Wednesday 8 June 2011

بلیک واٹر

picture        










طارق اسماعیل ساگر کا ایک اور لا زوال شاہکار ناول جس میں پاکستان میں مصروف کار صیعونی طاقتوں کو بے نقاب کیا گیا ہے ۔
مصنف : طارق اسماعیل ساگر 
تشکیل ای بک : این اے فخری 
بشکریہ : طارق اسماعیل

پیش لفظ

’’بلیک واٹر‘‘ نے عراق کے بعد پاکستان کا رخ کیا تو پاکستان کے آزاد اور بیدار معزز صحافیوں نے حکومت کی پراسرار خاموشی کو توڑتے ہوئے نعرہ حق بلند کیا اور بلیک واٹر کی گھناؤنی کارروائیوں سے پاکستانیوں کو آگاہ کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ جن صحافیوں نے یہ نعرہ مستانہ بلند کیا۔ ان میں نمایاں نام طارق اسماعیل ساگر کا ہے جو اپنی جرأت مندی کے لئے پاکستان اور بیرون ملک ایک خصوصی مقام رکھتے ہیں ۔ ان کی خصوصاً ساؤتھ ایشیا کے حوالے سے لکھی تحریروں کو سند سمجھا جاتا ہے۔سائوتھ ایشیاء میں بھارتی بالادستی کے لئے سرگرم بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی RAWاور اُس کے پُشت پناہی کرنے والی ایجنسیوں کے حوالے سے اُن کی تحریروں کو خصوصی توجہ سے پڑھا جاتاہے ۔
فاضل مصنف نے اس انتہائی اہم کتاب میں نہ صرف بلیک واٹر بلکہ سوات، فاٹا اور بلوچستان میں غیر ملکی مداخلت کیوں، کب، کیسے شروع ہوئی؟ اس خطے میں امریکہ، اسرائیل، بھارت کے مفادات اور عزائم کیا ہیں؟ ’’را، موساد، سی آئی اے‘‘ اور دیگر انٹیلی جنس ادارے یہاں کیا کر رہے ہیں؟ ان کے ٹارگٹس کیا ہیں؟ پاکستانی بیورو کریسی میں ان پاکستان دشمن طاقتوں کے لئے سافٹ کارنر رکھنے والوں کے بھیانک عزائم کیا ہیں؟ ’’سی آئی اے‘‘ اور ’’را‘‘ نے قیام پاکستان کے بعد سے آج تک الگ الگ اور مشترکہ پاکستان کے خلاف کون کون سے آپریشن کئے اور اب تک کر رہے ہیں؟ پاکستان کو دولخت کرنے سے موجودہ صورتِ حال تک پہنچانے میں سی آئی اے، را، موساد اور دیگر پاکستان دشمن انٹیلی جنس ایجنسیوں کا کیا کردار رہا ہے؟ مذہبی شدت پسندی کے جذبات کو کیسے، کب، کس نے اور کیوں ہوا دی؟ پاکستان کے انتہائی محب وطن اور اسلام کے شیدائی عوام کو غیر ملکی ایجنسیوں کی معاونت سے بہکانے، بھڑکانے اور حکومت سے ٹکرانے کے بعد اپنا اُلو سیدھا کرنے والے مذہبی راسپوٹین کون ہیں؟ پاکستان کو دہشت گردی کی آگ کا ایندھن بنانے والوں کی اصلیت کیا ہے؟ اور ملکی و غیر ملکی شخصیات، ادارے، ایجنسیاں، میڈیا آخر ’’آئی ایس آئی‘‘ پر ہی کیوں بار بار حملہ آور ہوتے ہیں۔ ممتاز مصنف صحافی بین الاقوامی اور ملکی امور پر اتھارٹی سمجھے جانے والے ’’طارق اسماعیل ساگر‘‘ نے اپنی مایہ ناز تصنیف میں ان سوالات کے جوابات دئیے ہیں جو ساری قوم کی آنکھیں کھول دیں گے۔

پروفیسر ڈاکٹر احمد حسن شاہ
آکسفورڈ یونیورسٹی (برطانیہ)
-------------------------------------------------------------------------

بلیک واٹر سے XE زی تک:

