Sunday 21 August 2011

صومالیہ کی قحط سالی اور اس کے پیچے چھپے بیرونی اسباب


صومالیہ کی قحط سالی اور اس کے پیچھے چھپے بیرونی اسباب


یہ بات قابل ذکر ہے کہ صومالیہ ہمیشہ سے ایسا نہ تھا۔ صومالیہ کی سرزمین مشرقی افریقہ کی بڑی منڈی رہی ہے۔ اس کی صحرائی پٹی دنیا کی دوسری بڑی صحرائی پٹی ہے۔ اس سرزمین پر پائے جانے والے تیل، یورینیم، گیس اور سونے کے ذخائر جو ہنوز نکالے جانے کے منتظر ہیں اس کے باسیوں کی بربادی کا سامان بنے۔ مغربی طاقتیں ان ذخائر پر وحشی درندوں کی مانند نظریں جمائے بیٹھی ہیں۔ 

حال ہی میں منظر عام پر آنے والی صومالی باشندوں کی قحط زدہ تصاویر دیکھ کر دل پھٹنے کو آتا تھا۔ کوئی ماں کیسے برداشت کر سکتی ہے کہ اس کا لخت جگر بھوک کے سبب جاں بہ لب ہو، اور وہ اس قابل نہ ہو کہ اس کو گندم کا ایک دانہ یا دودھ کا ایک قطرہ دے سکے۔ انہی تصاویر میں سے ایک تصویر میں، ہڈیوں کے ڈھانچے پر چڑھی جلد کی دبیز سی تہ میں لپٹا بچہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دنیا کے مقتدر انسانوں سے سوال کر رہا ہے کہ آیا خدا کی زمین پر میرا اتنا بھی حق نہیں کہ اس سے حاصل ہونے والا رزق میری زندگی میں کچھ لمحوں کا اضافہ کر سکے۔ یہ تصاویر دیکھ کر اقبال کی معروف نظم ” اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو “ کا یہ شعر بار بار ذہن کے بام و در پر دستک دیتا ہے

میں ناخوش و بیزار ہوں مر مر کی سلوں سے
میرے لیے مٹی کا حرم اور بنا دو 

اربوں ڈالر کی لاگت سے بننے والی مساجد اور سونے سے مزین گنبد ہم مسلمانوں کو پکار پکار کر کہہ رہے ہیں، اے اہل ایمان! بہتر تھا کہ تم ہم کو کچے مٹی کے گھروندے ہی رہنے دیتے مگر انسان کو اس قدر بےتوقیر اور بے بس نہ ہونے دیتے۔ 

صومالیہ کے باسی مسلمان ہیں یا کسی اور دین کے پیروکار، انتہائی بھونڈا سوال ہے۔ خدائے واحد پر ایمان رکھنے والا انسان جو محمد عربی کے دین کو اپنا اوڑھنا بچھونا قرار دیتا ہے، رمضان کے اس ماہ احساس میں بھی اگر ان قحط زدہ انسانوں کی بھوک اور پیاس کو محسوس کر کے ان کی مدد کے لیے کوئی اقدام نہ کر سکے تو حسین ابن علی رضی اللہ عنہ کا یہ جملہ السلام علی الاسلام ہی میرے جذبات کی صحیح عکاسی کر سکتا ہے۔ 

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ صومالیہ ہمیشہ سے ایسا نہ تھا۔ صومالیہ کی سرزمین مشرقی افریقہ کی بڑی منڈی رہی ہے۔ اس کی صحرائی پٹی دنیا کی دوسری بڑی صحرائی پٹی ہے۔ اس سرزمین پر پائے جانے والے تیل، یورینیم، گیس اور سونے کے ذخائر جو ہنوز نکالے جانے کے منتظر ہیں اس کے باسیوں کی بربادی کا سامان بنے۔ مغربی طاقتیں ان ذخائر پر وحشی درندوں کی مانند نظریں جمائے بیٹھی ہیں۔ ان تمام وسائل کے ساتھ ساتھ صومالیہ ایک زرعی ملک بھی ہے۔ اس ملک کی 64 فیصد آبادی زراعت سے متمسک تھی۔ اس زرخیز ملک کے باسیوں کو کیسے گندم کے ایک ایک دانے کا محتاج کیا گیا؟ یہ سوال اپنے اندر حقائق کا ایک سمندر لیے ہوئے ہے۔ جس کا عندیہ اقبال نے بہت پہلے ہی دے دیا تھا۔ 

