Thursday 15 July 2010

اجماع

اجماع


قرآن و سنت کے بعد فقہ کے ذیلی ماخذ میں سے پہلا ماخذ اجماع ہے اور جمہور علماء کے نزدیک یہ ماخذ دیگر ماخذ سے قوت اور حجیت سے زیادہ قوی ہے۔

اجماع کی تعریف:

لغوی اعتبار سے تو اجماع "عزم، پختہ ارادہ اور کسی بات پر متفق ہونے" کو کہتے ہیں جیسا کہ حدیث میں ہے۔

لاَ صِيَامَ لِمَنْ لَمْ يُجْمِعْ قَبْلَ الْفَجْرِ
"اس شخص کا روزہ نہیں ہوگا جو فجر سے پہلے ہی روزہ رکھنے کی نیت نہ کرے"
(صحیح: النسائی، کتاب الصیام: باب ذِكْرِ اخْتِلاَفِ النَّاقِلِينَ لِخَبَرِ حَفْصَةَ فِي ذَلِك:2348 ، 2349)

اور قرآن میں ہے کہ:

[فَأَجْمِعُواْ أَمْرَكُمْ وَشُرَكَاءكم]
"تم اپنا معاملہ اپنے شرکاء سے مل کر پختہ طور پر طے کرو"
(سورہ یونس:71)

اصطلاحی اعتبار سے اجماع کی تعریف یہ کی جاتی ہے:

(ھو اتفاق المجتہدین فی عصر من الغصور علی حکم شری بعد وفاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم بدلیل)
"اجماع سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی خاص دور میں (امت اسلامیہ کے) تمام مجتہدین کا کسی دلیل کے ساتھ کسی شرعی حکم پر متفق ہوجانا ہے-"
[ الارشاد المفحول (1/285)، المستصفی الغزالی (1/183)]

:اجماع کی شرائط

٭ مطلوبہ مسئلے پر متفق ہونے والے افراد مجتہد ہوں ورنہ اجماع معتبر نہ ہوگا۔

٭ مجتہدین کے اتفاق سے مراد تمام مجتہدین کا اتفاق ہے ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ صرف ایک شہر والے یا ایک بستی کے علماء ہی کسی مسئلے پر جمع ہوں کیونکہ ایک کی مخالفت بھی اجماع کے منعقد ہونے مین رکاوٹ ہے-

٭ تمام مجتہد مسلمان ہوں۔

٭ جب کسی مسئلے پر تمام مجتہد متفق ہوجائيں تو پھر ضروری ہے کہ اتفاقی فیصلہ عمل میں آجائے- علاوہ ازیں یہ شرط نہیں ہے کہ تمام مجتہدین کی موت بھی اس اتفاق پر ہی ہو-

٭ اجماع کے لیے ضروری ہے کہ کسی شرعی حکم پر اتفاق ہو نہ کہ طب، ریاضی یا لغت سے متعلقہ کسی مسئلے پر ہو۔

٭ صرف وہی اجماع قابل قبول ہوگا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفات کے بعد ہوا ہو-

٭ اجماع کے لیے کسی شرعی دلیل کا ہونا ضروری ہے جس پر سب متفق ہوئے ہوں محض اپنی خواھش پر کیا جانے والا اجماع معتبر نہیں ہوگا۔

اجماع کی مثالیں:

٭ مسلمان عورت کا کسی غیر مسلم مرد سے نکاح نہیں ہوسکتا

٭ پھوپھی او ر بھتیجی، خالہ اور بھانجی کو بیک وقت نکاح میں نہیں رکھا جاسکتا

٭ مفتوحہ اراضی کو فاتحین کے درمیان دیگر اموال غنیمت کی طرح نہیں بانٹا جائے گا

٭ اگر سگے بھائی، بہن نہ ہوں تو باپ کی طرف سے بننے والے بھائی بہن کو ان کا حصہ دیا جائے گا۔

اجماع کی حجیت:

جمہور علماء کے نزدیک اجماع حجیت ہے اور وہ حجیت اجماع کے جو دلائل پیش کرتے ہیں ان میں سے چند حسب ذیل ہیں:

٭ ارشاد باری تعالی ہے کہ:

{وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءتْ مَصِيرًا}
"اور جس نے ہدایت واضح ہوجانے کے بعد رسول کی نافرمانی کی اور مومنین کے راستے کے علاوہ کسی دوسرے راستے کی پیروی کی تو اسے ہم اسی کی طرف لے جائيں گے جدھر وہ خود گیا اور اسے جہنم میں داخل کردیں گے جو بہت بری جائے قرار ہے-"
(النساء:115)

٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

{ إن أمتي لا تجتمع على ضلالة }
" بلاشبہ میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہوگی-"
(صحیح: ابن ماجہ، کتاب الفتن: باب السواد الاعظم3950)

٭ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

{ لا نزال طائفۃ من امتی ظاھرین علی الحق}
" میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر غالب رہے گا-"
(صحیح بخاری: کتاب التوحید: باب قول اللہ تعالی [ انما قولنا لشیئی اذا اردناہ}، 7459)

اجماع کی اقسام:

٭ اجماع صریح: اس سے مراد یہ ہے کہ تمام مجتہدعلماء کسی مسئلے پر اس طرح متفق ہوں کہ وہ اس کے متعلق صراحت سے اظہار کریں حواہ قول سے کریں یا افتاء سے کریں یا قضاء سے کریں- یہ اجماع بالاتفاق حجت ہے-

٭ اجماع سکوتی: اس سے مراد یہ ہے کہ جب کوئی مسئلہ پیش کیا جائے تو چند اہل اجتہاد علماء تو اس پر متفق ہوجائيں لیکن دیگر مجتہدین اس پر خاموشی اختیار کریں اور کوئی اعتراض نہ کریں- یا اجماع احناف کے نزدیک حجت ہے جبکہ امام مالک رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ اسے اجماع تسلیم نہیں کرتے۔

اقتباس: فقہ الحدیث

تالیف: حافظ عمران ایوب لاھوری حفظ اللہ

1 تبصرہ جات:

SAGHIR نے کہا :

جزاک اللہ

تبصرہ کیجئے