Tuesday 25 January 2011

تفسیر ابن عباس (رض) کی حقیقت اور علماء دیوبند و بریلوی کا نقطہ نظر

تفسیر ابن عباس (رض) کی حقیقت اور علماء دیوبند و بریلوی کا نقطہ نظر



عربی تفسیر ابن عباس
کا اصل نام "تنویر المقباس" ہے ۔
واضح رہے کہ یہ تفسیر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی خود کی تحریر کردہ نہیں ہے جیسا کہ عموماً تاثر دیا جاتا ہے۔ بلکہ یہ تفسیر جمعه ابو طاہر محمد بن يعقوب الفيروز آبادى الشافعی (المتوفى : 817 ھ) کی تصنیف ہے۔ اور انہوں نے اس تفسیر کو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے منسوب کیا ہے۔

مولانا جسٹس تقی عثمانی ، قرآنی علوم پر مبنی اپنی معروف کتاب "علوم القرآن" کے صفحہ نمبر 458 پر "مروجہ تفسیر ابن عباس (رض) کی حیثیت" کے زیر عنوان لکھتے ہیں :
اقتباس:
ہمارے زمانے میں ایک کتاب " تنویر المقباس فی تفسير ابن عباس" کے نام سے شائع ہوئی ہے جسے آج کل عموماً "تفسیر ابن عباس" کہا اور سمجھا جاتا ہے ، لیکن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف اس کی نسبت درست نہیں کیونکہ یہ کتاب ۔۔۔
محمد بن مروان السدی عن محمد بن السائب الکلبی عن ابی صالح عن ابن عباس
کی سند سے مروی ہے جسے محدثین نے "سلسلۃ الکذب (جھوٹ کا سلسلہ)" قرار دیا ہے لہذا اس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔
امت مسلمہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو "ترجمان القرآن" کا لقب دیا ہے۔ آپ کی فضیلت میں بیان ہوئی صحیح بخاری کی ایک حدیث یوں ہے :
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سینے سے لگایا اور فرمایا :
اے اللہ ! اسے حکمت کا علم عطا فرما !
صحيح بخاري ، كتاب فضائل الصحابة ، باب : ذكر ابن عباس رضى الله عنهما ، حدیث : 3801

کئی برحق وجوہات کی بنا پر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو "امام المفسرین" بھی کہا جاتا ہے۔ تفسیر القرآن کے معاملے میں سب سے زیادہ روایات آپ ہی سے مروی ہیں۔
البتہ ان سے جو روایات مروی ہیں ، ان کا ایک بڑا حصہ ضعیف بھی ہے لہذا اُن کی روایات سے استفادہ کی خاطر انہیں اصولِ حدیث کی شرائط پر جانچنا بہت ضروری ہے۔

"تنویر المقباس فی تفسير ابن عباس" کے صفحۂ اول پر درج ہے کہ یہ مکمل تفسیر ذیل کی سند سے مروی ہے :
محمد بن مروان السدی عن محمد بن السائب الکلبی عن ابی صالح عن ابن عباس

ڈاکٹر محمد حسين الذهبي اپنی کتاب "التفسیر والمفسرون" ، جلد اول ، باب نمبر 56 کے تحت لکھتے ہیں :
امام شافعی کا قول ہے کہ اس سند (مروان عن کلبی عن ابی صالح عن ابن عباس) سے یہ تفسیر ، ابن عباس کی جانب ثابت نہیں ہے۔

امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ اپنی معروف کتاب "الاتقان" ، جلد دوم ، صفحہ نمبر 189 پر لکھتے ہیں :
محمد بن مروان اگر اس سند (عن کلبی عن ابی صالح عن ابن عباس) سے روایت کرے تو یہ پوری سند "سلسلۃ الکذب (جھوٹ کا سلسلہ)" کہلاتی ہے۔

واضح رہے کہ "سلسلۃ الکذب (جھوٹ کا سلسلہ)" کی ترکیب ، محدثین کے نزدیک "سلسلة الذهب (سونے کا سلسلہ / سونے کی زنجیر)" کے مقابلے میں تخلیق کی گئی ہے۔
" سلسلة الذهب (سونے کی زنجیر)" کی سند یوں ہے :
الشافعي عن مالك عن نافع عن ابن عمر

امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی مشہور کتاب " الفوائد المجموعة " ( صفحہ:316) پر لکھتے ہیں :
اس تفسیر (تفسیر ابن عباس) کے راوی "الکلبی" ، "السدی" اور "مقاتل" جھوٹے راویان ہیں۔ اور ابن تیمیہ (رحمۃ اللہ) سے بھی یہی بات معروف ہے۔