برفتند تا روش رزم در این بزم کہن
دردمندان جہاں طرح نو انداختہ اند
من از ایں بیش نہ دانم کہ کفن دزدی چند
بھر تقسیم قبور انجمنی ساختہ اند 

صومالیہ ہی وہ سرزمین ہے جس نے اسلام کے پہلے مہاجرین کو اپنی آغوش میں پناہ دی۔ حبشہ کا ساحل جو آج صومالیہ کے ساحلی شہر زیلہ کا حصہ ہے، یہی وہ مقام تھا جو جعفر طیار اور ان کے انصار کی پناہ گاہ بنا۔ صومالیہ کا دارلخلافہ موگا دیشو مشرقی افریقا میں اسلام کا اہم مرکز بنا۔ مسلمان تاجروں نے موگا دیشو اور موزمبیک میں اپنی تجارتی منڈیاں قائم کیں اور اسی دور میں موزمبیک کی کانوں سے سونے کی تلاش کا کام شروع کیا گیا۔ 

استعمار جب وسائل کی تلاش کے لیے دنیا پر تسلط کی غرض سے نکلا تو مشرقی افریقہ کے اس ملک نے اسے ناکوں چنے جبوائے۔ درویشوں کے سربراہ محمد عبداللہ حسن نے صومالی قوم کو استعماری تسلط کے خلاف مجتمع کیا اور کالونیلیزم کے خلاف لڑی جانے والی جنگوں میں سب سے بڑی جنگ لڑی۔ درویشوں کی حکومت نے بہت جلد صومالیہ کے تمام علاقوں پر اپنا کنڑول قائم کیا۔ تاہم برطانوی ہوائی حملوں کے سبب درویشوں کو حزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر صومالیہ استعماری افواج کا میدان جنگ بن گیا۔ ایک حصہ برطانوی صومالی لینڈ جبکہ دوسرا اطالوی صومالی لینڈ اور تیسرا حصہ فرانسیسی صومالی لینڈ قرار پایا۔ 

جنگ عظیم دوئم کے بعد برطانیہ نے اٹلی کو یہ علاقہ چھوڑنے پر مجبور کر دیا اور وہ خود 1960ء تک ان دونوں علاقوں پر مسلط رہا۔ جاتے ہوئے برطانیہ نے صومالیہ کے ساتھ بھی وہی کام کیا جو اس نے برصغیر کے مسلمانوں سے کیا تھا۔ برطانوی افواج نے صومالیہ کے دو اہم علاقے ایتھوپیا اور کینیا کو دے دیے، جن کا تصفیہ ہنوز باقی ہے۔

استعمار کے جانے کے بعد یہ خطہ کیمونسٹوں کی چراگاہ بنا۔ فوج اور پولیس کے سربراہوں نے مل کر سیاسی حکومت کا خاتمہ کیا اور سوشلسٹ پارٹی کے تحت کیمونسٹ حکومت کی بنیاد رکھی۔ اس حکومت نے صومالیہ میں بہت سے اہم ترقیاتی کام کیے۔ 

1977ء میں ایتھوپیا اور صومالیہ کے مابین متنازعہ علاقے پر جنگ چھڑ گئی، جس میں روس نے ایتھوپیا کا ساتھ دیا، جس کے سبب اس وقت کے صومالی صدر باری نے مغرب میں نئے اتحادیوں کی تلاش شروع کی۔ اسی اور نوے کی دہائی میں صومالیہ داخلی انتشار کی جانب چل پڑا۔ 

