Friday 25 May 2012

علم طلب کرو خواہ چین جانا پڑے


علم طلب کرو خواہ چین جانا پڑے


از قلم: عادِل سُہیل ظفر

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہُ ،
یہ بات جو بطورِ حدیث
بیان کی جاتی ہے کہ
 اُطلُبُوا العِلمَ و لَو بِالصِّینِ عِلم طلب کرو خواہ چین سے(یعنی خواہ چین جانا پڑے ) 
گو کہ اِس مقولے کی کمزوری کے عقلی دلائل بھی دیے جا سکتے ہیں لیکن دِین کے معاملات کو عقل پر پرکھنا عموماً غلطی کا باعث ہوتا ہے اِسی لیے نقل کو معیار بنایا گیا ہے اور پھر نقل ہو کر آنے والی ہر بات کو جانچنے پرکھنے کے لیے کسوٹیاں مقرر ہیں ، یہ اُنکی تفصیل کا نہ تو مُقام ہے نہ ہی وقت،


اِمام ابن الجوزی نے ا ِس مقولے کے بارے میں '''
 الموضوعات ''' میں اِمام ابن حبان کا قول لکھا کہ ''' یہ بات باطل ہے اور اِس کی کوئی اصل نہیں'' ،،، میں نے رجب کے بارے میں مَن گھڑت احادیث کے دو مضامین میں امام ابن حبان کا حدیث پر کمزوری یا جھوٹی ہونے کے بارے میں بیان کیا تھا کہ امام ابن حبان حدیثوں کو صحیح قرار دینے میں نرمی سے کام لیتے تھے اور اِس نرمی کے باوجود اگر وہ کسی حدیث کو کمزور یا باطل قرار دیں تو اُنکی بات کافی مضبوط ہوتی ہے، اِس بات کا ذِکر ''' ماہ رجب کی کونسی بہاریں اور فضلیتں'''
میں بھی کِیا گیا تھا ،

یہ مندرجہ بالاحدیث ، اِن کتابوںمیں روایت کی گئی ہے ، اِمام ابو نعیم الاصبہانی کی ''اخباراصبہان''' اِمام ابن علیک کی '' الفوائد '' اِمام الخطیب البغدادی کی '' تاریخ بغداد '' اِمام البیہیقی کی '' المدخل '' اور اِمام ابن عبدالبر کی '' جامع بیان العِلم '' اور پھر کئی اور کتابوں میں نقل کی گئی ، سب روایات کی سندیں ایک مُقام پر مشترک ہو یہ ایک سند بن جاتی ہے ::: حسن بن عطیہ کے ذریعے ، کہ اُس نے ابو عاتکہ طریف بن سلیمان سے سُنا ، کہ وہ انس بن مالک رضی اللہ عنہُ کے ذریعے روایت کرتا کہ
 
اِس سند کے مرکزی اور مشترک راوی ابو عاتکہ طریف بن سلیمان کے بارے میں اِمام البخاری نے ''تاریخ الکبیر ''میں کہا '' مُنکر الحدیث '' یعنی اِسکی حدیث مُنکر ہے ،،، '' الجرح و تعدیل '' میں اِمام ابو حاتم محمد بن اِدریس الرازی نے '' ضعیف الحدیث '' یعنی اِس کی بیان کردہ حدیث کمزور ہے ،،،

اِس حدیث کی دو اور سندیں بھی امام السیوطی نے '' اللآلی ''' میں ذِکر کئی ہیں ، جِن میں سے ایک میں''' یعقوب بن اِسحاق بن اِسماعیل العسقلانی ''' نامی راوی ہے جِسے اِمام الذہبی نے '' جھوٹا '' قرار دِیا ، اور دوسری سند میں ''' احمد بن عبداللہ الجُویباری ''' نامی راوی ہے جِسے خود اِمام السیوطی نے ''' حدیث گھڑنے والا ''' کہا ۔اختصار کے پیش نظر میں نے تفصیل سے حوالہ جات کا ذِکر نہیں کِیا ، کِسی کے پاس اگر اِس مِن گھڑت روایت کی اِن ناقابل اعتبار سندوں کے عِلاوہ کوئی اور سند ہو براہِ مہربانی مجھے اُس کی اطلاع کرے اور اگر نہیں ہے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے تقاضے کو پورا کیجیئے اور اُن کی ذاتِ مبارک سے کوئی ایسا قول یا فعل منسوب ہونے سے 
روکیئے جو اُن صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ۔

0 تبصرہ جات:

تبصرہ کیجئے