدید طیاروں سٹیلائٹ اور سپیس ٹیکنالوجی کی مدد سے سائنسدانوں نے مصنوعی بارش برسانا بچوں کا کھیل بنا دیا ہے ۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارے مقامات حج پر جو یہ اچانک غیر معمولی اور غیر متوقع بارش ہوئی ہے اس کے پیچھے دجالین یعنی کہ انٹی مسلمین صہیونی سائنسدانوں کا ہاتھ ہے۔
آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو رہا ہوگا کہ یہ دجالین کیا ہے۔ دراصل ہم مسلم قوم کا قرآن کریم اور حدیث مبارکہ پر اتنا ایمان نہیں ہے جتنا اعتماد کافراقوام کو ہماری مقدس کتاب قرآن کریم اور احادیث ﷺ میں بیان کی گئی پیشین گوئیوں اور دیگر حقائق پر ہے۔ہمارے طبقہ اعلیٰ والے جب مادی و معاشی ترقی کرتے ہیں تو نہ صرف مدرپدر آزاد ہوجاتے ہیں بلکہ مذہب کا مذاق اڑانا جدیدیت اور فیشن سمجھتے ہیں جب کہ ان کے برعکس یورپ اور امریکہ کے برسراقتدار طبقات نہ صرف کٹر مذہبی ہیں بلکہ جیسے جیسے وہ اقتدار کی سیڑھی پر بلند ہوتے جاتے ہیں ویسے ویسے وہ زیادہ مذہبی اور انتہا پسند ہو تے جاتے ہیں میں ہر ملک سے مثالیں نہیں دوں گا کیونکہ ایسے بات لمبی ہو جائے گی۔
صرف امریکہ سے ایک مثال دے کر بات آگے بڑھاوں گا۔ آنجہانی صدر ریگن سے لے کر امریکہ کی موجودہ اور اصلی حکمران ہیلری کلنٹن کے عقائد کر دیکھ لیں ۔یہ سبھی کے سبھی انتہا پسند بنیاد پرست کٹراور متعصب عیسائی یا صہیونی ہیں جو کہ یسوع مسیح کی آمد پر غیر متزلزل یقین رکھتے ہیں اور ان کے استقبال کی تیاریوں میں دل وجان سے مصروف ہیں ۔ یسوع مسیح کی دوبارہ آمد کے بارے میں ان کی تبدیل شدہ کتب میں جو کچھ بھی درج ہے۔
یہ صہیونی اور صلیبی نہ صرف اس کو مانتے ہیں بلکہ اس سلسلے میں قرآن مجید اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی مطالعہ کرتے ہیں تاکہ نہ صرف ہماری روک تھام کی جا سکے بلکہ ہمیں گمراہ بھی کیا جا سکے جیسا کہ کتب احادیث میں درج ہے کہ امام مہدی کی مدد کے لئے خِراسان سے کالے جھنڈوں والا ایک لشکرنکلے گا اسی حدیث کو سچ مان کر صہیونیوں اور صلیبیوں نے اس مذکورہ لشکر کا راستہ روکنے کے لئے پہلے تو افغانستان پر بھرپور حملہ کیا تھا پھر پاکستان پر قبضہ کیا ہے اور اب اس اہم خطے میں طرح طرح کی قلعہ بندیوں میں مصروف ہیں ۔
کچھ کالمسٹ یہ خیال کرتے ہیں اور پھر وہ ایسا لکھتے بھی ہیں کہ عنقریب امریکن اس خطے سے نکل جائیں گے ایسے لکھاریوں اور دانشوروں سے میری یہ درخواست ہے کہ وہ جدید علوم پڑھنے کے ساتھ ساتھ احادیث رسول ﷺ کا مطالعہ بھی کیا کریں اگر میرے فاضل دوست خاص طور پر امام مہدی کے ظہور ۔دجال کے خِروج اور عیسیٰ علیہ اسلام کی دوبارہ آمد کی احادیث کا بغور مطالعہ کریں تو ان پر یہ حقیقت کھل جائے گی کہ یہ دجالی لشکر واپس جانے کے لئے نہیں آیا ہے بلکہ ام الحرب یعنی کہ جنگوں کی ماں لڑنے کے لئے آیا ہواہے کیونکہ دجالین کا ایمان یہی ہے کہ اس بڑی جنگ کے نتیجے میں ہی دجال کا فتنہ ظاہر ہوگا۔
