Wednesday 9 November 2011

صلاۃ غوثیہ کی حقیقت

صلاۃ غوثیہ کی حقیقت


یہاں اس غلط فہمی کو دور کرنا بھی ضروری ہے جو بعض عقیدت مندوں نے پیدا کر رکھی ہے کہ "خود شیخ جیلانی نے یہ تعلیم دی تھی کہ مشکلات کے وقت مجھے پکارا کرو میں زندگی میں بھی اور بعد از حیات بھی تا قیامت تمہاری سنتا اور مدد کرتا رہوں گا"-
اس سلسلہ میں آپ کی طرف جو جھوٹی باتیں منسوب کی جاتی ہیں، ان میں سے بطور نمونہ ایک جھوٹ ملاحضہ فرمائيں:
"شیخ نے فرمایا کہ جو کوئی مصیبت میں مجھ سے مدد چاہے یا مجھ کو پکارے تو میں اس کی مصیبت کو دور کروں کا اور جو کوئی میرے توسل سے خدائے تعالی سے اپنی حاجت روائی چاہے گا تو خدا تعالی اس کی حاجت کو پورا کرے گا- جو کوئی دو رکعت نماز پرھے اور ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد گارہ مرتبہ سورۃ اخلاص یعنی "قل ھو اللہ احد" پڑھے اور سلام پھرینے کے بعد گیارہ مرتبہ درود شریف پڑھے اور مجھ پر بھی سلام بھیجے اور اس وقت اپنی حاجت کا نام بھی لے تو ان شاءاللہ تعالی اس کی حاجت پوری ہوگی- بعض نے بیان کیا ہے کہ دس پانچ قدم جانب میرے مزار کی طرف جل کر میرا نام لے اور اپنی حاجت کو بیان کرے اور بغض کہتے ہیں مندرجہ ذیل دو شعروں کو بھی پڑھے:
(ترجمہ اشعار: کیا مجھ کو کچھ تنگدستی پہنچ سکتی ہے جبکہ آپ میرا ذخیرہ ہیں اور کیا دنیا میں مجھ پر ظلم ہوسکتا ہے جبکہ آپ میرے مددگار ہیں- بھیڑ کے محافظ پر خصوصا جبکہ وہ میرا گار ہو، ننگ و ناموس کی بات ہے کہ بیابان میں میرے اونٹ کی رسی گم ہوجائے"-
(قلائد الجواہر، مترجم: ص 192)

"پھر عراق (بغداد) کی سمت میرا نام لیتا ہوا گیارہ قدم چلے"
(بھجۃ الاسرار۔ ص:102)

نقد و تبصرہ:

٭ اول تو یہ واقعہ ان کتابوں سے ماخوذ ہے جن کی استنادی حیثیت کے حوالہ سے ہم یہ ثابت کر چکے ہیں کہ وہ قابل اعتماد نہیں ہیں-
٭ اگر بالفرص شیخ نے یہ بات خود فرمائی بھی ہو تو تب بھی اس پر عمل اس لئے نہیں کیا جاسکتا کہ یہ قرآن و سنت کے صریح خلاف ہے- 
٭ فی الحقیقت یہ بات خود شیخ کی موحدانہ تعلیمات کے منافی ہے کیونکہ شیخ تو یہ فرماتے ہیں کہ:
"اخلاص پیدا کرو اور شرک نہ کرو، حق تعالی کی توحید کا پرچار کرو اور اس کے درواوے سے منہ نہ موڑو- اسی اللہ سے سوال کرو، کسی اور سے سوال نہ کرو، اسی سے مدد مانگو، کسی اور سے مدد نہ مانگو، اسی پر توکل و اعتماد کرو اور کسی پر توکل نہ کرو"-
(الفتح الربانی: مجلس 48، ص 151)

اقتباس: شیخ عبدالقادر جیلانی اور موجودہ مسلمان
تالیف: مبشر حسین لاھوری

0 تبصرہ جات:

تبصرہ کیجئے