Thursday 8 July 2010

اپنے طریقہ کار کو اچھا جانتے ہوئے اس پر اڑنا نہیں چاہیے

اپنے طریقہ کار کو اچھا جانتے ہوئے اس پر اڑنا نہیں چاہیے



مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ
(32) سورة الروم
"(اے ایمان والو!) ان لوگوں میں سے نہ ہو کہ جنہوں نے اپنے دین میں پھوٹ ڈالی اور بہت سے فرقے بن گئے (اس طرح) ہر فرقہ جو کچھ (غلط عقائدوغیرہ) اپنائے (اور اختیار کئے) ہوئے ہے وہ اسی پر خوش ہورہا ہے۔"



یعنی جو کام شریعت میں یا عقل کے نزدیک صریح بد ہے اس کو ار کوئی بد (برا) جانتا ہے اور جو برا کام کہ آدمی اپنی عقل سے یا اور کسی سے سیکھ کر نیا ایجاد کرتا ہے تو اس کی برائی صحیح قرآن و حدیث میں نہیں پاتا سو اس کام کو نیک جانتا ہے اور اس پر خوش ہوتا ہے اور بہت سے لوگ جو ایسی نئی باتیں نکالتے ہیں جس پرخوش ہوکر یا اس کو تسند کرکے، اختیرا کرتے ہیں اور ہر فرقے کی (طرف سے) جدا جدا نئی نئی بدعتیں علحیدہ علحیدہ وضع کی ہوتی ہیں تو گروہ ہوجاتے ہیں اور دین میں ایکا (اتحاد اور اتفاق) نہیں رہتا ہور پھوٹ پرجاتی ہے- مثلا ایک فرقہ علی رضی اللہ عنہ کو باقی صحابہ رضی اللہ عنہھم سے افضل اور بہتر جانا اور اپنا لقب "تفضیلہ" رکھا اور ایک فرقہ ان سے بڑہ کر علی رضی اللہ عنہ کو افصل جبکہ باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو برا جانا اور محرم کی محفلیں، تعزیہ داری اور مرثیہ خوانی اور سیہ پوشی اور حق حق پی اور بھس اڑانے کی (بدعات) ایجاد کیں اور ایک نے عید غدیر اور عید بابا شجاع ٹھرائی اور نو روز کیا اور روزے، نماز، اذان، وضو میں کمی بیشی کرلی اور اپنا لقب شیعہ اور محّب اہل بیت رکھا- اور ایک فرقہ نے ان کے مقابلے میں علی رضی اللہ عنہ کو برا کہا اور اپنا لقب خارجی پسند کیا-

ایک فرقے نے علی رضی اللہ عنہ کی اولاد کی دشمنی اور عداوت اختیار کی اور ناصبی خطاب اپنے واسطے گوارا کیا- اور ایک فرقے نے دیدار الہی کا انکار کیا اور گناہ کبیرہ کو اسلام سے خروج کا باعث جانا اور معتزلی کہلوائے- اور ایک فرقے نے گوشہ نشینی اور ترک امر بالمعروف و نہی عن المنکر اختیار کرکے شغل برزخ اور نماز معکوس اور ختم اور توشے اور طرح طرح کے نئے نئے ورد اور وضیفے اور فال نامے اور گنڈے، تعویذ اور اتارے اور حاضرتیں اور عرس اور قبروں پر مرقبہ اور باجا، راگ سننا اور حال لانا ایجاد کیا اور مشائخ اور پیر کہلائے-

پھر کسی نے ان کو چشتی مقرر کیا، کسی نے قادری، کسی نے نقشبندی، کسی نے سہروردی، کسی نے رفاعی ٹھرالیا اور کوئی سر پر بڑے بڑے بال رکھ کر یا چار ابرو کا صفایا کرکے اور بڑی بڑی ٹوپیاں اور تاج دھر کر اور کفنی اور سہیلیاں گلے میں ڈال کر ماریہ اور جلالیہ مشہور ہوا- اور کسی نے دو چار زئلیں (بحثیں) منطق اور ریاضی اور ہندسے کی یاد کرلیں اور اپنے آپ کو مّلا اور مولوی اور عالم مشہور کرنا چاہا-
سو اس کے سوا سینکڑوں بلکہ ہزاروں طرح کی راہیں نکالیں اور ہر ایک فرقہ خوش ہوا کہ ہم ہی خوب ہیں اور ہماری ہی راہ اچھی ہے- سو اللہ تعالی نے فرمایا کہ تم ایسا نہ کرو بلکہ ایک ملت اور دین اختیار کرو جو اللہ تعالی نے فرمادیا- سابق میں بھی یہود و نصاری نے اپنے دین میں تفرقہ ڈالا اور کئی گروہ ہوگئے- سو تم ویسے نہ بنو۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ اور اپنے دین میں پھوٹ اور تفرقہ نا ڈالو- ایک قرآن اور حدیث پر عمل کرو اور اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے تابع رہو تاکہ دین میں پھوٹ نہ پڑے-
اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ آدمی کو چاہیے کہ اپنے ہی مذہب اور روّیہ، طریقے، رسوم، عادات کو اچھا جان کر اس پر خاطر جمع نہ کرے، بے فکر ہو کر نہ رہے بلکہ جق بات کی تلاش مین رہے اور اپنے مذہب اور روّیہ اور طریقے، رسوم کا قرآن و حدیث سے مقابلہ کرے جو اس کے موافق ہو، وہ اختیار کرے اور جو اس کے مخالف وہ ترک کرے- بنا گمراہی کی یہی ہے کہ آدمی اپنے رویّہ، طریقہ پر اڑارہے اور بے فکر ہوکر بیٹھ رہے – بہت سی خلقت اسی گمراہی میں پڑی ہوئی ہے کہ اللہ اور رسول کا حکم دریافت اور تحقیق نہیں کرتے- اپنے بزرگوں کی راہ پر خاطر جمع سے مطمعن ہوکر بیٹھے رہتے ہیں اور جانتے ہیں کہ یہی حق ہے-


اقتباس: بدعات سے دامن بچائیے مع احکام زیارت القبور

تالیف: شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ علیہ

0 تبصرہ جات:

تبصرہ کیجئے