خانہ جنگی کا یہ سلسلہ آج بھی صومالیہ کی معیشت کو اپنے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہے اور اس ملک کی ترقی میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ باری صومالیہ کے جنوبی علاقوں میں اپنے مسلح حواریوں کے ہمراہ اپنے تئیں صدر تھا جبکہ شمالی علاقے پر شمالی اور جنوبی قبائل کی حکومت تھی، جس کا سربراہ علی مہدی محمد کو بنایا گیا۔ 

اسی اثناء میں 1992ء میں صومالیہ میں پہلا قحط آیا، جس کے سبب تین لاکھ افراد لقمہ اجل بنے۔ جبکہ عالمی برادری نے امداد اور امنیت کے نام پر صومالیہ میں اپنی افواج داخل کر دیں۔

unitaf امریکی افواج اور اس کے اتحادیوں کا پہلا دستہ تھا جو صومالیہ کے قحط زدہ جنوبی علاقوں میں امداد کے لیے پہنچا۔ 1993ء میں یہ ذمہ داری اقوام متحدہ کے سپرد کر دی گئی، جو unosom ii کے عنوان سے صومالیہ میں سرگرم ہوئی۔ 

صومالیہ کے جنرل محمد فرح آیدید نے اس اتحاد کو اپنے اقتدار کی راہ میں رکاوٹ جانتے ہوئے ان پر متعدد حملے کیے، جس کے سبب 1995ء میں اقوام متحدہ نے بھاری نقصان اٹھانے کے بعد اپنے مشن کو ادھورا چھوڑتے ہوئے فرار کی راہ اختیار کی۔ 

آج صومالیہ کے جنوبی علاقوں پر القاعدہ سے متمسک جماعت الشباب کا کنٹرول ہے۔

جنوبی صومالیہ میں گزشتہ دو ماہ میں پیدا ہونے والی قحط کی نئی صورتحال نے عالمی امدادی اداروں اور مغربی ذرائع ابلاغ میں کھلبلی کی سی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اگر اگلے دو ماہ میں امدادی کام کا آغاز نہ کیا گیا تو یہ قحط پورے جنوبی صومالیہ کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ عالمی امدادی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق اس سال کی خشک سالی اور قحط کو گزشتہ نصف صدی کی سب سے بڑی آفت قرار دیا جا رہا ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ اگر فی الفور اقدامات نہ کیے گیے تو ممکن ہے کہ یہ صورتحال کسی بڑے انسانی المیے کو جنم دے دے۔ 

دوسری جانب مغربی میڈیا اور امدادی ادارے صومالیہ میں الشباب کی جانب سے امدادی سرگرمیوں پر لگائی جانے والی 2009ء کی پابندیوں کا واویلا کر رہے ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ الشباب امدادی کاموں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے،

کوئی بھی عالمی ادارہ ملک کی سیکورٹی صورتحال کے مدنظر اپنے وسائل کو داﺅ پر لگانے کے لیے تیار نہیں۔ اس کے برعکس الشباب نے عالمی امدادی اداروں کے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم کسی کو بھی امداد کرنے سے نہیں روک رہے، نہ ہی ہم نے دریاﺅں کے رخ بدلے ہیں اور نہ ہی ہم جنوبی صومالیہ کے باسیوں کو علاقہ چھوڑنے سے روک رہے ہیں۔

شنید یہ ہے کہ الشباب نے بھی جنوبی علاقوں کو خالی کرنا شروع کر دیا ہے اور ان کی جگہ وفاقی حکومت کی 
افواج لے رہی ہیں، تاہم ابھی کئی علاقے ایسے بھی ہیں جہاں الشباب کا مکمل کنٹرول ہے۔

صومالیہ کا تجربہ یہ ثابت کرتا ہے کہ قحط خوراک کی کمی نہیں بلکہ خوراک کی سپلائی کی زیادتی کے سبب آتا
 ہے۔ خوراک کی اندھا دھند ترسیل ملکی زراعت کے لیے زہر قاتل کا کام کرتی ہے، نیز گلوبلائزیشن کے اس دور میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے اصلاحاتی پروگرام قحط سازی کے اس عمل میں براہ راست ملوث ہیں چونکہ یہ پروگرام انتہائی منظم انداز سے دیہی اور شہری علاقوں کی ان معاشی سرگرمیوں کا استحصال کرتے ہیں جن کا عالمی نظام معیشت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ 

