Tuesday 25 January 2011

يزيد کے آلہء کار " ابن زياد اور شمر وغيرہ " کا حکم


يزيد کے آلہء کار "  ابن زياد اور شمر وغيرہ "   کا حکم

از قلم صلاح الدین یوسف

سوال :  "يزيد کے آلہ کار ابن زياد، شمر، وغيرہم کس حد تک مجرم ہيں اور آپ کے نزديک ان کا کيا حکم ہے؟(مدير ماہنامہ رضائے مصطفى )

جواب:  يہ لوگ يزيد کے آلہ کار نہيں، اہلکار تھے اور حضرت حسين رضي اللہ عنہ کے اقدام جو ناخوشگوار صورت حال پيدا ہوگئي تھي اس سے اپني صوابديد کے مطابق انہوں نے عہدہ برآ ہونے کي کوشش کي۔
يہ کوشش مذموم تھي يا مستحسن؟ اس ميں رائے دہي خَرطُ القَتَاد والي بات ہے۔ ايک تو تاريخ کي متضاد روائتوں نے واقعات کو بہت الجھا ديا ہے ۔ دوسرے اس "سياسي" نوعيت کے واقعے کو "مذہبي" رنگ دے ديا گيا ہے جس کي وجہ سے اس پر کھل کر گفتگو کرنا بھڑوں کے چھتے کو چھيڑنے کے مترادف ہوگيا ہے۔
ہم تاريخي تضاد کے انبار سے اگر حقيقت کي چہرہ کشائي کريں تو يہ راستہ طويل بھي ہوگا اور پھر بھي شائد آپ کے ليے ناقابل قبول۔ کيونکہ کہا جاسکتا ہےکہ يہ تاريخي روايات کا ايک پہلو ہے جب کہ روايات کا دوسرا پہلو اس کے برعکس ہے ۔ اس ليے ہم مختصراً صرف واقعے کي روشني ميں اتنا ہي عرض کريں گے کہ آپ جذبات اور مذہبيت سے الگ ہوکر معاملے کو واقعاتي سطح سے ديکھيں کہ حضرت حسين رضي اللہ عنہ اہل کوفہ کي دعوت پر بيعت خلافت لينے کے ليے تشريف لائے تھے وہ جنگ کرنے کے ليے نہيں آئے تھے، کيونکہ 60۔70، افراد کے ساتھ جو بيشتر اہل خانہ ہي تھے جنگ نہيں ہوا کرتي۔اہل کوفہ نے تو حضرت حسين رضي اللہ عنہ کا ساتھ چھوڑ ديا۔ ليکن کيا حاکم وقت کے اہل کار بھي اپنے اس حاکم سے بغاوت کرڈالتے جس پر تمام مسلمان متفق ہوچکے تھے۔ ايسا چونکہ ممکن نہيں تھا ۔تاہم حضرت حسين رضي اللہ عنہ سے خير سگالي کي گفتگو کي گئي جس کا خاطر خواہ اثر بھي ہونے لگا تھا اور حضرت حسين رضي اللہ عنہ نےتو اپنے موقف سے رجوع کرکے تين شرائط بھي پيش کردي تھيں جن ميں ايک شرط يزيد کے پاس بھيج دينے کي بھي تھي ليکن انہي کوفيوں کي شرارت کہہ ليجئے جنہوں نے حضرت حسين رضي اللہ عنہ کو خطوط لکھ کر بلوايا تھا يا ابن زياد وغيرہ کي سختي کہ معاملہ سلجھتے سلجھتے الجھ گيا اور بات حضرت حسين رضي اللہ عنہ کي مظلومانہ شہادت تک جاپہنچي۔
اب اس وقت ايسا کوئي پيمانہ نہيں جس سے ناپ کر يا تول کر ابن زياد اور عمر بن سعد کي غلطي کا اندازہ کرکے کوئي حکم لگايا جاسکے اگر حضرت حسين رضي اللہ عنہ سے حسن سلوک ميں انہوں نے کوئي کوتاہي کي ہے تو وہ يقيناً مجرم ہيں۔ تاہم يہ بات ياد رکھني چاہيے کہ عمل اور رد عمل کے بنيادي نکتے کو نظر انداز کرکے بات بالعموم خانداني شرف وفضل کے اعتبار سے کي جاتي ہے جو اصولاً غلط اور تحقيقي نقطۂ نظر کے منافي ہے۔

0 تبصرہ جات:

تبصرہ کیجئے