سچ تو یہ ہے کہ سابق امریکن صدر جارج واکر بش نے کروسیڈ کا لفظ سہواً نہیں بولا تھا بلکہ یہ ایک کوڈ ورڈ تھا اور حقیقت میں دنیا کے کونوں کھدروں میں چھپے ہوئے صہیونیوں کے لئے ایک واضح پیغام تھا کہ اب نیو ورلڈ آڈر یعنی کہ دجال کے استقبال کی تیاریوں کے دوسرے مرحلے کا آغاز ہو چکا ہے اس لئے تم بھی اپنی کمر کس لو اب تو یہ راز بھی راز نہیں رہا ہے کہ انتہا پسند بنیاد پرست اور کٹر عیسائی یہودیوں کے مخالف نہیں رہے ہیں بلکہ وہ بھی صہیونی بن چکے ہیں ۔
یہاں پر ایک بات کی وضاحت کر دوں کہ کسی شخص کے صہیونی ہونے کے لئے اس کا یہودی ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ جو بھی شخص گریٹر اسرائیل کی حمایت کرتا ہے اور جنگوں کی ماں یعنی کہ آرمیگڈون کی تیاریوں میں انتہا پسندیہود کے ساتھ ہے وہ بھی صہیونی ہی ہے اس تعریف کے لحاظ سے بش اور کانڈولیزا رائیس بھی صہیونی ہیںاور پرویزمشرف بھی صہیونی ہی ہے ۔
اب جو لوگ دجال کو اپنا لیڈر مانتے ہیں اور اس کے استقبال کی تیاریوں میں دل وجان سے مصرف ہیں ان کو میرے کچھ قابل احترام علما ءنے دجالی کہا ہے اور میں نے انہی محترم علما اور اساتذہ کرام کی تقلید میں ان صہیونیوں اور صلیبیوں کو دجالین کا نام دیا ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ جب متعصب یہود اور ہنود ہم کو الٹے سیدھے اور اپنے من پسند القابات سے نواز سکتے ہیں تو ہمیں بھی یہ حق حاصل ہے کہ ہم اپنی سچی کتاب کی روشنی میں ان کے صفاتی اور عملیاتی نام رکھیں ۔
اب چونکہ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں یہود کے باطل لیڈر کو دجال کہا گیا ہے یوں اس کا استقبال کرنے والے اور چاہنے والے دجالیں ہی کہلوائیں گے۔یہ دجالین یا صہیونی اپنے لیڈر کی آمد کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے اطمینان سے نہیں بیٹھے ہوئے ہیں بلکہ ہر قسم کی تیاریوں میں مصروف ہیں ۔ وہ اپنے لیڈر کی قیادت میں جنگ کرنے کے لئے سپر ہیومن بنانے کے تجربات ہٹلر کے دور میں ہی شروع کرچکے ہیں ۔ دراصل ہٹلر کو اس قسم کے عجیب وغریب تجربات کرنے کے لئے اور ایک سپر ریس یا سپر ہیومین بنانے پر یہودی سائینس دانوں نے ہی آمادہ کیا تھا ۔
یوں اس عیار قوم نے جرمن قوم کا کثیر سرمایہ اپنے تخیلا تی انسان کے تجربات پر ضائع کر دیا تھا اور پھر جب ان صہیونیوں کی سازشوں سے جرمن قوم کو شکست ہوئی تھی تو انہی صہیونی یا دجالی سائنس دانوں نے اپنے گھناونے کارناموں کو ہٹلر کے کھاتے میں ڈال دیا ہے ۔ اب ہٹلر تو مر چکا ہے وہ عالم بالا سے واپس آکر صہیونیوں یعنی کہ دجالین کے بارے میں درست اور اصل حقائق تونہیں بیان کر سکتا یوں صہیونیوں کا جھوٹ دنیا کے سر پر چڑھ کر بول رہا ہے۔ جب جنگ عظیم دوم کے خاتمے پر جرمنی پر چار مغربی طاقتوں نے قبضہ کر لیا تھا تب جرمنی کے صہیونی سائنس دان نے امریکہ جانے کا فیصلہ کیا تھا تو عیسا ئی سائنس دانوں نے مجبوری کے عالم میں روسیوں کے ساتھ جانا قبول کر لیا تھا۔