یہ اسلام آباد کی ایک مصروف شاہراہ ہے، جس پر معمول کے مطابق دفتری اوقات کار کے مصروف لمحات میں ٹریفک کی رفتار بہت سست پڑ گئی ہے، جس کی وجہ گاڑیوں کی وہ لمبی قطاریں ہیں جنہیں روزانہ سیکیورٹی کے کئی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ ان حالات میں ویسے ہی ہر ڈرائیور ٹینشن کا شکار ہوتا ہے، ٹریفک کی لمبی لمبی قطاریں الگ مسائل پیدا کرتی ہیں۔ یہی منظر یہاں بھی دکھائی دے رہا ہے۔ ایک نوجوان اپنی کار میں ٹریفک اشارہ کھلنے کا منتظر ہے کہ سگنل گرین ہونے پر آگے بڑھے جبکہ اس کے پیچھے لمبی قطار حد نگاہ تک دکھائی دے رہی ہے۔
لیکن۔۔۔اچانک ایک سیاہ شیشوں والی بڑی گاڑی اس کے پیچھے لگی قطار کو قریباً روندتے ہوئے ٹریفک اصولوں کی دھجیاں بکھیرتے اس کے پیچھے آکر رکتی ہے اور گاڑی کا ڈرائیور مسلسل ہارن بجانے لگتا ہے، نوجوان کیلئے یہ بڑی پریشان کن صورتحال ہے کہ سگنل ابھی تک ریڈ
RED ہے اور یہ شخص اسے چلنے کیلئے کہہ رہا ہے، اسے راستہ چاہیے جس کیلئے نوجوان کو ٹریفک سگنل توڑنا پڑے گا جو اس کو گوارہ نہیں جب نوجوان مسلسل ہارن بجانے پر بھی پیچھے نہیں ہٹتا تو اس گاڑی میں سے ایک امریکی جس نے کالے شیشوں کی عینک چڑھا رکھی ہے ہاتھ میں جدید ترین آٹو میٹک گن لئے نوجوان کے نزدیک آتا ہے اپنی گن سے اس کے دروازے کا شیشہ کھٹکھٹا کر اسے پرے ہٹنے کا دھمکی آمیز اشارہ کرتا ہے۔ نوجوان کا خون گرم ہے، وہ بھی اس بے ہودگی پر غصے میں آکر اپنے ڈیش بورڈ سے پستول نکال کر اسے دکھاتا اور اپنی گود میں رکھ لیتا ہے۔
امریکی سورما فوراً واپس پلٹتا ہے اپنے ساتھیوں کے ساتھ دوبارہ آتا ہے، وہ سب مل کر نوجوان کو زبردستی باہر نکالتے ہیں اور اسے اپنے ساتھ لے جانے پر بضد ہیں لیکن وہاں موجود غیرت مند پولیس آفیسر اور کچھ لوگ اس کا ساتھ دیتے ہیں۔ معاملہ بڑھتا ہے، امریکی اپنی مخصوص زبان میں اسے ڈانٹتے وہاں سے چلے جاتے ہیں۔
یہ خوش قسمت نوجوان چونکہ برسراقتدار پارٹی کے ایک سینٹر کا بھانجا تھا، اس لئے اس کی بچت ہو گئی ورنہ آئے روز ان امریکیوں کے ہاتھوں کسی نہ کسی پاکستانی کے پٹنے کی خبر بھی آتی رہتی ہے اور اب یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں رہی۔
یہ امریکی ’’بلیک واٹر فورس‘‘ کے مادر پدر آزاد کرائے کے سپاہی ہیں جو عراق کے بعد اب پاکستان میں گھس آئے ہیں۔ بلیک واٹر جو اب’’زی (
XE) کہلاتی ہے۔ امریکی فوج کے بدمعاش، بھگوڑے، سزا یافتہ فوجیوں کا ایک مادر پدر آزاد گروہ ہے جسے امریکی حکومت دنیا کے کئی ممالک میں اپنے سفارتکاروں اور دیگر سرگرمیوں میں مصروف شہریوں کی حفاظت کیلئے بظاہر استعمال کرتی ہے اس پرائیویٹ فورس کو سی آئی اے کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔
