Sunday 4 December 2011

قرآن و حدیث میں جوڑا جہیز سے کہاں منع کیا گیا ہے ؟

قرآن و حدیث میں جوڑا جہیز سے کہاں منع کیا گیا ہے ؟

لوگ اکثر یہ سوال کرتے ہیں کہ قرآن یا حدیث میں جوڑا جہیز وغیرہ کے بارے میں صراحتاً کہاں بیان ہواہے؟
جواب یہ ہیکہ نہ صرف قرآن و حدیث بلکہ سیرت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)، سیرت صحابہ اور سیرتِ اسلاف کا اگر مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتاہیکہ نہ صرف جہیز بلکہ وہ تمام اخراجات جن کا بوجھ لڑکی کے والدین کو اُٹھانا پڑتا ہے وہ ان کے نزدیک حرام تھیں۔ اس سے پہلے کہ ہم ان تفصیلات میں جائیں پہلے اس بات کی تحقیق کرلیں کہ لوگوں کے ذہن میں اس کے حرام یا ناجائز ہونے کے بارے میں شک کی نفسیات کیا ہے ؟ گویا خون 
اور سور کے گوشت کی طرح اگر ’ جوڑا جہیز ‘ کے بارے میں بھی واضح الفاظ میں قرآن میں حکم ہوتا تو وہ فوری مان لیتے اور ہرگز بحث نہ کرتے ۔

خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق


جوڑا جہیز کو حلال کرنے والوں کی نفسیات سمجھنے کے لیے ہمیں یہود و نصریٰ اور مشرکین کے اس مزاج کا مطالعہ کرنا ہوگا جس کا قرآن نے تذکرہ کیا 
ہے ۔

یہود و مشرکین کی تاویلیں

یہودیوں کے جرائم Crimes کا قرآن میں جگہ جگہ تذکرہ کیا گیا ہے ۔ ان جرائم میں سے ایک جرم یہ بھی تھا کہ جب کوئی حکم ان کی مرضی کے خلاف ہوتا تو اس سے فرار حاصل کرنے وہ اُلٹے سوالات کرنا شروع کردیتے تاکہ کوئی تاویل نکل آئے ۔جیسے:
» اللہ تعالیٰ نظر کیوں نہیں آتا ؟

وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَى لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً // البقرة:55

 اللہ کو چاہئے تھا کہ بادلوں کی شکل میں نمودار ہوتا تاکہ سب اُس پر بلا چوں و چرا ایمان لالیتے ۔

هَلْ يَنظُرُونَ إِلاَّ أَن يَأْتِيَهُمُ اللّهُ فِي ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ // البقرة:210

 اللہ کو چاہئے تھا کہ قوم کے جو اعلیٰ سردار یا اہم افراد ہیں ان میں سے کسی کو نبی یا بادشاہ بناکر بھیجتا یہ معمولی آدمیوں کو نبی ہم کیسے تسلیم کریں ۔ہر قوم نے یہ اعتراض کیا۔ مثال کے طور پر ایک واقعہ پر غور کیجیئے

أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلإِ مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ ........... // البقرة:246-247

 اگر ہم غلط ہوتے ، شرک یا حرام کے مرتکب ہوتے تو اللہ ہم کو مٹانہ دیتا ؟ اللہ اور اسکے رسول کا صدقہ ہے کہ ہمارا عمل صحیح ہے ورنہ ہم سوسائٹی میں اتنے باعزت نہ ہوتے اور نہ ہمارے کاروبار میں اتنی برکت ہوتی۔ وغیرہ وغیرہ۔

سَيَقُولُ الَّذِينَ أَشْرَكُواْ لَوْ شَاء اللّهُ مَا أَشْرَكْنَا وَلاَ آبَاؤُنَا وَلاَ حَرَّمْنَا مِن شَيْءٍ // الأنعام:148

 کیا ہمارے باپ دادا بے علم تھے جو تم ہم کو علم سکھانے آئے ہو۔

قَالُواْ أَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءنَا وَتَكُونَ لَكُمَا الْكِبْرِيَاء فِي الأَرْضِ وَمَا نَحْنُ لَكُمَا بِمُؤْمِنِين // يونس:78