 

جب صہیونی یعنی کہ دجالین سائنسدان امریکہ آگئے تھے تو انہوں نے اپنے شیطانی (دجالی) منصوبوں کی تکمیل کے لئے امریکہ کے سرمائے کو ایسے ہی استعمال کرنا شروع کردیا تھا جیسے وہ جرمنی کی شکست سے قبل جرمن قوم کے سرمائے کو اپنی قوم کے مقاصد کی تکمیل کے لئے استعمال کر رہے تھے یہ تجربات پچاس کی دھائی کے آغاز سے ہی شروع کر دیئے گئے تھے۔
ملٹی پل ہیومن ری پروڈکشن۔ سپر ہیومن ۔شی میل ۔ہی فیمیل ۔ سیلف ری پروڈکٹیو ہیومن(ایسا انسان یا سپر مین جو ایک مکمل نر اور مادہ ہو اور خود بخود بچے جننے کی صلاحیت رکھتا ہو) ۔یہ سبھی دجالین سائنسدانوں کے اذہان کی اختراعات ہیں اور ان پر امریکہ کے بہت سارے ریسرچ سنٹر زمیں تین چار عشروں سے کام ہو رہا ہے جن کا فائدہ تو بہرحال صہیونی (دجالین ) ہی اٹھائیں گے مگر ان پر کثیر سرمایہ امریکن کا ہی لگ رہا ہے۔ ڈولی شیپ دراصل کلوننگ سائنس کا پہلا اور ابتدائی کارنامہ ہے اور اس کے پیچھے صہیونیوں کے ایک فرقہ رئیلینز کی فکر کام کر رہی اس فرقے کو امریکن پریس کلونائیڈ کا نام دیتا ہے۔
بہرحال یہ سبجیکٹ بہت وسیع ہے اور چونکہ میں اس بارے میں خاصا علم رکھتا ہوں اس لئے ان موضوعات پر تفصیل سے لکھوں گا۔انشا اللہ العلیم و الخبیر۔ مگر اس وقت میں مسلم قوم کے ذہین افراد کا عوماً اور مسلم سائنسدانوں کا خصوصاً دھیان اس طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ صہیونی سائنس دان زمین کی مقناطیسیت اور زمین کے توازن پر پہاڑوں کی اہمیت پر برسوں سے تجربات کررہے ہیں اوران کے ان تجربات کی بنیاد قرآن حکیم کی متعدد آیات ہیں ۔جیسے کہ اللہ حکیم نے سورة ٰلقمٰن میں دسویں آیت میں ارشاد فرمایا ہے
﴾خلق السمٰوٰ ت بغیر عمدٍ ترونھا و القٰی فی الارض رواسی ان تمید بکم ﴿
تر جمہ:: اسی نے آسمانوں کو ستونوں کے بغیر پیدا کیا جیسا کہ تم دیکھتے ہو اور زمین پر پہاڑ رکھ دیے تاکہ تم ہلا ہلا نہ دے۔

میں فزکس اور ارضیات کے بارے میں کچھ علم نہیں رکھتا اسی لئے اپنے مسلم بھائی اور بہن سائنس دانوں سے درخواست گذار ہوں کہ وہ زمین کی گردش پرمقناطیسیت کے اثرات ا ور زمین کے توازن کے لئے پہاڑوں کی اہمیت پر کچھ روشنی ڈالیں اور جو کچھ بھی علم ان کو اللہ العلیم و الخبیر نے عطا فرمایا ہے اس علم کی روشنی میں مسلم امة کی راہنمائی کے لئے کچھ مفید مضامین تحریر فرمائیں۔اس کا اجر ان کو اللہ مالک و خالق عطا فرمائیں گے۔ انشا اللہ
جب کشمیر اور اس سے ملحقہ علاقوں میں شدید زلزلہ آیا تھا تو میں حیران رہ گیا تھا کیونکہ میرے علم کے مطابق ارضی اور سمٰوٰتی عذاب صرف اس بستی پر نازل ہوا کرتے ہیں جو کہ کھلم کھلا اللہ رب العزت کی نافرمان ہوچکی ہو ۔ اس لئے میں تحقیق اور جستجو میں پڑ گیا تھا پھرایک سال کے مکمل مطالعے رابطے اور انٹرویوز کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ زلزلہ زدہ علاقوں میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام برسوں سے ایک خاص نہج پر جاری و ساری ہے تو میں نے خود سے سوال کیا تھا ۔
کیا یہ عذاب الہٰی ہے یا کسی انسانی چھیڑ چھاڑ کا نتیجہ ہے؟ کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب کسی بستی یا کسی علاقے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام جاری وساری ہو تو اس بستی یا علاقے پر ربی عذاب نہیں آیا کرتے خواہ وہ بستی کھلم کھلا بدکاری کی مرتکب ہو رہی ہو کیونکہ جب تک کسی بستی میں ایک بھی مبلغ اسلام موجودہواللہ رحیم و کریم اس بستی پر رحم و کرم ہی فرمایا کرتے ہیں ۔
پھر مجھے میرے سوال کا جواب مل گیا تھا ۔یہ سب میرے رب کا فضل و کرم ہے اس میں میری کوئی خوبی نہیں ہے ۔وہ اپنے گناہ گار بندوں کی بھی راہنمائی فرماتا ہے سو اس ذات لا شریک نے میرے جیسے بدکار اور برے کی راہنمائی بھی فرمائی ہے