پرائیویٹ آرمی کے تصور سے قائم امریکی سیکیورٹی ایجنسی بلیک واٹر جس کا نام اب تبدیل کر کے زی رکھ دیا گیا ہے۔ 2007ء میں قائم ہوئی اور اس کا دعویٰ ہے کہ یہ دنیا کی سب سے بڑی ملٹری تربیت گاہ ہے، ان کے پاس ایک لاکھ سے زیادہ سیکیورٹی گارڈز ہیں جن کو یہ پرائیویٹ آرمی کا نام دیتے ہیں۔ اس کمپنی کے مالکان ایرک پرنس اور ایل کلارک ہیں جو اس وقت کے امریکی صدر کے قریبی دوستوں میں شمار ہوتے تھے، وہ مذہب کے لحاظ سے عیسائی ہیں اور دنیا میں کام کرنے والے عیسائی مشینری اداروں کی مالی امداد کرتے رہے ہیں۔ یہ کمپنی نائن الیون سے چند سال قبل قائم ہوئی، اس کے اہم عہدیداروں میں امریکی سی آئی اے کے ایک سابق سربراہ بھی شامل ہیں، اس پرائیویٹ کمپنی میں کام کرنے والے ایک گارڈ کی سالانہ تنخواہ چار لاکھ ڈالر سے زائد ہے جو اس امریکی جرنیل کی تنخواہ کے برابر ہے۔ جس کی 26 سال سروس ہو یعنی اس کے ایک گارڈ کی تنخواہ امریکی ریگولر فوجی کے مقابلے میں چھ گنا زیادہ ہے۔ بلیک واٹر کا ٹریننگ سنٹر امریکہ میں نارتھ کیرولائنا میں ساٹھ ہزار ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے۔ اس ٹریننگ سنٹر میں دیگر سہولیات کے علاوہ ایک مصنوعی دریا بھی بنایا گیا ہے اس کمپنی کے پاس بیس لڑاکا طیارے اور متعدد جنگی ہیلی کاپٹر بھی ہیں۔ اس کا دعویٰ ہے کہ یہ کمپنی سالانہ ساٹھ ہزار فوجیوں کی تربیت کرتی ہے جن میں امریکہ کی مختلف ایجنسیوں اور فورسز سے تعلق رکھنے والوں کے علاوہ اس کے اپنے گارڈز بھی شامل ہیں۔ اس کمپنی کو زیادہ تر گورنمنٹ کنٹریکٹ ملتے ہیں۔ اس کے ریکارڈ کے مطابق اس کی نوے فیصد آمدن گورنمنٹ کنٹریکٹ سے حاصل ہوتی ہے۔ بلیک واٹر لامحدود اختیارات کی حامل کمپنی ہے۔ عراق میں تعینات اس کمپنی کے اہلکاروں پر عراقی قانون نافذ ہی نہیں ، وہ جب اور جہاں چاہیں کسی کو ہلاک کر دیں یا کوئی اور غیر قانونی اقدامات کریں انہیں روکنے والا کوئی نہیں۔ 30 مئی 2007ء کو اس کمپنی کے گارڈ نے ایک شخص کو صرف اس لئے گولی ماری کہ اس کی گاڑی امریکی حکام کے قافلے کے قریب سے گزر رہی تھی۔ 16 دسمبر 2007ء میں اس کمپنی کے گارڈز نے بیس عراقیوں پر گولیاں چلائیں جن میں گیارہ افراد ہلاک ہوئے۔ اس واقعہ کے بعد امریکی حکام نے ایک آرڈر پاس کیا تھا، جس کے تحت بلیک واٹر کے کسی بھی گارڈ پر عراقی قانون لاگو نہیں ہوتا اور وہ صرف امریکی حکام کو جوابدہ ہیں۔ یہ کمپنی عراق، افغانستان، جاپان، آذربائیجان اور دیگر ممالک میں کام کر رہی ہے۔ پاکستانی وزارت داخلہ ماضی میں چاروں صوبوں کو بلیک واٹر کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کی ہدایت کر چکی ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 تبصرہ جات:

تبصرہ کیجئے