 جب ان سے کہا جاتا کہ ایمان لاو اُس پر جو اللہ نے نازل کی ہے تو کہتے ہم تو اُسی طریقے کی اتباع کرینگے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے

وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللّهُ قَالُواْ بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لاَ يَعْقِلُونَ شَيْئاً وَلاَ يَهْتَدُون // البقرة:170

 اور جب کھلے الفاظ میں بصراحت کوئی حکم آجاتا توپھرحیلے تراشنے لگتے اور ایسے ایسے سوالات کرتے جنکا مقصد یہ ہوتا کہ بچنے کا کوئی جواز نکل آئے ۔ مثال کے طور پر جب اللہ تعالیٰ نے انہیں اسی زرد رنگ کی گائے کو ذبج کرنے کا حکم دیا جس کی انہوں نے پرستش شروع کردی تھی تو موسیٰ (علیہ السلام) سے سوالات کرنے لگے کہااللہ سے پوچھو کہ اسکا رنگ کیسا ہو، حالت کیسی ہو ۔ اسکی مزید تفصیلات کیا ہیں۔

وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُواْ بَقَرَةً قَالُواْ أَتَتَّخِذُنَا هُزُواً قَالَ أَعُوذُ بِاللّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِين ......... (البقرة:67-70)

 اسی طرح جب انہیں سنیچر کے روز مچھلیاں پکڑنے سے منع کردیاگیا تو انہوں نے نئی نئی ترکیبیں ڈھونڈیں تاکہ اللہ کا حکم بھی پور ا ہو جائے اور مچھلیاں بھی زیادہ سے زیادہ ہاتھ آئیں۔

واَسْأَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي ......... // الأعراف:163
یہ وہی چال تھی جو آج جوڑا جہیز لینے والے اور دینے والے دونوں انتہائی معصوم بن کر چلتے ہیں۔

 اور جب موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے کہا کہ اللہ تم کو حکم دیتا ہیکہ وادی کے دوسری طرف جو قوم آباد ہے اس سے آگے بڑھ کر جہاد کرو تو کہنے لگے کہ وہ تو بہت طاقتور قوم ہے ہماری اور ان کی طاقت کا مقابلہ نہیں ہو سکتا۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اصرار کیا تو کہنے لگے تم اور تمہارا خدا جاو اور مِل کر لڑو ہم تو یہیں رہیں گے۔

وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ اذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنبِيَاء وَجَعَلَكُم مُّلُوكًا ...........
(المائدة:20-24)


 جب مدینے میں دین کی دعوت پھیلنی شروع ہوئی تو یہودی جنکو اہلِ علم کے طور پر عزت کی نظروں سے دیکھا جاتا تھا انکی وقعت کم ہونے لگی تو انہوں نے اسیطرح کے سوالات معصوم مسلمانوں کو سکھا کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس بھیجنے لگے جیسے روح کیاہے، تقدیر کیاہے، اصحابِ کہف اور ذولقرنین کون تھے وغیرہ۔ ان سوالات کا مقصد یہ ہوتا کہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے جواب نہ دیا تو لوگوں کو یہ تاثر دیا جاسکے کہ محمّد (صلی اللہ علیہ وسلم) ایک اچھے نیک دل اور عبادت گزار انسان ہیں لیکن مذہب ، تاریخ، فلسفہ وغیرہ کے علم سے ناواقف ہیں۔ ورنہ روح، تقدیر وغیرہ جیسے سوالات کے جوابات صریحتاً بیان کردیتے۔

آج بھی لوگوں نے یہودیوں کی طرح اس تاویل سے اپنے آپ کو مطمئن کر رکھا ہے کہ اگر جوڑا جہیز اور دوسری رسمیں واقعی غلط ہوتیں تو اللہ تعالیٰ قرآن میں یا اللہ کے رسول حدیثوں میں صاف الفاظ میں نام لے کر بیان کردیتے ۔ایسے لوگوں سے اگر یہ سوال کیاجائے کہ مہر کے بارے میں تو صراحتاًقرآن اور حدیث میں بیان کردیاگیاہے پھر کتنے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے نقد مہر ادا کردیاہے تو پتہ چلے گا کہ مشکل سے دس فیصد ایسے لوگ ہیں جنہوں نے نقد مہر ادا کیاہے۔ کئی تو ایسے ہیں جن پر اس حدیث کا اطلاق ہوتا ہے کہ فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کہ جس نے مہر ادا کرنے کا (ٹھوس) ارادہ نہ کیا وہ زانی کی موت مرا۔ ۔