امام ابو حاتم رحمۃ اللہ اپنی کتاب "الجرح و التعدیل" ، جلد اول ، صفحہ 36 پر لکھتے ہیں :
سفیان ثوری رحمۃ اللہ نے کہا کہ محمد بن السائب الکلبی اگر اس سند عن ابی صالح عن ابن عباس سے روایت کرے تو حدیث نہیں لی جائے گی کہ یہ سند جھوٹی ہے۔

دیوبندی وبریلوی حضرات بعض مسائل میں بڑے فخرسے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب مذکورہ تفسیر کاحوالہ دیتے ہیں،کوئی رفع الیدین کے مسئلہ میں اس کا حوالہ دیتاہے تو کوئی نوروبشرپربحث کرتے ہوئے اس کانام لیتاہے حالانکہ یہ تفسیر دونوں مکتب فکرکے اکابر کی تحقیق کی روشنی میں غیرمستند ہے،دیوبندی مکتب فکرکاحوالہ توآپ نے اوپرپڑھ لیا-
اب بریلوی مکتب فکرکا حوالہ بھی ملاحظہ فرمائیے:
بریلویت کے بانی امام احمد رضاصاحب کی تحقیق کی روسے بھی عبداللہ بن عباس رضی اللہ کی طرف منسوب مذکورہ تفسیرکی سند غیرمعتبر ہے
کیونکہ اس سند میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے اس تفسیرکاناقل جسے بتلایاگیاہے وہ ''ابوصالح ''ہے اور''ابوصالح '' کانام ''باذام'' ہے ،اورامام احمد رضا صاحب اس ''باذام'' کی مرویات کوضعیف قراردیتے ہیں ،چنانچہ سنن اربعہ کی وہ روایت جس میں قبروں پرچراغ جلانے والوں پرلعنت کی گئی ہے،اسے امام احمد رضاصاحب نے صرف اس لئے ضعیف قراردے کرردکردیا کہ اس کی سند میں ''باذام'' راوی ضعیف ہے،واضح رہے کہ سنن اربعہ میں بھی یہ راوی اپنے نام''باذام '' کے ساتھ نہیں بلکہ اپنی کنیت ''ابوصالح''ہی کے ساتھ مذکورہے،سب سے پہلے یہ روایت سنن أربعہ سے مع سند متن ملاحظہ ہو:
امام أبوداؤد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اقتباس:
حدثنا محمد بن ثیر خبرنا شعب عن محمد بن جحاد قال سمعت أبا صالح یحدث عن ابن عباس قال : لعن رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم زائرات القبور والمتخذین علیہا المساجد والسرج . (سنن بی داود :ـکتاب الجنائز :باب فی زیارة النساء القبور،حدیث نمبر 3236 )
امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اقتباس:
حدثنا قتیب حدثنا عبد الوارث بن سعید عن محمد بن جحاد عن أبی صالح عن ابن عباس قال : لعن رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم زائرات القبور والمتخذین علیہا المساجد والسرج (سنن الترمذی:ـأبواب الصلوٰة:باب ما جا فی کراہییة أن یتخذ عل القبر مسجدا،حدیث نمبر 320)
امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اقتباس:
خبرنا قتیب قال حدثنا عبد الوارث بن سعید عن محمد بن جحاد عن آبی صالح عن بن عباس قال : لعن رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم زائرات القبور والمتخذین علیہا المساجد والسرج (سنن النسائی :ـکتاب الجنائز: التغلیظ فی اتخاذ السرج عل القبور،حدیث نمبر2043)
امام ابن ماجہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اقتباس:
دثنا زہر بن مروان حدثنا عبد الوارث حدثنا محمد بن جحاد عنا أ بی صالح عن ابن عباس :قال لعن رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم زوارات القبور(سنن ابن ماجہ :ـکتاب الجنائز: باب ما جا فی النہی عن زیار النسا القبور ،حدیث نمبر1575)
تنبیہ :ابن ماجہ کی روایت مختصرہے۔
قارئین ملاحظہ فرمائیں کہ مذکورہ حدیث سنن أربعہ کی ہے اورسب کی سند میں ''أبوصالح (باذام)'' موجودہے ،اب اس حدیث کے سلسلے میں امام احمد رضا صاحب کی تحقیق ملاحظہ فرمائیے:
کسی زید نامی شخص کے حوالے سے امام احمد رضا صاحب کے سامنے ایک سوال پیش ہو اجس میں یہ الفاظ بھی تھے:
اقتباس:
''میں بقسم شرعیہ اس کو باور کراتا ہوں کہ میں نے کوشش کی کہ چراغانِ قبور کا کسی تاویل سے استحسان ثابت ہو جائے تومیں رسم قدیم کی مخالفت نہ کروں، چنانچہ فتاوی عالمگیری کو دیکھا اس میں نکلا کہاخراج الشموع الی المقابر بدع لااصل لہ ( مزارات پر چراغان کرنا بدعت ہے اس کی کوئی اصل نہیں ۔ت) اسی طرح فتاوی بزازیہ میں ہے۔ درمختار میں بھی یہی نکلا۔ پھر میں نے حدیث شریف کو دیکھا۔ مشکو شریف میرے پاس تھی اس میں یہ حدیث نکلی :لعن رسول اللہ زائرات القبوروالمتخذین علیھا المساجد والسرج ۔ رواہ الترمذی والنسائی۔لعنت کی رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے زائرات قبور پر اورجو پکڑیں قبروں پر مسجدیں ( یعنی قبروں کی طرف سجدہ کریں) اور قبروں پر چراغ روشن کریں۔ اسے ترمذی اور نسائی نے روایت کیا''(منقول بذریعہ یونی کوڈ کنورٹرازفتاوی رضویہ سوفٹ ویر جلد٩ص111)
اس سوال میں زید کی طرف سے جوحدیث پیش کی گئی اس پرغضب ناکی کا اظہار کرتے ہوئے احمد رضاصاحب فرماتے ہیں:

اقتباس:
حدیث مذکور کو زید نے بالجزم رسول خدا کا ارشاد بتایا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ۔ یہ سخت بیباکی وجرت ہے ۔ وہ حدیث صحیح نہیں ۔ ا س کی سند کا مدار ابوصالح باذام پر ہے ۔ باذام کو ائمہ فن نے ضعیف بتایا۔ تقریب امام ابن حجر عسقلانی میں ہے:باذام بالذال المعجم ویقال اخرہ نون ابوصالح مولی ام ھانی ضعیف مدلس ۔باذام ذال معجمہ سے اور کہا جا تا ہے کہ اخرمیں نون یعنی باذان ابوصالح ام ہانی کا آزاد کردہ غلام ضعیف تدلیس کرنے ولا ہے۔ یہیں سے ظاہر ہو ا کہ یہ حدیث قابلِ احتجاج نہیں'' 
(منقول بذریعہ یونی کوڈ کنورٹرازفتاوی رضویہ سوفٹ ویر جلد٩ص118)
نیزیہی امام صاحب ایک اورمقام پرلکھتے ہیں:
اقتباس:
''یہ اس تقدیر پرہے کہ حدیث مذکورکی صحت مان لی جائے ،والاففیہ باذام ضعیف وان حسنہ الترمذی فقدعرف رحمہ اللہ تعالی بالتساہل فیہ کمابینناہ فی مدارج طبقات الحدیث''(احکام شریعت:حصہ اول ص٦٩،مطبوعہ قادری کتاب گھر بریلی)
قارئین غورکریں کہ امام احمد رضا صاحب نے جس راوی ''أبوصالح باذام ''کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بھی بیان کردہ حدیث کوناقابل احتجاج قراردیاہے اورامام ترمذی کی تحسین کوبھی رد کردیاہے،ٹھیک وہی راوی مذکورہ تفسیرکی سند میں بھی موجود ہے،لہٰذا اس سند سے آنے والی مذکورہ تفسیربھی امام احمد رضاکے اصول کے مطابق ناقابل احتجاج ہے۔نیزجس طرح امام احمد رضاکے بقول أبوصالح کے طریق سے آنے والی حدیث کوبیان کرنا سخت بیباکی وجرت ہے اسی طرح اس راوی کی طریق سے آنے والی تفسیرکوبھی بیان کرنا سخت بیباکی وجرت ہے ۔
لہٰذابریلوی حضرات کوچاہئے کہ اپنے امام کی تحقیق کی قدرکریں اوریہ کہناچھوڑدیں کہ قرآنی آیت:
قَدْ جَاء َکُمْ مِنَ اللَّہِ نُور وَکِتَاب مُبِین ) (المائدة: 15)کی تفسیرمیں میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے نورسے مراد اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوبتلایاہے۔

0 تبصرہ جات:

تبصرہ کیجئے