Wednesday 3 July 2013

الطاف حسین بھائی - برطانوی پولیس شکنجے میں

 الطاف حسین بھائی - برطانوی پولیس شکنجے میں

عمران فاروق قتل کیس کی تفتیش نتیجہ خیز مراحل میں داخل ہو چکی ہے۔ 
اسی سلسلے میں لندن کی میٹروپولیٹن پولیس نے ایم کیو ایم کے بانی رہنما الطاف حسین سے تفتیش شروع کردی ہے ۔ دو ہفتوں کے اندر الطاف حسین اور ان کی  پارٹی کے دو   رہنماؤں کے گھروں پر پولیس نے چھاپہ مارتے ہوئے بہت سارا مواد حاصل کیا ہے جو عمران فاروق قتل کی تفتیش میں ممکنہ مدد دے گا۔ لندن پولیس الطاف حسین کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزام کی بھی تفتیش کررہی ہے اور اس سلسلے میں ان کے گھر سے بھاری مقدار میں رقوم بھی برآمد کرچکی ہے۔ اس ضمن میں لطاف حسین او ر دوسرے پارٹی رہنماؤں کے بینک اکاؤنٹ کی تفتیش بھی شروع ہو گئی ہے ۔  عمران فاروق قتل کے سلسلے میں گزشتہ ہفتے ایم کیو ایم کے پارٹی رہنما  اور الطاف حسین کے کزن افتخار حسین کو لندن پولیس نے کینیڈا سے  لندن آتے ہوئے ائرپورٹ پر گرفتار کیا اور ان سے تفتیش کا سلسلہ جاری ہے۔

درج بالا وجوہات کی بنا پر الطاف حسین پچھلے ہفتے سے اپنے خلاف ہونی والی تفتیش سے  دل برداشتہ ہیں اور برطانوی پولیس  اور اسکاٹ لینڈ یارڈ کے خلاف بیانات کا سلسلہ شروع کر چکے ہیں اور ان کی پارٹی کے اراکین بھی برطانیہ کے خلاف بیان دینے میں اب نہیں ہچکچا رہے ہیں۔   کہا جا رہا ہے کہ قتل کے سارے  ثبوت گھوم پھر کر ایم کیو ایم اور الطاف حسین کے گرد جمع ہو رہے ہیں اور اگر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب الطاف حسین پر لندن پولیس کے طرف سے باقاعدہ فرد جرم عائد کردیا جائے گا۔

پچھلے کئی دنوں سے الطاف حسین اور پارٹی رہنماؤں کے جو بیانات سامنے آ رہے ہیں وہ کسی لطیفے سے کم نہیں ہیں، ایک تازہ بیان میں الطاف حسین نے اپنی ایک  تقریر میں یہ تک کہدیا کہ  " مجھے عمران فاروق قتل کیس میں  پھنسانا بند کردیا جائے اسی میں برطانیہ کے بہتری ہے"-
اس بیان کو یا تو ایک لطیفہ سمجھنا چاہیے یا پھر پاگل پن کی ایک حد کہ اس طرح کے بیان کے ذریعے دراصل حکومت برطانیہ کو ایک کھلے اور اوچھے انداز میں دھمکی دی گئی ہے۔ یا پھر پاکستان میں بیٹھے ہوئے اپنے لوگوں کو اپنی طاقت کا غلط اندازہ کروانے کی ناکام کوشش کی گئی ہے۔
اوپر سے پارٹی  کے کچھ  رہنماؤں کا یہ بیان بھی سمجھ سے بالا تر ہے جس میں انہوں نے یہ فرمایا ہے کہ " الطاف حسین کے خلاف یہ انٹرنیشنل سازش اس لیے کی جارہی ہے کہ الطاف حسین جاگیردارانہ نظام کے خلاف ہیں"۔
اب کوئی تو بندہ اٹھے اور ان سے پوچھے کہ بھائیو برطانوی پولیس کا آپ کے ملک کے جاگیردارانہ نظام سے کیا لینا دینا ہے ؟!!!!!

لندن پولیس کو تو درحقیقت بغیر کسی دباؤ کے اپنے ایک شہری کے قتل کی تفتیش کرنی ہے کیونکہ یہ کوئی پاکستانی پولیس نہیں ہے جو کسی ایم پی اے کے کہنے پر قتل کی تفشیش کا رخ کہیں اور موڑ دے بلکہ یہ تو وہ پولیس ہے جس کے لیے ایک آفیشلی مثال آج بھی موجود ہے کہ  " یہ دنیا کے پولیس کی ماں ہے" جو اپنے ہی وزیر اعظم (ٹونی بلیئر) سے تفشیش کر چکی ہے اور جس کے سبب ٹونی بلیئر کے پسینے چھوٹ گئے تھے۔