یہ ایک چھوٹا سا مضمون تھا جو کہ فزکس کے کسی ماہر نے لکھا تھا اور یہ انٹر نیٹ پر کچھ دیر ہی رہا تھا۔ افسوس کہ ان دنوں میرے پاس نہ تو پرنٹر تھا اور نہ ہی میرا پرانا کمپیوٹر اس قابل تھا کہ میں اس کو کاپی اور پیسٹ کرکے اپنے کمپیوٹر میں محفوظ کر لیتا مگر میرا مقصد حل ہو گیا تھا ۔الحمد للہ الرب العالمین
اس مضمون کا ماحاصل یہ تھا کہ ہماری زمین ایک بڑے مقناطیس کی مانند ہے اور اس کی کچھ پرتوں میں مقناطیسی لہریں شمالی قطب سے جنوبی قطب کو چلتی ہیں اور کچھ دوسری پرتوں میں یہی لہریں جنوبی قطب سے شمالی قطب کو واپس آتی ہیں یعنی کہ لہروں کے چلنے کا ایک مربوط اور مکمل نظام ہے اگر اس نظام میں خلل واقع ہوجائے یا کسی طرح سے خلل واقع کر دیا جائے تو زلرلہ آسکتا ہے اور پہاڑ بھی سرک سکتے ہیں کیونکہ یہ پہاڑ اسی مقناطیسی قوت کے بل پر زمین پر اپنی اپنی جگہ پر قائم ہیں۔

تب میں نے سوچا تھا کہ کسی دجالی سائنس دان نے قرآن حکیم کی سورة التکویر (۱۸) کی تیسری آیت اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے پر تدبر کیا ہوگا اور پھرسائنسی تحقیق میں جٹ گیا ہوگا۔
پھر میں نے تصور کیا تھا کہ تورا بورا پر کارپٹ بمباری کے بعد امریکن فوجیوں کے بھیس میں دجالی سائنس دان افغانستان کے علاقے واخان میں پہنچے ہوں گے اور طویل گہرے غاروں میں ایسے آلات لگائے ہوں گے جو کی زمین کے مقناطیسی لہروں میں خلل اندازی پیداکرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے اور ان سائنسی یا مقناطیسی آلات کو بذریعہ سٹیلائیٹ ریموٹ سے کنٹرول کیا جا سکتا ہوگا ۔پھر ان دجالی سائنس دانوں نے امریکہ یا اسرائیل میں بیٹھ کر یہ تجربہ کیا ہوگا جس کی کامیابی کے نتیجے میں کشمیر اور اس سے ملحقہ علاقوں میں ایک خوفناک اور تباہ کن زلزلہ آیا تھا۔
جو لوگ افغانستان کے مذکورہ پہاڑی مقامات دیکھ چکے ہیں وہ میری اس بات کی تصدیق کریں گے کہ واخان اور ملحقہ پہاڑوں میں میلوں لمبے قدرتی غار ہیں جن کی انتہا کا اندازہ لگا نا ابھی انسانی بس سے باہر ہے اور مجھے یقین ہے کہ سائنسی آلات کی مدد سے دجالی سائنس دان ایسی گہرائی تک جا پہنچے ہوں گے جہاں تک کوئی انسان نہ جا سکا ہوگا۔ یہ کوئی مفروضہ نہیں ہے ان مقناطیسی لہروں اور دیگر تجربات کے بارے میں انگلش لینگویج میں تو بہت کچھ شائع ہو چکا ہے۔
البتہ اردو زبان میں پڑھنا ہو تو میں مفتی ابولبانہ شاہ منصور کی تحقیقی کتاب دجال تجویز کرتا ہوں یہ کتاب الفلاح کراچی سے شائع ہوئی ہے اور اس میں امام مہدی کے ظہور۔ فتنہ دجال اور عیسیٰ علیہ السلام کی آمد پر بھی سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے یوں یہ کتاب دور قدیم کی اسلامی ہدایات و معلومات اور دور جدید کی تحقیقات کا حسین مرقع بن گئی ہے۔
اپنے اختتامی کلمات میں میں اپنے مسلم بھائیوں اور بہنوں سے یہی درخواست کروں گا کہ آپ جدید علوم یعنی کہ ماڈرن ایجوکیشن اینڈ ٹیکنالوجی ضروربہ ضرور حاصل کریں مگر ساتھ ہی ساتھ قرآن حکیم پر تدبر کرنے کی عادت کو اپنائیں اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر غورو فکر بھی کیا کریں۔
::وما علینا الالبلاغ

0 تبصرہ جات:

تبصرہ کیجئے