ہمارا سوال اب بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ ایک زرعی ملک کیسے قحط کے دہانے پر پہنچا؟

عالمی برادری اس بدحالی کو ملک میں خانہ جنگی اور خشک سالی کا شاخسانہ قرار دیتی ہے جو کسی حد تک درست ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ یہ خانہ جنگی شروع کیسے ہوئی؟

وسائل سے مالا مال ساحلی پٹی پر بسنے والے صومالیوں نے کیونکر ویران صحرائی علاقوں کا رخ کیا؟

زرعی شعبے کے ساتھ کیا بیتی؟

عالمی امدادی تنظیمیں اس سلسلے میں کس کردار کی حامل ہیں؟

صومالی معیشت کو اس نہج پر پہنچانے والا کون ہے؟ 


1990 کی دہائی سے صومالیہ عالمی سطح پر ایک ناکام ریاست تصور کی جاتی ہے۔ یہاں کوئی مرکزی حکومت نہیں۔ پنٹا لینڈ اور صومال لینڈ صومالیہ کے دو خود مختار خطے ہیں جب کہ جنوبی صومالیہ جس کا ذکر قبل ازیں کیا گیا مختلف مسلح گروہوں کے مابین منقسم ہے۔

1980ء کی دہائی میں صومالیہ معاشی طور پر عدم استحکام کا شکار ہونا شروع ہوا اور اس ملک کا خوراک و زراعت کا شعبہ مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔

دا ٹائمز میگزین کے مطابق صومالی صدر محمد صیاد باری نے صومالیہ کا دو تہائی علاقہ تیل تلاش کرنے والی چار امریکی کمپنیوں Conoco، Amoco، Chevron and Phillips کو دے دیا۔

امریکی انتظامیہ ہمیشہ سے صومالیہ میں اپنی سرگرمیوں کو انسانی بنیادوں پر استوار قرار دیتی آئی ہے جبکہ امریکی تیل کی صنعت کے لوگ جن میں سابق امریکی صدر جارج بش بھی شامل ہیں کے صومالیہ میں مفادات ہر صاحب نظر کے لیے واضح اور آشکار ہیں۔

اسی طرح ورلڈ فوڈ پروگرام کی پالیسیاں بھی اس قحط میں ایک اہم عامل ہیں۔

2006ء سے صومالیہ کے شہر اریٹیریا میں مقیم واحد آزاد مغربی صحافی تھامس سی ماونٹین صومالیہ کے قحط میں ورلڈ فوڈ پروگرام کے کردار کے بارے میں لکھتے ہیں۔

صومالیہ میں ورلڈ فوڈ پروگرام ایک مکروہ اور گھناﺅنی تاریخ کا حامل ہے۔

2006ء میں جب صومالی کسان اپنی گندم بیچنے کے لیے بازار میں لائے تو ورلڈ فوڈ پروگرام نے پورے صومالیہ میں سال بھر کی امدادی گندم کی تقسیم کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اس امدادی گندم کی موجودگی میں صومالی کسانوں کے لیے اپنی گندم فروخت کرنا ناممکن ہو گیا۔ صومالی کسانوں نے ورلڈ فوڈ پروگرام کے دفاتر کا گھیراﺅ کیا، جس پر ان دفاتر کی جانب سے باقاعدہ معافی مانگی گئی اور آئندہ ایسی حرکت نہ کرنے کا وعدہ کیا گیا، تاہم اگلے سال یعنی 2007ء میں دوبارہ وہی عمل دہرایا گیا۔

اس بار ورلڈ فوڈ پروگرام کو ایتھوپیا کی افواج کا تعاون حاصل تھا۔ اسی بنا پر صومالیہ کی مسلم عسکری تنظیم الشباب نے ورلڈ فوڈ پروگرام اور تمام تر مغربی امددی اداروں کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی۔

