بھارت کے بعض مبصرین یہ محسوس کرتے ہیں کہ بھارت کو افغانستان کے دیگر تمام فریقوں سے بات شروع کرنے کے ساتھ ساتھ طالبان سے بھی مذاکرات کرنے چاہیں۔ قومی سلامتی کے سابق نائب مشیر ستیش چندر کہتے ہیں کہ’ ’ہمیں افغانستان میں مغربی مداخلت سے دوری پیدا کرنی چاہیے اور ساتھ ہی طالبان پر غیر ضروری نکتہ چینیوں سے احتراز کرنا چاہیے اس سے طالبان سے بات چیت شروع کرنے کے لیے راہ ہمورار ہو سکے گی“۔
بھارت یاترا سے پہلے افغان صدر حامد کرزئی نے اعتراف کرچکے ہیں کہ ان کی حکومت اور نیٹو افواج ملک میں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے دس برس بعد بھی افغانوں کو سیکیورٹی فراہم نہیں کرسکے ہیں۔حامد کرزئی اپنی ہی نہیں بلکہ امریکہ کی قیادت میں لڑنے والی نیٹو فورسز کی ناکامیوں کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیتے ہیں،برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘اگر طالبان اور افغانستان کے لیے پاکستان کی مجموعی پالیسی کو دیکھا جائے تو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ طالبان پاکستانی مدد کے بغیر انگلی بھی ہلاسکیں۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستانی صدر اور وزیراعظم افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں لیکن ایسا پاکستانی حکومت کے افغان انتظامیہ کے ساتھ طالبان کے محفوظ پناہ گاہوں کے معاملے پر تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے۔دوسری طرف وہ اس بات کا عندیہ بھی دے چکے ہیں کہ وہ آئندہ مذاکرات طالبان سے نہیں بلکہ پاکستان سے کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ شدت پسندوں (طالبان)کے خلاف جنگ میں دوہرا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔صدر حامد کرزئی نے کہا ہے کہ ان کی حکومت طالبان سے براہ راست مذاکرات کی پالیسی کو ترک کر کے مستقبل میں ان ملکوں(ان کا اشارہ پاکستان کی طرف تھا) سے مذاکرات کرے گی جو طالبان کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔انھوں نے مزید کہا ’حقیقت میں ہمیں حکومتوں کا سامنا ہے اور ان قوتوں کا نہیں جن کا دارومدار ان حکومتوں پر ہے۔انھوں کہا ’اس لیے ہمیں مرکزی قوتوں سے بات کرنی چاہیے جن کے پاس اختیار ہے۔صدر حامد کرزئی نے کہا ہے کہ ان کی حکومت طالبان سے براہ راست مذاکرات کی پالیسی کو ترک کر کے مستقبل میں ان ملکوں سے مذاکرات کرے گی جو طالبان کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔
افغانستان ،بھارت کے ساتھ ساتھ امریکہ بھی پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی پر ہرزہ سرائی کر نے میں کسی سے پیچھے نہیں اور افغانستان میں ہر لگنے والے زخم کا ذمہ دار اسے گردانتا ہے۔
امریکہ فوج کے اعلیٰ ترین کمانڈر ایڈمرل مائیک مولن نے الزام لگایا ہے کہ کابل میں امریکی سفارتخانے پر حملوں میں ملوث شدت پسند گروہ حقانی نیٹ ورک پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کا آلہ کار ہے اور مزید کہا کہ وہ پہلے بھی لشکر طیبہ کے افغانستا ن میں کاروئیوں کہ جس نے انکے ناک میں دم کر رکھا ہے ،نشاندہی کر چکے ہیں۔
امریکی کمانڈر نے سینیٹ کے ارکان کو ایک بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ کابل میں نیٹو اور امریکی فوج کے اڈوں پر حملہ حقانی گروپ نے آئی ایس کی مشاورت اور معاونت سے تیار کیا تھا۔
یڈرمرل مولن نے پاکستان پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ پاکستان تشدد برآمد کر رہا ہے جس سے دہشت گردی کے خلاف پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعاون خطرے میں پڑ گیا ہے بلکہ اس سے دہشت گردی کے خلاف دس سالہ جنگ کا نتیجہ بھی ناکامی میں نکل سکتا ہے۔امریکی کانگریس کے سامنے اپنی ریٹائرمنٹ سے ایک ہفتے قبل اپنے آخر بیان میں انہوں نے کہا افغانستان میں کامیابی حقانی نیٹ ورک اور القاعدہ سے منسلک دیگر گروپوں کو پاکستان کے تعاون خطرے میں پڑ گئی ہے۔مولن نے کہا کہ پاکستان کی حکومت نے تشدد کو ایک پالیسی کے تحت اختیار کیا ہے، پاکستان تشدد برآمد کر کے اپنی داخلی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہا ہے اور خطے میں اپنی ساکھ کو بھی مجروح کر رہا ہے۔
امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا بھی کانگرس کے سامنے اس سماعت میں موجود تھے۔لیون پنیٹا نے کہا کہ پاکستان کے فوجی حکام کو واشگاف الفاظ میں بتایا دیا گیا ہے کہ سرحد پار ایسے حملے برداشت نہیں کیے جائیں گے۔
پنیٹا نے کہا کہ سی آئی اے کے ڈائریکٹر ڈیویڈ پیٹریئس نے پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹینٹ جنرل شجاع پاشا سے اپنی حالیہ ملاقات میں یہ پیغام پہنچا دیا ہے۔
پنیٹا نے کہا پاکستان کو حقانی نیٹ ورک کی محفوظ پناہ گاہوں کے خلاف اقدامات کرنے ہوں گے۔ انہوں نے کہا ’ہم اس بات کی اجازت نہیں
دے سکتے کہ اس طرح کے شدت پسندوں کو سرحد پار کر کے ہماری فوجوں پر حملہ کرکے واپس پاکستان اپنی محفوظ پناہ گاہوں میں چلے جائیں۔‘
امریکہ بھارت اور افغانستان کے آئی ایس آئی اور پاکستان کے خلاف اس ناپاک مہم سے یہ بات تو سامنے آرہی ہے کہ جنوبی ایشیا ءمیں بھارت کی حکمرانی کی راہ میں رکاوٹ سے انہیں کس قدر پریشانی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکہ اپنی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈال کرمحفوظ راستہ تلاش کر سکتا ہے ؟؟؟جہاں تک آئی ایس آئی کا تعلق ہے تو حالات ثابت کر ہے ہیں کہ اس خطے میں سی آئی اے جس طرح بھارتی ایجنسی ”را“کو اس خطے کے سیاہ سفید بنانا چاہتی ہے اسے اس میں بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق
ایسی حرکتیں کر رہا ہے۔
0 تبصرہ جات:
تبصرہ کیجئے