آج کے خوشحال لوگوں کی تاویلیں

غریب اور متوسط طبقے کے افراد بات تو پھر بھی مان لیتے ہیں لیکن صاحبِ ثروت افراد کا رویہ وہی منافقانہ ہوتا ہے جس کا ذکر قرآن میں یوں آ تا ہے کہ

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لاَ تُفْسِدُواْ فِي الأَرْضِ قَالُواْ إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُون
أَلا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَـكِن لاَّ يَشْعُرُون
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُواْ كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُواْ أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاء أَلا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاء وَلَـكِن لاَّ يَعْلَمُون
( البقرة:11-13 )
ترجمہ : جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد مت پھیلاو تو کہتے ہیں ہم تو اصلاح کرنے والے لوگ ہیں اور جب ان سے کہا جاتا ہیکہ ایمان لاؤ جیسے دوسرے لوگوں نے ایمان لایا ہے تو کہتے ہیں کیا ہم بھی بے وقوفوں کیطرح ایمان لے آئیں؟


بالکل اسی طرح یہ حضرات کی سوچ یہ ہوتی ہیکہ زکوٰة خیرات بھرادا کرتے رہو۔ نہ علماء کو ناراض کرو نہ جماعتوں کو، ان کی بھی مالی امداد کرتے رہو لیکن جہاں بات بڑی سوسائٹی میں اپنے نام کو باقی رکھنے کی ہووہاں اللہ یا رسول کی باتیں مناسب نہیں ہوتیں اس لئے وہی عمل کرو جو بڑی سوسائٹی کو پسند ہے۔نہ یہ جہیز کے محتاج ہوتے ہیں نہ دعوت کے۔ پھر بھی جب ان سے اللہ اور اس کے رسول کے طریقے پر چلنے کیلئے کہا جائے تو ان کا رویہ وہی منافقانہ ہوتا ہے جیسے کہہ رہے ہوں میاں کیا ہم معمولی درجے کو لوگ ہیں جو اپنی بیٹی یا بیٹے کی شادی بغیر کسی دھوم دھام کے کردیں ہم تو صاحبِ عزت لوگ ہیں۔ہم کو سوسائٹی کے تقاضوں کا پتہ ہے۔ آپ چونکہ سوسائٹی سے واقف نہیں اسلئے ایسی بیوقوفی کی باتیں کرتے ہیں۔بخدا یہ ایسے لوگ ہوتے ہیں کہ جن پاس خود رسول بھی چل کر آئیں تو یہ ان کی پوری پوری خاطر و مدارت کرینگے اور کچھ اعانت دے کر رخصت کرنے کی کوشش کرینگے لیکن اپنے شادی بیاہ میں ان کے طریقے پر ہرگز نہیں چلیں گے کوئی نہ کوئی جواز پیدا کر ہی لیں گے۔
دلچسپ بات یہ ہیکہ ایسے لوگوں کو ایسے مولوی اور ملّا مل بھی جاتے ہیں جو ان کے ہر عمل کو جائز کرنے والی دلیلیں فراہم بھی کردیتے ہیں۔


وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللّهَ أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالإِثْمِ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ وَلَبِئْسَ الْمِهَاد // البقرة:206
ترجمہ : اور جب اس سے کہا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈرو توغرور اسکو گناہ میں پھنسا دیتا ہے سو ایسے کو جہنم سزاوار ہے جو بہت ہی برا ٹھکانہ ہے۔
یہ آیت ایسے ہی لوگوں کے رویّہ کی نشاندھی کرتی ہے۔