The Globalization of Poverty جیسی معرکة الاراء کتاب کے مصنف مائیکل چوسو ڈوسکی (Michel Chossudovsky) نے صومالیہ کے ابتر حالات کے اسباب کا ذرا مفصل تجزیہ کیا ہے ان کا یہ تجزیہ 1993 ء میں شائع ہوا۔ اس مقالے کے چند اقتباسات پیش قارئین ہیں


آئی ایم ایف 

صومالی معیشت کا دارومدار گلہ بانوں اور چھوٹے کسانوں کے مابین اشیاء کے تبادلے پر تھا۔

1983ء تک مویشیوں کی برآمد سے حاصل ہونے والا زرمبادلہ ملک کے کل زرمبادلہ کا 80 فیصد تھا۔ 80 کی دہائی میں آئی ایم ایف کی آمد کے سبب صومالی معیشت گراوٹ کا شکار ہوئی۔

آئی ایم ایف کی افریقی ممالک کے لیے زرعی اصلاحات نے اس پورے خطے بالخصوص صومالیہ کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ حکومت پر پیرس کلب کے قرضہ جات ادا کرنے کے لیے انتہائی سخت پابندیاں عائد کی گئیں، تاکہ زیادہ سے زیادہ رقم ان قرضوں کی ادائیگی کے لیے مہیا کی جا سکے۔


شعبہ خوراک و زراعت کی تباہی

SAP اسٹرکچل ایڈجیسمنٹ پلین کے ذریعے صومالیہ کی حکومت کو مجبور کر دیا گیا کہ وہ درآمد شدہ گندم پر انحصار کرے۔ اسی کی دہائی میں خوراک کی مد میں ملنے والی امداد پندرہ گنا بڑھا دی گئی۔ اس سستی درآمد نے مقامی پیداوار کو بری طرح متاثر کیا۔ ملک میں کرنسی کی قیمت گرتی گئی، جس کے سبب تیل، فرٹیلائزر اور زرعی اشیاء کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے سامنے آئے۔ اسی عرصے میں بہت سا زرعی علاقہ بیوروکریسی، فوجی افسران اور حکومت کے کاسہ لیس کاروباری حضرات کو عنایت کیا گیا۔ اپنی غذائی ضروریات کے لیے پیداوار کے بجائے برآمد کی جانے والی مصنوعات جیسا کہ پھل، سبزی اور کپاس کی کاشت کی حوصلہ افزائی کی گئی۔


شعبہ پرورش حیوانات کی تباہی

ورلڈ بنک کی ایما پر جانوروں کی ویکسی نیشن کے شعبہ کو نجی ملکیت میں دے دیا گیا۔ ویکسی نیشن کی بہت سی نجی کمپنیاں بنائی گئیں۔ حکومت کے پرورش حیوانات کے شعبہ کو مکمل طور پر ورلڈ بینک کا باج گزار کر دیا گیا۔ جس کے سبب حیوانات کی صحت پر ان عالمی اداروں کا مکمل کنٹرول ہو گیا۔ خشک سالی کے سالوں میں جانوروں کے لیے خوراک کی کمی اور ویکسی نیشن کی عدم دستیابی کے سبب صومالیہ کی معیشت کا یہ اہم حصہ زبوں حالی کا شکار ہوتا چلا گیا۔ اس زبوں حالی کا بالواسطہ فائدہ مغربی ممالک کو بھی پہنچا۔ صومالیہ سے گوشت درآمد کرنے والے ممالک نے آسٹریلیا اور یورپی منڈیوں کا رخ کرنا شروع کیا۔


ریاست کی تباہی

بریٹن ووڈ انسٹی ٹیوٹ کی سرپرستی میں صومالی حکومت کے اخراجات کی از سرنو تشکیل نے بھی صومالیہ کے شعبہ زراعت کی تباہی میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ آئی ایم ایف نے صومالی حکومت کو زراعت کے شعبے کی از سرنو بحالی کے عمل کے لیے مقامی وسائل کو بروئے کار لانے سے سختی سے روک دیا۔ بجٹ کے خسارے کو دور کرنے کے لیے انتہائی سخت شرائط رکھ دی گئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ عالمی امدادی اداروں نے خوراک کی صورت میں امداد میں اضافہ کر دیا۔ جسے حکومت مقامی مارکیٹ میں فروخت کر کے اپنے ترقیاتی منصوبے چلاتی رہی۔ اسی کی دہائی میں اس امدادی خوراک کی فروخت ہی حکومت کی آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ تھی، جس کے سبب امدادی اداروں کو حکومت کے بجٹ پر مکمل تصرف حاصل ہو گیا۔ صحت اور تعلیم کی مد میں خرچ کی جانے والی رقم بہت کم کر دی گئی۔