برطانوی پولیس کے متعلق مشہور ہے کہ کوئی بھی کیس تب تک عدالت میں پیش نہیں کرتی جب تک اس کیس سے متعلق تمام ثبوت حاصل نہ ہو جائیں چاہے اس کیس کے پیچھے 10 سال جتنا طویل عرصہ کیوں نہ بیت جائے۔ اس قسم کی کئی مثالیں پہلے سے موجود ہیں کہ کس طرح 25-30 سالہ  پرانے مقدمات کو بھی عدالت میں پیش کر کے مجرمین کو لمبی لمبی سزائیں دلوائی گئی ہیں؟

لندن  پولیس کے خلاف پارٹی کارکنان کا یہ بیان کہ وہ الطاف حسین (بھائی) کے خلاف بین الاقوامی سازش کر رہی ہے ایک بودہ الزام کے علاوہ نہایت بے معنی سی بات لگتی ہے۔  اگر الطاف حسین کے خلاف کوئی بھی ایسا ثبوت حاصل کیا گیا  جوکہ عدالت میں انہیں مجرم ثابت کرنے کے لیے کافی ہے تو دنیا کا کوئی بھی بیرونی دباؤ  الطاف حسین کو برطانوی عدالت سے نہیں بچا سکتا۔ 
منی لانڈرنگ کیس اگر ثابت ہوجائے تو 10 سے 15 سال تک بھی ایم کیو ایم پوری کراچی کو بند کروا کر الطاف حسین کو نہیں بچا سکے گی۔ ایک ڈیڑھ سال قبل برطانوی پولیس نے اسی قتل کے سلسلے میں ایم کیو ایم کے دو گرفتار شدہ قاتلوں کو برطانیہ کے حوالے کرنے کی درخواست دی تھی جو جنوبی افریقہ سے کراچی پہنچتے ہوئے گرفتار ہوئے تھے اور انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ پارٹی کے حکم پر لندن کے ویزے لگاواکر ادھر بلایا گیا تھا اور عمران فاروق کو قتل کیا گیا۔  مگر اس وقت کی حکومت نے ان دونوں قاتلوں کو برطانوی حکام کے حوالے کرنے سے انکار کردیا تھا۔ اب اگر موجودہ حکومت  ان قاتلوں کو برطانوی حکام کے حوالے کر دیتی ہے تو معاملہ اسی وقت حل ہوجائے گا وگرنہ تھوڑی دیر ضرور ہوگی مگر عمران فاروق کے قاتلوں کو کیفر کردار تک ضرور پہنچادیا جائے گا۔

گذشتہ زرداری حکومت اسی مضبوط نکتے کے سبب ایم کیو ایم کو بلیک میل کر کے واپس اپنی حکومت میں شامل کر لیتی تھی کہ عمران فاروق کے قاتل اس کے پاس موجود تھے مگر کیا موجودہ نواز حکومت بھی ایسا ہی کھیل کھیلے گی یا مجرموں کو برطانیہ کے حوالے کردے گی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ بہرطور یہ بات طے ہے کہ لندن پولیس ان قاتلوں کے علاوہ مزید دیگر ثبوتوں کی بنیاد پر یہ کیس حل کرنا چاہتی ہے جس کے لیے انہوں نے  ڈی این اے اور فورینسک  ذرائع کا استعمال کیا ہے اور دیگر انٹیلی جنس طریقوں سے وہ اس کیس کو حل کرنے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔

الطاف حسین برطانیہ کے ایک عام شہری ہیں اور ان سے برتاؤ بھی ایک عام شہری کی طرح ہوگا نہ کہ پاکستانی سیاستدان  کی طرح اور اگر ان پرجرم ثابت ہو جاتا ہے تو ان کو قید تنہائی بھی اسی طرح کاٹنی ہوگی جس طرح ایک عام برطانوی مجرم برطانیہ کے جیل میں کاٹتا ہے۔  لہذا الطاف حسین کے لیے سب سے بہتر مشورہ یہی ہوگا کہ وہ برطانوی قانون کی پاسداری کریں اور  اس قتل کے سلسلے میں قانون کی ہر ممکن مدد کریں  اسی میں ان کی اور انکی پارٹی کی بہتری ہے ورنہ برطانوی قانون سب کے لیے یکساں  ہے اس میں کوئی بھی چھوٹا اور بڑا نہیں  ہے اور نہ کوئی سیاستدان یا حکومتی عہدیدار اپنے عہدے یا مقبولیت کی بنا پر کوئی معنی  رکھتا ہے جبکہ الطاف حسین تو ویسے بھی مملکت برطانیہ کے ایک عام شہری ہیں۔



ایم کیو ایم بانی الطاف حسین بھائی - برطانوی پولیس شکنجے میں

0 تبصرہ جات:

تبصرہ کیجئے