ایسا نہیں ہیکہ یہ نماز نہیں پڑھتے یا روزوں کا انکار کرتے ہیں۔ ہر وہ عبادت جسمیں انہیں مزا آئے جو ان کے موڈ اور سہولت کے مطابق ہو وہ برابر کرتے ہیں۔ ہر سال نفل عمرے ادا کرتے ہیں۔ لیکن جہاں شادی بیاہ کو موقعوں پر ہندو رسموں اور اسراف جیسے حرام سے بچنے کا سوال آئے یہ تاویلیں پیش کرتے ہیں اور اپنے ضمیر کی تسلی کے لیے کچھ خیر خرات میں اضافہ کرجاتے ہیں۔


قیامت آئے گی تو دیکھا جائے گا

جس کے پاس پیسہ ہوتا ہے اسکی سوچ بدل جاتی ہے۔ پیسہ جتنا زیادہ ہوتاجاتاہے آخرت کے بارے میں وہ اتنا ہی جواز تلاش کرنے والا ہوتا جاتاہے۔ جسطرح شہر کے بڑے لوگوں کی سوسائٹی میں اسکی آو بھگت ہوتی جاتی ہے اسکا رویّہ ایسے ہوجاتا ہے جیسے پہلے تو قیامت آئیگی نہیں۔ اور اگر ہوگی بھی تو اللہ اسکو اس سے بھی بڑی عزت سے نوازے گا۔ اس سوچ کا سورہ کہف میں یوں نقشہ کھینچا گیا ہے۔

وَاضْرِبْ لَهُم مَّثَلاً رَّجُلَيْنِ جَعَلْنَا لأَحَدِهِمَا جَنَّتَيْنِ مِنْ أَعْنَابٍ وَحَفَفْنَاهُمَا بِنَخْلٍ وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمَا زَرْعًا
كِلْتَا الْجَنَّتَيْنِ آتَتْ أُكُلَهَا وَلَمْ تَظْلِمْ مِنْهُ شَيْئًا وَفَجَّرْنَا خِلاَلَهُمَا نَهَرًا
وَكَانَ لَهُ ثَمَرٌ فَقَالَ لِصَاحِبِهِ وَهُوَ يُحَاوِرُهُ أَنَا أَكْثَرُ مِنكَ مَالاً وَأَعَزُّ نَفَرًا
وَدَخَلَ جَنَّتَهُ وَهُوَ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ قَالَ مَا أَظُنُّ أَن تَبِيدَ هَذِهِ أَبَدًا
وَمَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَلَئِن رُّدِدتُّ إِلَى رَبِّي لأَجِدَنَّ خَيْرًا مِّنْهَا مُنقَلَبًا
( الكهف:32-36 )
ترجمہ : اور ان سے دو شخصوں کا حال بیان کروجنمیں سے ایک کے لیے ہم انگور کے باغ کئے تھے۔ اور ان کے اطراف کھجور کے درخت لگائے تھے۔ اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی۔ دونوں باغ (کثرت سے) پھل لاتے۔ اور اس میں کسی طرح کی کمی نہ ہوتی۔ اور دونوں میں ہم نے ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی۔ اور اسکو فائدہ ملتا رہتا۔ ایک دن جب وہ اپنے دوست سے باتیں کررہاتھا کہنے لگا کہ میں تم سے مال و دولت میں زیادہ ہوں اور جتھے (سوسائٹی) کے لحاظ سے بھی زیادہ عزت والا ہوں۔ اور اپنے آپ پر (ان شیخیوں کے ذریعے) ظلم کرتا ہوا اپنے باغ میں داخل ہوا۔ کہنے لگا کہ میں نہیں سمجھتا کہ یہ باغ کبھی تباہ ہونگے۔ اور نہ یہ سمجھتا ہوں کہ قیامت برپا ہوگی۔ اور اگر میں رب کی طرف لوٹایا بھی جاوں تو (وہاں) ضرور اس سے اچھی جگہ پاوں گا۔


یہ تھا فرار کا پہلا فلسفہ کہ لوگ ثبوت میں قرآن اور حدیث میں جوڑا جہیز کے راست الفاظ سننا چاہتے ہیں۔۔

0 تبصرہ جات:

تبصرہ کیجئے