آئی ایم ایف نے صومالیہ کی معیشت کو ایک نہ ختم ہونے والے گھناﺅنے مدار میں داخل کر دیا۔ حیوانات کی بڑے پیمانے پر ہلاکت نے صومالی گلہ بانوں کو فاقوں پر مجبور کر دیا۔ جس کے اثرات گندم کے کاشتکاروں پر پڑے جو اپنی گندم کے تبادلے میں جانور خریدا کرتے تھے۔ صومالی معیشت کا مکمل نظام تباہ ہو گیا۔

امریکا کی جانب سے آنے والی رعایتی گندم اور کھیت کی تیاری کے لیے ضروری اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کے سبب مقامی کسان بے روزگار ہونے لگے۔ شہری علاقوں میں آمدن کی کمی کے سبب خوراک کی ضرورت میں بھی کمی واقع ہونے لگی، جس کے سبب حکومت نے زراعت کے شعبے پر توجہ کم کر دی۔ حکومتی فارمز کو آنے والے سالوں میں ورلڈ بینک کی سرکردگی میں نجی ملکیت میں دے دیا گیا۔

ورلڈ بینک کے 1989ء کے ایک تخمینے کے مطابق صومالیہ کے نجی شعبے میں ایک فرد کی اوسط آمدن 3 ڈالر ماہانہ ہو چکی تھی جو کہ 1970ء کی نسبت 90 فیصد کم تھی۔ حکومتی شعبے میں تنخواہیں ورلڈ بینک ادا کر رہا تھا۔ اسی ورلڈ بینک کے احکامات پر ملازمین کی تعداد میں کمی کرائی گئی۔

1989ء میں صومالیہ کے بڑی مقدار میں واجب الادا قرضوں کے سبب آئی ایم ایف کی امداد روک دی گئی۔

ورلڈ بینک نے 1989ء میں صومالیہ کے لیے 70 ملین ڈالر کے قرضے کی منظوری دی، جس کی ادائیگی کچھ ہی ماہ بعد روک دی گئی۔

مائیکل چوسو ڈوسکی کے مطابق اس وقت فقط صومالیہ ہی نہیں بلکہ تیسری دنیا کے سو سے زیادہ ممالک میں انہی پالیسیوں پر عمل درآمد جاری ہے۔

اس کے نزدیک تیسری دنیا میں بہت سے صومالیہ ہیں جو اپنے اپنے وقت پر خشک سالی اور قحط کا شکار ہو جائیں گے۔ صومالیہ کا تجربہ یہ ثابت کرتا ہے کہ قحط خوراک کی کمی نہیں بلکہ خوراک کی سپلائی کی زیادتی کے سبب آتا ہے۔ خوراک کی اندھا دھند ترسیل ملکی زراعت کے لیے زہر قاتل کا کام کرتی ہے، نیز گلوبلائزیشن کے اس دور میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے اصلاحاتی پروگرام قحط سازی کے اس عمل میں براہ راست ملوث ہیں چونکہ یہ پروگرام انتہائی منظم انداز سے دیہی اور شہری علاقوں کی ان معاشی سرگرمیوں کا استحصال کرتے ہیں جن کا عالمی نظام معیشت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

ان تمام حقائق کے مدنظر جب ہم پاکستان میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی سرگرمیوں کا جائزہ لیتے ہیں تو زبان پر قائداعظم کے وہ آخری الفاظ آ جاتے ہیں جو انھوں نے یہ دنیا چھوڑنے سے قبل کہے تھے۔ 
اللہ! پاکستان 

0 تبصرہ جات:

تبصرہ کیجئے